Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
جو ہم منسوخ کرتے ہیں کوئی آیت یا کوئی آیت نظر انداز کردیتے ہیں تو لے آتے ہیں ہم اس سے بہتر یا اس کے مانند کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْمِثْلِھَاط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَانَصِیْرٍ ۔ (جو ہم منسوخ کرتے ہیں کوئی آیت یا کوئی آیت نظر انداز کردیتے ہیں تو لے آتے ہیں ہم اس سے بہتر یا اس کے مانند کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے نہ مدد گار) (البقرۃ : 106 تا 107) یہود کی ایک شرارت کا ذکر اور جواب یہود کی شرارتوں کے بارے میں مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے اور وہ مسلمانوں کو فکری اور عملی اعتبار سے غیر مطمئن کرنے کے لیے جو سوالات اٹھاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا جارہا ہے۔ پیش نظر آیات میں ان کی اسی قسم کی ایک شرارت کو ذکر فرمایا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ ان کی شرارت یہ تھی کہ دیکھو ! تمہارا پیغمبر اور تم پر اترنے والی کتاب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ اور تورات اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہدایت ہے۔ اور ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا تمہارے ایمانیات کا ایک لازمی جزو بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ تورات کو کتاب ہدایت تسلیم کرنے کے باوجود اسے منسوخ ٹھہرا کر عمل اور اختیار کے اعتبار سے معطل کردیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی ماننے کے باوجود ان کے اتباع کو ختم کردیا گیا ہے حالانکہ نبی کی سنت بھی موجود ہے اور اس پر اترنے والی کتاب بھی تمہارے سامنے ہے۔ تو ان دونوں کی موجودگی میں ایک نئی نبوت کا دعویٰ اور نئی کتاب کی پیش کردہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت آخر کیا معنی رکھتی ہے۔ اگر پہلے نبی موجود ہیں اور وہ برحق ہیں تو نئے نبی کے آنے سے ایک نئے اختلاف کو پیدا کرنے کی ضرورت کیا ہے ؟ اور پہلی شریعت موجود ہے تو پھر نئی کتاب کی شکل میں ایک نئی شریعت پیش کرنے کا فائدہ کیا ؟ البتہ ! یہ نتیجہ ضرور نکلے گا بلکہ نکل رہا ہے کہ نئی نبوت اور نئی کتاب پر ایمان لانے والے پہلے سے نبوت اور کتاب رکھنے والوں کو کافر کہہ رہے ہیں اور یہ پہلی نبوت اور کتاب کے حامل لوگ نئے نبی پر ایمان لانے والوں کو مرتد ٹھہرا رہے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسی چپقلش اور ایک ایسا تصادم وجود میں آگیا جس سے امن درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس نئے تجربے کو روک دیا جائے اور پہلے سے موجود شریعت پر عمل کیا جائے۔ مزید براں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے کہ پروردگار نے اپنے آخری نبی اور اپنی آخری کتاب بھیج کر پہلی نبوت اور شریعتوں کو منسوخ کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کو طویل انسانی تجربے کے بعد یہ احساس ہوا ہے کہ میں نے پہلے جو شریعت بھیجی تھی اس میں مجھے حالات کا اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی۔ لیکن اب حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر انسانی زندگی کی بقا اور اس کی بہتری منظور ہے تو اب ایک نئی شریعت آنی چاہیے تاکہ انسان آج کے حالات کے تناظر میں اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ غور کیجئے ! یہ کتنا سنگین الزام ہے جو نسخ کی صورت میں منطقی انداز میں لازم آتا ہے اور یقینا جب یہ باتیں مسلمانوں سے سرگوشی کے انداز میں کہی جارہی ہوں گی اور دبے دبے طریقے سے انھیں مسلمانوں میں پھیلا یا جاتا ہوگا، تو اس سے کس قدر برے اثرات پیدا ہوتے ہوں گے۔ قرآن کریم نے اس کا جواب دیتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی ہے کہ یہود اس بات کو ایک خطرناک نتیجے کے طور پر پیش کررہے ہیں حالانکہ وہ اس کائنات کی ایک ایسی حقیقت ہے جو تمہیں اپنے گردو پیش میں دکھائی دیتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صبح ہوتی ہے تو شام آکر اسے منسوخ کردیتی ہے۔ پھر صبح ہوتی ہے تو شام پر خط نسخ پھرجاتا ہے اور انسانی زندگی کا حسن صبح وشام کے اسی انقلاب اور اسی نسخ میں ہے۔ اسی طرح ہم موسموں کے تغیرات کو دیکھتے ہیں کبھی بہار آتی ہے اور کبھی خزاں، کبھی گرمی اور کبھی سردی اور کبھی چلچلاتی دھوپ اور کبھی گھنگھور گھٹائیں یہ وہ حقائق ہیں جن کا شب وروز ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور انھیں سے انسانی زندگی میں نہ صرف ایک حسن ہے بلکہ اس کی ضرورتوں کی بجاآوری اور اس میں آرام و راحت کے حصول کے لیے بھی ان چیزوں کا وجود لازمی ہے۔ نسخ کا مفہوم نسخ کے اصل معنی ” ہٹانے اور مٹانے “ کے ہیں۔ اور اصطلاح میں ” ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدل دینا “ ہے۔ چاہے یہ تبدیلی نئے حکم کی شکل میں ہو یا پہلے حکم کو ختم کردینے کی شکل میں ہو۔ یہ نسخ پہلی شریعتوں اور قوموں میں بھی ہوا اور موجودہ شریعت میں بھی ہوا۔ پہلی قوموں اور شریعتوں میں تبدیلی یانسخ کے حوالے سے چند باتیں ذہن نشین رہنی چاہییں۔ نسخ ارتقاء کا لازمی نتیجہ ہے 1 ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ انسانی زندگی اس کے احساسات اور انفعالات، اس کا ذہنی افق، اس کے خیالات کی وسعت، اس کے رحمی اور قرابتی رشتے اور فرد سے قبیلے تک اور قبیلے سے قوم تک کا تصوریہ سب کچھ ایک ارتقا کی شکل میں وجود میں آیا ہے۔ انسانی زندگی مسلسل ارتقا کے نتیجے میں ترقی کرتی رہی ہے اس کی بنیادی ضرورتیں تو ہمیشہ ایک جیسی رہی ہیں لیکن اس کے مسائل ووسائل، اس کے جبلی احساسات، اس کی فکری توانائیاں، اس کے تہذیبی اور تمدنی مدارج وقت اور تجربے کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہے ہیں۔ اس ارتقا کے سفر کو دیکھتے ہوئے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے پہلے دنوں کا دیا ہوا دستور، آئین اور دستورالعمل اگلے مراحل میں کام نہیں دے سکتا تھا اس میں بھی ارتقا کی ضروت تھی اور وہ ارتقا اسی صورت میں ممکن تھا کہ ضرورت کے اختتام پر پہلی ہدایت اور رہنمائی منسوخ کی جاتی اور نئی ضروریات کے مطابق نئی رہنمائی مہیا کی جاتی۔ اسی کا نام نسخ ہے اور یہ نسخ انسانی ارتقا کے ساتھ ساتھ تبدیلی سے ہمکنار ہوتا رہا ہے۔ البتہ ایک بات یاد رہے، نسخ کا تعلق تمام تر احکام و قوانین سے ہے، عقائد و ایمانیات یا اخلاق وصفات یا واقعات و حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں عقائد اور ایمانیات ایسی چیزیں نہیں جن میں مختلف حالات میں تبدیلی پیدا کی جائے یہ ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ اسی طرح واقعات و حقائق بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کبھی نہیں بدلا کرتے۔ البتہ احکام و قوانین میں حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا عمل ناگزیر ہوتا ہے۔ البتہ یہ تبدیلی خود قانون دینے والے کی طرف سے ہونی چاہیے کسی اور کی طرف سے نہیں۔ انسان کے ارتقائی سفر میں ہر دور کے حالات کے مطابق شریعت نازل ہوتی رہی ہے اور نئی ضرورتیں پیدا ہونے کے وقت نئی شریعت سے سابقہ شریعت کے بعض احکام منسوخ بھی ہوتے رہے ہیں۔ لیکن جب انسان اپنی زندگی میں بلوغ کی عمر کو پہنچ گیا اور اس کے احساسات اور انفعالات پختہ ہوگئے تو نبی آخرالزماں تشریف لائے اور انھیں آخری شریعت دے کر پہلی شریعتوں کے وہ احکام منسوخ کردیئے گئے جو آئندہ زندگی میں چلنے کے قابل نہ تھے۔ جس سے انسانی سفر کو نقصان پہنچ سکتا تھا اور آخری نبی کی زبان سے تکمیلِ دین کا مژدہ سنا کر یہ خبر دے دی کہ اللہ کا قانون مکمل ہوگیا ہے یہ قیامت تک کے انسانوں کی ضرورتیں پوری کرے گا اس میں کسی قسم کے نسخ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ نسخ کے ذریعے پہلی شریعتوں کی تسہیل ‘ تجدید اور تکمیل ہوئی 2 یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ سابقہ آسمانی کتابیں ترمیم اور تحریف کا شکا رہوئیں۔ بعض احکام نکال دئیے گئے یا اپنی خواہشات کے مطابق انھیں تبدیل کردیا گیا۔ بعض بدعات کو شریعت کا حصہ بنادیا گیا، حلت و حرمت میں تبدیلیاں کی گئیں۔ انبیائے کرام کی عصمت کے بنیادی تصور کو بدلا گیا۔ اللہ کے نبیوں کی طرف ایسے ایسے افعال منسوب کیے گئے جو کسی شریف آدمی کی طرف بھی منسوب نہیں کیے جاسکتے۔ اللہ کی صفات میں کبھی تشبیہ کو داخل کیا گیا کبھی تعطیل کو۔ قرآن کریم نے ان تمام چیزوں کی اصلاح کی اور اسے نسخ کا نام دیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ِ باری ہے : فَیَنْسَخَ اللّٰہُ مَایُلقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہ (شیطان جو کچھ داخل کردیتا ہے اللہ اسے مٹاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے ) اس نسخ کے ذریعے پہلی شریعتوں کی تسہیل کی گئی اور کہیں نئے احکام دے کر تجدید کی گئی اور کہیں وہ احکام جسے اہل کتاب نے بالکل بھلادیا تھا یا تو ان کی تجدید کی گئی اور یا انھیں نظر انداز کرکے ان کی جگہ نئے احکام دئیے گئے اور اس طرح شریعت کو محکم اور مکمل فرمایا گیا۔ یہ تو وہ نسخ ہے جس کا تعلق ادیانِ سابقہ سے ہے اور یہاں بطور خاص اسی کا ذکر کیا جارہا ہے۔ البتہ دوسرا نسخ وہ ہے جو اسلامی شریعت میں ہوا ہے۔ اس میں مسلمانوں میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ اسلامی شریعت میں نسخ کے حوالے سے معتزلہ کا مؤقف ایک نقطہ نگاہ معتزلہ کا ہے جو ابو مسلم اصفہانی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اسلامی شریعت اور قرآن کریم میں نسخ ممکن تو ہے لیکن یہ عملی طور پر ہوا نہیں، قرآن کریم کی تمام آیات محکم ہیں۔ اس لیے کسی آیت کو منسوخ نہیں کہا جاسکتا اور جو آیتیں منسوخ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اسلامی شریعت میں عمل اس سے مختلف احکام پر ہورہا ہے۔ تو وہ بھی درحققیت منسوخ نہیں ان آیات کی حقیقت یہ ہے کہ ان میں بیان کردہ حکم خاص حالات کے لیے تھا جب حالات بدل گئے تو نیا حکم آگیا، لیکن پہلے حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا وہ اپنی جگہ باقی ہے۔ اگر کبھی مسلمان معاشرے میں پھر وہی حالات پیدا ہوجائیں تو پھر ان احکام پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ نقطہ نگاہ نہ صرف کہ غلط ہے بلکہ نہایت خطرناک بھی ہے۔ آج اگر کسی حکومت کے ہاتھ میں یہ اختیار دے دیا جائے تو وہ پوری شریعت کو موم کی ناک بنا کر رکھ دے گی۔ احکام پر عمل کرنا تو ہمیشہ ہی خواہشِ نفس کے لیے گراں ہوتا ہے یہ اسی گرانی کو بہانہ بنا کر بیشتر احکام کو معطل کرکے رکھ دے گی اور یہ کہے گی کہ جب حالات حسب حال ہوں گے تو تب ان احکام پر عمل کیا جائے گا۔ ناموافق حالات میں ہمیں اس صورتحال پر عمل کرنا چاہیے جو احکام کے نزول سے پہلے تھی۔ اس کا نتیجہ وہی ہوگا جس طرح ایک شخص نے اہل حق کے نام سے مضامین لکھے تھے تو اس نے نمازوں کی تعداد کو کم کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ نماز کی ادائیگی کے لیے خشوع و خضوع لازمی ہے اس کے بغیر نماز ادانھیں ہوتی۔ ظہر کا وقت چونکہ انتہائی کاروباری مصروفیت کا وقت ہے ایسے مصروف وقت میں نما زادا کرنا خشوع و خضوع کے ساتھ تو کسی طرح ممکن نہیں کیونکہ آدمی ہزار کوشش کرے اس کی تمام تر توجہ اپنی مصروفیت کی طرف ہوگی۔ اس لیے ظہر کی نماز کے فرض ہونے کا تو کوئی سوال پید انھیں ہوتا اور جہاں تک عصر کی نماز کا تعلق ہے اس میں آدمی تھکا ماندہ گھر کو لوٹتا ہے اور پھر یہی وقت حصول تفریح کے لیے کلب جانے کا ہوتا ہے۔ اس طرح کی مصروفیات میں بھی خشوع خضوع کا حصول ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عصر کی نماز کے فرض ہونے کی بھی کوئی عقلی وجہ نہیں ہوسکتی۔ باقی تین نمازیں رہ جاتی ہیں یہی تینوں خشوع خضوع کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ نمازیں درحقیقت تین ہیں پانچ نہیں۔ قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہوتی ہیں لوگوں نے نہ جانے پانچ نمازیں کہاں سے نکال لیں۔ اندازہ فرمائیے ! اس طرح کے دلائل سے کون سا حکم ترمیم کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت اس طرح کے لوگوں کے دماغ میں یہ تصور بیٹھا ہوا ہے کہ نسخ شائد کوئی عیب ہے جو قرآن کریم میں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ کی کتاب ہر طرح کے عیب سے پاک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح دنیا کے قانون ساز ایک قانون بناتے ہیں بعد میں جب انھیں غلطی کا احساس ہوتا ہے تو بعضاحکام کو ختم کرتے ہیں بعض کا اضافہ کرتے ہیں یا حالات کے بدلنے کے باعث محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب قوانین میں تبدیلی ہونا چاہیے کیونکہ قانون بنانے والے نہیں جانتے تھے کہ آئندہ چل کر حالات بدل جائین گے اور قانون کے عمل درآمد میں دشواریاں ہوں گی۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ قرآن کریم میں بھی نسخ ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کیا صورت حال اختیار کریں گے، پروردگار کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ احکام انسانی زندگی کی تربیت اور انسانی زندگی کی آسانی کے لیے ہیں اور یہ تقریباً ایسے ہی ہے جیسے ایک حاذق حکیم اپنے مریض کے لیے نسخہ لکھتا ہے۔ پہلے وہ چند دنوں تک ایک دوا استعمال کرواتا ہے اور پھر چند دنوں کے بعد پہلی دوا کو ختم کرکے دوسرا نسخہ تجویز کرتا ہے۔ لیکن یہ نیا نسخہ تجویز کرنا اس لیے نہیں کہ پہلا غلط تھا بلکہ اس لیے ہے کہ پہلے نسخے سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا گیا اس نسخے کی افادیت اتمام کو پہنچ گئی، اب باقی مرض کے علاج کے لیے نیا نسخہ درکا رہے اور حکیم کو پہلے سے معلوم تھا کہ چند دنوں کے بعد مریض کے لیے نیا نسخہ لکھنا ہوگا۔ چناچہ جب وہ وقت آتا ہے تو وہ مریض کے لیے نیا نسخہ تجویز کرتا ہے۔ پروردگار نے بھی قرآن کریم میں بعض عبوری احکام دیئے اور جب وقت آگیا کہ اب ایک مستقل قانون دیا جائے تو عبوری احکام کو منسوخ کردیا گیا اور مستقل قانون عطا کردیا گیا کیونکہ جب عبوری احکام دیئے جارہے تھے تو اس وقت مسلمان معاشرے کی حالت ایسی نہ تھی کہ اس کو ایک مستقل قانون دیا جاتا۔ مثلاً وراثت کے احکام سے پہلے وصیت کا حکم دیا گیا اور اس میں یہ حق دیا گیا کہ وصیت لکھنے والا اپنی مرضی سے قرابت داروں کے حصے کا تعین کرے۔ لیکن بعد میں قانونِ وراثت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ اسی طرح یہ حکم دیا گیا کہ اگر مسلمان عورت پر چار گواہوں کی گواہی سے بدکاری کا جرم ثابت ہوجائے تو اسے گھر میں بند کردو اور موت آنے تک اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دو ۔ لیکن جب حد زنا کا قانون آگیا تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ جب پہلا حکم نازل کیا گیا تھا تو اس وقت مسلمان معاشرے کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ مستقل قانون کا بوجھ اٹھاسکتا، اس وقت تک مسلمان اور غیر مسلم ملے جلے رہتے تھے اور یہود کا بھی آزادانہ آنا جانا تھا۔ ایسی صورت میں منکرات سے پرہیز کرنے کے لیے وہ مضبوط تربیت فراہم نہ کی جاسکتی تھی، جس سے معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہوتی اور دوسری یہ بات کہ اگر گناہ کا فریق ثانی کوئی غیر مسلم ہوتا تو ابھی مسلمانوں کی حکومت اتنی مستحکم نہ ہوئی تھی کہ اسے بھی سزا دے سکتی۔ اس لیے ضروری تھا کہ جب تک اسلامی حکومت مستحکم نہ ہوجائے اور مسلمان معاشرہ غیر مسلموں کی آلودگی سے پاک نہ ہوجائے اس وقت تک مستقل قانون نہ دیا جائے۔ قرونِ اولیٰ میں نسخ کا مفہوم دوسرا نقطہ نگاہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا ہے۔ ان کے نزدیک نسخ کا ایک وسیع مفہوم ہے وہ ہر طرح کی تبدیلی کو نسخ قرار دیتے تھے۔ مثلاً پہلے اگر کوئی حکم عام ہے بعد میں کوئی آیت اتری جس نے اس میں خصوصیت پید اکردی یا پہلے ایک حکم مجمل نازل ہوا اس کے بعد اس کی تفصیل نازل ہوگئی یا کہیں کسی مطلق کو مقید کردیا گیا یا کہیں استثنا پیدا کردیا گیا۔ تو سلف صالحین اس طرح کی تبدیلیوں کو بھی نسخ قرار دے دیتے تھے حالانکہ ایسے مواقع پر عام اور خاص، مجمل اور مفصل، مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ اور مطلق اور مقید میں توفیق پید ا کی جاسکتی تھی۔ لیکن متقدمین ایسی کوئی سی کوشش کے بھی روادار نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متقدمین کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئی۔ متأخرین کا نقطہ نگاہ تیسرا نقط نگاہ متاخرین کا ہے۔ ان کے نزدیک نسخ صرف اس تبدیلی کا نام ہے جس کی پہلے حکم کے ساتھ کسی طرح تطبیق نہ ہوسکے۔ چناچہ متاخرین نے جب اس طرح کی کوشش کی تو منسوخ آیات کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ متاخرین میں علامہ سیوطی ( رح) نے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا۔ ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ ( رح) نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کرکے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ فرمایا ہے۔ جن میں کوئی تطبیق بغیر توجیہ بعید کے ممکن نہیں۔ یہی نقطہ نگاہ، جمہور کا نقطہ نگاہ ہے اور یہی صحیح بھی ہے۔ اب رہی یہ بات وہ منسوخ آیات کون سی ہیں۔ تو یہ بحث اصول فقہ سے تعلق رکھتی ہے، ہماری مختصر گفتگو میں اس کے لیے گنجائش مشکل ہے۔ آیت کے آخر میں یہود اور مسلمانوں دونوں سے خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ تم ذرا اس بات پر غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو شریعت سے نوازتا ہے تو کیا کتاب شریعت اتارنے کے بعد اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے محروم ہوجاتا ہے کہ اسے ایک دفعہ تو اختیار تھا کہ جیسے چاہے احکام نازل کردے لیکن اب ان میں کمی بیشی کرنا اس کے اختیارات سے باہر ہے۔ اسے اس بات کا ہرگز اختیار نہیں کہ اگر وہ قوم جسے اس نے شریعت دی تھی اس نے بیشک کئی احکام میں ترمیم کر ڈالی ہو، کئی پر تحریف کا آرہ چلایاہو اور بعض احکام سرے سے غائب کردیئے ہوں اور مرور زمانہ سے انسانی تربیت کے حوالے سے نئی ضرورتیں پیدا ہوچکی ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو ہرگز اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ نئے شرعی احکام نازل کرے یا پہلے احکام جنھیں لوگ نظر انداز کرچکے یا مٹاچکے ہوں ان کی تجدید کرے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو پھر تو یقینا نسخ غلط ہے لیکن اگر تم اللہ کو ہر چیز پر قادر جانتے ہو اور اس کی قدرتوں پر تمہیں کامل یقین ہے تو پھر نسخ کے انکار کی کوئی وجہ معقول معلوم نہیں ہوتی۔ نسخ یقینا اللہ کی قدرت سے انکار کے مترادف ہے اور اللہ کی قدرت سے انکار صریحاً کفر ہے، جو کسی ایسے فرد یا قوم سے متوقع نہیں ہوسکتا جو اپنے آپ کو اہل کتاب کہے۔ نسخ پر اعتراض کی اصل وجہ دوسری آیت کریمہ میں یہود کی ذہنیت کو کھول کر رکھ دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہود اصل میں نسخ پر جو شور مچا رہے ہیں یہ تو محض ایک پردہ ہے اصل میں ان کاروگ اور ہے۔ وہ درحقیقت آخری رسول کے آنے، آخری کتاب کے اترنے اور ایک نئی امت کے برپا ہونے سے یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ اب صرف تورات کے بعض احکام منسوخ نہیں ہوں گے مسئلہ صرف نسخ احکام کا نہیں بلکہ ہمیں منصب امامت سے معزول کیا جارہا ہے۔ اور ہماری جگہ ایک دوسری امت کا نصب اور تقرر ہورہا ہے۔ ہم صدیوں تک جس عزت اور عظمت سے نوازے گئے ہیں وہ تاج ہمارے سروں سے اتارا جارہا ہے اور جن لوگوں کو اُمیّ کہہ کر ہم تذلیل کرتے رہے ہیں یہ تاج ان کے سروں پر سجایا جارہا ہے۔ پروردگار ان کے اس پوشیدہ روگ کو افشا فرما رہے ہیں اور ہر قرآن کے پڑھنے والے اور ہر اس شخص سے جو اس دعوت کا مخاطب ہے سوال کررہے ہیں کہ تم بتائو کیا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے تاجدار نہیں ؟ کیا اس کے سوا آسمانوں او زمینوں کا کوئی اور حاکم اعلیٰ بھی ہے ؟ اگر واقعی اس کی حاکمیت اور تاجوری میں کوئی شریک اور ہمسر نہیں تو پھر وہ اگر احکام اور قوموں کا نسخ کر رہا ہے اور یہود کو معزول کرکے امت محمدیہ کو اس پر فائز کررہا ہے تو یہود کو اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے ؟ یہود کو یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ یہ تبدیلی آکر رہے گی اور وہ وقت دور نہیں جب تمہیں اپنے لیے کوئی حمایتی اور کوئی مددگار میسر نہیں آئے گا۔ عرب کی سرزمین تمہارے لیے تنگ ہوجائے گی تم نے جس طرح اللہ کے دین کو اپنی زندگیوں سے نکالا اسی طرح تمہیں بھی تمہارے گھروں اور تمہارے وطن سے نکلنا پڑے گا۔
Top