Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
کیا ان کی یہی روش قائم رہے گی کہ جب جب کوئی عہد کریں گے تو ان کا ایک گروہ اس کو اٹھا پھینکے گا بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے عاجز ہیں۔
اَوَکُلَّمَا عٰھَدُوْا عَھْدًا نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ ط بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ۔ (کیا ان کی یہی روش قائم رہے گی کہ جب جب کوئی عہد کریں گے تو ان کا ایک گروہ اس کو اٹھا پھینکے گا بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے عاجز ہیں) (البقرۃ : 100) ایک خیر جو بجائے خود حقانیت کی دلیل ہے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر ان عہدوں اور مواثیق کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے لیے ہیں اور ان موا ثیق میں بطور خاص اس میثاق کا ذکر ہے جو ان سے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے آپ کی نصرت اور آپ کی اتباع کرنے کے حوالے سے لیا گیا تھا۔ پھر ان عہد شکنیوں کی گذشتہ آیات میں ایک تفصیل بیان کی گئی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کا رویہ آنحضرت ﷺ قرآن کریم اور آپ کی دعوت کے بارے میں کس قدر مخاصمانہ ہے۔ اسی تاریخ اور آئندہ کے عزائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس آیت کریمہ میں نہائت تعجب کے انداز میں اظہارِ حسرت کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہود کا یہی رویہ رہے گا کہ جب بھی ان کی طرف کوئی اللہ کا رسول آئے گا اور ان سے سمع و اطاعت کا عہد لیا جائے گا تو یہ ہمیشہ عہد شکنی کا ارتکاب کریں گے اور جب بھی اللہ سے کوئی عہد باندھیں گے تو وقت آنے پر اسے توڑ پھینکیں گے۔ ممکن ہے ایک محدود تعداد عہد پر قائم رہے۔ لیکن جہاں تک اکثریت کا تعلق ہے ان کے بارے میں قطعی فیصلہ سنا دیا کہ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ فیصلہ بھی ہے اور خبر بھی۔ لیکن حالات نے ثابت کردیا کہ قرآن کریم کی یہ خبر جو ایک امی کی زبان سے ادا ہوئی تھی، حرف بحرف پوری ہوئی۔ اگلی آیت ِ کریمہ میں اسی خبر کے سچا ہونے کی گواہی بھی پیش کی جارہی ہے اور یہود کی عہد شکنی کی ایک واقعاتی شہادت بھی ہے۔
Top