Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں بیماری ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس سبب سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًاج وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ۔ (ان کے دلوں میں بیماری ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس سبب سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے) (البقرۃ : 10) مرض کا مفہوم اب ان کی دکھتی رگ کو چھیڑا جارہا ہے کہ یہ اپنی بےایمانی کو جس طرح ایمان کے پردے میں چھپانے کے لیے کوششیں کررہے ہیں اور باربار اپنے ایمان کا یقین دلا رہے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب کچھ ان کی ایک خفیہ بیماری کی وجہ سے ہورہا ہے۔ یہ بیماری وہ ہے جسے ” نفاق “ کہا جاتا ہے۔ ان کے اندر حقیقت میں ایمان نہیں بلکہ نفاق ہے۔ نفاق کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں یہ وہ نہیں جو ان کے دل میں ہے۔ اپنے دل میں وہ پوری طرح عزم کرچکے ہیں کہ وہ اسلام کو قبول کریں گے اور نہ اسے پھیلنے دیں گے۔ لیکن اس کے لیے جو کوششیں کررہے ہیں وہ ایمان کے عنوان سے کررہے ہیں تو دل اور زبان کی دو عملی یا بیگانگی ہی کو نفاق کہتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ نفاق ان کے اس بغض اور عناد کا نتیجہ ہے جو وہ پیغمبر اور مسلمانوں سے رکھتے ہیں۔ یہ عناد جس طرح یہود میں تھا اسی طرح اوس و خزرج کے بعض لوگوں میں بھی تھا۔ ان آیات میں اگرچہ زیادہ تر یہود ہی کی طرف اشارے ہیں لیکن ضمناً اوس و خزرج کے منافقین بھی مراد ہیں۔ یہود کا عناد تو ایک تاریخی حقیقت ہے۔ وہ بنی اسماعیل یعنی قریش کو کسی طرح بھی اپنے برابر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ہم اگر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد ہیں تو قریش حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور یہ دونوں بزرگ آپس میں حقیقی بھائی اور اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن جس طرح خاندانوں میں ایک ہی سلسلہ نسب کے باوجود خاندانی رقابتیں دشمنی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، ایسی ہی کوئی صورت بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل میں ہوگئی تھی اور پھر یہ عجیب اتفاق تھا کہ عرب دنیا کے ایک ایسے جزیرے میں آباد ہونے کی وجہ سے جو دنیا سے الگ تھلگ تھا۔ وہ متمدن دنیا کی بہت سی ترقیات سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس لحاظ سے بھی یہود کو ان پر حرف زنی کا موقع ملتا تھا۔ چناچہ اسی پشتینی دشمنی کے باعث جب انھوں نے یہ دیکھا کہ اللہ کے آخری نبی، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ تو انھوں نے انھیں ماننے سے انکار کردیا اور ہر طرح کی دشمنی کے لیے تیار ہوگئے اور یہی دشمنی کہیں تو کھلے کفر کی شکل اختیار کرگئی اور کہیں دبے کفر کی، جسے نفاق کہا جارہا ہے اور اسی دشمنی نے انھیں ہر خیر کی بات قبول کرنے سے محروم کردیا تھا۔ لیکن ایسی ہی دشمنی کے آثار جو حق سے محرومی کا باعث بن جائے، ہم مدینہ کے بعض لوگوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ عبداللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں کا نفاق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہ بظاہر ایمان لائے مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھیں، بعض دفعہ جہاد میں بھی شریک ہوئے لیکن جب بھی ان کو موقع ملا انھوں نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ہم صرف ایک واقعہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ایک دن سواری پر سوار عبداللہ بن ابی کی نشست گاہ کے سامنے سے گزرے۔ سواری کے قدموں سے دھول اڑی تو اس نے منہ پر کپڑا ڈال لیا۔ حضور ﷺ نے سواری سے اتر کر سلام کہا اور قرآن پاک کی کچھ آیات سنائیں۔ تو عبداللہ بن ابی نے نہائت بےزاری سے کہا کہ ارے شخص ! جو آدمی تمہارے پاس جائے تم اسے اپنی بات سنائو لیکن ہمارے پاس آکر ہمیں تنگ نہ کرو۔ آنحضرت خاموشی سے وہاں سے چل دئیے اور خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کے پاس پہنچے۔ انھوں نے چہرہ مبارک پر تکدر کے آثاردیکھے تو سبب دریافت کیا۔ تو آپ نے عبداللہ بن ابی کی گفتگو کو اس کے سامنے دھرایا۔ تو حضرت سعد نے عرض کیا کہ حضور عبداللہ کے ساتھ نرمی فرمائیے، آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہم نے اسے مدینے کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس کا تاج بننے کے لیے دے دیا تھا اس کی بادشاہت چند دنوں کے فاصلے پر تھی کہ آپ تشریف لے آئے اور اس کا سارا کھیل بکھیڑا ہوگیا۔ وہ ابھی اپنے اس صدمے کو نہیں بھولا اور چونکہ اس کا سبب آپ کو سمجھتا ہے اس لیے آپ سے عناد رکھتا ہے۔ آپ اس کی اس کمزوری سے درگزر فرمائیں۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح یہود دشمنی کے باعث نفاق کا شکار ہوئے اور مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ ہم بھی مسلمان ہیں البتہ فرق صرف نئی نبوت پر ایمان لانے کا ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی بھی ایسے ہی عناد کا شکار تھے۔ ان کا چونکہ نہ الگ خاندان تھا اور نہ الگ قلعہ بند گڑھیاں۔ اس لیے وہ منافق ہوتے ہوئے پوری طرح مسلمانوں کے ساتھ اسلامی عبادات اور معمولات میں شریک رہتے تھے۔ لیکن یہود چونکہ اپنا ایک حفاظتی حصار رکھتے تھے اس لیے اپنے نفاق کے اظہار میں نسبتاً آزاد تھے۔ لیکن جھوٹ بولنے میں اور جھوٹ کے طور پر اپنے آپ کو مومن کہنے میں دونوں شریک تھے۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ ان کے جھوٹ کے باعث قیامت کے دن ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے قلبی افکار دماغی احساسات اور جسمانی اعمال میں یکسانی اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ اگر ان میں بعد یا تصادم کی کیفیت جاری رہے تو نہ ایک سوسائٹی وجود میں آتی ہے اور نہ معاملات میں یک رنگی اور استواری پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یہ تصادم جیسے جیسے شدید ہوتا جاتا ہے۔ ویسے ویسے مفسد قوتوں کو کام کرنے کے مواقع آسانی سے ملتے ہیں۔ یہود منافقین سے آنحضرت یا مسلمانوں کی جانب سے جب یہ کہا جاتا تھا کہ تم بظاہر اپنے آپ کو مومن کہتے ہو لیکن ساتھ ہی نبوت سے انکار کے باعث قیادت کا فقدان پید اکر رہے ہو اور پیغمبر کی شخصیت اس کی لائی ہوئی شریعت اور اس کے پید اکردہ تعامل سے جو ایک قومی تشخص ابھرتا ہے تم مسلسل اس کو نقصان پہنچا رہے ہو اور اوس و خزرج کے منافقین سے کہا جاتا کہ تم بظاہر ہر کام میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو لیکن تمہاری الگ نشستیں تمہارے رویوں کی سرد مہری، اور دینی کاموں میں تمہاری بےدلی، دینی احساسات کو توانا کرنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی جارہی ہے اور اس سے معاشرے میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔ تو جواب میں یہ کہتے کہ ہم تو درحقیقت مدینے کے ماحول کو سازگار رکھنے کے لیے ایک رواداری کی فضا پید اکر رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں طویل مدت سے اکٹھا رہنے کے باعث جو شیرازہ بندی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی بات پر اصرار جاری رکھا تو یہ شیرازہ منتشر ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو ہماری نیت اصلاح کی ہے فساد پیدا کرنے کی نہیں۔ اس کے جواب میں ان منافقین کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ جو لوگ بھی ایسا کہتے ہیں حقیقت میں وہ مفسد ہیں مصلح نہیں۔
Top