Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 209
فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر زَلَلْتُمْ : تم ڈگمگا گئے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْكُمُ : تمہارے پاس آئے الْبَيِّنٰتُ : واضح احکام فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم ان کھلی ہوئی تنبیہات کے بعد بھی جو تمہارے پاس آچکی ہیں پھسل گئے تو جان رکھو اللہ غالب اور حکمت والا ہے
فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ تْـکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ اگر تم ان کھلی ہوئی تنبیہات کے بعد بھی جو تمہارے پاس آچکی ہیں پھسل گئے تو جان رکھو اللہ غالب اور حکمت والا ہے) (209) اتمام حجت کے بعد بینات سے مراد وہ تنبیہات ہیں جو قرآن کریم نے شیطان کی چالوں سے بچانے اور اس کے فتنوں سے آگاہ کرنے کے لیے جا بجا بیان فرمائی ہیں۔ تخلیق آدم اور خلافتِ آدم کے واقعہ سے لے کر پورے قرآن کریم میں یہ تفصیلات پھیلی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے جو کتابیں نازل ہوچکی ہیں ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں شیطان کے حملوں سے بچنے کی تاکید نہ کی گئی ہو اور نہ بچنے کی صورت میں عذاب سے نہ ڈرایا گیا ہو اور مزید یہ کہ جابجا معذب قوموں کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس کا ایک ایک واقعہ شیطنت کی تصویر اور اس کے نتائج کو نمایاں کرتا ہے اور پھر جن لوگوں نے شیطان کی چالوں سے بچ کر انبیائے کرام کی دعوت کو قبول کیا وہ جس طرح کامیابیوں اور اجر وثواب سے نوازے گئے اس کی تفصیل سے بھی قرآن پاک کے اوراق معمور ہیں۔ منافقین کو بالخصوص اور کمزور ایمان کے مسلمانوں کو بالعموم خطاب فرما کر اسی حقیقت کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ انسان جو ہر عقل کے باوجود زندگی کے تمام معاملات کو باحسن طریق چلانے پر قادر نہیں۔ قدم قدم پر اسے خواہشات اور جذبات سے تصادم مول لینا پڑتا ہے اور اس تصادم میں عموماً جذبات غالب آجاتے ہیں اور بعض دفعہ خواہشات کو اپنا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ایسا ذریعہ ہدایت ہونا چاہیے جو انسان کو صراط مستقیم پر چلنے میں مدد دے۔ اس کے سامنے حسن وقبح کے معیار کو واضح کرے۔ مکارم اخلاق کو اس کی زندگی کا حسن بنادے اور رفتہ رفتہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اللہ کی ذات اس کا مطلوب اور محبوب بن جائے۔ اللہ کے نبیوں نے انسانی خیرخواہی کے لیے ہمیشہ یہی کام کیا۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اور انسانی مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محض انسان کی بھلائی کی خاطر اسے قدم قدم پر رہنمائی فراہم کی اور اس کے لیے زندگی گزارنا آسان کردیا۔ لیکن اللہ نے اس کا امتحان لینے کے لیے ساتھ ہی گمراہ کرنے والی سب سے بڑی قوت شیطان اور اس کے متبعین کو بھی موقع دیا کہ تم انسان کو بھلائی سے ہٹانے اور برائی کی طرف راغب کرنے میں آزاد ہو۔ جس طرح انبیائے کرام انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت دیں گے ‘ تم بھی ان کے مقابلے میں انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں بروئے کار لاؤگے۔ اب یہ انسان کی آزمائش ہے کہ وہ انبیاء کے ذریعہ ہدایت کو قبول کرتا ہے یا شیطان کے نقوش قدم پر چلتا ہے۔ بینات کا مفہوم انبیائے کرام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے انھیں معجزات عطا کیے۔ ان کی زندگی کو کمزوریوں سے محفوظ رکھا۔ ان کو معصوم پیدا فرمایا۔ جس طرح پتھروں کے ڈھیر میں ہیرا چمکتا ہے اس طرح وہ اپنی ذاتی حیثیت میں انسانی معاشرہ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کی سیرت و کردار ‘ ان کی پاکیزہ زندگی ‘ ان کی دلآویز شخصیت ‘ ان کے معاملات کا حسن پھر ان کی زبان سے ابلنے والا ہدایت و حکمت کا سرچشمہ اور پھر ساتھ ساتھ معجزات کی تائید اور حق و باطل کی کشمکش میں اللہ کی نصرت یہ وہ بنیات ہیں ‘ جن سے ان کی شخصیت اور دعوت کو مستحکم کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں کے لیے ان کا ماننا آسان کردیا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ ایک طرف تو یہ تمہارے انتہائی خیرخواہ اور ہمدرد اللہ کے نبی اور ان کے بینات ہیں اور دوسری طرف شیطان کی چالیں ‘ اس کی تزویر کے پھندے ‘ اس کی برائی کی طرف دعوت اور پھر اس کی شعبدہ بازیاں یہ وہ چیزیں ہیں کہ اگر انسان عقل سے کام لے کر حقیقت کو جاننا چاہے تو اس کے لیے حقیقت کو سمجھنا کوئی دور کی بات نہیں اور مزید یہ بھی کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی تک ہر پیغمبر اور ہر مذہب نے شیطان کی دشمنی کو واضح کیا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اگر تم ان بینات کے آجانے کے بعد بھی بار بار راہ حق سے پھسلتے ہو اور شیطان کے نقوش قدم کی طرف لپکتے ہو تو پھر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حق تمہارے سامنے واضح ہوچکا ‘ بینات سے تمہیں پوری طرح مطمئن کردیا گیا۔ لیکن تمہاری باطل پسندی اپنی جگہ رہی اور تم نے شیطان کے نقوش قدم پر چلنا نہ چھوڑا تو پھر یاد رکھو کہ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکوگے۔ اس کی سلطنت اپنی جگہ پر قائم رہے گی۔ اس کی بےپناہ قدرت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ البتہ تم اپنا انجام ضرور برباد کرلوگے۔ کیونکہ تمہارا واسطہ کسی کمزور اور ناتواں سے نہیں کہ تم اس کی پکڑ سے بچ نکلو۔ تمہیں سابقہ ایک عزیز ذات سے ہے۔ وہ اس قدر غالب اور توانا ہے کہ جب وہ تمہیں پکڑنا چاہے گا تو تم ہزار کوشش کے باوجود اس سے بچ نہیں سکوگے۔ البتہ وہ کمزور حکمران کی طرح پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے اس بات کا اندیشہ نہیں کہ اگر میں نے ان مجرموں کو آج نہ پکڑا تو کل یہ میری گرفت میں نہیں آسکیں گے۔ بلکہ اس کا پکڑنے میں تاخیر کرنا یہ دراصل اس کی صفت حکمت کا اظہار ہے۔ وہ بار بار ڈھیل دیتا ہے تاکہ لوگ اگر سنبھلنا چاہیں اور اپنے انجام کو درست کرنا چاہیں تو کرلیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پکڑے گا نہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اس کے نزدیک اچھائی کرنے والے اور برائی کرنے والے سب برابر ہیں۔ اس نے جس طرح نیکی کرنے والے کو پنپنے کا موقع دیا ہے ‘ اسی طرح برائی کرنے والے کو بھی دیا ہے۔ اگر ایسا سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ حکیم نہیں بلکہ کھلنڈرا ہے۔ یہ دنیا اس نے محض کھیل تماشے کے لیے بنائی ہے، جس کا کوئی حقیقی مقصد نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کھیلتے ہوئے پیدا نہیں کیے بلکہ ان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یعنی ان کا ایک سنجیدہ مقصد ہے اور انسان اس کائنات کا گل سرسبد ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اس لیے انسان کو اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے اور اس سے پہلے کہ اس عزیز ذات کی گرفت میں آجائے ‘ اسے اس کی اس ڈھیل سے فائدہ اٹھانا چاہیے ‘ جو اس نے حکیم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دینے کے لیے عطا کی ہے۔
Top