Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ : اور جب ابْتَلٰى : آزمایا اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم رَبُّهٗ : ان کا رب بِکَلِمَاتٍ : چند باتوں سے فَاَتَمَّهُنَّ : وہ پوری کردیں قَالَ : اس نے فرمایا اِنِّيْ : بیشک میں جَاعِلُکَ : تمہیں بنانے والا ہوں لِلنَّاسِ : لوگوں کا اِمَامًا : امام قَالَ : اس نے کہا وَ : اور مِنْ ذُرِّيَّتِي : میری اولاد سے قَالَ : اس نے فرمایا لَا : نہیں يَنَالُ : پہنچتا عَهْدِي : میرا عہد الظَّالِمِينَ : ظالم (جمع)
اور ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند امور میں آزمایا اور انھوں نے وہ انجام دے دیئے ارشاد ہوا کہ میں یقینا تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، بولے اور میری نسل سے بھی ؟ ارشاد ہوا کہ میرا وعدہ نافرمانوں کو نہیں پہنچتا۔
وَاِذِا بْتَلٰٓی اِبْرَاھٖمَ رَبُّـہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط قَالَ لاَ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ۔ (البقرۃ : 124) (اور ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند امور میں آزمایا اور انھوں نے وہ انجام دے دیئے ارشاد ہوا کہ میں یقینا تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، بولے اور میری نسل سے بھی ؟ ارشاد ہوا کہ میرا وعدہ نافرمانوں کو نہیں پہنچتا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انسانی ہدایت کے لیے مقتدیٰ اور امام بنایا گیا۔ انہی سے تاریخ کی دو عظیم قومیں وجود میں آئیں بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل، دونوں کے جدامجد آپ ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو عظیم بیٹے عطا فرمائے، جن میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بڑے تھے۔ انھیں مکہ کی سرزمین میں آباد کیا گیا اور ان کی اولاد بنی اسماعیل کہلائی۔ قریش انھیں کی اولاد میں سے ہیں۔ دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ انھیں اللہ نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسا بیٹا دیا۔ ان کے بارہ بیٹے ہوئے، انھیں کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے کیونکہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا، جس کا معنی ہے عبداللہ۔ بنی اسرائیل کا معنی ہے ” اسرائیل یعنی عبداللہ کی اولاد “۔ مزید تفصیل سے پہلے ہم چاہتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف کرادیا جائے۔ یہ نام پہلی بار قرآن کریم میں آیا ہے۔ قرآن کے مخاطبِ اول اہل عرب تھے جو شخصیتیں ان کے لیے معلوم و معروف تھیں، قرآن ان کے نام ان کے سامنے بےتکلف بغیر کسی تعارف کے لے آتا ہے اور پھر ابراہیم تو وہ بزرگ تھے جن سے مشرکینِ عرب کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ بھی خوب واقف تھے۔ ان کا تعارف اور بھی غیر ضروری تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) وہی ہیں جو اسلامی عقیدہ کے علاوہ یہودی اور نصرانی عقیدہ میں بھی ایک بڑے جلیل القدر پیغمبر ہو گزرے ہیں۔ تورات میں آپ کا نام ابرام اور ابراہم دونوں طرح سے آیا ہے تورات کی روایت ہے کہ آپ کے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس پشتوں کا فرق ہے یعنی آپ ان کی گیارہویں پشت میں تھے لیکن خود تورات ہی کے شارحین کا خیال بعض قوی قرائن کی بناپریہ ہے کہ تورات میں نسب نامہ کی کچھ پشتیں چھوٹ گئی ہیں۔ سالِ ولادت سرچارلس مارسٹن محقق اثریات کی جدید ترین تحقیق کے مطابق 2160 ق م ہے اور عمر شریف تورات میں 175 سال درج ہے۔ سالِ وفات اسی حساب سے 1985 ق م ٹھہرتا ہے۔ والد کا نام تارح تھا یا عربی تلفظ میں آزر تھا۔ آزر نام کا تلفظ قدیم زبانوں میں کئی طرح سے آیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآنی لفظ آزر کافی ہے۔ وطن آبائی ملک بابل کا کلدانیہ (انگریزی تلفظ میں کا لڈیہ) تھا۔ جدید جغرافیہ میں اسی کو ملک عراق کہتے ہیں۔ جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اسی کا نام تورات میں (Ur) آیا ہے۔ مدتوں یہ شہر نقشہ سے غائب رہا۔ اب از سر نو نمودار ہوگیا ہے کھدائی کے کام کی داغ بیل 1894 ء ہی میں پڑگئی تھی۔ 1922 ء میں برطانیہ اور امریکہ کے ماہرین ِ اثریات کی ایک مشترک تحقیقی مہم برٹش میوزیم اور پنسلونیایونیورسٹی کے زیر اہتمام عراق کو روانہ ہوئی اور کھدائی کا کام پورے سات سال تک جاری رہا۔ رفتہ رفتہ پورا شہر نمودار ہوگیا اور عراق گورنمنٹ کے محکمہ آثار قدیمہ نے عجائب خانہ کے حکم میں لاکر ان کھنڈروں کو محفوظ کردیا۔ یہ شہر خلیج فارس کے دہانہ فرات اور عراق کے پایہ تخت بغداد کے تقریباً درمیانی مسافت پر ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی بزرگی اور نبوت چونکہ مسلمانوں کے علاوہ یہود اور نصرانیوں کو بھی مسلّم ہے اس لیے ان قوموں کے علما نے بھی آپ کے حالات کی تحقیق و جستجو میں کوئی درجہ کاوش کا اٹھا نہیں رکھا ہے۔ موجودہ محرّف بائبل میں تاریخی غلطیوں کی کثرت سے اکتاکر بعض روشن خیال محققین نے انیسویں صدی کے ربع آخر میں کہنا شروع کردیا تھا کہ ابراہیم نامی کوئی تاریخی شخصیت گزری ہی نہیں یہ محض ایک نوعی نام تھا یا ہر شیخ قبیلہ کا لقب۔ لیکن اب پھر تحقیق کا رخ بدلا اور بیسویں صدی کے ربع اول کے ختم ہوتے ہوتے پھر آپ کی تاریخی شخصیت کا پوری طرح قائل ہوجانا پڑا۔ نسلِ اسرائیل اور نسل اسماعیل دونوں میں ایک طرح کی رقابت اور چشمک مدتوں سے چلی آرہی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دونوں سلسلوں کے مورث اعلیٰ تھے اللہ کی نعمت خاص الخاص یعنی توحید کی علمبرداری اب نسل اسرائیل سے اس کی مسلسل نافرمانیوں کی پاداش میں چھن کر ایک اسمٰعیلی پیغمبر کے واسطہ سے اب ساری دنیا کے لیے عام ہورہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ابراہیمی شخصیت اور ان کے ضمن میں اسمٰعیلی شخصیت کی مرکزیت اور اہمیت سے دنیا کو روشناس کردیا جائے چناچہ یہاں یہی ہورہا ہے۔ (ماخوذ از تفسیر ماجدی) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک تو یہ تعارف ہے جو تاریخ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور دوسرا تعارف وہ ہے جو قرآن کریم کراتا ہے۔ قریش اور بنی اسرائیل دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اولاد ہونے کا تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کو اس بات پر اصرا رہے کہ ہم چونکہ حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور اللہ نے ابراہیم کو تمام دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کیا تھا اور آپ کی اولاد ہی میں ہزاروں سال تک نبوت چلی اس لیے کوئی قوم دنیا میں ہماری ہمسر نہیں ہوسکتی۔ زندگی میں ہم چاہے کیسے ہی کرتوت کریں ہماری نسلی شرافت جس طرح دنیا میں ہمارے لیے عزت کا باعث ہے اسی طرح آخرت میں بھی ہماری نجات کا ذریعہ ہے اور پھر بنی اسرائیل اس نسلی شرافت و کرامت کے نشے میں اس حد تک مخمور ہیں کہ وہ بنی اسماعیل کو بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہی نہیں بلکہ ان کی امامت کے وارث بھی ہیں۔ اللہ نے بنی اسرائیل ہی میں انبیاء پیدا کیے کتابیں اتاریں اور انھیں حامل دعوت امت ہونے کا شرف عطاکرکے ساری دنیا پر فضیلت دے دی۔ اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری ہمسری کا دعویٰ کرے اور نہ یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ ہمارے خاندان کے سوا کسی اور خاندان میں نبوت آسکے۔ قرآن کریم حضرت ابراہیم کی نسل کی ان دونوں شاخوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے حضرت ابراہیم کا وہ تعارف پیش کرتا ہے، جس کا تعلق نسل اور نسب سے نہیں بلکہ ُ اس حقیقت سے ہے جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا کی امامت پر فائز کیا گیا تھا۔ ابتلاء کا مقصد اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ ابراہیم ہمارے نبی تھے، لیکن ان کو دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز کرنے سے پہلے ان تمام آزمائشوں میں ڈالا گیا، جن آزمائشوں میں سے گزرنا اس منصب کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی کو بغیر کسی آزمائش میں پورا اترے اور بغیر چند صفات کو اپنے اندر پیدا کیے امامت و قیادت مل سکتی، تو اس کے سب سے زیادہ مستحق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے کیونکہ وہ اللہ کے نبی تھے اور اللہ نے اس کار خاص کے لیے ان کو منتخب فرمایا تھا۔ لیکن یہ اللہ کی سنت ہے جو کبھی نہیں بدلے گی کہ وہ جب کسی فرد یا قوم کے سپرد دنیا کی ہدایت کا کام کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے ان آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، جس سے اس کے اندر اللہ کی اطاعت، اللہ کا خوف، اللہ پر بھروسہ، دنیا سے بےالتفاتی، آخرت میں کامیابی کی حرص اور بےخوف وخطر خلق خدا کی اصلاح جیسی صفات پیدا ہوتی ہوں۔ آزمائشوں میں مبتلا کرنا اذیت رسانی یا دکھ میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود وہ صلاحیتیں پیدا کرنا اور انھیں نشو و نما دینا ہوتا ہے جو اللہ نے بندوں کے اندر ودیعت فرمائی ہیں، یہ آزمائشیں کبھی نرم ہوتی ہیں کبھی سخت، کبھی سرد ہوتی ہیں کبھی گرم، کبھی حوصلہ افزا ہوتی ہیں کبھی ہمت آزما، ہر طرح کے حالات میں مبتلا کرکے اس کار عظیم کے لیے تیار کرنا مقصود ہوتا ہے جسے بندوں کی ہدایت یا انسانوں کی امامت و قیادت کہا جاتا ہے۔ کلمات سے کیا مراد ہے ؟ ” ابتلٰی “ فعل ماضی ہے۔ اس کا مصدر ہے ” ابتلاء “۔ اس کا معنی ” جانچنا، پرکھنا، آزمانا اور امتحان کرنا “ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو امتحان کرنے اور آزمانے کے لیے مختلف قسم کی آزمائشوں میں مبتلا کیا وہ آزمائشیں کیا تھیں۔ ان کے لیے کلمات کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو کلمہ کی جمع ہے اس کے معنی ” لفظ کے یا بات “ کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں مراد اللہ تعالیٰ کے وہ احکام ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عزیمت اور استقامت کو آزمایا۔ سب سے پہلے انھیں اپنے اہل خانہ اور اپنے والد کو توحید کی دعوت دینے کا حکم ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے اور ان کے والد ملک کے امیر کبیر آدمی ہی نہیں تھے بلکہ اثر واقتدار میں بہت بڑی حیثیت کے مالک تھے۔ عراق کے سب سے بڑے بت خانے کے پروہت تھے۔ جس طرح ہندوستان میں راجہ کے بعد پروہت ہی کا مقام سمجھا جاتا ہے اور یہ دونوں باہمی ملی بھگت سے اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ یہی حال عراق میں بھی تھا۔ آپ چونکہ اکلوتے تھے اس لیے جانتے تھے کہ باپ کے مرنے کے بعد یہ ساری دولت و قیادت میرے حصے میں آئے گی اور باپ کو ناراض کرنے کی صورت میں دنیا میرے قدموں کے نیچے سے کھینچ لی جائے گی۔ لیکن آپ نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بےدریغ اپنے والد اور اپنے خاندان کو توحید کی دعوت دی اور شرک کی مذمت کرتے ہوئے انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ نتیجہ وہی ہو اجو ہونا چاہیے تھا، انھیں گھر سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد آپ کو عام لوگوں اور حکومت کو توحید کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا چناچہ آپ نے عمومی دعوت کے ساتھ ساتھ ایک دن موقع پاکر اپنی قوم کے بت کدے میں اذان بلند کی اور ان کے بتوں کو پاش پاش کردیا۔ چناچہ انھیں دین آبائی کی توہین کے جرم میں آگ میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک بہت بڑا آگ کا الائو جلا یا گیا جسے دیکھ کر ہی پتہ پانی ہوتا تھا آپ بےخطر اس الائو میں کود گئے اور اللہ نے آپ کی اس عزیمت اور استقامت کو دیکھتے ہوئے آپ کے لیے آگ کو گلزار بنادیا پھر بادشاہ کے سامنے آپ کو پیش ہونا پڑا اور اس نے اپنے اقتدار اور حکومت کے جبر اور رعب سے آپ کو دین حق سے پھیرنا چاہامگر بجائے اس کے کہ مرعوب ہوتے آپ نے حجتِ ابراہیمی سے اس کو مبہوت کرکے رکھ دیا۔ اقتدار جب دلیل کی جنگ ہار گیا اور آپ کے حوصلوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکاتو وطن چھوڑنے کا حکم دیا۔ اللہ کی جانب سے بھی ہجرت کا حکم آگیا۔ چناچہ آپ سالوں تک مختلف ملکوں میں اللہ کی توحید اور دین کی دعوت لے کرمارے مارے پھرتے رہے۔ آج فلسطین میں ہیں تو کل شرق اردن میں، آج بابل میں ہیں تو کل مصر میں، نہ جانے کہاں کہاں آپ نے اللہ کی دین کی خاطر غربت کی صعوبتیں اٹھائیں اسی حق ِامانت کی ادائیگی ہی میں عمر چوراسی سال کو پہنچ گئی کہ اللہ نے بیٹا عطا فرمایا۔ بڑھاپے کی اولاد اور وہ بھی اکلوتی کسے پیاری نہیں ہوتی۔ حضرت اسماعیل آپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن گئے۔ لیکن ابھی بچے نے دودھ نہیں چھوڑا تھا کہ اللہ کی طرف سے حکم آگیا کہ ماں اور بیٹے کو صحرائے عرب میں اللہ کے گھر کے پڑوس میں چھوڑ آئو جہاں کل کو اللہ کا گھر آباد ہونے والا تھا۔ لیکن وہاں گھاس کی پتی تک نہیں اگتی تھی۔ کہیں کہیں خانہ بدوشوں کے سوا کوئی انسانی آبادی نہیں تھی آپ بلاتأمل ماں بیٹے کو ساتھ لے کر اس دشت غربت میں پہنچے اور معمولی ساسامانِ خورد ونوش ان کے حوالے کرکے واپس لوٹ گئے۔ اللہ اپنے بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا بچے نے پیاس سے جب ایڑیاں رگڑیں تو اللہ نے وہیں سے پانی کا چشمہ جاری فرمادیا جسے دست ہاجرہ نے جلدی جلدی منڈیر بنا کر بہنے سے روک دیا اور وہ گہرا ہوتے ہوتے کنواں بن گیا جسے آج بیئرزم زم کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ حضرت ہاجرہ پر رحم فرمائے اگر وہ پانی کو بہنے سے نہ روکتیں تو وہ رواں دریا بن جاتا۔ اللہ نے حضرت ِ ہاجرہ اور ان کے صاحبزادے کی گزر بسر کے اور اسباب بھی مہیا فرمادیئے بچہ پروان چڑھنے لگاجب وہ اس قابل ہوگیا کہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹاسکے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو ایسی سخت آزمائش میں ڈالاجس کا تصور بھی کپکپادینے کے لیے کافی ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ آپ کی اطاعت اور محبت کے امتحان کے لیے صراحتاً حکم نہیں دیا بلکہ خواب دکھایا کہ آپ حضرت اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں۔ بیٹے کی قربانی کا کٹھن امتحان پیغمبر کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ مجھ سے بیٹے کی قربانی مانگی جارہی ہے۔ اندازہ کیجئے ! ایک طرف بڑھاپے کا سہارا، اکلوتا اور محبوب فرزند کہ زندگی بھر کے ارمان اس کی ذات سے وابستہ ہیں اور دوسری طرف اللہ جل جلالہ کا حکم۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایمان اور اللہ سے بےپناہ محبت دیکھئے کہ آپ نے بےدریغ اس بازی کے لیے آستینیں چڑھالیں اور یہ ثابت کردیا کہ گھر ہو یا وطن، دولت ہو یا اقتدار، بیوی ہو یا فرزند، یہ تعلق اور محبت کے تمام حوالے بہت عزیز ہیں، لیکن اللہ سے تعلق اور اس کی محبت ان سب سے بڑھ کر اور ان سب پر غالب ہے۔ اس کے مقابلے میں ان میں سے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تو وہ کڑے اور سخت امتحانات تھے جن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو گزارا گیا لیکن ان بڑے بڑے امتحانات کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے اعمال و احکام کی پابندیاں بھی آپ پر عائد کی گئیں جن پر عام حالات میں عمل کرنا اور پھر اس پر مداومت اختیار کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن آپ نے ان میں سے ہر ایک پر بتمام و کمال عمل کرکے دکھایا۔ ان اعمال کا تذکرہ بعض احادیث میں فطری احکام کے تحت آیا ہے۔ ابنِ کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں انھوں نے ذکر فرمایا ہے کہ پورا اسلام تیس حصوں میں دائر ہے۔ جس میں دس سورة برات میں مذکور ہیں اور دس سورة احزاب میں اور دس سورة مومنون میں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان تمام چیزوں کا پورا حق ادا کیا اور ان سب امتحانات میں پورے اترے اور کامیاب رہے۔ سورة برأت میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کی دس مخصوص علامات وصفات کا اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط وَبَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (التوبۃ : 112) (وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع و سجدہ کرنیوالے، نیک باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والے اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنادیجئے ) اور سورة مومنون کی دس صفات یہ ہیں : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خٰشِعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن۔ وَالَّذِ یْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوجِھِمْ حٰفِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُمَلُوْمِیْنَ ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِ ھِمْ رٰعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوَْسط ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (یقینا ان مسلمانوں نے فلاح پائی۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں۔ اور جو اپنے آپ کو پاک کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ لیکن اپنی بیویوں سے یا اپنی لونڈیوں سے کیونکہ ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں ! جو اس کے علاوہ طلب گار ہوں ایسے لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) (المومنون : 1 تا 11) اور سورة احزاب میں مذکورہ دس صفات یہ ہیں۔ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقیِْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیِْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وِالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًاوَّالذّٰکِرٰتِ اَعْدَاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔ (بےشک اسلام کے کام کرنے والے مرد اور اسلام کے کام کرنے والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں اور راستبازمرد اور راستباز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور بکثرت اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرعظیم تیار کررکھا ہے) (الاحزاب : 35) مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کے لیے جتنی علمی، عملی، اخلاقی صفات مطلوب ہیں وہ ان تینوں سورتوں کی چند آیات میں جمع کردی گئی ہیں اور یہی صفات وہ کلمات ہیں جن میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کا امتحان لیا گیا اور آیت وَاِذِابْتَلٰٓی اِبْرَاھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ میں انھیں صفات کی طرف اشارہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احکام کی تعمیل اور امتحانِ الہٰی میں کامیابی انسان کو دینی پیشوائی اور سرداری کا مستحق بنادیتی ہے انبیائے کرام اور آپ کے راستے پر چلنے والوں کا یہی امتیاز ہے۔ آپ تاریخ میں ایسے بہت سے صالح انسانوں کو دیکھیں گے جو اعمال صالحہ کے انجام دینے میں نمونے کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن حق و باطل کی آویزش میں یا عزیمت اور استقامت کے مقام پر کمزور ثابت ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جن کا عزم و ارادہ پہاڑوں کو شرما دیتا ہے۔ لیکن اعمال پر مداومت میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) احکام کی تعمیل اور عزیمت اور استقامت کے امتحان دونوں میں سرخرو ٹھہرے۔ مختصر یہ کہ جب زندگی کی ہر چاہت اور محبت اللہ کے راستے میں قربان کر ڈالی اور دنیا کا ہر خطرہ اور ہر مشکل جو آدمی کے حوصلے کے لیے چیلنج بن سکتی ہے اللہ کے راستے میں برداشت کرلی تو تب اللہ نے فرمایا کہ ابراہیم میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں۔ کلمہ کے ایک اور پہلو سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک ایک صفحہ جاں بازی اور جاں سپاری کے کارناموں سے درخشاں ہے۔ جن میں سے ہم نے چند ایک کا ذکر کیا ہے لیکن کلمات کے لفظ کو دیکھتے ہوئے ان کارناموں کی گہرائی کا کچھ اور اندازہ کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جب احکام دیتا ہے تو عموماً اس پر عمل کو آسان کرنے کے لیے ترغیب سے بھی کام لیتا ہے اور اجر وثواب کا ذکر بھی فرماتا ہے۔ ترغیب سے طبیعتیں عمل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اجروثواب اور صلے کو دیکھ کر قربانی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کو جتنے احکامات دیئے گئے ہیں جو آپ کے لیے امتحان کا درجہ رکھتے ہیں وہ بغیر کسی ترغیب اور اجر وثواب کا ذکر کیے محض کلمات کی صورت میں یعنی محض احکام کی شکل میں دیئے گئے۔ جس طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی محض خواب دکھا کر طلب کی گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دیکھنا یہ مقصود تھا کہ کیا میرا خلیل ترغیب اور اجروثواب کی امید پر ہماری طرف مائل ہوتا ہے یا ہر وقت اس کا دل ہمارے لیے تڑپتا اور ہماری رضا پر قربان ہونے کے لیے بےچین رہتا ہے۔ چناچہ خلیل اللہ نے ثابت کردیا کہ جس طرح زیتون کا تیل شعلہ آتش کے قریب آنے سے بھڑک اٹھتا ہے اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دل اللہ کا حکم آنے سے تعمیل اور قربانی کے لیے بےقرار ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی شخصیت اس قابل ہے کہ وہ دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز کی جائے۔ امامت کا منصب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صفات کا امین اس پوری صورتحال سے بنی اسرائیل کو یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا کی امامت کا جو تاج تمہارے سروں پر رکھا گیا تھا وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ان صفات اور اس روایت کا امین تھا۔ اس کا تعلق آپ کے نسب یا نسل سے نہیں تھا بلکہ ان ذمہ داریوں ان وفاشعاریوں اور ان جاں سپاریوں سے تھا جس کی درخشاں تاریخ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام سے روشن ہے۔ تمہیں تو انھیں کی طرح عزیمت و استقامت اور اطاعت و محبت الہٰی کا ثبوت دینا تھا۔ لیکن تم نے جو کچھ کیا اس کی ایک مجمل تاریخ گذشتہ دس رکوعوئوں میں گزر گئی۔ اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے نے اس حقیقت کو مزید مبرہن کردیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے امامت کی خوشخبری سنائی تو آپ نے عرض کی کہ یہ امامت کا منصب صرف میرے لیے ہے یا میری اولاد بھی اس سے نوازی جائے گی۔ اس کے جواب میں پروردگار نے ارشاد فرمایا : لاَ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ” میرا یہ وعدہ ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو ظالم ہوں گے “ یعنی آپ کی امامت آپ کی صفات کے ساتھ مشروط ہے آپ کی ذات یا آپ کے نسب کے ساتھ نہیں۔ جو شخص آپ کی اولاد میں سے ہوگا لیکن ان صفات سے اور ایمان وعمل سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہوگا اس کا اس منصب سے کوئی رشتہ نہیں۔ قرآن کریم میں جابجا ظلم کا لفظ حق شکنی اور حق تلفی کے ساتھ ساتھ شرک، بدعملی اور نافرمانی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ فرمایا : َومِنْ ذُرِّیَّتِھِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّـنَـفْسِہٖ مُبِیْنٌ۔ (الصٰفٰت : 113) (اور ان دونوں کی اولاد میں ٹھیک عمل کرنے والے بھی ہیں اور اپنی جانوں پر کھلا ہوا ظلم کرنے والے بھی) یہاں ظالم کا لفظ محسن کے مقابلے میں آیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حسن عمل سے محروم ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی روش پر قائم نہیں ہیں وہ ظالم ہیں اور ظالموں کو امامت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ اس وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بنی اسرائیل اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور انھیں ایک وقت میں امامت وسیادت کا منصب بھی دیا گیا تھا۔ لیکن جب رفتہ رفتہ حضرت ابراہیم کی روش اور اللہ کے نبیوں کی لائی ہوئی شریعت و ہدایت سے بےگانہ ہوگئے۔ تو وہ اس امامت و سیادت سے محروم کردیئے گئے اور جہاں تک بنی اسماعیل کا تعلق ہے ان پر اگرچہ حامل دعوت ہونے کی ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی لیکن ایمان وعمل کی ذمہ داریوں کے وہ بھی مکلف تھے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ شریعت کا ایک ایک تسمہ توڑ ڈالا اور ایمان وعمل کی تمام ذمہ داریوں سے بیگانہ ہوگئے۔ اس لیے ان کا تو سرے سے حضرت ابراہیم کی وراثت سے کوئی تعلق باقی نہ رہا۔ حاصل کلام یہ کہ بنی اسرائیل ہوں یا بنی اسمعیل اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ” میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والاہوں “ فرماکر یہ واضح کردیا کہ حضرت ابراہیم بنی اسرائیل کے بھی امام ہوں گے اور بنی اسمعیل کے بھی۔ آپ کی نسل سے وجود میں آنے والی یہ دونوں شاخیں صرف آپ کی اولاد ہی نہیں ہوں گی بلکہ آپ ان کے امام اور پیشوا بھی ہوں گے۔ البتہ آپ کی امامت اور پیشوائی کے وارث وہ لوگ ہوں گے جو ایمان وعمل سے بہرہ ور اور حضرت ابراہیم کی روش پر قائم ہوں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی سے پھوٹنے والی بات کہی گئی ہے کہ جب بنی اسمعیل اور بنی اسرائیل دونوں کے امام اور پیشوا حضرت ابراہیم ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ان دونوں شاخوں کا قبلہ بھی وہی ہو جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کریں گے اور اس کو قبلہ ٹھہرائیں گے۔
Top