Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 222
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ١ؕ قُلْ هُوَ اَذًى١ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ١ۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ١ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے (بارہ) الْمَحِيْضِ : حالتِ حیض قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ اَذًى : گندگی فَاعْتَزِلُوا : پس تم الگ رہو النِّسَآءَ : عورتیں فِي : میں الْمَحِيْضِ : حالت حیض وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ : اور نہ قریب جؤ ان کے حَتّٰى : یہانتک کہ يَطْهُرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاِذَا : پس جب تَطَهَّرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاْتُوْھُنَّ : تو آؤ ان کے پاس مِنْ حَيْثُ : جہاں سے اَمَرَكُمُ : حکم دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے التَّوَّابِيْنَ : توبہ کرنے والے وَيُحِبُّ : اور دوست رکھتا ہے الْمُتَطَهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
(وہ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے وہ ناپاکی (اور بیماری) ہے، پس الگ رہا کرو عورتیں سے حیض کی حالت میں، اور ان سے قربت نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں، پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جائو جیسے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
وَیَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ط قُلْ ھُوَ اَذًی لا فَاعْتِزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ لا وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ج فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ۔ (وہ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے وہ ناپاکی (اور بیماری) ہے، پس الگ رہا کرو عورتوں سے حیض کی حالت میں، اور ان سے قربت نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں، پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جیسے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) (222 ) سوال کا پس منظر قرآن کریم انسانی زندگی کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے۔ جس میں زندگی کی تمام ضروریات اور تمام احساسات کے حوالے سے رہنمائی مہیا کی گئی ہے۔ انسانی زندگی کا اسلوب یہ ہے کہ ایک ضرورت سے دوسری ضرورت پھوٹتی ہے۔ اور ہر ضرورت کے پیدا ہونے کے وقت اس کی رہنمائی کی طلب ہوتی ہے۔ قرآن کریم اپنی مخصوص حیثیت کی وجہ سے اسی ترتیب اور اسلوب کے ساتھ ہدایات دیتا ہے۔ اسی سورت کے مضامین کو دیکھ لیجئے کہ اس کے مضامین درجہ بدرجہ حج کے مضمون تک پہنچے۔ بیت اللہ چونکہ قریش مکہ کے قبضے میں تھا۔ اس لیے حج کی ضرورت سے بیت اللہ کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو جہاد فرض کیا گیا۔ جہاد کی نسبت سے انفاق کی ضرورت پیدا ہوئی تو اس کے احکام دیئے گئے۔ عرب میں چونکہ خمار اور میسر کی مجالس قحط سالی کے زمانے میں انفاق کا بہت بڑا ذریعہ تھیں اس لیے اس کے جواز اور عدم جواز کا سوال پیدا ہوا۔ جہاد اور انفاق ہی کے حوالے سے یتیموں کی دیکھ بھال اور ہمدردی کے مسائل پیدا ہوئے اور پھر ان کی مائوں سے نکاح کرنے کے حوالے سے نکاح اور طلاق کے مسائل کی ضرورت نے جنم لیا اور نکاح اور طلاق اور عدت اور وراثت کے مسائل کا چونکہ بہت حد تک انحصار ایام ماہواری میں میاں بیوی کے تعلق اور اس کی حدود پر ہے۔ اس لیے اس سوال کو خود بخود اہمیت مل گئی۔ چناچہ اس نے ایک سوال کی شکل اختیار کرلی اور اس رکوع میں سب سے پہلے اسی سوال کا جواب دیا گیا۔ لیکن سب سے پہلے اس سوال کی نوعیت کو سمجھ لیا جائے تاکہ اس کے جواب کی اہمیت ‘ افادیت اور وسعت اچھی طرح ذہن نشین ہو سکے۔ سوال کا پس منظر یہ ہے کہ عورتوں کے ایام مخصوص میں تمام مذاہب میں یہ تصور تو پایا جاتا تھا کہ ان دنوں میں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے قربت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس میں بہت حد تک افراط وتفریط بھی پائی جاتی تھی اور بہت دفعہ حدود سے تجاوز بھی کیا جاتا تھا۔ یہود اور ہمارے قریبی ہمسائے ہندوئوں نے مذہبی طور پر یہ یقین کر رکھا تھا کہ عورت ان ایام میں اس حد تک ناپاک ہوتی ہے کہ نہ صرف اس سے قربت نہیں ہونی چاہیے بلکہ عائلی زندگی کا کوئی تعلق بھی اس کے ساتھ باقی نہیں رہنا چاہیے۔ نہ اس کو اپنے قریب بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ‘ نہ اس کے جسم کو چھوا جاسکتا ہے ‘ نہ وہ کھانے پینے کے برتنوں کو ہاتھ لگا سکتی ہے ‘ نہ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں کو کھانا پکا کر دے سکتی ہے۔ عورت عام طور پر اس حالت میں تین دن سے لے کر دس دن تک مبتلا رہتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مہینے کا تہائی حصہ بالکل عضو ِ معطل بنی رہے۔ دینی معاملات تو ایک طرف رہے۔ اسے دنیوی معاملات بھی انجام دینے کا کوئی حق نہیں۔ گھر میں کسی جانور سے بھی یہ سلوک نہیں کیا جاتا جس کا شکار ان مذاہب میں عورت کو بنادیا گیا تھا۔ اور عیسائیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ان ایام میں بھی کسی طرح کی پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان میں بری طرح اباحیت پائی جاتی تھی۔ نہ انھیں گندگی کا احساس تھا ‘ نہ خاتون کی ناموافق طبیعت کا۔ حالانکہ عیسائیت شرعی اعتبار سے تورات کی شریعت کی متبع ہے۔ لیکن سینٹ پال نے ان کو اس بری طرح سے پٹڑی سے اتارا کہ شریعت کی پابندیوں سے آزاد کردیا۔ شریعت کی پابندیوں سے آزادی کا مطلب خواہشات کی علی الاطلاق پیروی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ مشرکینِ عرب بھی بہت حد تک اس افراط وتفریط کا شکار تھے۔ وہ اگرچہ اپنے رویے کا انحصار ملت ابراہیم پر رکھتے تھے لیکن حقیقت میں وہ صرف خواہشات کے پرستار تھے۔ اسلام نے ان غیر معتدل رویوں کے درمیان ایک نہایت معتدل اور حکیمانہ اسلوبِ زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جس سے بہتر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سوال کا جواب اب ہم اس آیت کریمہ کے ایک ایک ارشاد پر غور کرتے ہیں۔ سوال کے جواب میں سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ یہ حیض ایک اذی ہے۔ اذ ًی کا معنی گندگی بھی ہوتا ہے اور بیماری بھی۔ گندگی تو ظاہر ہے خون سے بڑھ کر گندگی کیا ہوسکتی ہے۔ اس لحاظ سے عورت ان دنوں میں انتہائی گندہ حالت میں ہوتی ہے اور کوئی سلیم الطبع انسان اس حال میں عورت سے قربت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ان دنوں میں اس کیفیت میں ہوتی ہے جسے صحت سے زیادہ بیماری کے قریب سمجھنا چاہیے۔ اس کی طبیعت میں اعتدال نہیں رہتا ‘ چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے ‘ جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں ‘ معمولی باتوں پر بھی برہم ہوجاتی ہے ‘ وہ باتیں جو عام دنوں میں آسانی سے گوارا ہوجاتی ہیں ‘ ان دنوں میں انھیں برداشت کرنا عورت کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے جہاں شوہر کو اس کے قریب نہ جانے کی علت سے آگاہ کیا گیا ہے وہیں اسے یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ان دنوں میں اپنی بیوی سے نہایت سازگاری رکھنے کی کوشش کرو۔ اس کی طرف سے اگر کوئی ناموافق بات بھی سامنے آئے تو برداشت کرنے کی کوشش کرو۔ اس کو نارمل سمجھ کر اس سے معتدل اور ہموار رد عمل کی توقع مت کرو۔ اگر وہ کسی وقت ناگوار رویے کا اظہار کرے تو اسے اس کی حالت کا تقاضا سمجھ کر نظر انداز کردو۔ اس کے گندہ ہونے کے حوالے سے فرمایا گیا کہ اس کی قربت اختیار نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائے۔ اور قربت اختیار نہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اگلے جملے سے اس کی وضاحت فرما دی گئی۔ یعنی قربت اختیار نہ کرنے کا مطلب میاں بیوی کا رشتہ قائم نہ کرنا ہے ‘ جسے رشتہ زوجیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رہے انسانی رشتے ان میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ تم صرف اس سے انتہائی جسمانی قربت سے پرہیز کرو۔ لیکن باقی ہر طرح کی قربت اور ہر طرح کے معاملات میں شرکت اور ساتھ اٹھنا بیٹھنا ‘ گھر کا کام کاج کرنا ‘ کھانا پکا کے دینا ‘ بچوں اور شوہر کی خدمت کرنا ‘ اس طرح کی کسی بات پر کوئی پابندی نہیں۔ آنحضرت ﷺ کا عمل اس کے لیے مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ازواج مطہرات نے آنحضرت ﷺ کے طرز عمل سے جو کچھ امت کے حوالے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں عورتیں نماز ‘ روزے اور قرآن خوانی سے دور رہیں۔ لیکن زندگی کے باقی معاملات میں ان کی شرکت سے کوئی مانع نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اعتکاف کی حالت میں مسجد میں کھڑے ہو کر اپنے گھر سے کوئی چیز مانگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کو آپ کو وہ چیز پکڑانے میں تأمل ہوا کیونکہ وہ ایام مخصوص گزار رہی تھیں ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” اس ناپاکی کا اثر تمہارے ہاتھوں میں تو نہیں ہے۔ “ اسی حالت میں آپ ﷺ نے اپنا سر باہر نکالا آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ نے اس کو دھودیا۔ حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ میں مخصوص دنوں میں چونکہ نماز نہیں پڑھ سکتی تھی اس لیے میں تہجد کے وقت سو رہی تھی اور آنحضرت ﷺ تہجد ادا فرما رہے تھے۔ کمرہ تنگ ہونے کے باعث ایک طرف لیٹنے کی جگہ نہیں تھی۔ میری اختیاط کے باوجود بھی میرے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ آپ ﷺ کے سامنے آجاتا۔ چناچہ جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو میں اپنے آپ کو سمیٹ لیتی ‘ اور جب آپ ﷺ قیام فرماتے تو میں پائوں پسار لیتی۔ اس احتیاط کے باوجود بھی سجدہ کرتے ہوئے بعض دفعہ آپ ﷺ کا ہاتھ مجھ سے چھو جاتا۔ اندازہ فرمایئے کہ نماز کی حالت میں مجھ سے چھو جانے کے باوجود نہ آپ ﷺ کی نماز ٹوٹتی ‘ نہ آپ ﷺ کا وضو ٹوٹتا۔ حضرت عائشہ ( رض) نے ان باتوں کو صرف اس لیے بیان فرمایا تاکہ امت کو ان مسائل کا علم ہوجائے کہ حائضہ عورت ناپاک ہونے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتی ‘ روزہ نہیں رکھ سکتی ‘ قرآن پاک کو چھو نہیں سکتی اور اپنے شوہر سے جسمانی قربت کا تعلق قائم نہیں کرسکتی۔ لیکن زندگی کے باقی معاملات میں معمول کے مطابق دخیل رہتی ہے۔ خاتونِ خانہ کو یہ وقار اور یہ عزت اور انسانیت کے لیے یہ سہولت اسلام نے عطا فرمائی ہے دوسرے مذاہب نے اسے بالکل چھین رکھا ہے۔ شوہر سے یہ دوری اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک بیوی اپنے ایام مخصوص سے فارغ نہیں ہوجاتی اور فارغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ آنے والا خون رک جائے۔ یہ خون ہی چونکہ گندگی کا باعث ہے اور اسی وجہ سے علیحدہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اسی کو حَتّٰی یَطْہُرْنَ (حتیٰ کہ وہ پاک ہوجائیں) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ البتہ فقہاء اس میں احتیاط کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ خون کے بند ہونے پر ایک نماز کا وقت گزر جانا چاہیے تاکہ اطمینان ہوجائے کہ واقعی خون رک گیا ہے۔ اور اگر ایام حیض کی آخری مدت دس دن پورے ہونے کے بعد خون رکے تو مدت کی تکمیل بجائے خود سب سے بڑی احتیاط ہے۔ اب میاں بیوی کو ایک دوسرے کے قریب ہونے کی اجازت ہے۔ لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ طہارت کا یہ عمل مکمل ہوجائے۔ اور طہارت کا عمل ظاہر ہے غسل کرنے کے بعد مکمل ہوگا۔ اسے تَطَہَّرْنَ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یَطْہُرْنَ اور تَطَہَّرْنَ کا مفہوم یَطْہُرْنَ اور تَطَہَّرْنَ معنوی اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ یعنی دونوں کا معنی ہے ” کہ وہ عورتیں پاک ہوجائیں “ لیکن عربی زبان کا ایک اصول ہے کہ کَثْرَۃُ الْاَلْفَاظِ تَدُلُّ عَلٰی کَثْرَۃِ الْمَعْنٰی ” الفاظ کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ “ تَطَہَّرْنَ میں چونکہ الفاظ زیادہ ہیں اس لیے اس کی طہارت اور صفائی میں بھی یقینا زیادتی ہوگی۔ اور وہ زیادتی یہ ہے کہ خون بند ہوجانے کے بعد وہ عورتیں غسل بھی کرلیں۔ اگرچہ خون بند ہوجانے کے بعد میاں بیوی کو قربت کی اجازت ہے لیکن صحیح اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ نہانے دھونے کے بعد میاں بیوی کو ایک دوسرے کی قربت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اور اس قربت کے بارے میں ایک عجیب بات ارشاد فرمائی۔ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ کی وضاحت فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُُ ط اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ اپنی بیویوں کے پاس آئو جیسے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اور دوسری معنی یہ ہے کہ جہاں سے اللہ نے تہیں حکم دیا ہے۔ ” حیث “ جہاں اور جیسے دونوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں (1) ” حیث “ سے کیا مراد ہے ؟ (2) حکم دینے سے کیا مراد ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ان پرائیویٹ معاملات کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا۔ قرآن کریم اس کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔ اور ان چیزوں کا تعلق چونکہ شرم و حیا سے ہے اس لیے قرآن کریم بات کو اس طرح ملفوف انداز میں کہتا ہے جس سے بات سمجھی بھی جاسکتی ہے لیکن اس سے جبینِ حیا پر شکن نہیں آتی۔ یہود نے معلوم ہوتا ہے میاں بیوی کی قربت کے لیے بھی کوئی خاص طریقے مقرر کر رکھے تھے۔ اسلام نے اس کے تعین کے بجائے میاں بیوی کے فطری ذوق پر اسے چھوڑا ہے۔ اور جہاں تک حکم دینے کا تعلق ہے اس سے مراد یہی فطری رہنمائی ہے۔ جب ہم کسی چیز کو کے بارے میں کہتے ہیں یہ تو ایک بدیہی بات ہے جسے سمجھانے کی کیا ضرورت ہے تو اصل میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ نے اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں فطری رہنمائی مہیا فرمائی ہے۔ اللہ کا یہ فطری الہام درحقیقت اللہ کا حکم ہے جو ایسے تمام معاملات میں انسان اور حیوان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور ایسے فطری الہامات کی مخالفت درحقیقت اللہ کے احکام کی مخالفت ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جب بھی کھانا کھاتا ہے تو منہ کے ذریعے کھاتا ہے حالانکہ قرآن و سنت میں کہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ لیکن یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی تعمیل پوری نوع انسانی کر رہی ہے۔ اور یہ حکم انسان کو اس کی فطرت نے دیا ہے۔ جنسی معاملات میں بھی ایسی تمام طبیعتیں جنھیں باہر کے غیر معمولی اثرات نے بگاڑا نہ ہو ان کی فطرت ان کو ٹھیک ٹھیک رہنمائی دیتی ہے کہ میاں بیوی کے انتہائی نازک تعلقات کس اسلوب سے انجام پانے چاہئیں۔ اور اگلی آیت ِ کریمہ میں اس آیت کو مزید کھول دیا گیا ہے۔ مومن کے ظاہر و باطن کی پاکیزگی مطلوب ہے اس آیت ِ کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ” بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے “ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کا نام ہے اور تطہر اپنے جسم ‘ اپنے لباس اور اپنے ماحول کو ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ ایک مومن کا ظاہر بھی پاک ہو اور اس کا باطن بھی پاک ہو۔ ظاہر پاک ہوگا اور ظاہر کو پاک رکھنے کا احساس اس کے دل و دماغ میں پیوست ہوجائے گا تو وہ کبھی بھی گندگی کے دنوں میں اپنی بیوی سے قربت انھیں کرے گا۔ اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ طہارت کے ظاہری احساس سے بھی محروم ہے۔ اور جو شخص باطن کی پاکیزگی سے مالا مال ہے اس سے یہ کبھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قضائے شہوت کے معاملے میں فطرت کی حدود سے تجاوز کرے۔ اور یہی دونوں باتیں اس آیت کریمہ کا حاصل ہیں۔ اور آیت کے آخر میں ان دونوں کو لپیٹ کر کس خوبصورتی سے توجہ دلائی گئی ہے۔ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّـکُمْ ص فَاْتُوْا حَرْثَـکُمْ اَنّٰی شِئْـتُمْ ز وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـکُمْ مُّلٰـقُوْہُ ط وَ بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (تمھاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آئو، اور اپنے لیے آگے بھیجو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ تمہیں اس سے لازماً ملنا ہے، اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دو ) ( 223) زوجین کے تعلق کی حقیقت اور اس کے تقاضے شوہر کے لیے اس کی بیوی کی حیثیت کیا ہے اور اسے شوہر ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟ اس آیت کریمہ میں نہایت جامعیت کے ساتھ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ بیویاں تمہارے لیے کھیتی کی مانند ہیں۔ یہ ایک استعارہ ہے جس میں بہت ساری باتیں سمیٹ کر کہہ دی گئیں ہیں۔ حرث کا معنی عربی زبان میں کھیتی کے ہیں۔ اور کھیت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کھیتی چاہے اپنے اندر کتنا بھی تنوع رکھتی ہو وہ بہرحال حرث ہے۔ اس لیے ہر طرح کی فصل کو بھی حرث کہا جاتا ہے اور باغ کو بھی حرث کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی کھیت کی پیداوار ہے۔ بیوی کو کھیتی قرار دے کر شوہر کو اس کی حیثیت بتلائی گئی ہے کہ تم اپنی ازدواجی زندگی کا حاصل یہ مت سمجھنا کہ میرے پیش نظر صرف عیش کی زندگی گزارنا ہے۔ مجھے اپنی بیوی سے ہر وقت اور ہر طرح کی وہ خوشیاں حاصل کرنی ہیں جن کا تعلق انسان کے سفلی جذبات اور جنسی خواہشات سے ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کھیتی کا مالک اپنی کھیتی کے بارے میں صرف یہی تصور نہیں رکھتا کہ مجھے باغ کا گھنا سایہ چاہیے ‘ لہلہاتی ہوئی فصلوں کا آنکھوں کو خیرہ کردینے والا حسن چاہیے۔ کھیتوں میں اڑتے اور چہچہاتے پرندوں کی مسحور کردینے والی موسیقی چاہیے۔ یقینا یہ تمام چیزیں کھیتی کے مالک کا حق ہیں ‘ لیکن کھیتی کے مالک کے پیش نظر ان چیزوں کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داریوں کا شدید احساس بھی ہوتا ہے جو اس کھیتی کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ اگر کھیتی کا مالک اپنی کھیتی کی ضرورتوں کا خیال نہیں کرتا ‘ وہاں مناسب وقت پر ہل نہیں چلاتا ‘ ضرورت کے مطابق اس کو کھاد اور پانی نہیں دیتا اور موسمی آفات سے بچانے کی تمام تدبیریں بروئے کار نہیں لاتا ‘ اور کھیتی کو نقصان پہنچانے والے تمام چرند پرند اور کھیتی کے دشمنوں سے اس کی حفاظت نہیں کرتا تو کھیتی کے مالک کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ یہ کھیتی میری ہے۔ یہ تو اس کے مالک ہونے کی حیثیت سے لازمی تقاضے ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا بہرصورت ضروری ہیں۔ شوہر کو بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنی بیوی سے ہر طرح کی خوشیاں تو حاصل کرنا چاہتے ہو لیکن اس سلسلے کی جو ذمہ داریاں ہیں تمہیں اگر ان کا احساس نہیں تو تم میاں بیوی کے حقیقی تعلق سے بےبہرہ ہو۔ مزید فرمایا کہ فَاْتُوْا حَرْثَـکُمْ اَنّٰی شِئْـتُمْ (کہ تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آئو) اس جملے پر غور کیجئے۔ اس میں نہایت خوبصورتی سے متذکرہ بالا دونوں باتوں کی طرف دوسرے پہلو سے اشارہ فرمایا گیا۔ اَنّٰی شِئْـتُمْ سے ازدواجی زندگی کی آزادی کی طرف اشارہ ہے۔ کہ تم اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں ہر طرح آزاد ہو۔ تمہاری خلوت اور تنہائی پر فطرت کی چند پابندیوں کے سوا کوئی پابندی نہیں۔ تم جب اپنی بیوی کے ساتھ تنہا ہوتے ہو تو ہر طرح کی اخلاقی پابندیاں اپنا دامن سمیٹ لیتی ہیں۔ تم دونوں ایک دوسرے کے لباس کی شکل اختیار کر جاتے ہو۔ تمہارے دونوں وجود ایک وجود میں ڈھل جاتے ہیں۔ تم عیش و سرور کے اس نشیمن میں ایک ایسی آزادی سے ہمکنار ہوتے ہو جس میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ یہ آزادیاں تمہیں اس لیے دی گئی ہیں تاکہ تمہارے عیش و نشاط اور سکون میں کوئی چیز حائل نہ ہونے پائے۔ لیکن تمہیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ تم جس باغ سے عیش و نشاط سمیٹنا چاہتے ہو وہ بہر صورت باغ ہے کوئی جنگل نہیں۔ وہ ایک کھیتی ہے کوئی ویرانہ نہیں۔ تم اس کھیتی کے کسان اور کاشتکار ہو۔ تم اس کے اجاڑنے اور پامال کرنے والے نہیں ہو۔ جب تک یہ احساس تمہیں دامن گیر رہے گا کہ تم اپنی کھیتی میں ہو ‘ جنگل یا ویرانے میں نہیں تو تم یقینا ان تصورات سے بیگانہ نہیں ہوسکتے کہ ہر فصل کا ایک موسم ہوتا ہے اور تخم ریزی کا ایک وقت ہوتا ہے۔ نہ بےموسم فصلیں اگتی ہیں اور نہ بےوقت تخم ریزی ہوتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ تخم ریزی جب بھی ہوتی ہے وہ کھیتی میں ہوتی ہے ‘ کھیتی سے باہر نہیں۔ اور تخم ریزی سے مقصود تخم کا ضیاع نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس سے پیداوار حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ بیویوں کے حرث ہونے نے خاندانی منصوبہ بندی کی جڑ کاٹ دی ہے مختصر یہ کہ اس ایک جملے نے انسان کی ازدواجی زندگی کے احساسات اور اہداف کو ایک ایسی نہج دے دی ہے اور اسلامی ازدواج کا پورا فلسفہ اس طرح سمیٹ کر رکھ دیا ہے کہ اس سے زیادہ فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صاف صاف بتادیا کہ تمہاری بیوی کی حیثیت چونکہ حرث اور کھیتی کی ہے اس لیے اس سے نکاح کا مقصد صرف لذت طلبی نہیں ‘ بلکہ حصول اولاد ہے۔ اس تصور نے خاندانی منصوبہ بندی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔ کسی بھی کسان سے اس کی کھیتی کے بارے میں اگر تبادلہ خیال کریں تو کسان آپ سے ایسے تمام پہلوئوں پر بات کرے گا جس سے بہتر سے بہتر فصل حاصل کرنے میں مدد ملے۔ اور اگر کوئی شخص اسے یہ مشورہ دینا چاہے کہ میں تمہیں ایک ایسی تجویز بتاتا ہوں جس کے بعد تمہاری زمین یا تو کم سے کم فصل دے گی یا بالکل بنجر ہوجائے گی۔ تو کسان ایسے شخص سے بات کرنے سے انکار کر دے گا۔ لیکن ہمارے یہاں اس بات کو علم و دانش کی معراج سمجھ لیا گیا ہے کہ عورت جسے بیوی ہونے کی حیثیت سے اللہ نے حرث اور کھیتی قرار دیا ہے ہم اس سے لطف و لذت تو چاہتے ہیں لیکن ہم اسے زیادہ بارآور اور زیادہ مثمر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ حالات کا دبائو بعض دفعہ کسی شخص کو بچوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ لیکن ہمارے علم و دانش کا یہی تو المیہ ہے کہ ہم انفرادی ضرورتوں اور قوم کے اجتماعی تقاضوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور نہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی ایک شخص کے حالات کو دیکھ کر جو اسے رعائت دی جاسکتی ہے وہی رعائت قومی حیثیت میں اور قانون کی شکل میں تجویز نہیں کی جاسکتی۔ اور جو شخص ان دونوں باتوں میں فرق نہیں سمجھتا اسے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کرنی چاہیے۔ چناچہ شریعت نے افراد کو خاص حالات میں بعض سہولتیں دی ہیں اور بعض پابندیوں کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ اس کے لیے اہل علم سے راہنمائی لی جاسکتی ہے۔ لیکن کسی قوم کو خاندانی منصوبہ بندی پر لگا دینا اور اسلام کے ازدواجی فلسفے کو تباہ کر کے رکھ دینا اور عقیدہ توحید اور عقیدہ توکل کو مفلوج کردینا اور ہمسایہ قوموں کے حوالے سے اپنی افرادی ضرورت کا صحیح اندازہ نہ کرسکنا ‘ یہ دل و دماغ کا وہ کوڑھ ہے جس کا علاج کرنا از بس ضروری ہے۔ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ کے ارشاد سے اسی بات کو آگے بڑھایا گیا ہے کہ ازدواجی تعلق کے صحیح احساسات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تم نسل انسانی کے قافلے کو آگے بڑھنے میں مدد دو ۔ تم اپنے آبائو اجداد کی انسانی میراث ہو۔ یہی میراث آگے چلنی چاہیے تاکہ انسانی قافلہ کہیں رکنے نہ پائے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھو کہ تم جو نسل مستقبل کے حوالے کرو اسے تربیت یافتہ اور اخلاق سے مرصع ہونا چاہیے تاکہ تمہارے بعد تمہاری اولاد صرف تمہاری جسمانی وارث نہ ہو بلکہ تمہاری اخلاقی خصوصیات کو بھی آگے منتقل کرے۔ اور یہی حقیقت میں وہ جوہر ہے جو نسل در نسل انسانی اخلاقی خصوصیات کو باقی رکھتا ہے اور اسی سے قومیں توانا ہوتی ہیں اور شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰـقُوْہُ اور اللہ سے ڈرو اپنی اولاد کی تربیت میں کسی طرح کی کمزوری نہ دکھائو۔ اور خوب جان لو کہ تمہیں اپنے رب سے ملنا ہے اس کے حضور حاضری دینی ہے۔ وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں اور اولاد سے متعلق بھی تم سے جواب طلبی کرے گا۔ اگر تم نے اپنا فرض ٹھیک ٹھیک انجام نہیں دیا تو اس وقت جواب دہی بہت مشکل ہوجائے گی۔ اور آخر میں فرمایا وَ بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ایمان اور یقین لانے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں اور اسے اپنا عمل بناتے ہیں وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ انھیں سرخرو فرمائے گا۔
Top