Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضروریات سے بچ رہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم غور کرو دنیا و آخرت دونوں کے معاملے میں
یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌوَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط وَیَسْئَلُوْنَـکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ 5 ط قُلِ الْعَفْوَ ط وَکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّـکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۔ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضروریات سے بچ رہے۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم غور کرو دنیا و آخرت دونوں کے معاملے میں) (219) خمر اور قمار سے متعلق سوال کا مفہوم اور منشأ سوال اس آیت کریمہ میں دو سوال اور ان کے جواب ہیں۔ اور اس کے علاوہ بعض حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ہم نہایت اختصار سے مقدور بھر اس پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سلسلہ بیان حج سے متعلق ہے اور اسی سلسلے میں جہاد اور انفاق کا ذکر آیا ہے۔ اس سلسلہ بیان کی ثقاہت اور ملی اہمیت کو دیکھتے ہوئے خمر اور قمار کے بارے میں سوال عجیب بےجوڑ سا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب تدبر کی نگاہ سے ہم اسے دیکھتے ہیں تو پھر اپنی نارسائیِ فکر پر افسوس ہونے لگتا ہے۔ ہماری نارسائیِ فکر کا سبب یہ ہے کہ ہم قرآن پاک کے الفاظ کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نزول قرآن کے وقت ان الفاظ کا استعمال کس مفہوم میں ہوتا تھا۔ ہمارے سامنے جب شراب اور جوئے کا ذکر ہوتا ہے تو ہمارے ذہن میں شراب کے حوالے سے عیاشی کا تصور ابھرتا ہے ‘ کبابوں کی بو مہکنے لگتی ہے ‘ اوباشوں کا ایک گروہ نظر آتا ہے ‘ ہر طرف یا وہ گوئی اور لپاڈگی کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ اسی طرح جب قمار یعنی جوئے کا ذکر ہوتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک ایسے شخص کا تصور ابھرتا ہے جو بےہمت ‘ بدمحنت ‘ نکما ‘ نکھٹو اور کم ظرف آدمی ہے۔ لیکن قسمت آزمائی کے ذریعے راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ آئے دن مختلف سکیموں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور چھپ چھپ کر قسمت آزمائی کے لیے اوباشوں کے گروہ میں جوا کھیلنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں گھر کی رہی سہی بربادی ہوجاتی ہے اور برسوں کی عزت کو آگ لگ جاتی ہے۔ ہم ان تصورات کے ساتھ جب قرآن کریم میں خمر اور میسر کے متعلق سوال پڑھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں یہ سوال شاید اسی نوعیت کا ہے۔ لیکن اگر عرب کی مخصوص سوسائٹی کے تناظر میں ان دونوں چیزوں کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو تب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سوال اس سیاق کلام سے نہ صرف مطابقت رکھتا ہے بلکہ جس طرح قرآن کریم بار بار انفاق پر زور دے رہا تھا اس سے اس سوال کا پیدا ہونا یقینی تھا۔ سوال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ غریبوں کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بیت اللہ کی آزادی کے لیے آپ کو ایک بڑا معرکہ درپیش ہے اور ممکن ہے کہ قریبی زمانے میں قریش مکہ کے ساتھ بیت اللہ کی آزادی کے لیے ایک بڑی جنگ لڑنی پڑے۔ اس میں جہاں ایک مضبوط افرادی قوت کی ضرورت ہے وہیں مصارف کے لیے بڑے سرمائے کی بھی تو ضرورت ہے۔ آپ کے پاس نہ اسلحہ ہے نہ سواریاں ‘ نہ رسد و کمک کا انتظام۔ اس بےسروسامانی کے باوجود جب آپ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم کتنا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں ؟ تو آپ جہاد کی اس ساری اہمیت اور ضرورت کے باوجود آپ انھیں سب سے پہلے والدین ‘ اقرباء ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کی کفالت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کہ جہاد کی ضرورت اپنی جگہ لیکن اس کی ضرورت و اہمیت تم پر اس طرح حاوی نہیں ہونی چاہیے کہ ضرورت مندوں کی ضرورتوں سے تم تغافل برتنے لگو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کسی صورت اور کسی طرح کے حالات میں بھی غریبوں کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تو پھر ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ عرب سوسائٹی میں شراب اور جوا صرف عیاشی اور قسمت آزمائی کا ذریعہ تو نہیں۔ اس کا اصل سبب تو یہ ہے کہ جب شمال سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور پورے ملک پر ایک مردنی طاری ہوجاتی ہے ‘ چراگاہوں میں دھول اڑنے لگتی ہے ‘ درخت پتوں تک سے محروم ہوجاتے ہیں ‘ بارشیں نہ ہونے کے باعث تالاب خشک ہوجاتے ہیں ‘ چشمے پانی دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی قحط سالی کی فضا طاری ہوتی ہے کہ لوگ ایک ایک لقمے کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ ایسے ناگوار وقت میں چند حوصلہ مند امراء شراب اور قمار کی مجلسیں جماتے ہیں۔ لوگوں کو خبر ہوتی ہے تو غریبوں کا ہجوم ہوجاتا ہے ‘ امیر لوگ شراب کے نشے میں مخمور ہو کر جس کی اونٹنی سامنے آتی ہے ذبح کر ڈالتے ہیں ‘ پھر اس کے گوشت کے پارچوں پر جوا کھیلتے ہیں ‘ جتنا حصہ گوشت کا جیتتے جاتے ہیں وہ غریبوں کو دیتے جاتے ہیں۔ اس طرح سینکڑوں غریبوں کی روزی کا سامان ہوجاتا ہے۔ اور یہ جوا کھیلنے والے خود اس گوشت کو اپنے لیے حرام سمجھتے ہیں۔ ایسی مجلسوں کو صرف غریب پروری کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو مجلسیں اور جو مشاغل غریب پروری کا ذریعہ بنیں اور غریبوں کی اس سے ضروریات پوری ہوں اور سخت قحط سالی کے زمانے میں لوگ موت کے منہ سے نکل آئیں۔ اسلام کو ایسے مشاغل کی تو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ سوال درحقیقت اسی سوچ کا نتیجہ تھا جو انفاق کے تذکرے کے سیاق میں پیدا ہوا۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ سب سے پہلے اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ شراب اور قمار کی ان مجالس سے یقینا لوگوں کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کسی چیز سے صرف فائدہ پہنچنا اگر اس کے جواز کی دلیل ہے تو پھر دنیا میں کوئی بری سے بری چیز بھی ناجائز نہیں ہوسکتی۔ آخر ایسی اور کونسی بری چیز ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ چوری کے بھی فوائد ہیں ‘ مغرب سے پوچھ لیجئے زنا کے حق میں پورا فلسفہ تیار کردیا گیا ہے ‘ سود تو آج انسانی عقل کے لیے فائدے ہی کے حوالے سے سب سے بڑی آزمائش بن گیا ہے اور خنزیر بہت ساری ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتا ہے تو اگر چند فوائد کا حوالہ کافی ہے تو پھر ان میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی حلت و حرمت یا جائز و ناجائز کی بنیاد طبی و مادی فوائد سے متعلق نہیں ہے۔ اسلام تو اخلاقی پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اس لیے اسی حوالے سے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کے فوائد تو ہیں لیکن ان کے اخلاقی مفاسد ان کے مادی یا طبی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ منافع کے مقابلے میں نقصان کا لفظ نہیں آیا بلکہ اثمکا لفظ آیا ہے۔ اثمکا معنی گناہ ہے اور گناہ کا تعلق طبی نقصانات سے نہیں بلکہ اخلاقی نقصانات سے ہے۔ جس قوم میں یہ دونوں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ مسلمانوں کو بھی اسی دنیا میں رہنا ہے اور انھیں بھی اشیاء کے نفع و ضرر سے واسطہ پڑنا ہے۔ باایں ہمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ مادی نقصانات کو برداشت کرلیا جائے لیکن اخلاقی نقصانات کو کبھی برداشت نہ کیا جائے۔ کیونکہ قومیں پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی دنیا کے تخت و تاج الٹتی رہی ہیں اور مسلمانوں کے قرون اولیٰ کی تاریخ تو پوری طرح اس پر شاہد ہے لیکن جب نظریات میں کمزوری اور اخلاق میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پھر دنیا کی سب سے بڑی طاقتور قوم کو بھی سقوط بغداد اور سقوط اندلس سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اس لیے اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نیک ارادوں سے بھی کوئی کام ایسا کیا جائے جو بظاہر نیک ہو لیکن حقیقت میں اس کے اندر اخلاقی مفاسد پائے جاتے ہوں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی جگہ مسجد یا ہسپتال بنانے کے لیے لاٹری ڈالے تاکہ اس کی یافت سے یہ دونوں کام سر انجام دیے جائیں تو اسلام ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کو ممنوع قرار دیتا ہے اور ایسے ہسپتال کو محض ایک ہسپتال سمجھتا ہے جسے اللہ کی تائید و نصرت حاصل نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کہیں کوئی ارضی یا سماوی آفت کی وجہ سے لوگ امداد کے مستحق ہوں تو وہ ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ فلمسٹاروں یابدکار مردوں اور عورتوں کو کوئی تفریحی پروگرام منعقد کر کے اس کی آمدنی سے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے۔ کیونکہ مدد کے لیے اسباب کی فراہمی اگر نیک بندے کوشش کریں تو اللہ کی تائید و نصرت سے ہوتی ہے۔ لیکن ایسے اوباش لوگوں کے امدادی شو سے جو فضا پیدا ہوگی اس کے نتیجے میں نہ جانے کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اخلاقی مفاسد کا شکار ہوں گی۔ اس لیے اسلام کسی بھی ایسے نیکی یا خدمت خلق کے کام کو ہرگز روا نہیں رکھتا جس میں نیکی کے پردے میں بدی پرورش پاتی ہو۔ یہاں اگرچہ خمر اور قمار کی حرمت کا اعلان نہیں فرمایا لیکن دونوں کو اثم قرار دے کر یہ حقیقت ضرور واضح کردی کہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کے اندر گناہ کا جو پہلو ہے اس سے بچنا بہرحال تقویٰ کے لیے ضروری ہے۔ اصل سوال اور جواب کی وضاحت تو اسی حد تک کافی ہے لیکن یہاں چونکہ شراب کا ذکر آیا ہے تو ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی حرمت اور تاریخِ حرمت کی کچھ تفصیل عرض کردیں۔ حرمتِ خمر کی تاریخ اور تدریج پیش نظر آیت شراب اور قمار سے متعلق سب سے پہلی آیت ہے۔ جس میں اس کی خرابیوں اور مفاسد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس کی حرمت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اس لیے مسلمانوں کی اکثریت اس کے بعد بھی شراب نوشی میں مبتلا رہی۔ یہاں تک کہ ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ( رض) نے صحابہ کرام میں سے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد حسب دستور شراب پی گئی۔ نماز مغرب کا وقت آگیا۔ سب نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ امام صاحب نے نشہ کی حالت میں قُلْ یٰٓـااَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ تلاوت کرتے ہوئے لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَکی بجائے اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ پڑھ گئے۔ اس پر قرآن کریم میں دوسرا حکم نازل ہوا یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوْا الصَّلوٰ ۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ” اے ایمان والو ! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اس آیت کریمہ میں صرف نماز کے اوقات میں شراب کو حرام کردیا گیا اور باقی اوقات میں اس کی اجازت رہی۔ بعض صحابہ ( رض) تو اس آیت کے بعد شراب سے بالکل تائب ہوگئے لیکن اکثریت ابھی تک اوقاتِ نماز کے علاوہ شراب نوشی سے شوق کرتی رہی۔ کیونکہ جب تک اللہ کی جانب سے ممانعت نہیں آجاتی اس سے یکسر رک جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پھر ایک واقعہ پیش آیا کہ عتبان بن مالک ( رض) نے چند صحابہ کرام کی دعوت کی۔ جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص ( رض) بھی تھے۔ کھانے کے بعد حسب دستور شراب کا دور چلا۔ نشہ کی حالت میں عرب کی عام عادت کے مطابق شعر و شاعری اور اپنے اپنے مفاخر کا بیان شروع ہوا۔ سعد بن ابی وقاص ( رض) نے ایک قصیدہ پڑھا ‘ جس میں انصارِ مدینہ کی ہجو اور اپنی قوم کی مدح وثناء تھی۔ اس پر ایک انصاری نوجوان کو غصہ آگیا اور اس نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی حضرت سعد ( رض) کے سر پردے ماری۔ حضرت سعد ( رض) نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس انصاری نوجوان کی شکایت کی۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے دعا فرمائی اَلْلّٰہُمَّ بَیِّنْ لَّـنَا فِی الْخَمْرِبَیَانًا شَافِیًا ” یا اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کوئی واضح ہدایت عطا فرما۔ “ اس پر شراب کے متعلق سورة مائدہ کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں شراب کو قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔ یٰٓااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَاَ لْاَزْلاَ مُ رِجْسٌ مِّنْ عَمِلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِوَیَصُدَّ کُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُونَ ۔ (اے ایمان والو ! بیشک شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں بغض اور عداوت پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور نماز سے تم کو روک دے۔ سو کیا اب بھی باز آئو گے ؟ ) اس تفصیل سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام کرنے میں ایک تدریج سے کام لیا ہے۔ کیونکہ پروردگار خوب جانتے تھے کہ شراب عرب کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اور ان کی ایسی عادت مستمرہ بن چکی ہے جسے چھڑانا آسان نہیں۔ عادت کوئی بھی آسانی سے نہیں چھوٹتی لیکن وہ عادت جو زندگی بھر کی عادت ہو اور جس کا اثر رگ و ریشہ میں اتر چکا ہو اسے چھوڑنا تو سب سے مشکل کام ہے۔ لیکن اسلام نے سب سے پہلے ذہنی تربیت کے لیے لوگوں کو اس قابل بنایا کہ اللہ کا جو بھی حکم آئے اور اللہ کے رسول جو بھی حکم دیں انھیں دل و جان سے قبول کرنا اور اس کی کامل اطاعت کرنا ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اس لیے جیسے ہی یہ آخری آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے منادی نے مدینہ کی گلیوں میں یہ آواز دی کہ ” شراب حرام کردی گئی ہے “ تو جس کے ہاتھ میں جو برتن شراب کا تھا اس کو وہیں پھینک دیا گیا۔ جس کے پاس کوئی سبو یا خم شراب کا تھا اس کو گھر سے باہر لا کر توڑ دیا۔ اگر کسی کے ہاتھ میں جام لبوں تک پہنچ چکا تھا تو اسے دہن تک پہنچنا نصیب نہیں ہوا۔ مدینہ میں اس روز شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی بہتا ہے۔ مدینہ کی گلیوں میں عرصہ دراز تک یہ حالت رہی کہ جب بارش ہوتی تو شراب کی بو اور رنگ مٹی میں نکھر آتا۔ امتثال امر اور اطاعتِ کاملہ کے ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ جسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک صحابی جو شراب کی تجارت کرتے تھے اسی زمانے میں اپنا سارا سرمایہ لے کر ملک شام سے شراب لینے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اور جب یہ تجارتی مال لے کر واپس ہوئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو اعلانِ حرمت کی خبر مل گئی۔ اب آپ اندازہ کیجئے کہ ان کا سارا سرمایہ اس کام میں لگ چکا ہے اور کیسی کیسی نفع کی امیدیں لے کر وہ سفر سے لوٹے ہیں ‘ اعلانِ حرمت سن کر سارا سامان ایک پہاڑی پر رکھا اور خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے پوچھا اس مال سے متعلق آپ ﷺ مجھے کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا شراب حرام ہوچکی ہے۔ چناچہ اس جانثار صحابی نے آپ ﷺ کا حکم سن کر مشکیزے پھاڑ دیئے اور اپنا پورا سرمایہ زمین پر بہا دیا۔ اس ایک حکم نے مسلمانوں کی ساری آبادی میں ایسی تطہیر پیدا کی کہ برسوں کے شراب نوش ہمیشہ کے لیے تائب ہو کر رہ گئے اور ایک آدمی بھی مدینہ میں ایسا نہ رہا جس نے شراب پینے کی جرأت کی ہو اور ایک گھر ایسا نہ بچا جس میں شراب کا ایک مٹکا بھی باقی ہو۔ لیکن اس کے مقابل میں مہذب دنیا اس بات سے واقف ہے کہ امریکہ نے بھی اپنے شہریوں کی صحت کی خاطر شراب پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔ ان کی پارلیمنٹ نے بالاتفاق امتناعِ شراب کا قانون پاس کیا۔ پھر پوری قوت سے اسے نافذ کیا گیا اور تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے شراب نوشی کے خلاف ذہن تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چند سالوں کی کوششوں کے بعد نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اس ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ قوم نے اس ممانعت کے زمانے میں عام زمانوں کی نسبت اس حد تک زیادہ شراب استعمال کی کہ امریکہ اپنا قانون واپس لینے پر مجبور ہوگیا۔ صرف اس ایک مثال میں عقل مندوں کے لیے ہزاروں عبرتیں مضمر ہیں۔ قمار کی تعریف اور تفصیل سورة مائدہ کی جس آیت کریمہ میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی میں جوئے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ جوئے کو قرآن کریم میں میسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی کو قمار بھی کہتے ہیں۔ ( میسر مصدر ہے اور اصل لغت میں اس کا معنی تقسیم کرنے کے ہیں۔ یاسر تقسیم کرنے والے کو کہتے ہیں۔ تقسیم کی مناسبت سے ہی قمار کو میسر کہا جاتا ہے۔ تمام صحابہ وتابعین اس پر متفق ہیں کہ میسر میں قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں داخل ہیں اور سب حرام ہیں۔ ابن کثیر ( رح) نے اپنی تفسیر میں اور جصاص ( رح) نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) اور ابن عمر ( رض) اور قتادہ ( رض) اور معاویہ بن صالح ( رض) اور عطاء ( رض) اور طائوس ( رح) نے فرمایا : المیسرالقمار حتیٰ لعب الصبیان بالکعاب والجوز ” یعنی ہر قسم کا قمار میسر ہے ‘ یہاں تک کہ بچوں کا کھیل لکڑی کے گٹکوں اور اخروٹ وغیرہ کے ساتھ۔ “ اور ابن عباس ( رض) نے فرمایا المخاطرۃ من القمار یعنی مخاطرہ قمار میں سے ہے۔ “ (جصاص) ابن سیرین نے فرمایا ” جس کام میں مخاطرہ ہو وہ میسر میں داخل ہے۔ “ (روح البیان) مخاطرہ کے معنی ہیں کہ ایسا معاملہ کیا جاوے جو نفع و ضرر کے درمیان دائر ہو۔ یعنی یہ بھی احتمال ہو کہ بہت سا مال مل جائے اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے۔ جیسے آج کل کی لاٹری کے مختلف طریقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ سب قسمیں قمار اور میسر میں داخل اور حرام ہیں۔ اس لیے میسر یا قمار کی تعریف یہ ہے کہ جس معاملہ میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط پر موقوف رکھا جائے جس کے وجود و عدم کی دونوں جانبیں مساوی ہوں اور اسی بنا پر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبیں بھی برابر ہوں (شامی ‘ ص 355 جلد 5 کتاب الخطر والاباحۃ) مثلاً یہ بھی احتمال ہے کہ زید پر تاوان پڑجائے اور یہ بھی ہے کہ عمر پر پڑجائے۔ اس کی جتنی قسمیں اور صورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ پیدا ہوں ‘ وہ سب ” میسر “ اور ” قمار “ اور ” جوا “ کہلائے گا۔ معمے حل کرنے کا چلتا ہوا کاروبار اور تجارتی لاٹری کی عام صورتیں سب اس میں داخل ہیں۔ ہاں اگر صرف ایک جانب سے انعام مقرر کیا جائے کہ جو شخص فلاں کام کرے گا اس کو یہ انعام ملے گا۔ اس میں مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ اس شخص سے کوئی فیس وصول نہ کی جائے۔ کیونکہ اس میں معاملہ نفع و ضرر کے درمیان دائر نہیں ‘ بلکہ نفع اور عدم نفع کے درمیان دائر ہے۔ اسی لیے احادیث صحیحہ میں شطرنج اور چوسر وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ جن میں مال کی ہارجیت پائی جاتی ہے۔ تاش پر اگر روپیہ کی ہارجیت ہو تو وہ بھی میسر میں داخل ہے۔ صحیح مسلم میں بروایت بریدہ ( رض) مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نردشیر (چوسر) کھیلتا ہے وہ گویا خنزیر کے گوشت اور خون میں اپنے ہاتھ رنگتا ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شطرنج میسر ہے اور جوئے میں داخل ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) نے فرمایا شطرنج تو نرد شیر سے بھی زیادہ بری ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) قمار کے سماجی اور اجتماعی نقصانات ” قمار یعنی جوئے کے متعلق بھی قرآن کریم نے وہی ارشاد فرمایا جو شراب کے متعلق آیا ہے۔ کہ اس میں کچھ منافع بھی ہیں ‘ مگر نفع سے اس کا نقصان و ضرر بڑھا ہوا ہے۔ اس کے منافع کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ جیت جائے تو بیٹھے بٹھائے ایک فقیر ‘ بدحال آدمی ایک ہی دن میں مالدار و سرمایہ دار بن جاتا ہے۔ مگر اس کی معاشی ‘ اجتماعی ‘ سماجی اور روحانی خرابیاں اور مفاسد بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ جوئے کا کھیل سارا اس پر دائر ہے کہ ایک شخص کا نفع دوسرے کے ضرر پر موقوف ہے۔ جیتنے والے کا نفع ہی نفع ‘ ہارنے والے کے نقصان ہی نقصان کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کاروبار سے کوئی دولت بڑھتی نہیں وہ اسی طرح منجمد حالت میں رہتی ہے۔ اس کھیل کے ذریعے ایک کی دولت سلب ہو کر دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے قمار مجموعی حیثیت سے قوم کی تباہی اور انسانی اخلاق کی موت ہے کہ جس انسان کو نفع رسانی خلق اور ایثار و ہمدردی کا پیکر ہونا چاہیے وہ ایک خونخوار درندہ کی خاصیت اختیار کرلے کہ دوسرے بھائی کی موت میں اپنی زندگی ‘ اس کی مصیبت میں راحت ‘ اس کے نقصان میں اپنا نفع سمجھنے لگے۔ اور اپنی پوری قابلیت اس خود غرضی پر صرف کرے۔ بخلاف تجارت اور بیع و شراء کی جائز صورتوں کے ‘ ان میں طرفین کا فائدہ ہوتا ہے اور بذریعہ تجارت اموال کے تبادلہ سے دولت بڑھتی ہے۔ اور خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں اس کا فائدہ محسوس کرتے ہیں۔ ایک بھاری نقصان جوئے میں یہ ہے کہ اس کا عادی اصلی کمائی اور کسب سے عادۃً محروم ہوجاتا ہے، کیونکہ اس کی خواہش یہی رہتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے ایک شرط لگا کر دوسرے کا مال چند منٹ میں حاصل کرے، جس میں نہ کوئی محنت نہ مشقت۔ بعض حضرات نے جوئے کا نام میسر رکھنے کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ اس کے ذریعہ آسانی سے دوسرے کا مال اپنا بن جاتا ہے۔ جوئے کا معاملہ اگر دو چار آدمیوں کے درمیان دائر ہو تو اس میں بھی مذکورہ مضرتیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ لیکن اس نئے دور میں جس کو بعض سطحی نظر والے انسان عاقبت نا اندیشی سے ترقی کا دور کہتے ہیں۔ جیسے شراب کی نئی نئی قسمیں اور نئے نئے نام رکھ لیے گئے۔ سود کی نئی نئی قسمیں اور نئے اجتماعی طریقے بنکنگ کے نام سے ایجاد کرلیے گئے ہیں۔ اسی طرح قمار اور جوئے کی بھی ہزاروں قسمیں چل گئیں جن میں بہت سی قسمیں ایسی اجتماعی ہیں کہ قوم کا تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع ہوتا ہے اور جو نقصان ہوتا ہے وہ ان سب پر تقسیم ہو کر نمایاں نہیں رہتا اور جس کو یہ رقم ملتی ہے اس کا فائدہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ اس کے شخصی نفع کو دیکھتے ہیں۔ لیکن قوم کے اجتماعی نقصان پر دھیان نہیں دیتے۔ اس لیے ان کا خیال ان نئی قسموں کے جواز کی طرف چلا جاتا ہے۔ حالانکہ اس میں وہ سب مضرتیں موجود ہیں جو دو چار آدمیوں کے جوئے میں پائی جاتی ہیں۔ اور ایک حیثیت سے اس کا ضرر اس قدیم قسم کے قمار سے بہت زیادہ اور اس کے خراب اثرات دور رس اور پوری قوم کی بربادی کا سامان ہیں۔ کیونکہ اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ ملت کے عام افراد کی دولت گھٹتی جائے گی اور چند سرمایہ داروں کے سرمایہ میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پوری قوم کی دولت سمٹ کر محدود افراد اور محدود خاندانوں میں مرتکز ہوجائے گی۔ جس کا مشاہدہ سٹہ بازار اور قمار کی دوسری قسموں میں روز مرہ ہوتا رہتا ہے۔ اور اسلامی معاشیات کا اہم اصول یہ ہے کہ ہر ایسے معاملے کو حرام قرار دیا جس کے ذریعے دولت پوری ملت سے سمٹ کر چند سرمایہ داروں کے حوالے ہو سکے۔ قرآن کریم نے اس کا اعلان خود تقسیم دولت کا اصول بیان کرتے ہوئے اس طرح فرما دیا ہے کَیْ لَا یَکُوْنُ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُم یعنی مال فے کی تقسیم مختلف طبقوں میں کرنے کا جو اصول قرآن نے مقرر کیا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ دولت سمٹ کر صرف سرمایہ داروں میں جمع نہ ہوجائے۔ قمار یعنی جوئے کی خرابی یہ بھی ہے کہ شراب کی طرح قمار بھی آپس میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا سبب ہوتا ہے۔ ہارنے والے کو طبعی طور پر جیت جانے والے سے نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ تمدن اور معاشرت کے لیے سخت مہلک چیز ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے خاص طور پر اس مفسدہ کو ذکر فرمایا ہے اِنَّمَا یُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِوَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ ” شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض و نفرت پیدا کر دے اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ “ اسی طرح قمار کا ایک لازمی اثر یہ ہے کہ شراب کی طرح آدمی اس میں مست ہو کر ذکر اللہ اور نماز سے غافل ہوجاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے قمار اور شراب کو ایک ہی جگہ ایک انداز سے ذکر فرمایا ہے کہ معنوی طور پر قمار کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے جو آدمی کو اس کے بھلے برے کی فکر سے غافل کردیتا ہے۔ مذکورہ آیت میں بھی ان دونوں چیزوں کو جمع کر کے دونوں کے یہ مفاسد ذکر فرمائے ہیں کہ وہ آپس کی عداوت و بغض کا سبب بنتی ہیں اور ذکر اللہ اور نماز سے مانع بن جاتی ہیں۔ “ قمار کی ایک اصولی خرابی یہ بھی ہے کہ یہ باطل طریقہ پر دوسرے لوگوں کا مال ہضم کرنے کا ایک طریق ہے کہ بغیر کسی معقول معاوضہ کے دوسرے بھائی کا مال لے لیا جاتا ہے ‘ اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں منع فرمایا ہے لاَ تَأ کُلُوْا اَمْوَالَـکُمْ بَیْنَـکُمْ بِالْـبَاطِلِ ” لوگوں کے مال باطل طریقہ پر مت کھائو۔ “ قمار میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ دفعتہ بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں ‘ لکھ پتی آدمی فقیر بن جاتا ہے ‘ جس سے صرف یہی شخص متاثر نہیں ہوتا ‘ جس نے جرم قمار کا ارتکاب کیا ہے ‘ بلکہ اس کا پورا گھرانہ اور خاندان مصیبت میں پڑجاتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اس کی مالی ساکھ کو دیکھ کر اس سے معاہدے اور معاملات کیے ہوئے ہیں یا قرض دیئے ہوئے ہیں وہ اب دیوالیہ ہوجائے گا تو ان سب پر اس کی بربادی کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ قمار میں ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی قوت عمل سست ہو کر وہمی منافع پر لگ جاتی ہے اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے ہاتھ یا دماغ کی محنت سے کوئی دولت بڑھاتا رہے اس کی فکر اس بات میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح دوسرے کی کمائی پر اپنا قبضہ جمائے۔ یہ مختصر فہرست ہے قمار کے مفاسد کی جن سے نہ صرف اس جرم کا مرتکب متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے سب متعلقین ‘ اہل و عیال اور پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے فرمایا وَ اِ ثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِّنْ نَّفْعِہِمَا ” یعنی شراب و قمار کے مفاسد ان کے نفع سے زیادہ ہیں۔ “ (ماخوذ از معارف القرآن) سوال میں تکرار کی وجہ اس آیت کریمہ میں دوسرا سوال خرچ کرنے کے بارے میں ہے۔ یہ سوال دوسری مرتبہ پوچھا گیا ہے۔ یہ بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں تکرار نہیں ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا تھا کہ بیت اللہ کی آزادی کے لیے جہاد اگرچہ سب سے بڑی نیکی ہے اور اس راستے میں انفاق یقینا اللہ کو بہت محبوب ہے لیکن یہی انفاق تمہاری ساری توجہ کا حاصل نہیں بن جانا چاہیے۔ تمہارے اپنے گھر ‘ خاندان اور معاشرے میں جو ضرورتمند لوگ تمہاری اعانت کے محتاج ہیں انھیں کسی طرح نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے سب سے پہلی توجہ ان کی اعانت کی طرف کرو ‘ اس کے ساتھ ساتھ جو بھی تم جہاد کے سلسلے میں خرچ کرو گے اللہ یقینا اسے جانتا ہے۔ لیکن صحابہ ( رض) میں اللہ کے راستے میں ہر طرح کے ایثار کرنے کا جو بےپناہ جذبہ پید اہو گیا تھا اس کے پیش نظر یہ سوال دوبارہ زبانوں پر آگیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ اللہ کے راستے میں ہمارے خرچ کی آخر وہ انتہا کیا ہے جس سے ہمارا مالک ہم پر خوش ہوتا ہے۔ چناچہ یہ سوال اسی جذبہ سے کیا گیا ہے اور اسی جذبہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس پس منظر کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ سوال معمول کی زندگی سے متعلق نہیں ہے۔ عام حالات میں آدمی کو جس قدر ایثار کرنا چاہیے اس کے لیے تو پہلا سوال اور اس کا جواب ہی کافی ہے لیکن بیت اللہ کی آزادی کے حوالے سے مسلمان غیر معمولی کیفیت سے گزر رہے تھے۔ ان کے سامنے ایک بہت بڑا معرکہ ہے جس کے لیے بےپناہ مصارف درکار ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ اس معرکے کو ملتوی کرنا گویا اپنے آپ کو مرکز ِ اسلام سے محروم کرنا ہے۔ بیت اللہ کی حیثیت امت اسلامیہ کے جسم میں دل کی مانند ہے۔ جو ان کی شریانوں سے خون کھینچتا ہے ‘ نور توحید اور جذبہ حبِ الٰہی سے معمور کر کے واپس کردیتا ہے۔ اس طرح ایک صالح اسلامی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اس کا کافروں کے قبضے میں ہونا مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے ہنگامی حالات میں شریعت کے وہ احکام جو معمول کی زندگی سے متعلق ہیں ‘ ان سے زائد ایک بات پوچھی جا رہی ہے۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تمہاری ناگزیر ضرورتوں سے جو باقی بچ جائے اسے تم اس جہاد میں قربان کردو۔ معاملہ چونکہ اسلامی غیرت کا ہے اس لیے غیرت مند قوم کی طرح سب کچھ قربان کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ جہاد میں جب جان قربان کی جاسکتی ہے تو مال بچا کے رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ جہاد کے تقاضے مسلمانوں سے اس طرح کی قربانی کا تقاضہ کر رہے ہوں۔ عفو کا مفہوم بعض لوگوں نے عفو کے لفظ سے اشتراکی نظریات کے حق میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر یہ پورا پس منظر سامنے رہے جو میں نے عرض کیا ہے تو اس طرح کے تصورات کو کھینچ کے بلا وجہ اسلامی تعلیمات میں داخل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہنگامی اور ایمرجنسی حالات میں اسلام اپنے ماننے والوں کو بڑی سے بڑی قربانی پر اکساتا ہے لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ حالانکہ اگر ایسے حالات میں کوئی لازمی پابندی بھی لگا دی جائے تو امت اس کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ جنگ تبوک جس کی فوج کو جیش العسرۃ سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے شدید ضرورت کے باعث بار بار لوگوں کو انفاق کا حکم دیا اور لوگوں نے بھی دل کھول کر اپنی ہمت سے بڑھ کر ایثار کا ثبوت دیا۔ لیکن آپ ﷺ نے کوئی جبری ٹیکس یا کوئی پابندی لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور جہاں تک عام حالات کا تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے تو اشتراکی نظریات کی پرچھائیں تک بھی کہیں نظر نہیں آتیں۔ اگر انفرادی آزادی کی بجائے پارٹی یا حکومت کو ضرورت سے زائد زبردستی اپنے قبضے میں لینے کا اختیار ہوتا تو مسلمانوں کو بار بار انفاق کا حکم نہ دیا جاتا ‘ مسلمانوں پر زکوٰۃ نہ فرض کی جاتی ‘ اس کے علاوہ صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ قرآن پاک میں تفصیل سے احکامِ میراث آئے ہیں اور علم الفرائض کے نام سے مستقل ایک علم علوم اسلامیہ کا حصہ ہے۔ اگر آدمی کے لیے اپنے پیچھے کچھ چھوڑ کر جانا ممنوع ہوتا تو میراث کے احکام کی کیا ضرورت تھی ؟ آخر میں ارشاد فرمایا کہ یہ جو مختلف سوالات کی وضاحت کی جا رہی ہے یہ اس لیے ہے تاکہ تمہارے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت پیدا ہو۔ لیکن اس صلاحیت کو یک رخا نہیں ہونا چاہیے۔ کہ جس نے اس صلاحیت کو دنیا کے فوائد و مصالح کے ساتھ وابستہ کر کے رکھ دیا تو وہ دنیا ہی کا ہوگیا اور جہاد جیسے بنیادی احکام کو بھی غیر ضروری سمجھنے لگا۔ اور جس نے آخرت ہی کو اپنا موضوع بنایا اور دنیا اس کے غور و فکر سے خارج ہوگئی تو اس نے دین کو رہبانیت بنا کر رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں تفکر اور تدبیر کی صلاحیت سے بہرہ ور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے تم اپنے اندر وہ توازن پیدا کرو کہ دین مقصود بن جائے ‘ آخرت منزل قرار پائے اور دنیا اس کی تیاری کا ذریعہ ہو۔
Top