Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
(اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم کو بخشیں اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا جہان والوں پر فضیلت دی
یٰبَنِیْٓ اِسْرَائِیْلَ اذْکُرُوْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْھَاعَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ (اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم کو بخشیں اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا جہان والوں پر فضیلت دی۔ اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے کام آئے گا اور نہ اس کی طرف سے معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے سفارش نفع پہنچا سکے گی اور نہ انھیں مدد ہی پہنچ سکے گی۔ ) (البقرۃ : 122 تا 123) یہ دونوں آیتیں، اس سے پہلے سنتالیس اور اڑتالیس نمبر کے تحت تھوڑے سے فرق کے ساتھ گزر چکی ہیں۔ وہاں ان کی بقدر استعداد وضاحت ہوچکی ہے۔ البتہ ! یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ بنی اسرائیل کے تذکرے کے آغاز میں جب یہ آیات گزر چکی ہیں تو اب دوبارہ انھیں کیوں لایا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کے آغاز میں سب سے پہلے بنی اسرائیل کو یاد دلا یا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کیسے کیسے احسانات کیے تھے حتیٰ کہ تمہیں اس وقت کے اہل دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ ساری دنیا میں تم ہی توحید کے علم بردار اور دعوت دین کے امانت دا ر تھے تمہیں حامل دعوت امت کا منصب سونپا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی وارننگ دی گئی تھی کہ تمہیں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک ایسے دن سے بھی واسطہ پڑنے والا ہے جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ذمہ داریوں کی کوتاہی کی صورت میں اگر گرفت ہوئی تو نہ کوئی سفارش چلے گی، نہ معاوضہ قبول کیا جائے گا۔ لیکن تم نے ان ذمہ داریوں کے ساتھ جو سلوک کیا اور اپنے منصب کی جو ناقدری کی اور جس طرح تم نے اپناملی چہرہ بگاڑا اور جس طرح تم نے شریعت کا پیراہن تار تار کیا گذشتہ دس رکوعوں میں اس کا مفصل تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ جس سے خوب اندازہ ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل اب اس قابل نہیں رہے کہ اپنے عظیم منصب پر فائز رہ سکیں۔ اب دوبارہ ان آیات کو لاکر پھر یاد دلایا گیا ہے کہ تمہیں اللہ نے ایک عظیم منصب سے نوازا تھا اور ساتھ ہی اس کی باز پرس کے سلسلے میں تمہیں آگاہ بھی کردیا تھا۔ لیکن تم نے چند ایسے غلط تصورات اپنا لیے جس نے تمہاری دینی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ تم اپنے منصب کی نزاکتوں کو تو کیا ملحوظ رکھتے تم تو عام بھلے انسانوں کی سطح سے بھی نیچے گرگئے۔ لیکن تمہیں آج تک یہ پندار سہار ادے رہا ہے کہ تم اللہ کے نبیوں کی اولاد بلکہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہو۔ دنیا میں کوئی قوم تمہاری ہم سر نہیں ہوسکتی اور آخرت میں تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ تمہاری اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہم تمہارے سامنے تمہاری تاریخ کا وہ باب ِ اول واشگاف کررہے ہیں جس باب کے نظروں سے اوجھل ہونے کے باعث تم فکری اور عملی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ سے اس کا آغاز کیا جارہا ہے۔
Top