Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ کو اپنی قسموں کی رکاوٹ نہ بنائو کہ تم احسان نہیں کرو گے یا حدود الٰہی کا احترام نہیں کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہیں کرائو گے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے
وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِّاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّـقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ (اللہ کو اپنی قسموں کی رکاوٹ نہ بنائو کہ تم احسان نہیں کرو گے یا حدود الٰہی کا احترام نہیں کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہیں کرائو گے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں پکڑے گا تمہاری لایعنی قسموں پر۔ لیکن تمہیں پکڑے گا ان قسموں پر جن کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہے۔ اللہ بہت بخشنے والا بردبار ہے) (224 تا 225) معاشرے میں قسم کی اہمیت انسانی معاشرے میں معاشرتی ‘ سماجی اور سیاسی معاملات میں قسم کی ہمیشہ ضرورت پڑتی ہے۔ ہر معاشرے میں جس نام کی قسم کھائی جاتی ہے اس کا خاص احترام ملحوظ خاطر ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں رہنے والے لوگ حتیٰ الامکان غلط بات کے لیے اس نام کو استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ جب بھی کسی معاملے میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے یا کسی شب ہے کے ازالے کا موقعہ ہوتا ہے یا کسی معاہدے کو استحکام دینا مقصود ہوتا ہے تو عموماً قسم سے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ یہاں جن مسائل کا ذکر ہو رہا ہے ان میں بھی بسا اوقات کبھی بیوی کو قسم دینے کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی شوہر کو۔ خاص طور پر آگے جو احکام ذکر کیے جا رہے ہیں جن میں بہت اہم ایلاء کا معاملہ ہے۔ ان میں چونکہ دارومدار ہی قسم پر ہے اس لیے ان مسائل کا ذکر کرنے سے پہلے پروردگار نے یہ مناسب سمجھا کہ قسم کی اہمیت کو واضح کردیا جائے۔ عُرْضَۃٌ کا معنی ہے حاجز ‘ یعنی رکاوٹ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کچھ ایسے لوگ تھے اور ہر معاشرے میں ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں ‘ جو کسی وجہ سے کسی نیک کام کو چھوڑ دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس پر اللہ کے نام کی قسم کھاتے ہیں کہ میں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا مثلاً ماں باپ سے بگڑ گئے تو کہا آئندہ ان کی خدمت نہیں کروں گا۔ بھائی سے ناراض ہوگئے تو اس سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھالی یا کسی ادارے کی مدد کر رہے تھے کسی واقعے سے مشتعل ہو کر اس ادارے کی مدد نہ کرنے پر قسم کھالی۔ اور پھر جب کوئی انھیں کہتا کہ تم نے ایک نیک کام سے ہاتھ کھینچ کر بہت غلط فیصلہ کیا تو وہ جواب میں یہ عذر کرتے کہ فیصلہ غلط ہی سہی لیکن اب کیا ہوسکتا ہے اب تو میں قسم کھاچکا ہوں۔ ایسے لوگوں پر دو حوالوں سے تنقید فرمائی گئی ہے۔ قَسم پر دو حوالوں سے تنقید ایک تو یہ کہ تم بھلائی کے کام نہ کرنے پر اللہ کی قسم کھا کر گویا اللہ کے نام کو اپنے اور بھلائی کے درمیان ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس اللہ نے بھلائی کو وجود بخشا اور انسانوں کو بھلائی کرنے کا پابند ٹھہرایاتم اسی کے نام کو بھلائی نہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہو اس سے زیادہ اللہ کے نام کی توہین اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور اللہ کی ذات یا اس کے نام کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے مجرم کو نہ اللہ کبھی معاف کرے گا اور نہ اللہ کے ماننے والے کبھی معاف کرتے ہیں۔ تنقید کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ اللہ نے بھلائی اور نیکی کے تین راستے کھولے ہیں۔ ایک کو ” بِر “ کہا گیا ہے ‘ دوسرے کو ” تقویٰ “ اور تیسرے کو ” اصلاح بین الناس “۔ یہی تینوں باتیں پورے دین سے عبارت ہیں۔ ” بِر “ کا لفظ ان تمام نیکیوں پر حاوی ہے جن کا تعلق والدین ‘ رشتہ داروں ‘ مسکینوں ‘ یتیموں اور دوسرے مستحقین کے حقوق سے ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ تمام حقوق العباد ” بِر “ کے مفہوم میں شامل ہیں اور ” تقویٰ “ ان نیکیوں پر بولا جاتا ہے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ اس لحاظ سے تمام عبادات ‘ تمام نذر و نیاز اور منتوں کے معاملات ‘ تمام قربانیاں اور ایک پہلو سے تمام معاہدات اس میں شامل ہیں۔ اور ” اصلاح بین الناس “ سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے ‘ انسانوں کے کام آنے ‘ انسانوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور انسانوں کا بھلا چاہنے سے متعلق ہیں۔ اب آپ اندازہ فرمایئے کہ اگر لوگ ان تمام نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی یا ان تمام نیکیوں کو نہ کرنے کی قسم کھالیتے ہیں تو پھر انسانیت کے دامن میں باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے قسم کھانے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کی ذات نہ سنتی ہے نہ جانتی ہے۔ وہ اگر اللہ کو اتنا بیخبر نہ جانتے یا اگر ان کا ایمان اتنا کمزور نہ ہوتا تو وہ کبھی ایسی نیکیوں سے رکنے کا تصور نہ کرتے اور اللہ کے نام کو درمیان میں لانے کی تو کبھی جسارت بھی نہ کرتے۔ ایسی قسموں کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے اذا حلفت علی یمین فرأیت غیرہا خیرا منہا فات الذی ھو خیروکفرعن یمینک ” اگر تم کسی بات کی قسم کھالو اور پھر اس کے بعد دیکھو کہ اس سے دوسرا کام نیک معلوم ہوتا ہے تو وہ نیک کام کرلو اور قسم کا کفارہ ادا کردو “ یعنی دین کا اصل مقصد اگر بھلائیوں کو اختیار کرنا اور انھیں فروغ دینا ہے تو پھر قسم کو ان کے لیے رکاوٹ نہ بنائو۔ اگر تم غلطی سے ایسا کرچکے ہو تو قسم توڑ ڈالو اور قسم کا کفارہ دے دو اور قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائو اوسط درجے کا کھانا یا دس مسکینوں کو کپڑے بنا کے دو اور اگر اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھو۔ قَسم کی اقسام دوسری آیت کریمہ میں قسم کی اقسام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سی قسم ہے جس پر اللہ مواخذہ نہیں فرماتے اور وہ کونسی قسم ہے جس پر مواخذہ کیا جائے گا۔ 1 یمینِ لغو جس قسم پر مواخذہ نہیں ہوگا اسے ” یمین لغو “ کا نام دیا گیا ہے۔ یمین قسم کو کہتے ہیں۔ اس کا معنی ہوگا لغو قَسم۔ مراد اس سے یہ ہے کہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ تکیہ کلام کے طور پر بات بات پر قسم کھاتے رہتے ہیں ‘ لیکن ان کا ارادہ قسم کھانے کا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ میں قسم کے الفاظ ادا کر رہا ہوں۔ ایسی قسم چونکہ دل کے ارادے کے بغیر کھائی جاتی ہے ‘ اس لیے اسے لغو قسم کہا جاتا ہے۔ مزید برآں ایسی قسم کو بھی لغو کہا جاتا ہے کہ قسم تو اس نے اپنے ارادے سے کھائی ‘ لیکن اس کا گمان یہ ہے کہ میں جس واقعے کے بارے میں خبر دے رہا ہوں وہ واقعہ بالکل صحیح ہے۔ حالانکہ وہ واقعہ صحیح نہیں ہوتا۔ تو چونکہ اس نے قصداً جھوٹ نہیں بولا۔ مثلاً وہ اپنے گمان میں یہ سمجھتا ہے کہ زید آگیا ہے اور وہ حلفاً اس کے آنے کی خبر دے دیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ زید نہیں آیا۔ اس لیے ایسی قسم کو بھی لغو قسم کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے منہ سے ایک ایسی قسم نکل گئی جس کا وہ ارادہ نہیں رکھتا تھا ‘ کہنا کچھ اور چاہتا تھا اور منہ سے کچھ اور نکل گیا اس کا شمار بھی لغو قسم میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرماتے۔ لیکن یمین لغوکا لفظ ہمیں ایک اور اہم اور نازک بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس قسم کو لغو قرار دینا یقینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس فعل اور رویے کو پسند نہیں فرماتے۔ کیونکہ کوئی سا لغو کام بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اور ایک مومن کی جو صفات گنوائی گئی ہیں ‘ اس میں بھی بطور خاص اس بات کا ذکر فرمایا ہے والذین ھم عن اللغو معرضون ” کہ فلاح پانے والے مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس کی زبان سے لغویات کا صدور ہو۔ چاہے اس کا تعلق زبان کی بےاحتیاطی سے ہو اور چاہے اس کا تعلق معاملات میں لاپرواہی سے ہو۔ ہر لا یعنی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔ یعنی ہر ایسی بات جس کا تعلق نہ دنیا کے بھلے کاموں سے ہو نہ آخرت کے کاموں سے۔ ایسے لا یعنی کاموں کو کرنا ایک مومن کو اس لیے زیب نہیں دیتا کیونکہ اس سے اسلام کا حسن دھندلا کر رہ جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ” ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑ دے “ لغوقَسم بھی چونکہ ایسے ہی لا یعنی کاموں میں سے ہے ‘ اس لیے ایک مومن کو اس کے ارتکاب سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ 2 یمینِ غموس قَسم کی دوسری قسم ” یمین غموس “ کہلاتی ہے۔ اس سے مراد وہ قسم ہے جسے قسم کھانے والا خود جھوٹا سمجھتا ہو ‘ لیکن پھر بھی قسم کھاتا ہو۔ یا ماضی کے کسی واقعے کے بارے میں قسم کھا کر کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ‘ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا ہوا تھا۔ ایسی قسم پر کفارہ تو نہیں ہوتا ‘ لیکن اس پر گناہ ہوتا ہے۔ گناہ ہونے کے لحاظ سے یقینا آخرت میں اس پر مواخذہ ہوگا۔ 3 یمینِ منعقدہ قَسم کی تیسری قسم ” یمین منعقدہ “ ہے۔ یہ وہ قسم ہے جسے عام طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ آدمی کسی سے حلفاً وعدہ کرتا ہے میں تمہیں یہ چیز دوں گا اور پھر نہیں دیتا۔ اس صورت میں یہ قسم ٹوٹ جائے گی یا مثلاً وہ جانتا ہے کہ فلاں شخص جھوٹا دعویٰ پیش کر رہا ہے لیکن وہ پھر بھی حلفاً اس کی تائید کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ قسم جس میں دل کے ارادے سے جھوٹ بولا جائے یا قسم کھاتے ہوئے تو سچی بات کہی جائے لیکن بعد میں اسے پورا نہ کیا جائے۔ ایسی قسم پر کفارہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ بھی فرمائے گا۔ اور کفارے کا ذکر ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ لِلَّّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ فَاِنْ فَآئُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے، اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر طلاق کا فیصلہ کرلیں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے) (226 تا 227) ایلاء کی وضاحت قَسم کی وضاحت کے بعد اب ایک ایسے شرعی مسئلے کو بیان کیا جا رہا ہے جس کا زیادہ تر تعلق قسم سے ہے۔ اسے جاہلیت کے زمانے میں بھی ایلاء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اسلامی شریعت نے بھی اسی نام کو باقی رکھا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان میں کبھی میاں بیوی میں بگاڑ پیدا ہوتا اور شوہر اپنی بیوی کو چھوڑنا بھی نہ چاہتا تو وہ عموماً اس سے ترک تعلق کا اعلان کردیتا ‘ اپنی تنہائی سے اسے خارج کردیتا ‘ گھر کے کام کاج اس سے لیے جاتے ‘ لیکن اس کی بیوی کی حیثیت اس طرح ختم کردی جاتی کہ وہ گھر میں صرف ایک نوکرانی بن کر رہ جاتی۔ ایک خاتونِ خانہ جو کل تک گھر کی ملکہ تھی اب یک لخت گھر کی نوکرانی بن کر رہ جائے ‘ شوہر اسے قریب نہ آنے دے اور وہ ہر طرح اپنی توجہ سے اسے محروم کر دے تو یہ ایک ایسی سزا ہے جو شائد طلاق سے بھی بڑھ کر ہے۔ عربوں کا عام طور پر طریقہ یہ تھا کہ وہ قسم کھالیتے تھے کہ میں چار مہینے تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا اور کبھی وہ مدت معین کیے بغیر بیوی کو حقوق زوجیت سے محروم کردیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ چارماہ سے زیادہ کی مدت مقرر کردیتے۔ ان تمام صورتوں کو ایلاء کے نام سے ہی یاد کیا جاتا تھا۔ اور اس میں ہمیشہ قسم کھا کر ترک تعلق کو پختہ کردیا جاتا تھا۔ اور قرآن کریم نے بھی اس آیت کریمہ میں ” قسم کھا لینے “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس لیے فقہائِ حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشاء یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر بیوی سے میاں بیوی کے تعلقات ختم کرنے کی قسم کھائے صرف اسی کو ایلاء کا نام دیا جائے گا اور اس پر ایلاء کا اطلاق ہوگا۔ لیکن اگر وہ قسم کھائے بغیر بیوی سے تعلقات منقطع کرلیتا ہے تو پھر چاہے اس پر کتنی طویل مدت گزر جائے اس پر ایلاء کے حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مگر فقہائِ مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئی ہو دونوں صورتوں میں ترک تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مدت ہے۔ امامِ احمد بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قسم سے اس ترک تعلق کو ایک پختگی مل جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک ترک تعلق سے خاتونِ خانہ کو اذیت پہنچنے کی بات ہے اس کا تو قسم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت کریمہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت کے لیے چار مہینے سے زیادہ شوہر کے بغیر رہنا شاید آسان نہیں۔ اس لیے حضرت عمر فاروق ( رض) نے جب ایک خاتونِ خانہ کو رات کی تنہائی میں آہیں کھینچتے ہوئے سنا تھا تو آپ ( رض) نے تحقیق سے معلوم کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ شادی کے جلدی بعد اس خاتون کا شوہر جہاد پر چلا گیا ‘ کئی مہینے گزر گئے ہیں وہ ابھی تک لوٹ کر نہیں آیا۔ رات کو آپ ( رض) حضرت حفصہ ( رض) جو آپ ( رض) کی صاحبزادی بھی ہیں اور ام المؤمنین بھی ‘ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پوچھا کہ شریعت میں ہر بات پوچھی جاسکتی ہے اس لیے آپ مجھے بتایئے کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے شوہر سے کتنا عرصہ جدا رہ سکتی ہے ؟ انھوں نے کہا زیادہ سے زیادہ چار مہینے۔ یعنی وہی مدت جو قرآن کریم نے ایلاء کے سلسلے میں ٹھہرائی ہے۔ اس لیے کوئی آدمی اگر قسم نہیں کھاتا لیکن اتنی طویل مدت تک اپنی بیوی کو علیحدگی کے عذاب میں مبتلا رکھتا ہے تو فقہی تقاضے سر آنکھوں پر اور احناف اور شوافع کا مسلک بھی بہت مضبوط سہی لیکن اس مشکل کا حل نکالنا بھی اسلامی شریعت کی ذمہ داری ہے۔ اور آج کے ذمہ داروں کو اس صورت حال پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہزاروں لوگ مختلف دنیوی حوالوں سے بیرونِ ملک جاتے ہیں اور مہینوں نہیں ‘ سالوں تک لوٹ کر نہیں آتے اور پیچھے ان کی جوان بیویاں انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ دولت کی محبت اپنی جگہ لیکن نسوانی جذبات کی یہ پامالی اور بعض دفعہ اس کے نتیجے میں نکلنے والے تلخ نتائج ‘ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ حضرت عمر فاروق ؓ نے ان تمام باتوں پر غور کرتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ ہر شادی شدہ فوجی کو چار مہینے گزرنے سے پہلے گھر آنے کی اجازت دی جائے۔ چناچہ خلافت راشدہ میں ناگزیر حالات کے علاوہ اسی اصول پر عمل ہوتا رہا۔ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ قسم کھانے والا شوہر اگر تو چار مہینے کی مدت گذرنے سے پہلے اپنی قسم توڑ دے اور اپنی بیوی سے تعلقات ِ زَنْ و شَوْ قائم کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے والے اور مہربان ہیں۔ بعض فقہاء نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہوگا۔ لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے مہربان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو کفارہ بھی معاف ہوجائے گا بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ترک تعلق کے دوران خاتونِ خانہ سے جو زیادتی ہوئی ہے اور اگر اس کے ناگوار رویے سے شوہر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا تو شوہر سے جو زیادتی ہوئی ہے دونوں کو اللہ معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر شوہر چار مہینے کے اندر رجوع نہیں کرتا اور وہ اپنے ترک تعلق کے فیصلے پر قائم رہتا ہے تو احناف کے نزدیک اس عورت کو قطعی طلاق واقع ہوجائے گی۔ یعنی یہ طلاق ‘ طلاقِ بائنہ ہوگی۔ اور اب شوہر نکاح کیے بغیر اپنی بیوی سے رجوع نہیں کرسکتا۔ ہاں اس بات کی اجازت باقی رہتی ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ مل بیٹھنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ آپس میں نکاح کرسکتے ہیں حلالہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا۔ اور حاکم عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رجوع کرے اور یا اسے طلاق دے۔ آخر آیت میں فرمایا فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے “ میاں بیوی آپس میں جو کچھ کہتے رہے اللہ برابر سنتا رہا۔ اور جو کچھ ایک دوسرے کے خلاف منصوبے باندھتے رہے وہ ان سے بھی باخبر رہا۔ اور اگر دونوں میں سے کسی ایک نے ناروا باتیں کہی ہیں تو اللہ کی سماعت میں ہیں۔ اور اگر ظلماً زیادتیاں کی ہیں تو وہ بھی اللہ کے علم سے دور نہیں۔ اس لیے یکجائی کے بعد بھی دونوں کو توبہ کرنی چاہیے اور اپنی اپنی غلطیوں کی اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔
Top