Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر وہ اعراض کریں تو پھر وہ درپے مخالفت ہیں ان کے مقابلے میں تمہارے لیے اللہ کافی ہوگا وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِاھْتَدَوْا ج وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ ج فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُط وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر وہ اعراض کریں تو پھر وہ درپے مخالفت ہیں ان کے مقابلے میں تمہارے لیے اللہ کافی ہوگا وہ سننے والا اور جاننے والا ہے) (البقرۃ : 137) کلمہ جامعہ پر ایمان اور ایمان کے لیے نمونہ گزشتہ آیت کریمہ کی صورت میں جس طرح ایک کلمہ جامعہ پیش کیا گیا جس کے ماننے سے آدمی اس راستے کا مسافر بن جاتا ہے جو اسلام کا راستہ ہے اور جس کی منزل جنت ہے۔ اسی طرح اس کلمہ کو ماننے والوں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے والوں کا نمونہ بھی پیش کیا گیا کہ اگر تم اس کلمہ پر ایمان لاتے ہو تو تمہیں کس طرح ایمان لانا چاہیے اور اس کے تقاضے کس طرح پورے کرنے چاہییں، اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا نمونہ مسلمان ہیں۔ ان کا ایک ایک فرد اس کلمے کی تصویر ہے۔ یہی بات اسی سورة کے دوسرے رکوع میں بھی فرمائی گئی ہے : اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ ” جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں “۔ ( یہاں لوگوں سے مراد صحابہ کرام ہیں۔ ان کا ہر چھوٹا بڑا آدمی ان لوگوں میں شامل ہے) تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح یہ بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں۔ انھوں نے پوری زندگی ایمان کے حوالے کردی ہے۔ اگر ان کا دین ان سے مال مانگتا ہے تو یہ پیش کردیتے ہیں، ان سے وقت مانگتا ہے تو انھیں انکار نہیں ہوتا، ان سے وطن کی قربانی مانگتا ہے تو وطن چھوڑ دیتے ہیں، انھیں میدانِ جنگ میں بلاتا ہے تو جان تک نذر کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انھوں نے تو اپنا سب کچھ اس راستے میں لٹادیا ہے، تو یہ تو سراسر دیوانگی ہے، پاگل پن ہے، ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ یہاں بھی یہی فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں اللہ کی رضا عزیز نہیں، تمہیں اپنے گروہی تعصبات عزیز ہیں۔ تمہیں اسلام کی خاطر سب کچھ اللہ کے راستے میں سپرد کردینا گوارہ نہیں کیونکہ اس طرح تمہارے وہ تمام مفادات جو تم نے دین کے نام پر حاصل کر رکھے ہیں وہ ایک ایک کرکے تمہارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے ہدایت کا راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اسلام کوئی سیاست بازی نہیں یہ تو دنیا وعقبیٰ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس میں نہ سخن سازیاں کام آتی ہیں، نہ دکھاوے کی چلت پھرت اور نہ وقت گزاری کے حربے۔ یہ تو پوری زندگی بدلنے کا ایک معاملہ ہے، اس لیے اپنے گروہی تعصبات کو چھوڑ کر اگر اسلام کی طرف آنے کا حوصلہ ہے تو پھر اس طرح آئو جس طرح تم اصحابِ رسول ﷺ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر اس طرح اپنے آپ کو بدلوگے تو ہدایت پاجاؤ گے۔ تمہارے دعوے کے مطابق یہودیت اور نصرانیت میں ہدایت نہیں بلکہ ہدایت یکسر اللہ کے احکام کے مطابق اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ سپرد کردینے کا نام ہے اور اسی کو اسلام کہتے ہیں۔ اگر تم یہ روش اختیار کرتے ہو تو تم وہی مقام پالوگے جو اصحابِ رسول کا ہے۔ لیکن اگر تم اس طرح اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ پھر تمہیں یہود کے بارے میں کھلے ذہن کے ساتھ یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ ان کے ساتھ یکجائی تو دور کی بات ہے معمولی تعلق بھی رکھنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ وہ صاف صاف تمہاری مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ کسی طرح بھی اپنی انفرادیت اسلام میں گم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی از اول تا آخر یہ کوشش ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹادیں۔ تمہارے دلوں میں اگر ان کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے تو اسے نکال دیجئے اور یہ بات سمجھ لیجئے کہ تمہارا ان کے ساتھ یہ تصادم چند دن کی بات نہیں بلکہ یہ ان کی قومی اور ملی پالیسی کا لازمی عنصر ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ اس کے لیے یہود و نصاریٰ میں اتحاد بھی ہوگا اس کے لیے مشرکین کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے سے بھی انھیں دریغ نہیں ہوگا وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہر قوت کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔ یہ ان کی ایک ایسی مستقل پالیسی ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی۔ قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر اہل کتاب کی اس روش کو نمایاں کیا ہے تاکہ مسلمان اپنی قومی اور ملی پالیسیوں میں ان کی ظاہری روش سے کبھی دھوکہ نہ کھائیں۔ لیکن افسوس ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص پالیسی ساز طبقہ نجانے اس حقیقت کو بار بار کیوں نظر انداز کرتا ہے۔ اقبال نے ان کے گھر میں بیٹھ کر ان کے حسن وقبح کا اندازہ کیا۔ اس نے جیسے جیسے ان کے اندر جھانکا ویسے ویسے بدمزہ ہوتا گیا۔ کبھی تو اس نے اپنی قوم کو توجہ دلانے کے لیے کہا نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے اور کبھی اپنے گہرے تاثر کو اس طرح قلم بند کیا نشستم با، نکویانِ فرنگی ازاں بےسوز تر روزے ندیدم اور فرنگی کے بارے میں اس نے زندگی بھر کے تجربات کو نچوڑتے ہوئے کہا کرے قبول اگر دین مصطفیٰ انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام مسلمانوں کی ذمہ داری یہاں بھی اسی حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں اب فکر ان سے مقابلے کی ہونی چاہیے۔ یہ ہر میدان میں تمہارے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ لیکن اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ چونکہ سازشی لوگ تھے اور سازشی ہمیشہ بزدل بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی سامنے آکر وار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن درپردہ مسلسل کوشش کرتے رہتے تھے کہ کسی طرح آنحضرت ﷺ پر مہلک وار کریں۔ کئی مرتبہ ان بدبختوں نے حضور کو قتل کرنا چاہا، لیکن ہمیشہ اللہ کی حفاظت نے حضور کو محفوظ رکھا چونکہ ان کا اصل ہدف آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی رہتی تھی اس لیے براہ راست آنحضرت کو خطاب کرکے آپ کو اور مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ اہل کتاب کی روش آپ کے سامنے رہنی چاہیے لیکن گھبرانے کی بات نہیں فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ” ان کے مقابلے میں تمہارے لیے اللہ کافی ہوگا “۔ یہ اہل کتاب جو کچھ کرتے ہیں انھیں کرنے دیجئے، آپ اللہ کی ہدایت کے مطابق ان کی طرف سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنا فرض انجام دیتے رہیے، یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اگر لڑائی آپ کی اور ان کی ہوتی تو پھر شائد کوئی پریشانی کی بات ہوتی مگر جب آپ کی طرف سے اللہ کافی ہے تو پھر آپ کی لڑائی اللہ تعالیٰ خود لڑیں گے اور جس کا سب کچھ اس کا اللہ ہو اسے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ ہزار سازشیں کریں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اسے سنتابھی ہے اور جانتابھی ہے۔ کیونکہ وہ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔
Top