Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا
: اور نہ بناؤ
اللّٰهَ
: اللہ
عُرْضَةً
: نشانہ
لِّاَيْمَانِكُمْ
: اپنی قسموں کے لیے
اَنْ
: کہ
تَبَرُّوْا
: تم حسن سلوک کرو
وَ
: اور
تَتَّقُوْا
: پرہیزگاری کرو
وَتُصْلِحُوْا
: اور صلح کراؤ
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سنے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ کو اپنی قسموں کی رکاوٹ نہ بنائو کہ تم احسان نہیں کرو گے یا حدود الٰہی کا احترام نہیں کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہیں کرائو گے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے
وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِّاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّـقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ (اللہ کو اپنی قسموں کی رکاوٹ نہ بنائو کہ تم احسان نہیں کرو گے یا حدود الٰہی کا احترام نہیں کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہیں کرائو گے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں پکڑے گا تمہاری لایعنی قسموں پر۔ لیکن تمہیں پکڑے گا ان قسموں پر جن کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہے۔ اللہ بہت بخشنے والا بردبار ہے) (224 تا 225) معاشرے میں قسم کی اہمیت انسانی معاشرے میں معاشرتی ‘ سماجی اور سیاسی معاملات میں قسم کی ہمیشہ ضرورت پڑتی ہے۔ ہر معاشرے میں جس نام کی قسم کھائی جاتی ہے اس کا خاص احترام ملحوظ خاطر ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں رہنے والے لوگ حتیٰ الامکان غلط بات کے لیے اس نام کو استعمال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ جب بھی کسی معاملے میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے یا کسی شب ہے کے ازالے کا موقعہ ہوتا ہے یا کسی معاہدے کو استحکام دینا مقصود ہوتا ہے تو عموماً قسم سے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ یہاں جن مسائل کا ذکر ہو رہا ہے ان میں بھی بسا اوقات کبھی بیوی کو قسم دینے کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی شوہر کو۔ خاص طور پر آگے جو احکام ذکر کیے جا رہے ہیں جن میں بہت اہم ایلاء کا معاملہ ہے۔ ان میں چونکہ دارومدار ہی قسم پر ہے اس لیے ان مسائل کا ذکر کرنے سے پہلے پروردگار نے یہ مناسب سمجھا کہ قسم کی اہمیت کو واضح کردیا جائے۔ عُرْضَۃٌ کا معنی ہے حاجز ‘ یعنی رکاوٹ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کچھ ایسے لوگ تھے اور ہر معاشرے میں ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں ‘ جو کسی وجہ سے کسی نیک کام کو چھوڑ دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس پر اللہ کے نام کی قسم کھاتے ہیں کہ میں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا مثلاً ماں باپ سے بگڑ گئے تو کہا آئندہ ان کی خدمت نہیں کروں گا۔ بھائی سے ناراض ہوگئے تو اس سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھالی یا کسی ادارے کی مدد کر رہے تھے کسی واقعے سے مشتعل ہو کر اس ادارے کی مدد نہ کرنے پر قسم کھالی۔ اور پھر جب کوئی انھیں کہتا کہ تم نے ایک نیک کام سے ہاتھ کھینچ کر بہت غلط فیصلہ کیا تو وہ جواب میں یہ عذر کرتے کہ فیصلہ غلط ہی سہی لیکن اب کیا ہوسکتا ہے اب تو میں قسم کھاچکا ہوں۔ ایسے لوگوں پر دو حوالوں سے تنقید فرمائی گئی ہے۔ قَسم پر دو حوالوں سے تنقید ایک تو یہ کہ تم بھلائی کے کام نہ کرنے پر اللہ کی قسم کھا کر گویا اللہ کے نام کو اپنے اور بھلائی کے درمیان ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس اللہ نے بھلائی کو وجود بخشا اور انسانوں کو بھلائی کرنے کا پابند ٹھہرایاتم اسی کے نام کو بھلائی نہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہو اس سے زیادہ اللہ کے نام کی توہین اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور اللہ کی ذات یا اس کے نام کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے مجرم کو نہ اللہ کبھی معاف کرے گا اور نہ اللہ کے ماننے والے کبھی معاف کرتے ہیں۔ تنقید کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ اللہ نے بھلائی اور نیکی کے تین راستے کھولے ہیں۔ ایک کو ” بِر “ کہا گیا ہے ‘ دوسرے کو ” تقویٰ “ اور تیسرے کو ” اصلاح بین الناس “۔ یہی تینوں باتیں پورے دین سے عبارت ہیں۔ ” بِر “ کا لفظ ان تمام نیکیوں پر حاوی ہے جن کا تعلق والدین ‘ رشتہ داروں ‘ مسکینوں ‘ یتیموں اور دوسرے مستحقین کے حقوق سے ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ تمام حقوق العباد ” بِر “ کے مفہوم میں شامل ہیں اور ” تقویٰ “ ان نیکیوں پر بولا جاتا ہے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ اس لحاظ سے تمام عبادات ‘ تمام نذر و نیاز اور منتوں کے معاملات ‘ تمام قربانیاں اور ایک پہلو سے تمام معاہدات اس میں شامل ہیں۔ اور ” اصلاح بین الناس “ سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے ‘ انسانوں کے کام آنے ‘ انسانوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور انسانوں کا بھلا چاہنے سے متعلق ہیں۔ اب آپ اندازہ فرمایئے کہ اگر لوگ ان تمام نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی یا ان تمام نیکیوں کو نہ کرنے کی قسم کھالیتے ہیں تو پھر انسانیت کے دامن میں باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے قسم کھانے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کی ذات نہ سنتی ہے نہ جانتی ہے۔ وہ اگر اللہ کو اتنا بیخبر نہ جانتے یا اگر ان کا ایمان اتنا کمزور نہ ہوتا تو وہ کبھی ایسی نیکیوں سے رکنے کا تصور نہ کرتے اور اللہ کے نام کو درمیان میں لانے کی تو کبھی جسارت بھی نہ کرتے۔ ایسی قسموں کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے اذا حلفت علی یمین فرأیت غیرہا خیرا منہا فات الذی ھو خیروکفرعن یمینک ” اگر تم کسی بات کی قسم کھالو اور پھر اس کے بعد دیکھو کہ اس سے دوسرا کام نیک معلوم ہوتا ہے تو وہ نیک کام کرلو اور قسم کا کفارہ ادا کردو “ یعنی دین کا اصل مقصد اگر بھلائیوں کو اختیار کرنا اور انھیں فروغ دینا ہے تو پھر قسم کو ان کے لیے رکاوٹ نہ بنائو۔ اگر تم غلطی سے ایسا کرچکے ہو تو قسم توڑ ڈالو اور قسم کا کفارہ دے دو اور قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائو اوسط درجے کا کھانا یا دس مسکینوں کو کپڑے بنا کے دو اور اگر اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھو۔ قَسم کی اقسام دوسری آیت کریمہ میں قسم کی اقسام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سی قسم ہے جس پر اللہ مواخذہ نہیں فرماتے اور وہ کونسی قسم ہے جس پر مواخذہ کیا جائے گا۔ 1 یمینِ لغو جس قسم پر مواخذہ نہیں ہوگا اسے ” یمین لغو “ کا نام دیا گیا ہے۔ یمین قسم کو کہتے ہیں۔ اس کا معنی ہوگا لغو قَسم۔ مراد اس سے یہ ہے کہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ تکیہ کلام کے طور پر بات بات پر قسم کھاتے رہتے ہیں ‘ لیکن ان کا ارادہ قسم کھانے کا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ میں قسم کے الفاظ ادا کر رہا ہوں۔ ایسی قسم چونکہ دل کے ارادے کے بغیر کھائی جاتی ہے ‘ اس لیے اسے لغو قسم کہا جاتا ہے۔ مزید برآں ایسی قسم کو بھی لغو کہا جاتا ہے کہ قسم تو اس نے اپنے ارادے سے کھائی ‘ لیکن اس کا گمان یہ ہے کہ میں جس واقعے کے بارے میں خبر دے رہا ہوں وہ واقعہ بالکل صحیح ہے۔ حالانکہ وہ واقعہ صحیح نہیں ہوتا۔ تو چونکہ اس نے قصداً جھوٹ نہیں بولا۔ مثلاً وہ اپنے گمان میں یہ سمجھتا ہے کہ زید آگیا ہے اور وہ حلفاً اس کے آنے کی خبر دے دیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ زید نہیں آیا۔ اس لیے ایسی قسم کو بھی لغو قسم کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے منہ سے ایک ایسی قسم نکل گئی جس کا وہ ارادہ نہیں رکھتا تھا ‘ کہنا کچھ اور چاہتا تھا اور منہ سے کچھ اور نکل گیا اس کا شمار بھی لغو قسم میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرماتے۔ لیکن یمین لغوکا لفظ ہمیں ایک اور اہم اور نازک بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس قسم کو لغو قرار دینا یقینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس فعل اور رویے کو پسند نہیں فرماتے۔ کیونکہ کوئی سا لغو کام بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اور ایک مومن کی جو صفات گنوائی گئی ہیں ‘ اس میں بھی بطور خاص اس بات کا ذکر فرمایا ہے والذین ھم عن اللغو معرضون ” کہ فلاح پانے والے مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس کی زبان سے لغویات کا صدور ہو۔ چاہے اس کا تعلق زبان کی بےاحتیاطی سے ہو اور چاہے اس کا تعلق معاملات میں لاپرواہی سے ہو۔ ہر لا یعنی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔ یعنی ہر ایسی بات جس کا تعلق نہ دنیا کے بھلے کاموں سے ہو نہ آخرت کے کاموں سے۔ ایسے لا یعنی کاموں کو کرنا ایک مومن کو اس لیے زیب نہیں دیتا کیونکہ اس سے اسلام کا حسن دھندلا کر رہ جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ” ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑ دے “ لغوقَسم بھی چونکہ ایسے ہی لا یعنی کاموں میں سے ہے ‘ اس لیے ایک مومن کو اس کے ارتکاب سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ 2 یمینِ غموس قَسم کی دوسری قسم ” یمین غموس “ کہلاتی ہے۔ اس سے مراد وہ قسم ہے جسے قسم کھانے والا خود جھوٹا سمجھتا ہو ‘ لیکن پھر بھی قسم کھاتا ہو۔ یا ماضی کے کسی واقعے کے بارے میں قسم کھا کر کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ‘ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا ہوا تھا۔ ایسی قسم پر کفارہ تو نہیں ہوتا ‘ لیکن اس پر گناہ ہوتا ہے۔ گناہ ہونے کے لحاظ سے یقینا آخرت میں اس پر مواخذہ ہوگا۔ 3 یمینِ منعقدہ قَسم کی تیسری قسم ” یمین منعقدہ “ ہے۔ یہ وہ قسم ہے جسے عام طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ آدمی کسی سے حلفاً وعدہ کرتا ہے میں تمہیں یہ چیز دوں گا اور پھر نہیں دیتا۔ اس صورت میں یہ قسم ٹوٹ جائے گی یا مثلاً وہ جانتا ہے کہ فلاں شخص جھوٹا دعویٰ پیش کر رہا ہے لیکن وہ پھر بھی حلفاً اس کی تائید کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ قسم جس میں دل کے ارادے سے جھوٹ بولا جائے یا قسم کھاتے ہوئے تو سچی بات کہی جائے لیکن بعد میں اسے پورا نہ کیا جائے۔ ایسی قسم پر کفارہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ بھی فرمائے گا۔ اور کفارے کا ذکر ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ لِلَّّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ فَاِنْ فَآئُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے، اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر طلاق کا فیصلہ کرلیں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے) (226 تا 227) ایلاء کی وضاحت قَسم کی وضاحت کے بعد اب ایک ایسے شرعی مسئلے کو بیان کیا جا رہا ہے جس کا زیادہ تر تعلق قسم سے ہے۔ اسے جاہلیت کے زمانے میں بھی ایلاء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اسلامی شریعت نے بھی اسی نام کو باقی رکھا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان میں کبھی میاں بیوی میں بگاڑ پیدا ہوتا اور شوہر اپنی بیوی کو چھوڑنا بھی نہ چاہتا تو وہ عموماً اس سے ترک تعلق کا اعلان کردیتا ‘ اپنی تنہائی سے اسے خارج کردیتا ‘ گھر کے کام کاج اس سے لیے جاتے ‘ لیکن اس کی بیوی کی حیثیت اس طرح ختم کردی جاتی کہ وہ گھر میں صرف ایک نوکرانی بن کر رہ جاتی۔ ایک خاتونِ خانہ جو کل تک گھر کی ملکہ تھی اب یک لخت گھر کی نوکرانی بن کر رہ جائے ‘ شوہر اسے قریب نہ آنے دے اور وہ ہر طرح اپنی توجہ سے اسے محروم کر دے تو یہ ایک ایسی سزا ہے جو شائد طلاق سے بھی بڑھ کر ہے۔ عربوں کا عام طور پر طریقہ یہ تھا کہ وہ قسم کھالیتے تھے کہ میں چار مہینے تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا اور کبھی وہ مدت معین کیے بغیر بیوی کو حقوق زوجیت سے محروم کردیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ چارماہ سے زیادہ کی مدت مقرر کردیتے۔ ان تمام صورتوں کو ایلاء کے نام سے ہی یاد کیا جاتا تھا۔ اور اس میں ہمیشہ قسم کھا کر ترک تعلق کو پختہ کردیا جاتا تھا۔ اور قرآن کریم نے بھی اس آیت کریمہ میں ” قسم کھا لینے “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس لیے فقہائِ حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشاء یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر بیوی سے میاں بیوی کے تعلقات ختم کرنے کی قسم کھائے صرف اسی کو ایلاء کا نام دیا جائے گا اور اس پر ایلاء کا اطلاق ہوگا۔ لیکن اگر وہ قسم کھائے بغیر بیوی سے تعلقات منقطع کرلیتا ہے تو پھر چاہے اس پر کتنی طویل مدت گزر جائے اس پر ایلاء کے حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مگر فقہائِ مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئی ہو دونوں صورتوں میں ترک تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مدت ہے۔ امامِ احمد بھی اسی کی تائید میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قسم سے اس ترک تعلق کو ایک پختگی مل جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک ترک تعلق سے خاتونِ خانہ کو اذیت پہنچنے کی بات ہے اس کا تو قسم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت کریمہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت کے لیے چار مہینے سے زیادہ شوہر کے بغیر رہنا شاید آسان نہیں۔ اس لیے حضرت عمر فاروق ( رض) نے جب ایک خاتونِ خانہ کو رات کی تنہائی میں آہیں کھینچتے ہوئے سنا تھا تو آپ ( رض) نے تحقیق سے معلوم کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ شادی کے جلدی بعد اس خاتون کا شوہر جہاد پر چلا گیا ‘ کئی مہینے گزر گئے ہیں وہ ابھی تک لوٹ کر نہیں آیا۔ رات کو آپ ( رض) حضرت حفصہ ( رض) جو آپ ( رض) کی صاحبزادی بھی ہیں اور ام المؤمنین بھی ‘ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پوچھا کہ شریعت میں ہر بات پوچھی جاسکتی ہے اس لیے آپ مجھے بتایئے کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے شوہر سے کتنا عرصہ جدا رہ سکتی ہے ؟ انھوں نے کہا زیادہ سے زیادہ چار مہینے۔ یعنی وہی مدت جو قرآن کریم نے ایلاء کے سلسلے میں ٹھہرائی ہے۔ اس لیے کوئی آدمی اگر قسم نہیں کھاتا لیکن اتنی طویل مدت تک اپنی بیوی کو علیحدگی کے عذاب میں مبتلا رکھتا ہے تو فقہی تقاضے سر آنکھوں پر اور احناف اور شوافع کا مسلک بھی بہت مضبوط سہی لیکن اس مشکل کا حل نکالنا بھی اسلامی شریعت کی ذمہ داری ہے۔ اور آج کے ذمہ داروں کو اس صورت حال پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہزاروں لوگ مختلف دنیوی حوالوں سے بیرونِ ملک جاتے ہیں اور مہینوں نہیں ‘ سالوں تک لوٹ کر نہیں آتے اور پیچھے ان کی جوان بیویاں انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ دولت کی محبت اپنی جگہ لیکن نسوانی جذبات کی یہ پامالی اور بعض دفعہ اس کے نتیجے میں نکلنے والے تلخ نتائج ‘ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ حضرت عمر فاروق ؓ نے ان تمام باتوں پر غور کرتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ ہر شادی شدہ فوجی کو چار مہینے گزرنے سے پہلے گھر آنے کی اجازت دی جائے۔ چناچہ خلافت راشدہ میں ناگزیر حالات کے علاوہ اسی اصول پر عمل ہوتا رہا۔ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ قسم کھانے والا شوہر اگر تو چار مہینے کی مدت گذرنے سے پہلے اپنی قسم توڑ دے اور اپنی بیوی سے تعلقات ِ زَنْ و شَوْ قائم کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے والے اور مہربان ہیں۔ بعض فقہاء نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہوگا۔ لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے مہربان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو کفارہ بھی معاف ہوجائے گا بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ترک تعلق کے دوران خاتونِ خانہ سے جو زیادتی ہوئی ہے اور اگر اس کے ناگوار رویے سے شوہر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا تو شوہر سے جو زیادتی ہوئی ہے دونوں کو اللہ معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر شوہر چار مہینے کے اندر رجوع نہیں کرتا اور وہ اپنے ترک تعلق کے فیصلے پر قائم رہتا ہے تو احناف کے نزدیک اس عورت کو قطعی طلاق واقع ہوجائے گی۔ یعنی یہ طلاق ‘ طلاقِ بائنہ ہوگی۔ اور اب شوہر نکاح کیے بغیر اپنی بیوی سے رجوع نہیں کرسکتا۔ ہاں اس بات کی اجازت باقی رہتی ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ مل بیٹھنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ آپس میں نکاح کرسکتے ہیں حلالہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا۔ اور حاکم عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رجوع کرے اور یا اسے طلاق دے۔ آخر آیت میں فرمایا فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے “ میاں بیوی آپس میں جو کچھ کہتے رہے اللہ برابر سنتا رہا۔ اور جو کچھ ایک دوسرے کے خلاف منصوبے باندھتے رہے وہ ان سے بھی باخبر رہا۔ اور اگر دونوں میں سے کسی ایک نے ناروا باتیں کہی ہیں تو اللہ کی سماعت میں ہیں۔ اور اگر ظلماً زیادتیاں کی ہیں تو وہ بھی اللہ کے علم سے دور نہیں۔ اس لیے یکجائی کے بعد بھی دونوں کو توبہ کرنی چاہیے اور اپنی اپنی غلطیوں کی اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔
Top