Ruh-ul-Quran - Maryam : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَيَجْعَلُ : پیدا کردے گا لَهُمُ : ان کے لیے الرَّحْمٰنُ : رحمن وُدًّا : محبت
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے خدائے رحمن مہر و محبت پیدا کردے گا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔ (مریم : 96) (بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے خدائے رحمن مہر و محبت پیدا کردے گا۔ ) آیت کی وضاحت دو حوالوں سے اس آیت کریمہ کی وضاحت دو حوالوں سے کی جاسکتی ہے اور اس عاجز کے خیال میں ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں۔ ایک حوالہ تو یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں کی معاشی بدحالی اور معاشرتی بےکسی کا مذاق اڑاتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں پر طنز توڑتے تھے اور جیسے ہی کوئی غریب مسلمان ان کے قریب سے گزرتا جس کا لباس بوسیدہ، جوتے دریدہ اور جسم فاقہ زدہ ہوتا تو عمائدینِ قریش اپنے ساتھیوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے کہ دیکھئے صاحب یہ لوگ ہیں جو قیصرو کسریٰ پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انھیں زعم یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن عجم ان کے سامنے جھک جائے گا اور عرب کے مالک ہوجائیں گے۔ اور کبھی یہ کہتے کہ ان بیچاروں کو دنیا میں پوچھتا کوئی نہیں۔ تو یہ اپنی محرومیوں کے مداوے کے لیے آخرت کی نعمتوں کے تذکرے سے اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں۔ ان کے جواب میں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ یہ حالت دیر تک رہنے والی نہیں ہے۔ تمہاری خوشحالیاں اور تمہاری سیادتیں عنقریب دم توڑنے والی ہیں اور یہ بےبس اور بےکس مسلمان بہت جلد لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے والے ہیں۔ ان کے اعمالِ صالحہ اور اخلاق حسنہ یقینا لوگوں میں نفوذ پیدا کریں گے اور جیسے ہی لوگوں کو ان کے قریب آنے کا موقع ملا تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ اس دھرتی کا اصل سرمایہ تو یہی لوگ ہیں۔ ان کی خدا خوفی اور ان کا اخلاص ان کی دیانت و امانت اور انسانیت سے ان کی گہری ہمدردی بہت جلد لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گی۔ آج کی تنی ہوئی گردنیں انشاء اللہ تعالیٰ ان کے اخلاق اور حقانیت کے سامنے جھکتی چلی جائیں گی۔ غلط پروپیگنڈا اور بدگمانیاں دیر تک اپنا اثر باقی نہیں رکھ سکتیں۔ جو آج مسلمانوں کو بےکسی اور بےبسی کی تصویر دیکھ رہے ہیں جب انھیں ان کے اندر کا انسان نظر آئے گا تو وہ محسوس کریں گے کہ یہ لوگ تو انسانیت کا چراغ اور اقدارِ انسانیت کی تصویر ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی بعثت مبارکہ کے انیس سال کے بعد عمرہ کرنے مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کے ساتھ صرف پندرہ سو صحابہ کرام ( رض) تھے جو آپ ﷺ کی انیس سالہ انتھک مخلصانہ مساعی کا نتیجہ تھے۔ لیکن جب حدیبیہ کے معاہدے کے دو سال بعد آپ ﷺ نے مکہ پر یلغار کی تو آپ ﷺ کے ہمراہ دس ہزارنفوسِ قدسیہ تھے اور جب ایک ڈیڑھ سال کے بعد آپ ﷺ نے تبوک کا رخ کیا تو آپ ﷺ کی معیت میں تیس ہزار کا لشکر جرار تھا اور جب آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا تو آپ ﷺ کے سامنے تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ( رض) حاضر تھے۔ یہ سب کچھ اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمائی گئی پیشگوئی کی تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے ایسی مہر و محبت پیدا کی کہ وہ جدھر بھی گئے لوگوں نے ان کے سامنے آنکھیں بچھائیں۔ مفسدین نے اگرچہ فساد اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سادہ دل عوام نے مسلمانوں کے سامنے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیئے۔ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ کافر آج مسلمانوں کی کسمپرسی اور بےبسی پر پھولے نہیں سماتے، لیکن انھیں معلوم نہیں کہ اس دنیا کی ایک دن صف لپیٹی جانے والی ہے، پھر سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے، وہاں کفار کے ساتھ جو گزرے گی گزشتہ آیات میں ہم اس کا تذکرہ پڑھ چکے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو عزت افزائی اور کرم فرمائی کا سلوک ہونے والا ہے وہ یہ کافر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ آج کے غریب اور بےکس کل کے تخت نشین ہوں گے۔ ان کے لیے خیرمقدمی ترانے گائے جائیں گے۔ ہر طرف سلام و تحیت کی آوازیں آئیں گی۔ اللہ رب العلمین کی طرف سے بھی ان کو سلام کہا جائے گا۔ خود اہل جنت بھی نہایت خوشی اور تشکر کے جذبات سے ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ چاروں طرف مبارک سلامت کا شور ہوگا، تب کفار کو اندازہ ہوگا کہ ہم دنیا میں جنھیں کمزور اور ذلیل سمجھتے تھے۔ آج عزتیں انھیں کے قدموں پر نثار ہورہی ہیں۔
Top