Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
۔ اے ہمارے رب ! تو ان میں انھیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ طاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ (البقرۃ : 129) (اے ہمارے رب ! تو ان میں انھیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے) ” رَبَّنَا “ سے صفت ربوبیت کی توجہ دلا کر رسالت پر دلیل قائم کی : اس دعا کا ایک ایک لفظ انتہائی قابل توجہ اور از بس سبق آموز ہے۔ رَبَّنَا کہہ کر اللہ کی صفت ربوبیت کے حوالہ سے عرض کی کہ اے ہمارے رب ! ہمیں زندگی کی جو نعمتیں، زندگی کے امکانات، زندگی کی رعنائیاں، میسر ہیں، یہ سب تیری صفت ربوبیت کا صدقہ ہیں۔ تو نے ہمیں خلق کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ جو ضرورت پیدا ہوئی اسے بھی مہیا فرمایا، بچپن دیا تو اس کے سنبھالنے والے بھی دئیے، لڑکپن دیاتو اس کے ناز بردار بھی عطاکیے، جوانی دی تو جوانی کے ولولے بھی دئیے، عمر آگے بڑھی تو شعور کی آگہی بھی عطا کی، دل و دماغ کی رعنائیاں بخشیں توقوتِ عمل اور ارادوں کی بلندی سے بھی مالا مال کیا، زندگی میں تنوع کا ذوق دیا تو قوت ایجاد بھی بخشی، حسن دیا تو حسن کا اداشناس بھی بنایا، عشق بخشا تو پگھلنے کی توفیق بھی دی، غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی ربوبیت کے احسانات سے گراں بار ہے۔ لیکن یہ ساری نعمتیں بےکارہوتیں اگر زندگی کی صحیح نہج صحیح منزل، اور صحیح سمت کا شعور نہ بخشا جاتا۔ زندگی کے پرپیچ رستوں میں صراط مستقیم کی خبر نہ دی جاتی۔ شیطنت کے ہر طرف پھیلے ہوئے بہکاو وں میں ہدایت اور ہادی سے بہرہ ور نہ کیا جاتا۔ چناچہ اس کی صفت ربوبیت نے ہمیں اس معاملے میں بھی بےسہارا نہیں چھوڑا اس نے اس بات کو اپنی ذمہ داری ٹھہرایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی ” بیشک زندگی میں رہنمائی دینا ہماری ذمہ داری ہے “۔ اس کے لیے اس نے رسول بھیجے کتابیں اتاریں اور انسان کو گمراہی سے بچانے کا انتظام کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اللہ کے گھر کے پاس اپنی اولاد کو بسایا اور اس سرزمین کو شہر بنایا، اس کے لیے امن اور رزق کی دعائیں مانگیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دعا نہ مانگی جاتی جس کے نتیجے میں انسان کو انسانیت ملتی ہے، شہروں میں صحیح معاشرت وجود میں آتی ہے، حکومت کا صحیح تصور پیدا ہوتا ہے، صحیح قانون اور صحیح آئین وجود میں آتا ہے اور بالخصوص زندگی اللہ کے گھر سے وابستہ ہوجاتی ہے اور انسان اپنی زندگی کے راز کو پالیتا ہے۔ چناچہ اسی کے لیے آپ نے اللہ سے آخری رسول مانگا اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور یہ فرمایا کہ یہ رسول ہم سب سے آخر میں بھیجیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذہانت کی داد دینا پڑتی ہے کہ آپ نے رسول مانگا تو ان تمام ضرورتوں اور نزاکتوں کا بھی خیال رکھا جو کسی بھی امت کے لیے رسول سے استفادہ کی خاطر ضروری ہیں۔ پہلی بات فرمائی کہ یا اللہ ! جن لوگوں کو میں تیرے محترم گھر کے پاس بسا رہا ہوں ان میں وہ رسول بھیجناجس کی تعلیم کے نتیجے میں ایک امت مسلمہ وجود میں آئے کیونکہ اگر ان میں وہ رسول نہ آیا تو وہ امت وجود میں نہیں آئے گی جس کے کندھوں پر پوری دنیا کی اصلاح کا بوجھ ڈالا جانے والا ہے اور دوسری بات یہ فرمائی کہ یا اللہ ان میں وہ رسول بھیجنا جو انھیں میں سے ہو جن کو یہ لوگ جانتے پہنچانتے ہوں جو ان کی زبان بولتاہو، جو ان کے معروف کو سمجھتاہو، جو ان کا مزاج آشنا ہو، اور یہ لوگ اس رسول کے خاندان سے واقف ہوں اور اس کی قبل از نبوت زندگی ان کے سامنے گزری ہو، تاکہ انھیں اس سے استفادہ کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور اس کی قوم اس رسول پر بیخبر ی کے باعث کوئی الزام اور کوئی عیب نہ لگاسکے اور انھیں دونوں باتوں میں اشارہ اس جانب بھی ہے کہ یہاں چونکہ حضرت اسماعیل کی اولاد بسے گی تو جو رسول انھیں میں سے آئے گا وہ یقینا آل اسماعیل میں سے ہوگا۔ اس کا بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ بات قرآن کریم، بنی اسرائیل کو سنا رہا ہے کہ تم نے جس طرح لوگوں کو گمراہ کررکھا ہے کہ آخری آنے والا نبی بنی اسرائیل میں سے ہوگا ہم تمہارے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا وہ ورق الٹ کر دکھا رہے ہیں جس کا تعلق بیت اللہ سے ہے اور جس میں اس نے آنے والے پیغمبر کے لیے دعائیں مانگی ہیں اس میں بنی اسرائیل یا بنی اسحاق کا دور تک کوئی تعلق نہیں کیونکہ ان کی اولاد مکہ معظمہ یا عرب میں آباد نہیں ہوئی اس سرزمین میں حضرت اسماعیل کی اولاد آبا ہوئی ہے اس لیے یہ دعائیں انھیں سے تعلق رکھتی ہیں اور یہی بات تورات سے بھی ثابت ہوتی ہے تثنیہ باب اٹھارہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مشہور پیشیگوئی ذکر کی گئی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے : ” تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا “ یہ الفاظ صاف اشارہ کررہے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسماعیل ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک فرد ہیں اور آپ کے بھائی بنی اسماعیل ہیں۔ آپ کے بھائیوں میں سے نبی برپا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نبی بنی اسماعیل میں سے آئیگا کیونکہ اگر اس نبی کو بنی اسرائیل میں سے آنا ہوتا تو پھر یہ نہ کہا جاتا کہ تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکروں گا بلکہ یوں کہا جاتا کہ تمہیں میں سے تمہاری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ خود رسول اللہ ﷺ بھی اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قرار دیتے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں آپ لوگوں کو اپنے معاملہ کی ابتدا بتلاتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں۔ “ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت سے مراد ان کا یہ قول ہے جسے قرآن کریم نے نقل کیا ہے : اِنِّیْ مُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّأتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہٗ اَحْمَدْ ” میں بشارت دینے کے لیے آیا ہوں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہوگا “ اور والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلاجس سے ملک شام کے محلات جگمگا اٹھے۔ حالی نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ؎ یکایک ہوئی غیرت حق کو حرکت بڑھا جانبِ بوقبیس ابر رحمت ادا خاک بطحا نے کی وہ ودیعت چلے آئے تھے جس کی دیتے شہادت ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل و نوید مسیحا بعثت رسول ﷺ کے تین مقاصد اس کے بعد، آنے والے رسول کے تین مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ 1: تلاوتِ آیات۔ 2: تعلیمِ کتاب و حکمت۔ 3: تزکیہ نفوس۔ تلاوت اور تعلیم کو الگ الگ بیان کرنے کی وجہ یہاں غور کیجئے ! تلاوت اور تعلیم کو الگ الگ دو مقاصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے۔ ان دونوں کو الگ الگ بیان کرنے سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی مقصود ہیں۔ جب قرآن پاک کی تعریف کی جاتی ہے تو صرف اس کے معانی کو قرآن نہیں کہا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے : ھوالنظم والمعنی جمیعا کہ ” قرآن کریم الفاظ اور معنی دونوں کا نام ہے “۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح اسلام میں وحی کا تصور صرف معنی کا دل میں القا کردینا نہیں وہ اپنی کتابوں کے بارے میں یہی تصور رکھتے ہیں کہ ان کتابوں کا معنی اور مفہوم ان کے پیغمبروں پر نازل ہوا تھا جسے انھوں نے اپنے الفاظ میں ترتیب دے کر اپنی امتوں تک پہنچایا، شائد یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی گئیں اور ہر ترجمے کو انھوں نے کتاب اللہ قرار دیا جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ جس اصل زبان میں سب سے پہلے وہ کتاب مرتب ہوئی تھی وہ مٹ گئی۔ باقی صرف ترجمے رہ گئے اب یہود اور نصاریٰ کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کی کتابیں اصل میں کس زبان میں تھیں۔ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کے الفاظ نازل ہوئے تھے، جس طرح آج ہم قرآن پاک کے الفاظ کی تلاوت کرتے ہیں، اسی طرح یہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئے تھے اور مزیدیہ کہ صرف الفاظ ہی نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے پڑھنے کا طریقہ ان کے مخارج، ان کی ادائیگی کا اسلوب، ان کا لب و لہجہ، جسے آج تجوید کے نام سے ایک فن کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ سب کچھ آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو قرآن پاک پڑھنا سکھایا اور پھر انھیں الفاظ کا دور ہر سال ایک دفعہ حضور کے ساتھ کرتے اور آخری سال دو دفعہ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے یہی لب و لہجہ اور قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ امت تک منتقل کیا۔ چناچہ آج ہم جب قرآن پاک پڑھتے ہیں تو ہم ان دونوں باتوں کی پابندی کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی لفظ بدلنے نہ پائے، اس کے اعراب میں غلطی نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ پڑھنے کے انداز میں کوئی تبدیلی نہ آنے پائے۔ آنحضرت ﷺ کی تلاوت سے اہل علم نے جو اصول اخذ کیے ہیں انھیں فنِ تجوید کے نام سے مدون کردیا گیا ہے۔ قراء حضرات انھیں اصولوں کی پابندی سے قرآن پاک خود پڑھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھنا سکھاتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی صرف قرآن پاک کے معنی اور مفہوم اور اس کے احکام کو قرآن قرار دیتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقصود اگرچہ قرآن پاک کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے لیکن چونکہ الفاظ بھی قرآن کریم کی حقیقت میں شامل ہیں اور یہی کلام اللہ ہے اس لیے ان سے صرف نظر کرنا انتہائی گمراہی ہے۔ مسلمانوں کو اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن حصول ثواب و تقرب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت انتہائی ضروری ہے۔ ایک آدمی اگر قرآن کریم کو نہیں سمجھتا وہ صرف اس کو سادہ پڑھنا جانتا ہے، تو قرآن سمجھنے کی کوشش نہ کرنا یقینا ایک کوتاہی ہے جس کی بازپرس ہوگی۔ لیکن بغیر سمجھے اس کی تلاوت اجر وثواب سے خالی نہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے اسے پڑھنے سے آدمی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس کے انوار اس پر برستے ہیں، وہ جتنا اخلاص اور محبت سے پڑھے گا اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ صحابہ کرام باوجودِ یکہ قرآن پاک کی زبان کو خوب سمجھتے تھے لیکن وہ صرف غور و فکر پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ مسلسل اس کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔ ہفتہ میں ایک دفعہ قرآن پاک ختم کرنا تو ایسا معمول تھا جس میں کوئی صحابی بھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ قرآن پاک کے الفاظ کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ اور یہ نازک احساس ہی ہے جس نے آج تک قرآن پاک کے الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے دی اور یہ قرآن سے محبت کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ ایک بڑی تعداد حفاظ کی رہی ہے اور اسی عقیدہ اور احساس کا نتیجہ ہے کہ فقہائے کرام نے صرف ترجمے کو بغیر الفاظ کے شائع کرنا حرام قرار دیا ہے اور صرف ترجمے کو قرآن کہنے سے منع کیا ہے اور یہ بھی ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص صرف ترجمہ پڑھتا ہے تو اسے قرآن پڑھنے پر جو اجروثواب ملتا ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ آیاتِ قرآنی کی تحقیق آیاتِ قرآنی اگرچہ الفاظ ہی کے مجموعے کا نام ہے، لیکن اس کا معنی اور مفہوم ایک اور حقیقت کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔ آیات، آیت کی جمع ہے۔ یہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جاسکے۔ اس پہلو سے آسمان اور زمین کی ہر چیز آیت ہے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر چیز اللہ کی قدرت اور حکمت اور اس کی مختلف صفات خلق و تدبیر پر ایک دلیل ہے۔ اسی طرح انبیائے کرام کے معجزات بھی آیت کہلاتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے پیش کرنے والوں کی سچائی پر دلیل تھے۔ علی ہذالقیاس قرآن پاک کے الگ الگ جملوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر آیت کی حیثیت ایک دلیل اور برہان کی ہے۔ جس سے اللہ کی صفات اور اس کے احکام و قوانین کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور ان میں سے ایک ایک آیت بعض دفعہ گہری حقیقتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ تلاوتِ آیات مختصر یہ کہ الفاظِ قرآن، قرآن کی حقیقت میں شامل ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کے منصبی فرائض میں سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ تلاوت کے ساتھ جب علیٰ کا صلہ آتا ہے تو اس سے فعل تلاوت میں ایک زور اور اختیار کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ کا نبی اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے تو وہ اس طرح تلاوت نہیں کرتاجی سے خوش الحان قاری لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتا ہے۔ وہ خود بھی جھومتا ہے لوگ بھی جھومتے ہیں بلکہ اللہ کا نبی جب قرآن پڑھ کر سناتا ہے تو وہ اللہ کے قاصد اور اس کے سفیر کی حیثیت سے اللہ کے فرامین اللہ کے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ سننے والے چاہے ہزار مخالف ہوں، چاہے ان کے ہاتھوں پیغمبر کی جان کو بھی خطرہ ہو لیکن جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو چونکہ اس کی زبان سے اللہ بولتا ہے اس لیے اس کا لب و لہجہ ایک تحکم کا انداز رکھتا ہے اور اس کی بےخوفی اور بےنیازی احکم الحاکمین کی بےخوفی اور بےنیازی کا پر توہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں جو کچھ پڑھ کر سنا رہا ہوں یہ میرا نہیں بلکہ اللہ کا کلام اور اس کے احکام کا مجموعہ ہے۔ اس کے لب و لہجہ میں شان و شکوہ کے ساتھ ساتھ گہری فکری مندی اور دل سوزی بھی ہوتی ہے۔ جس سے وہ سننے والوں کے نازک احساسات کو بھی انگیخت کرتا ہے اور آنے والے خطرے سے بھی انھیں آگاہ کرتا ہے کہ اگر تم نے قرآن کریم کو کماحقہ اہمیت نہ دی تو یاد رکھو ! تم اللہ کے عذاب کا شکا رہوجاؤ گے۔ تعلیم کتاب و حکمت آنحضرت کا دوسرا فرضِ منصبی، تعلیمِ کتاب و حکمت ہے۔ تعلیم تلاوت سے ایک بالکل مختلف اور زائد چیز ہے۔ تلاوتِ آیات کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ کا رسول لوگوں کو وہ آیات پڑھ کر سنا دیتا ہے جو اس پر نازل ہوئیں۔ پڑھنے کا طریقہ ان پر واضح کردیتا ہے۔ ضرورت محسوس ہوئی تو آداب سے آگاہ کردیتا ہے۔ لیکن یہ بات کہ اس کا معنی اور مفہوم کیا ہے۔ اس کا تعلق تلاوت سے نہیں تعلیم سے ہے۔ ایک معلم کا کام یہ ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کے پڑھنے والے کو پہلے الفاظ کے معنی سمجھائے پھر ان کی مراد واضح کرے، پھر اس میں اگر کوئی مشکلات ہوں تو انھیں آسان کرے، اگر اس میں کوئی اجمال ہے تو اس کی تشریح کرے، ابہام ہے تو وضاحت کرے۔ اگر بین السطور کوئی اعتراض، کوئی اشکا ل، مقد رہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی چیز مضمر ہے تو اسے کھولے، اگر کسی آیت کا تعلق احکام سے ہے تو احکام کا معنی اور مفہوم واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عملی صورت کو بھی واضح کرے۔ یعنی تھیوری کو پریکٹس میں لاکردکھائے اور اگر ضرورت مخاطب کی ذہنی تربیت کی ہو تو سوالات کی صورت میں ذہن کو جلا دینے کی کوشش کرے۔ غرضیکہ جن جن باتوں سے افہام و تفہیم میں آسانی ہو، فکر و تدبر کی صلاحیت بڑھے اور کتاب الہٰی پر غور کرنے کی استعداد میں اضافہ ہو وہ سب کچھ کرنا ایک معلم کی تعلیمی ذمہ داری ہے۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو تعلیم دیتے ہوئے ان تمام چیزوں کا خیال رکھا اور ان تمام ضرورتوں کو پورا فرمایا بلکہ آپ کی تعلیم کی جو امتیازی خصوصیت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی عمل سے صرف عمل کا نمونہ ہی پیش نہیں فرمایا بلکہ عمل کی آمادگی کے لیے جن احساسات، محرکات اور کیفیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک ایک چیز کو آپ نے تعلیم کا حصہ بنا لیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ تلاوتِ کتاب کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر قرآن کی صورت میں نازل ہوا وہ آپ نے پڑھ کر سنا دیا لیکن ان آیات کی تعلیم دیتے ہوئے آپ نے جو کچھ فرمایا جو وضاحتیں فرمائیں، جو شرح و تفسیر کی، جو تفصیلات مہیا فرمائیں، جو عمل کرکے دکھایا، یہ سب کچھ یقینا تلاوتِ کتاب سے ایک زائد چیز ہے۔ یہی وہ زائد چیز ہے جو تعلیم کا لازمی حصہ ہے اس کے بغیر تعلیم کا کوئی تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف کسی کتاب کو پڑھ کر سنا دینا تو تعلیم نہیں تعلیم تو جیسے پہلے عرض کیا اس سے ایک زائد چیز ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اپنے پاس اپنے اساتذہ کے تشریحی نوٹس محفوظ رکھتے ہیں، انھیں کی مدد سے وہ کتاب کو سمجھتے ہیں اور انھیں کی مدد سے وہ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی ان سے یہ کہے کہ تمہارے پاس اصل ٹیکسٹ بک یعنی نصابی کتاب موجود ہے تو تمہیں ان تشریحی نوٹس کی کیا ضرورت ہے ؟ تو وہ کہنے والے کی جہالت پر ہنسیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ معلم کی ضرورت اسی لیے تو ہے کہ وہ کتاب کی تعلیم دے اور یہ تشریحی نوٹس اسی تعلیم کا ثمرہ ہی تو ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے نتیجے میں احادیث اور سنت وجود میں آئی ہیں، کتاب اللہ کو ان کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔ تشریح اور تفسیر کے حوالے سے قدم قدم پر حدیث و سنت کی ضرورت پڑتی ہے اور کتاب اللہ کے احکام کا تو تمام تر دارومدار حدیث اور سنت پر ہے ورنہ ان کی کوئی سی شکل متعین کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہی وہ بیان ہے جس کی ذمہ داری لیتے ہوئے پروردگار نے فرمایا : اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ ” اس کتاب کا بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے “۔ حکمت کیا ہے ؟ تعلیم کتاب میں ہم نے یہ جو عرض کیا کہ قرآن سیکھنے والوں میں فکر و تدبر کی صلاحیت پیدا کرنا اور قرآن کریم میں غور وفکر کی استعداد پیدا کرنا یہ بھی تعلیم کا ایک حصہ اور معلم کی ذمہ داری ہے۔ درحقیقت عام ضروریات سے آگے بڑھ کر قرآن پاک کا ایسا ادراک پیدا کردینا کہ جس سے استنباط اور استتناج کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور عبارت کے ساتھ ساتھ کتاب کے اشارات اور اس کی دلالات کو سمجھنے کامل کہ بھی پیدا ہوجائے اور پھر دل میں ایک ایسی لگن پیدا ہوجائے جس سے کتاب سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق ادا کرنے کی امنگ بھی کروٹ لینے لگے۔ تو یہی وہ چیز ہے جس کو حکمت کہا جاسکتا ہے اور یہ چیز قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث اور سنت کے سائے میں رہنے سے ملتی ہے۔ اہل علم نے اگرچہ حکمت کے مختلف مفہوم مراد لیے ہیں۔ کہیں اس کو علم صحیح کہا گیا ہے، کہیں نیک عمل، کہیں عدل و انصاف، کہیں قول صادق، لیکن حضرت شیخ الہند نے اس کا ترجمہ تہہ کی باتوں سے کیا ہے اور یہی وہ تہہ کی بات ہے جو آنحضرت ﷺ کی حدیث اور سنت سے ملتی ہے۔ جو سرتاپا قرآن کریم ہی سے ماخوذ اور مستنبط ہوتی ہے۔ تزکیہ نفوس کا مفہوم آنحضرت ﷺ کا تیسرا فرضِ منصبی تزکیہ نفوس ہے۔ تزکیہ کا معنی ہے ” صاف ستھرا بنانا “۔ اس میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک ہے ظاہری اور باطنی نجاسات سے پاک کرنا۔ ظاہری نجاسات سے تو سب واقف ہیں باطنی نجاسات سے مراد کفر، شرک، غیر اللہ پر اعتماد کلی اور اعتقادِ فاسد نیز تکبر وحسد، بغض، حبِ دنیا وغیرہ ہیں۔ ان تمام نجاستوں سے پاک کرنا بھی تزکیہ میں شامل ہے۔ دوسرا مفہوم جو اس میں شامل ہے وہ ہے نشو و نما دینا۔ درحقیقت یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اسے مثال سے یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک کاشت کار زمین میں کوئی فصل پیدا کرنے سے پہلے زمین کا تزکیہ کرتا ہے۔ اس میں اگر جڑی بوٹیاں پھیلی ہوئی ہیں تو وہ انھیں اکھاڑ پھینکتا ہے زمین میں اگر کھائیاں ہیں تو وہ انھیں پاٹتا ہے۔ کہیں ٹیلے ہیں تو انھیں زمین کے برابر کردیتا ہے پھر زمین میں ہل چلا کر، سہاگہ دے کر زمین کو بھربھری بناتا ہے یعنی وہ تمام علائق اور موانع جو کاشتکاری میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک ایک چیز کو ختم کرتا ہے۔ اس طرح سے زمین جب کاشتکاری یاتخم قبول کرنے کے قابل ہوجاتی ہے تو تب وہ تخم کاشت کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کا پہلا مرحلہ ہے۔ پھر جب وہ تخم کاشت کردیتا ہے، تو اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ جس چیز کو کاشت کیا گیا ہے، اسے کھاد کے ذریعے اور مسلسل نگرانی سے اس قابل بنایاجائے کہ ہوائوں کے جھونکے اسے جڑ سے نہ اکھاڑ سکیں۔ آبیاری کا ایسا سامان ہو کہ دھوپ کی تمازت اسے جلانے میں ناکام رہے۔ اسے ہر ممکن طریقے سے اس قابل بنایا جائے کہ اس میں استقلال اور استقامت کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ ان دونوں مراحل کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ تزکیہ کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ بالکل یہی حال انسانی نفوس اور انسانی طبائع کا ہے۔ سب سے پہلے تزکیہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس کا تزکیہ کرنا مقصود ہو اس کے افکار کی حالت کو دیکھا جائے اگر اس میں فکری جمو د ہے تو اسے توڑا جائے اور اگر اس کے دل و دماغ میں غلط قسم کے افکار جگہ بناچکے ہیں تو انھیں نکالنے کی تدبیر کی جائے۔ اگر خواہشات مقاصد کا درجہ حاصل کرچکی ہیں تو ان کے لیے صحیح نہج اختیار کی جائے اور اگر ضروریات پوری زندگی پر غالب آچکی ہیں تو زندگی کا حقیقی شعور پیدا کیا جائے اور اس کے مقاصد کا صحیح تعین کیا جائے۔ فکری نہج کو درست کرنے کے بعد اخلاقی حالت کو دیکھا جائے، اگر حسن اخلاق کے بجائے اخلاقِ فاسدہ طبیعت میں راسخ ہوچکے ہیں تو ان کے ازالے یا امالے کی کوشش کی جائے اور اگر بلند انسانی اقدار کی جگہ حیوانی خصوصیات نے جگہ لے لی ہے تو انھیں انسانی اقدار سے بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح سے جب تزکیہ کا طالب تمام موانع سے آزاد ہوجائے تو اب اس کے اندر اللہ اور رسول کی محبت، دین سے والہیت، اللہ کا خوف اور فکر آخرت کے اثرات گہرے کرنے کی کوشش کی جائے اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تزکیہ کے طالب میں استقلال اور استقامت کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں افکارِ باطلہ، اخلاقِ فاسدہ اور ہوائے نفس اس پر حملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ وہ بڑی توانائی اور ثابت قدمی سے ان میں سے ایک ایک چیز کا مقابلہ کرسکے گا۔ رفتہ رفتہ اس میں یہ قوت پیدا ہوجائے گی کہ وہ دوسروں سے متاثر ہونے کی بجائے دوسروں پر اثرانداز ہوگا اس کا ہر عمل متعدی ہوگا جس سے دوسرے اثر پذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ جس طرح پانی مختلف اثرات سے جم کر جب برف بن جاتا ہے، تو پھر وہ صرف پانی نہیں رہتا بلکہ دوسروں کو ٹھنڈک پہنچا تا ہے۔ جو بھی اسے ہاتھ لگاتا ہے ٹھنڈک محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور جس ماحول میں اسے رکھا جائے گا وہ ماحول برودت کے اثرات قبول کیئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس تفصیل سے آپ نے اندازہ کیا ہوگا کہ تزکیہ تعلیم سے ایک مشکل کام ہے جس کے لیے نہائت دیدہ ریزی، مشقت اور صبر وریاض کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے لیے تزکیہ کرنے والے کو اپنی شخصیت پگھلانی پڑتی ہے۔ اسی کی شخصیت کے اثرات ہیں جن سے دوسری صالح شخصیتیں وجود میں آتیں اور آہستہ آہستہ ایک چمن کھل اٹھتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کا تزکیہ ایسی ہی کاوشوں اور ایسے ہی احساسات کے ساتھ فرمایا تھا۔ جس کا نتیجہ تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ وہ لوگ جو علم کے لحاظ سے جاہل، اخلاق کے لحاظ سے بدقماش اور انسانیت کے لحاظ سے پرلے درجے کے حیوان تھے، اس تزکیہ کے عمل نے پہلے انھیں ہر طرح کی کج روی اور برائی سے نکالا اور اس کے بعد مسلسل محنت سے اس طرح انھیں نشو و نما دیا کہ ابو بکرص، صدیق ہوگئے، عمر، فاروقِ اعظم بن گئے، عثمان، صاحب الحیاء کہلائے اور علی ص، حیدر کرار ہوگئے، خالد ص، سیف اللہ بن گئے، ابو عبیدہص، امین الامت بن گئے، غرضیکہ ایک ایک صحابی چرخ ہدایت کا ایسا ستارہ بن کے چمکا کہ جس نے باطل کی ہر ظلمت کو کافور کردیا۔ آنحضرت ﷺ کے تزکیہ نے صحابہ میں جو حیرت انگیزصفات پیدا کیں اقبال نے ان میں سے چند کا ذکر بڑی خوبصورتی سے مندرجہ ذیل اشعار میں کیا ہے ؎ خاکی و نوری نہاد بندئہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بےنیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب عہدِ کہن کو دیا اس نے پیام رحیل ساقیِ اربابِ ذوق فارسِ میدانِ شوق بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل تزکیہ کی حقیقت کو جتنی گہری نظر سے دیکھنے کی کوشش کی جائے اتنی ہی اس کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک تزکیہ کرنے والا ایک طرف تو علمی طور پر تزکیہ کے طالب کو ایک ایک عقیدہ فاسد، ایک ایک فکری کج روی، ایک ایک بد اخلاقی، ایک ایک عادت بد اور ایک ایک گندے تصور سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر مسلسل تربیت سے ان چیزوں سے اسے پاک بھی کرتا ہے۔ لیکن انسان کی اس کمزوری کا کیا علاج کیا جائے کہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک چیز کے غلط ہونے کو جانتا ہے، وہ علمی طور پر خوب واقف ہے کہ فلاں چیز میرے دین کے لیے مہلک ہے اور اچھے ماحول میں رہ کر یا زور دینے پر وہ بری چیزوں سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے، لیکن اس کے اندر وہ قوت پیدا نہیں ہوتی جو اسے بری چیزوں کے قریب نہ جانے دے اور وہ امنگ اس کے اندر نہیں اٹھتی جو اسے ہر اچھی بات کا دیوانہ بنا دے۔ غالب کا مشہور شعر ہے ؎ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی تزکیہ کے لیے صحبت ِ صالح ضروری ہے مقصودتو طبیعت کو اطاعت وزہد کی طرف لانا ہے اگر وہ اطاعت وزہد کے ثواب کو جان کر بھی ادھر نہیں آتی تو پھر جاننے کا کیا فائدہ ؟ یہی وہ مرحلہ ہے، جو انسانی تربیت کے لیے سب سے مشکل ہے۔ ہم تعلیم کے زور سے بہتر سے بہتر کتابیں پڑھا کر لٹریچر کا مطالعہ کرا کے تربیت کی کوشش کرتے ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اس سے کیفیت وہی پیدا ہوتی ہے جس کا ذکر غالب نے کیا ہے۔ کہ ان کاوشوں سے علمی آگاہی میں تو ضرور اضافہ ہوتا ہے لیکن عمل کی مطلوب کیفیت پید انھیں ہوتی۔ اللہ کے نبی اور ان کے راستوں پر چلنے والے علمی آگاہی کے ساتھ ساتھ یہ قوت بھی تزکیہ کے نتیجہ میں پیدا کرتے ہیں۔ وہ صرف یہی نہیں بتاتے کہ تمہیں مسلمان کی حیثیت سے کیا کرنا چاہیے بلکہ وہ طبیعتوں میں نیکی کی آمادگی بھی پیدا کرتے ہیں۔ جس طرح ایک مہذب آدمی کو صاف ستھرا رہنے کے لیے سمجھانا نہیں پڑتا علم کے رسیا کو مطالعے کے لیے ترغیب نہیں دینا پڑتی۔ ایک کھلاڑی کو سٹیڈیم کا راستہ نہیں دکھانا پڑتا کیونکہ ان کے اندر ان تمام کاموں کے لیے ایک آمادگی، رغبت یا ان کا احساس پہلے سے موجود ہے۔ یہی احساس اگر نیکی کو جاننے والے کے اندر پیدا کردیا جائے تو پھر اسے نیکی کی ترغیب دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ شاید اسی لیے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کے لیے نیکی کی تعریف یہ فرمائی تھی کہ نیکی وہ ہے جو تجھے خوش کرے اور برائی وہ ہے جو تیرے دل کی پھانس بن جائے۔ لیکن یہ اس صاحب ایمان کے لیے ہے جس کے اندر نیکی کا حقیقی شعور پیدا ہوچکاہو اور یہ حقیقی شعور محض علم سے پیدا نہیں ہوتانہ اس کے لیے کتابیں کفایت کرتی ہیں بلکہ اس کے لیے ایسے لوگوں کی صحبت اور تربیت ضروری ہے جن کے اندر نیکی ایک متعدی عمل بن چکا ہو اور جنھیں دیکھ کر اللہ یاد آتاہو اور جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کی محبت کم ہوتی ہو اور آخرت کی محبت بڑھتی ہو۔ کتابوں سے تو علم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ایسے لوگوں کی صحبت حقیقت میں شخصیت ساز ثابت ہوتی ہے۔ اکبر مرحوم نے ٹھیک کہا تھا ؎ کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں آدمی آدمی بناتے ہیں کیفیت سے کیفیت پیدا ہوتی ہے جب ہم کسی ایسے اللہ والے کی صحبت میں بیٹھتے ہیں کہ جب وہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے تو اس کے منہ میں پانی بھربھر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس نے جنت کی نعمتیں چکھ کر دیکھی ہیں اور جب وہ جہنم کے عذاب کا ذکر کرتا ہے تو اس کے چہرے کا رنگ اڑجاتا ہے اور اس کے جسم پر کپکپی چھوٹ جاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھ چکا ہے۔ اندازہ فرمائیے ! جنت اور جہنم کا حقیقی احساس آپ کو جنت اور جہنم کی تفصیلات پڑھ کرہوگایا ایسے اللہ والے کی اس طرح کی کیفیات دیکھ کر۔ اس طرح کی کیفیتیں ہیں جب دوسرے کی طرف منتقل ہوتی ہیں تو ان کے نتیجے میں شخصیت سے شخصیت بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ صحبتیں دراز ہوتی جاتی ہیں، ویسے ویسے شخصیت کی تعمیر تکمیل پذیر ہوتی جاتی ہے۔ حضرت بلال ( رض) کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم میں یہ ضرور پڑھا کہ نماز خشوع خضوع سے ادا کرنی چاہیے۔ لیکن یہ خشوع و خضوع ہمارے اندر اس وقت پیدا ہوا اور اس کا صحیح تاثر ہمیں اس وقت نصیب ہوا جب ہم نے آنحضرت ﷺ کو قیام لیل میں دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور اللہ کے خوف اور اس کی محبت سے آپ کے سینے سے اس طرح آواز نکلتی ہے، جیسے ہنڈیا ابلنے سے نکلتی ہے۔ ہم نے دنیا سے بےرغبتی اور زہد کے بارے میں بہت کچھ پڑھا بھی اور سنا بھی لیکن ہمارے اندر اس کی حقیقت اس وقت جلوہ گر ہوئی جب ہم نے حضور کے شکم مبارک پر پتھر بندھے ہوئے دیکھے اور جب ایک دفعہ بستر پر چنداشرفیاں پڑی رہ گئیں تو آپ نماز کے بعد فوراً گھر کی طرف لپکے اور اس وقت چین آیا جب آپ نے اشرفیوں کو خیرات کردیا اور فرمایا کہ ” محمد “ اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ اس کے گھر میں دنیا کا مال پڑا ہوگا۔ تزکیہ کا یہ مرحلہ جس کا تعلق تمام تر اہل اللہ کی صحبت سے ہے آنحضرت ﷺ سے امت کو منتقل ہوا ہے اور قرآن پاک میں کئی جگہ اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا : یَاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُواللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ” مسلمانوں اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کی صحبت میں رہو “۔ تزکیہ اور اصلاح کے لیے بنیادی چیز اللہ کا تقویٰ ہے اور وہ اس وقت تک پید انھیں ہوسکتا جب تک علم صحیح کے ساتھ ساتھ سچوں یعنی اللہ والوں کی صحبت اختیار نہ کی جائے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور پھر آپ کے فرائضِ نبوت کے بیان کرنے کے بعد آخر آیت میں اللہ نے اپنی دو صفتوں کا ذکر فرمایا ہے۔” عزیز اور حکیم “۔” عزیز “ کا معنی ” غالب اور عزت اور قوت والے “ کے ہیں۔ یعنی وہ ذات جو پوری قوت وہیبت، شان و شکوہ اور اختیار اور اقتدار کے ساتھ کائنات پر حکمرانی کررہی ہے۔” حکیم “ کا معنی ہے ” وہ ذات جس کے ہر کام میں حکمت، مصلحت اور مقصد وغایت ہو “ ان دو صفتوں کے لانے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شائد ہمیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات پر پوری قوت اور پورے غلبے کے ساتھ حکومت کررہا ہے۔ اس کی قوت اور غلبے میں کوئی کمی نہیں اور کسی کی مجال نہیں جو اس کی حکومت کو چیلنج کرسکے۔ وہ ہر چیز پر پوری طرح حاوی اور متصرف ہے۔ لیکن اس کی حکومت اور اقتدار کا یہ معنی نہیں کہ وہ اپنی قوت وزور سے جو چاہے کرڈالے بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور مصلحت کے ساتھ کرتا ہے کیونکہ وہ عزیز ہونے کے ساتھ حکیم بھی ہے اس کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ چونکہ عزیز ہے، اس لیے اس نے اپنی قوت سے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، لیکن وہ عزیز ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے، اس لیے اس نے اپنی پیدا کی ہوئی اس مملکت میں اپنے سفیر اور پیغمبر بھی بھیجے تاکہ وہ اس کی رعیت کو اس کے احکام اور قوانین سے آگاہ کریں۔ چناچہ اس کے سفیروں اور پیغمبروں میں سے سب سے آخری سفیر اور پیغمبر ” محمد۔ “ کو بھیجا جارہا ہے تاکہ قیامت تک کے لیے اس مملکت میں بسنے والے انسانوں کو اللہ کے احکام اور قوانین سے آگاہ کریں اور زندگی کو اس طرح گزارنے کا طریقہ سکھائیں جس سے اللہ راضی ہوتا ہے۔
Top