Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ
: اے وہ لوگو جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
رَاعِنَا
: راعنا
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
انْظُرْنَا
: انظرنا
وَاسْمَعُوْا
: اور سنو
وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ
: اور کافروں کے لیے۔ عذاب
اَلِیْمٌ
: دردناک
(اے وہ لوگو ! جو ایمان رکھتے ہو، تم ” رَاعِنَا “ نہ کہو ” اُ نْظُرْنَا “ کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْارَاعِنَا وَقُوْلُوْا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْاط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (البقرۃ : 104) (اے وہ لوگو ! جو ایمان رکھتے ہو، تم ” رَاعِنَا “ نہ کہو ” اُنْظُرْنَا “ کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے) یہود کے خبث باطن کا اظہار یہود کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ رویہ زیر بحث ہے۔ اس سلسلے میں ان کا طرز عمل، ان کی دلچسپیاں، ان کی ترجیحات، ان کے تعصبات، حامل دعوت امت ہونے کے باوجود ان کی اللہ اور اس کے دین کے مقابلے میں جرأت و جسارت اور پھر آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف ان کی شوخیاں اور سازشیں ایک ایک چیز کو مختلف اسالیب سے ذکر کیا جارہا ہے۔ اسی سلسلے میں مسلمانوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ یہود جب تمہاری مجالس میں آتے ہیں اور خاص طور پر آنحضرت ﷺ کی صحبت میں بیٹھتے ہیں تو تم بجائے اس کے کہ ان کی شرارتوں کو سمجھو تم حسن ظن اور خوش فہمی کے باعث ان کے طرز عمل کو ان کے حسن نیت اور نیک ارادوں پر محمول کرتے ہو اور اسی وجہ سے تم ان کے اصل اردوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہو۔ چناچہ مسلمانوں کی سادہ لوحی اور مومنانہ اخلاص کے باعث وہ جو حرکتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے اور جن کی وجہ سے اسلام کی دعوت اور آنحضرت کی وجاہت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا تھا۔ ان آیات میں ان سے پردہ اٹھایا جارہا ہے تاکہ مسلمان یہود کے اصل چہرے کو پہچاننے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ان کی سازشوں سے محفوظ رہیں۔ اس آیت کریمہ میں ان کی جس شرارت کو ذکر کیا جارہا ہے، وہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے۔ حضور جب دین کی کوئی بات سکھاتے یا کوئی نصیحت فرماتے تو وہ آگے بڑھ بڑھ کر آپ کو متوجہ کرنے کے لیے باربار راعناکہتے۔ راعنا کا معنی ہوتا ہے۔ آپ ہماری رعائت فرمائیے ہمیں بات سمجھنے کا موقع دیجئے۔ اپنی بات کو دوبارہ بیان فرمادیجئے تاکہ ہم اچھی طرح سمجھ جائیں۔ یہ بالکل اسی طرح کا جملہ ہے جیسے انگریزی میں کہتے ہیں I beg your pardon ان کے اس طرز عمل سے مسلمان یہ سمجھتے کہ ان لوگوں کو علم سے کتنی محبت ہے اور یہ دین کے معاملے میں کتنے فکر مند ہیں کہ بار بار آنحضرت ﷺ کو متوجہ کرکے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے مسلمانوں کو ان کے ایمان لانے کی امید پیدا ہوگئی اور وہ اپنے دلوں میں اس بات سے خوشی محسوس کرنے لگے کہ یہ لوگ اگر مسلمان ہوجائیں، چونکہ یہ مذہب کو سمجھنے والے لوگ ہیں اور صدیوں سے ان کا دین سے ایک رشتہ ہے تو اس سے یقینا اسلامی دعوت کو تقویت ملے گی۔ اور اہل کتاب میں تیزی سے یہ دین مقبول ہوجائے گا اور وہ اپنے حسن ظن کے باعث اس طرف بہت کم توجہ دیتے تھے کہ یہود راعنا کہتے ہوئے اصل میں کچھ اور کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پروردگار نے ان کی اس شرارت اور خباثت سے پردہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو متوجہ کیا کہ تم غور سے ان کی بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ یہاں دین سیکھنے کے لیے نہیں آتے بلکہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے آتے ہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ جب گفتگو کررہے ہوتے تو وہ باربار یہ تأثر دینے کے لیے کہ ہم آپ کی بات کو بڑی توجہ سے سن رہے ہیں لیکن جب کسی بات کے سمجھنے میں ہمیں دشواری پیش آتی ہے تو ہم راعنا کہہ کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ راعنا کہتے ہوئے اپنی خباثتِ نفس کا اظہار کرتے تھے۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنحضرت کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں لیکن درپردہ وہ آپ کی بات کو ہلکا کرنے، مذاق اڑانے یا آپ کی توہین کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ راعناکا مفہوم راعنا کا عربی زبان میں تو مفہوم یہی ہے کہ آپ ہماری رعایت فرمائیے لیکن عبرانی زبان میں یہ کلمہ بد گوئی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یا پھر وہ یہ حرکت کرتے کہ راعنا کو ذرا نیچے کی طرف دبا کر اس طرح ادا کرتے کہ وہ راعینابن جاتا۔ جس کا معنی بالکل بگڑ کر رہ جاتا۔ راعی عربی زبان میں چرواہے کو کہتے ہیں اور ” نا “ ضمیر متکلم ہے۔ تو اس کا معنی ہے ” ہمارا چرواہا “۔ اس طرح کی حرکتوں سے ان کے اندرونی بغض کو تسکین ملتی اور وہ دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتے اور جب ان مجالس سے اٹھ کر آپس میں تنہا ہوتے تو کھلکھلا کر ہنستے اور قہق ہے لگاتے کہ دیکھو ہم نے مسلمانوں اور ان کے پیغمبر کو نعوذباللہ کس طرح مذاق بنا رکھا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی عزت و حرمت کو بچانے کے لیے اللہ نے حکم دیا کہ ایک ایسا لفظ جس کو غلط معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اسے اپنی مجلسی زندگی سے بالکل نکال دو اور اس کی جگہ وہ لفظ اختیار کرو جس سے اس طرح کا احتمال پیدا نہ ہوسکتا ہو۔ اس لیے فرمایا کہ راعنا کی بجائے اُنْظُرْنا کہا کرو۔ اس کا معنی ہے ” ہماری طرف توجہ فرمائیے، ہمیں مہلت دیجئے، ہمارا انتظار فرمائیے، ذرا توقف فرمائیے، “۔ یہ جو ہم نے کہا وہ ایک سیدھے سادے لفظ کو توڑ مروڑ کو اس طرح استعمال کرتے جس سے انھیں اپنے خبث باطن کی تسکین کو موقع ملتا۔ یہ محض ہماری ذہنی اپچ نہیں بلکہ پروردگار نے قرآن کریم میں صراحت سے یہی بات بیان فرمائی ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا : مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لیاً بِاَلسِنَتِہِم وَطَعْنًافِی الدِّیْنِ (یہود میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلام کو اس کے موقع ومحل سے ہٹاتے ہیں اور اپنی زبانوں کو لچکا کر کہتے ہیں سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا دین پر طنز کرنے کے لیے ) اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ راعنا کے تلفظ میں زبان لچکا کر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے تھے اور مزید یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی یہ خباثت صرف اسی لفظ تک محدود نہیں تھی بلکہ جب بھی ان کو موقع ملتاوہ یہ حرکت ضرور کرتے۔ مثلاً جب حضور کوئی حکم دیتے یا نصیحت کرتے تو وہ کہتے سمعنا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور دبی زبان میں سرجھکا کر منہ نیچا کرکے عَصَینَا بھی کہتے جس کا معنی ہے کہ ” ہم نے نافرمانی کی “۔ لیکن عَصَینَا کو اس طرح ادا کرتے کہ سننے والا اسے اَطَعْنَا سمجھے اور کبھی اپنی بات گوش گزار کرنے کے لیے کہتے وَاسْمَعْ جس کا معنی ہے ” ہماری بات سماعت فرمائیے “۔ لیکن ساتھ ہی چپکے سے کہتے غَیرَ مُسْمَع ” اللہ کرے تجھے کوئی بات سنائی نہ دے “ اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو جو بات کہی جا رہی ہے وہ کیسی ناشنیدنی اور نہ سننے کے قابل بات ہے۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس طرح کی حرکتوں سے آنحضرت کی مجلس کی سنجیدگی اور آپ کی ذاتی وجاہت کو کس قدر نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے یک قلم اس طرح کے الفاظ کو مجلسی الفاظ سے خارج کردیا گیا تاکہ کسی کو اس طرح دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع نہ ملے۔ اس سے ہمیں چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ الفاظ اپنا وزن رکھتے ہیں اور ان میں ایک نفسیاتی اثر بھی ہے ایک تو یہ بات کہ الفاظ بہرحال اپنا وزن رکھتے ہیں اور ان کی ایک نفسیاتی حقیقت بھی ہے اس لیے اگر کسی لفظ کے بارے میں یہ گمان ہو کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کے استعمال سے رسول اللہ ﷺ کی عزت یا دین کی حرمت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو اس کے استعمال سے خود بھی بچنا چاہیے اور ماحول کو بھی اس سے محفوظ رکھنا چاہیے اور جدید دنیا کا تو تجربہ بھی ہے کہ شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے میں اور نظریات کو پختہ کرنے اور ہلکا کرنے میں الفاظ کا کھیل سب سے زیادہ ہے۔ بظاہر معصوم سے الفاظ کے ذریعے قیامت اٹھا دی جاتی ہے۔ الفاظ ہی کے استعمال سے مقدس اور معصوم شخصیتیں محل نظر بنادی جاتی ہیں اور انھیں کی سخاوت سے بونے لوگ قدآور بنادیئے جاتے ہیں۔ اور قابل نفرت اشیا کو مرغوب بنادیا جاتا ہے۔ اور محترم چیزوں کو بےاعتبار کردیا جاتا ہے۔ مشتبہ الفاظ سے سبھی مسلمانوں کو بچنا چاہیے اسلامی اعتقادات میں چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی شخصیت بنیاد اور اساس کا درجہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح کردار کی تعمیر میں بنیادی عقائد اور اخلاقی اقدار سب سے موثر عامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں الفاظ کے طوطے مینا اڑانے کی کبھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات اور رسول اللہ ﷺ کی صفات کو توقیفی حیثیت دی ہے تاکہ کسی کو ان کے بارے میں غلط الفاظ کے استعمال کی جرات نہ ہو اور مکارمِ اخلاق کو بھی سنت کے ستون کے ساتھ باندھ دیا ہے تاکہ کسی کو سخن طرازیِ ناروا کے گل کھلانے کا موقع نہ ملے۔ دوسری بات اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جائز فعل سے دوسروں کو ناجائز کاموں کی گنجائش ملتی معلوم ہو تو یہ جائز فعل بھی ناجائز ہو کر رہ جاتا ہے۔ جیسے اگر کسی عالم کے جائز فعل سے جاہلوں کے مغالطہ میں پڑنے اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو اس عالم کے لیے یہ جائز فعل بھی ممنوع ہوجائے گا۔ بشرطیکہ یہ فعل شرعاً ضروری اور مقاصدشرعیہ میں سے نہ ہو۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو دوبارہ بنائے ابراہیمی کے مطابق تعمیر کیا جائے کیونکہ قریش مکہ نے جب اس کو بنایا تھا تو مصارف کی کمی کے باعث انھوں نے اس کا ایک حصہ بیت اللہ میں شامل نہیں کیا جسے ” حطیم “ کہتے ہیں اور اس عمارت میں بعض تبدیلیاں بھی کردیں جو بنائے ابراہیمی کے خلاف تھیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے جب دیکھا کہ نو اور دس ہجری میں تیزی سے لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں تربیت کا موقع نہیں ملا جس سے ان کا مزاج پوری طرح اسلامی قالب میں ڈھل جاتاتو آپ نے اپنی خواہش پر عمل کرنے سے گریز فرمایا بلکہ حضرت عائشہ ( رض) سے فرمایا کہ تیری قوم اگر حدیث الاسلام نہ ہوتی یعنی لوگ نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے تو میں بیت اللہ کو اس طرح تعمیر کرتا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ لیکن اب چونکہ عوام کے فتنہ میں پڑجانے کا احتمال ہے تو میں اس نیک کام کو نہیں کروں گا اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کا کام بھی جو فتنہ کا باعث ہوسکتا ہو اس کو عمل میں لانے سے گریز کرنا سنت نبوی کا منشا ہے۔ الفاظ کے استعمال پر یہ پابندی بظاہر کوئی بڑی پابندی نہیں لیکن اگر بعض الفاظ کا استعمال عادت بن جائے تو اس کا چھوڑنا یقینا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ مزید یہ بات بھی کہ اگر ماحول ایسا ہو جس میں منافقین یا دشمنانِ دین بھی موجود ہوں تو پھر ایسی پابندی مخلص اور غیر مخلص میں فرق کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے کیونکہ صریح ممانعت کے بعد اگر پھر بھی کوئی شخص ممنوع الفاظ کے استعمال کی جرأت کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں اسلام کے خلاف حسد یا دشمنی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اس پابندی سے یہی فائدہ ہوا کہ یہودیوں کا آناجانا بند ہوگیا اور اگر کوئی آیا بھی تو اس کے لیے اپنا اعتبار باقی رکھنے کی خاطر اس حکم کی تعمیل ضروری ہوگئی تاکہ مسلمانوں کے سامنے اس کا بھرم قائم ہوجائے اور پھر اس حکم کو حقیقی موثر بنانے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا۔ اسمعوا کہ تم غور اور توجہ سے سنو یعنی یہودی تو اب اپنے خبث باطن کا اظہار نہیں کرسکیں گے اب اگر وہ کوئی بات پوچھیں گے تو راعنا کی بجائے انظرنا کہہ کر پوچھیں گے۔ لیکن اللہ کے رسول کی عظیم شخصیت سے باربار سوال کرنا بھی ادب کے اعلیٰ تقاضوں کے مطابق نہیں۔ سوال کی ضرورت یا آپ سے رعایت کے لیے عرض کرنے کی ضرورت تب ہوگی جب آپ کے ارشادات کو پوری طرح غور سے نہیں سنا جائے گا۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی ایک ایک بات کو پوری توجہ اور انہماک سے سنیں۔ ویسے بھی آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ دینی فرائض کی تعلیم دیتے ہوئے کبھی رواں دواں گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ ٹھہر ٹھہر کر اس طرح گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی آدمی آپ کے الفاظ شمار کرنا چاہے تو وہ شمار کرسکتا تھا۔ اور مزید یہ کہ جس بات پر آپ زور دینا چاہتے یا اسے دل و دماغ میں اتارنا چاہتے تو آپ اسے دہرا کر بیان کرتے تھے بعض دفعہ اسے تین دفعہ دہراتے۔ اس اہتمام اور احتیاط کی گفتگو کے بعد پوچھنے کی ضرورت بہت کم پید اہوتی اور شاید یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن کریم میں صحابہ کے جن سوالات کو ذکر کیا گیا ہے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا : وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْم ” اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے “۔ یہاں عام کفر کا ذکر نہیں بلکہ یہاں مراد وہ کفر ہے جو آنحضرت ﷺ کی صحبت میں اپنے خبث باطن کے باعث الفاظ کے غلط استعمال سے پید اہو۔ یعنی اگر تم راعنا جیسا کوئی لفظ بگاڑ کر اس طرح ادا کرتے ہو جس سے آنحضرت ﷺ کی شان اور قدرومنزلت کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ وہ کفر ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والوں کو قیامت میں صرف عذاب نہیں بلکہ عذاب الیم ہوگا۔ اَلِیْمکا معنی ہے ” دردناک “ یعنی وہ عذاب اس قدر شدید ہوگا کہ خود عذاب بھی اس عذاب سے عذاب میں ہوگا۔ کیونکہ دردناک اس درد کو کہتے ہیں جس سے درد بھی درد محسوس کرے۔ حدیث میں آتا ہے، حضور نے فرمایا کہ جہنم کی بعض وادیاں ایسی ہیں جس سے باقی جہنم پناہ مانگتا ہے، یعنی جہنم بھی اس کی ہولناکی سے درد اور عذاب محسوس کرتا ہے۔
Top