Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو روک لینا ہے معروف طریقے سے اور یا چھوڑ دینا ہے احسان کے ساتھ۔ اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم کچھ بھی لو اس سے جو تم نے بیویوں کو دیا ہے۔ بجز اس کے کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کی حدود کو تو پھر ان پر کوئی حرج نہیں کہ عورت کچھ فدیہ دے کر جان چھڑا لے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں سو ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھتا ہے سو وہی لوگ ظالم ہیں
اَلطَّلاَ قُ مَرَّتٰنِ ص فَاِمْسَاکٌ م بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَانٍ ط وَلَا یَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّـآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئًا اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَاللّٰہِ ط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَاللّٰہِ لا فلَاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ط تِلْـکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فلَاَ تَعْتَدُوْہَاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَاللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو روک لینا ہے معروف طریقے سے اور یا چھوڑ دینا ہے احسان کے ساتھ۔ اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم کچھ بھی لو اس سے جو تم نے بیویوں کو دیا ہے۔ بجز اس کے کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کی حدود کو تو پھر ان پر کوئی حرج نہیں کہ عورت کچھ فدیہ دے کر جان چھڑا لے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں سو ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھتا ہے سو وہی لوگ ظالم ہیں) (229) اس آیت کریمہ کی وضاحت سے پہلے چند ابتدائی باتیں عرض کرنا ضروری ہیں۔ اسلام میں نکاح کی حیثیت تمام دنیا کے نزدیک نکاح کی حیثیت باہمی معاملے اور معاہدے کی ہے۔ جسے آج کل کی زبان میں ” کنٹریکٹ “ کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ تصور اس حد تک ذہنوں پر غالب آگیا ہے کہ مغرب میں پہلے یہ تصور ذہنوں میں پلتا رہا پھر قرطاس کی زینت بنا ‘ اخبارات نے اس میں وسعت پیدا کی ‘ آہستہ آہستہ یہ اس مرحلے تک پہنچ گیا ہے کہ عنقریب شاید قانون کی شکل اختیار کرلے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی بجائے نکاح کے تکلف میں پڑنے کے آپس میں ایک کنٹریکٹ سائن کریں گے ‘ جس میں اپنی اپنی پسند کی شرائط طے کرلی جائیں گی ‘ مدت کا تعین ہوجائے گا ‘ اولاد کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرلیا جائے گا جو عموماً ریاستی اداروں کے حوالے کردی جاتی ہے ‘ لیکن درمیان میں نکاح کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔ دونوں میاں بیوی کی طرح رہیں گے ‘ اولاد بھی پیدا ہوگی لیکن محض ایک معاہدے کے تحت ‘ جس میں نکاح کے مذہبی بکھیڑے سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ ہمارے یہاں بھی آہستہ آہستہ بالائی کلاس میں جو مغربی تہذیب کی پروردہ اور اسی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ جو اپنے ملک میں بھی غیروں کی طرح رہتے اور اپنے لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں اور بڑے بڑے انتظامی شعبوں میں حتیٰ کہ تعلیمی اداروں تک پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ اپنی قوم سے بالکل بیگانہ ہیں ‘ لیکن اسی قوم کو اپنے طریقے سے لیڈ بھی کر رہے ہیں اور فیڈ بھی کر رہے ہیں۔ ان میں بھی آہستہ آہستہ یہ کنٹریکٹ کا تصور مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے ابھی تک نکاح سے جان تو نہیں چھڑائی ‘ لیکن آپ ان کے نکاح کی تقریبات میں شامل ہو کر دیکھ لیجئے ‘ تقریب کے سب سے اہم حصے یعنی نکاح کو محض ایک فارمیلٹی کی طرح وجود میں لایا جاتا ہے ‘ لیکن باقی رنگا رنگ تقریبات اس تقریب کا اصل حاصل ہوتی ہیں۔ ایسے ایسے واقعات بھی ان لوگوں میں ظہور پذیر ہوچکے ہیں کہ کئی دنوں تک شادی بیاہ کے نام سے ایک ہنگامہ ہوتا رہا اور جب ہنگامہ فرو ہوا اور مہمان واپس چلے گئے تو میاں بیوی کو ایک گھر میں بھیج دیا گیا۔ لیکن یہ راز ایک مدت کے بعد کھلا کہ ان دونوں میں نکاح کا تکلف تو کیا ہی نہیں گیا۔ یعنی ان غیر ضروری رسومات میں بالکل اہل خانہ بھول گئے کہ نکاح کی بھی کوئی رسم ہے جسے ادا کرنا تھا۔ عوام ابھی اس حد کو تو نہیں پہنچے لیکن ان میں بھی آہستہ آہستہ جو تبدیلیاں آرہی ہیں ‘ ان میں ایک تبدیلی تو اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اسے کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا ‘ وہ یہ ہے کہ مہندی کی رسم کو اتنا ضروری اور اتنا اہم سمجھ لیا گیا ہے کہ شادی کے بیشتر اخراجات اسی روز صرف ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے بھنگڑا ڈالتے اور ہلڑ بازی میں شریک ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ اختلاط اس طرح کی فضا پید اکر دیتا ہے کہ کوئی باہر سے آنے والا شخص دیکھ کر اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ مسلمانوں کی کوئی تقریب ہے۔ اس ساری ابتری اور فساد کا سبب صرف یہ ہے کہ نکاح کا حقیقی تصور ذہنوں سے نکل گیا ہے۔ اب اس کو محض ایک معاہدہ یا کنٹریکٹ سمجھ کر سراسر ایک جشن اور میلے کی صورت دے دی گئی ہے۔ اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ نکاح ایک لڑکے اور لڑکی کی جنسی ضرورت پورا کرنے اور تقریب کے شرکاء کو رنگا رنگ تفریح مہیا کرنے کا نام ہے۔ اس میں اگر نکاح کے نام سے کوئی مذہب کا حوالہ ہے بھی تو محض برائے وزن بیت اور اگر چند بڑی عمر کے لوگ اخلاق اور شرم و حیاء کی باتیں کرتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس بگڑے ہوئے تصور کو جب تک حقیقی تصور سے تبدیل نہیں کیا جائے گا اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں جب تک یہ بات راسخ نہیں کی جائے کہ اسلام میں نکاح محض کنٹریکٹ اور معاہدہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک عبادت اور سنت رسول ﷺ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسے صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے مشروع نہیں فرمایا ‘ بلکہ وہ ذات رسالت مآب ﷺ جسے اللہ نے معصوم پیدا فرمایا اور جس پر کبھی بھی خواہشاتِ نفس کا غلبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے اپنی ذات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ” نکاح میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ “ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ جس کام کی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کی ذات سے ہوجائے وہ کام صرف ایک مرد و عورت کے درمیان نفسانی ضرورتیں پوری کرنے کا ایک معاہدہ ہی نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ اس کے کچھ اور بھی مقاصد ہیں جس نے اسے سنت رسول ﷺ بنادیا ہے۔ اور سنت کی پیروی کرتے ہوئے جو کام بھی کیا جائے اسے چونکہ اللہ کی رضا نصیب ہوجاتی ہے اس لیے وہ عبادت کے درجے پر فائز ہوجاتا ہے۔ بنا بریں نکاح کو علماء نے عبادت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک شخص مغرب کی نماز کے بعد صلوٰۃ الاوابین پڑھنے کا عادی ہے اور اسی وقت میں اسے ایک نکاح کی تقریب میں شامل ہونے کی دعوت ملتی ہے۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اگر میں نکاح کی تقریب میں جاتا ہوں تو میرے نوافل کی عبادت رہ جائے گی۔ اور اگر نہیں جاتا تو دعوت دینے والوں کی دل شکنی ہوگی۔ تو علماء کہتے ہیں کہ اسے نکاح کی تقریب میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک اجتماعی عبادت ہے اور اس میں شمولیت نوافل پڑھنے سے زیادہ اجر وثواب کی حامل ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ خوشی کے جس موقعے کو اللہ نے ہمارے لیے عبادت بنادیا تھا ہم نے اس میں پے درپے نافرمانی کے امکانات پیدا کر کے اسے معصیت میں تبدیل کردیا ہے۔ اس تقریب کا اہم ترین حصہ لڑکے اور لڑکی کا ایجاب و قبول ‘ خطبہ نکاح اور پھر اس کے بعد دعا ہے۔ لیکن ہم ان میں سے کسی ایک بات کو خالص عبادت نہیں رہنے دیتے۔ فوٹو گرافروں کا ہجوم ‘ ان کے کیمروں سے نکلنے والی تیز روشنیاں اور مرد و زن کا آزادانہ اختلاط اور پھر اس پر بےہنگم آوازیں ایک ایسی فضا پیدا کرتی ہیں کہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ دولہا میاں بغیر تصویر کھنچوائے دستخط نہیں کرسکتے۔ دلہن کو بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ تصویروں کے ہجوم میں نکاح کے فارم پر دستخط کرے۔ ہماری اس طرح کی خوش فعلیوں نے نکاح کے حقیقی تصور کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم جب تک اپنے اس رویے اور ذہنی ساخت کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک نکاح کو حقیقی مفہوم ملنا مشکل ہے۔ لیکن اگر ہم واقعتا اسے عبادت اور سنت کا مقام دینے کے لیے تیار ہوجائیں اور ہم اس بات کو باور کرلیں کہ ہم نے اللہ کے نام کو ضمانت کے طور پر بیچ میں لا کر اور اسے عبادت کا درجہ دے کر ایک معاہدہ کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک فریضہ انجام دیا ہے تو پھر جہاں ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اس کے انعقاد پذیر ہونے کے آداب و شرائط کیا ہیں ؟ وہیں ہمیں یہ بھی باور کرنا ہے کہ اسلام میں اس معاہدے کو نفسانیت یا خواہشات سے مغلوب ہو کر توڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ یہ زندگی بھر کے نباہ کے لیے وجود میں آتا ہے۔ اور اگر شوہر نے بیوی پر ظلم کیا یا بیوی نے نشوز کا راستہ اختیار کیا تو دونوں جس طرح دنیا میں مختلف قسموں کی عائلی اور خاندانی مشکلات کا شکار ہوں گے اسی طرح قیامت کے دن انھیں اللہ کے یہاں سخت باز پرس سے گزرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسلام نے سب سے زیادہ زور اس تعلق کو زندگی بھر نبھانے پر دیا ہے۔ اس نے اگرچہ ختم کرنے کے لیے بعض ناگزیر صورتوں میں طلاق کی اجازت بھی دی لیکن ساتھ ہی اسے حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین قرار دیا۔ یعنی جن چیزوں پر اللہ کی ناراضگی بڑھکتی اور وہ غضبناک ہوتا ہے ان میں یہ طلاق بھی ہے۔ اور پھر اس کے وجود پذیر ہونے پر ایسی پابندیاں لگائیں جس سے طلاق دینے کے بعد بھی قدم قدم پر میاں بیوی کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ اب بھی رک کے سوچو کہ تم جو اس تعلق کو ختم کرنے کا ارادہ کرچکے ہو ہوسکتا ہے اس کے تمہارے لیے نتائج اچھے نہ ہوں۔ اس لیے اگر ایک طرف عورتوں پر پابندی لگائی گئی کہ اگر شوہر نے تمہیں طلاق دے ہی دی ہے تو تم یکلخت نکاح کے فوراً بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرو ‘ تین ایام مخصوص کا زما نہ گزارو۔ اس میں جہاں اور مصلحتیں ہیں وہیں یہ بھی ایک مصلحت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شوہر اپنی غلطی کا احساس کرلے یا ادھر ادھر سے لوگ اس پر دبائوڈالیں اور خاتون کو بھی گزرے ہوئے دن یاد آنے لگیں تو پھر مل بیٹھنے کا موقع ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شوہر کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ تم نے اگر طلاق دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے لیکن طلاق دینے سے پہلے تم چونکہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ہوسکتا ہے وقتاً فوقتاً تمہاری شکایات میں اضافہ ہوتا رہا ہو اور تمہیں سوچنے کی کبھی مہلت نہ ملی ہو تو اب تمہیں یہ مہلت طلاق کے بعد مل سکتی ہے وہ اس طرح کہ تم اپنی بیوی کو ایک طلاق دو ‘ لیکن اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ ناپاکی کی حالت میں مت دو ۔ اگر تم نے ناپاکی کی حالت میں طلاق دی طلاق واقع تو ہوجائے گی لیکن تم غیر شعوری طور پر اپنی بیوی کی اذیت میں اضافے کا سبب بنو گے۔ وہ اس طرح کہ جس حیض میں تم طلاق دو گے وہ عدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس کے بعد طہر اور پاکیزگی کا زمانہ آئے گا تو وہ بھی عدت میں شمار نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد حیض کا وقت آنے سے عدت شروع ہوگی۔ عدت چونکہ تین حیض ہیں اور تم نے حیض کے دنوں میں طلاق دے کر اس عدت میں ایک طہر اور ایک حیض کا کچھ حصہ شامل کردیا ہے۔ تو یہ عدت کی مدت میں اضافہ کرنے کا باعث ہوگا۔ اور اگر تم بیوی کو فارغ کردینا چاہتے ہو یا وہ تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو عدت میں یہ اضافہ یقینا اس کے لیے اذیت کا باعث ہوگا۔ دوسری پابندی یہ لگائی کہ تم اس طہر میں طلاق دو جس میں تم نے اپنی بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو۔ کیونکہ ممکن ہے بیوی سے تمہارے ملاپ کے بعد تمہاری بیوی حاملہ ہوجائے۔ اور حاملہ کو اگر طلاق دے دی جائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے جو ظاہر ہے کہ نو مہینے کے قریب ہوگی۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آپ نے اپنی بیوی کو کس اذیت میں مبتلا کردیا ہے پھر مزید یہ ہدایت دی کہ بہتر یہ ہے کہ تم ایک ہی طلاق کو کافی سمجھو اور وقت گزرنے دو ۔ یہی ایام تمہارے سوچنے کے ہیں۔ ان دنوں میں چونکہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو گے اور بیوی تم سے الگ رہے گی تو گزرے ہوئے وقتوں کی اچھی یادیں ممکن ہے تمہیں فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیں۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو تم کسی وقت بھی رجوع کرسکتے ہو۔ لیکن اگر تم علیحدگی ہی کا فیصلہ کرلو تب بھی عدت گذر جانے کے بعد ایک طلاق بھی علیحدگی کے لیے کافی ہے۔ لیکن اگر تم دوسری طلاق ضرور ہی دینا چاہتے ہو تو دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے دو ۔ دوسری طلاق دینے کے بعد بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ‘ اب بھی تم رجوع بھی کرسکتے ہو اور عدت گزرنے کے بعد نکاح بھی کرسکتے ہو۔ لیکن تیسری طلاق کا ہرگز ارادہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ تیسری طلاق کے بعد رجوع یا دوسرے نکاح جیسی تمام رعایتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے جس کا آگے ذکر آرہا ہے۔ اس پوری تفصیل سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلام نے میاں بیوی کے تعلق کو آخر حد تک بچانے کی کوشش کی ہے۔ اختلافات کی صورت میں شوہر کو بیوی کی اصلاح کے لیے سورة النساء میں کچھ تدابیر بتائی گئی ہیں۔ اور اگر ان تدابیر کو بروئے کار لا کر بھی اصلاح کی کوئی شکل پید انہ ہو تو پھر دونوں خاندانوں سے دو منصف بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ساری تدبیریں بھی اس تعلق کو بچانے ہی کی کوششیں ہیں۔ لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ تمام انسانوں کے مزاج یکساں نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ مزاجوں میں اتنا تفاوت اور اختلاف ہوتا ہے کہ موافقت اور ہم آہنگی کی ہر تدبیر ناکام ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر یہ حکم دے دیا جائے کہ تمہاری علیحدگی کی کوئی صورت ممکن نہیں ‘ تمہیں بہرصورت اکٹھے رہنا ہے تو یہ انسانی مزاج ‘ انسانی فطرت اور انسانی حقوق پر ایسا ظلم ہوگا جس کے نتیجے میں ساری زندگی کڑھنے اور رنجھ رنجھ کے مرنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ زوجین کے اختلاف کے نتیجے میں اولاد الگ نافرمان ہوجائے گی۔ اور پورا گھر جہنم بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے اللہ نے طلاق کی اجازت دی ‘ لیکن ساتھ ہی متذکرہ بالا احتیاطوں کا بھی حکم دیا۔ عربوں کی عادت بد اور آیت کا شان نزول عربوں میں ایک بری عادت تھی کہ جب وہ اپنی بیوی سے ناراض ہوتے اور یہ سمجھتے کہ ہمارا آپس میں نباہ نہیں ہوسکتا تو اسے طلاق دے دیتے۔ لیکن طلاق دینے کے بعد اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑتے تھے ‘ بلکہ اسے ایک ایسی اذیت میں مبتلا کردیتے کہ جس سے اس پر بیوی ہونے کی تہمت بھی رہتی ‘ لیکن وہ بیوی ہونے کی حیثیت سے یکسر محروم ہوتی۔ ان کے ظلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو بیوی سے رجوع کرلیتے اور پھر اسے طلاق دے دیتے۔ پھر جب عدت ختم ہونے پر آتی تو پھر رجوع کرلیتے اور پھر اسے طلاق دے دیتے۔ ان کے ہاں طلاقوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ اس طرح بیچاری عورت کبھی بھی اس ظلم کے شکنجے سے نکل نہیں پاتی تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک انصاری نے جو اگرچہ مسلمان ہوچکے تھے لیکن ابھی تک پرانے اثرات کی گرفت میں تھے۔ اپنی بیوی سے کہا لا اقربک ولا تحلین منی ” نہ تو میں تمہارے نزدیک جاؤں گا اور نہ تو مجھ سے آزاد ہو سکے گی “ بیوی نے پوچھا ” یہ کیسے ؟ “ تو انصاری نے کہا ” میں طلاق دیا کروں گا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیا کروں گا۔ “ وہ خاتون نہایت دل گرفتہ ہوئی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مظلومیت کی شکایت کی۔ اس پر قرآن کریم میں پیش نظر آیت کریمہ نازل ہوئی جس نے عورت کے متذکرہ بالا ظلم کا خاتمہ کردیا۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ تم جو ان گنت طلاقیں دیتے ہو ‘ تمہیں قدرت نے اتنی طلاقیں دینے کا حق نہیں دیا۔ طلاق صرف دو مرتبہ ہے۔ کہ تم ایک دفعہ طلاق دے کر رجوع کرسکتے ہو۔ پھر دوسری دفعہ طلاق دے کر بھی اگر چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ اور اگر عدت گزر جائے تو دوبارہ نکاح بھی کرسکتے ہو۔ لیکن تیسری طلاق کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اس کے بعد مکمل انقطاع ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تمہیں صرف دو مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے۔ دو مرتبہ طلاق دینے سے نکاح بالکل ختم نہیں ہوجاتا ‘ بلکہ اس میں تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو تم معروف طریقے سے رجوع کرلو۔ معروف کا مفہوم معروف کا مطلب یہ ہے کہ رجوع کرنے کے بعد تم بیوی کے حقوق ادا کرو۔ اس کے ساتھ اپنا رویہ درست کرو۔ تم اس کے ساتھ اس طرح رہو۔ جس طرح ایک شریف ‘ مہذب اور خدا ترس آدمی رہتا ہے۔ گزشتہ آیت میں بھی فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں سے رجوع کرنے کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ رجوع اس وقت کریں جب وہ اصلاح کا ارادہ کرچکے ہوں۔ اصلاح کا مطلب واضح ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کریں۔ ان کے رویے میں اگر پہلے لاپرواہی ‘ بےنیازی یا دل دکھانے کے عناصر شامل تھے تو اب نہیں ہونے چاہئیں۔ تم بیوی کو اس طرح رکھو جیسے بیوی کا حق ہے۔ اس کی دل جوئی اور دل دہی میں کوئی کمی نہ کرو۔ وہ محسوس کرے کہ میں ایک مضبوط پناہ میں ہوں۔ میرا شوہر ‘ میرا رفیقِ حیات ‘ میری تنہائیوں کا امین ‘ میرے ہر دکھ درد میں شریک ہے۔ یہ وہ معروف ہے جس کی پابندی ہمیشہ بھلے لوگوں نے کی ہے اور آنحضرت ﷺ نے صرف اس کی تاکید ہی نہیں فرمائی ‘ بلکہ خود اپنی بیویوں کے ساتھ عملی مثال بھی مہیا فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور ہر بیوی یہ سمجھتی تھی کہ حضور ﷺ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کا دل نہ دکھایا۔ کبھی کسی بیوی کو آزردہ ہونے کا موقع نہ دیا۔ کسی کی دو بیویاں بھی ہوں تو ہر وقت شکایتوں کا انبار لگا رہتا ہے لیکن آنحضرت ﷺ کی نو بیویوں میں سے کبھی کسی نے شکایت کا نام تک نہ لیا۔ تَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَان کا مفہوم اور اگر رجوع کرنے کا فیصلہ نہ ہو تو پھر تَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَان اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پھر نہایت شرافت کے ساتھ عدت کو پورا ہونے دیا جائے۔ بغیر کسی تلخی کے عدت کو اپنے انجام کو پہنچنا چاہیے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب اگرچہ میاں بیوی میں علیحدگی ہو رہی ہے اور بیوی کا اب شوہر پر کوئی حق باقی نہیں رہا لیکن شوہر کی مردانگی اور فتوت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ طلاق دے کر اپنی بیوی کو دھکے دے کر گھر سے نہ نکالے بلکہ احسان کے ساتھ اس کو گھر سے روانہ کرے۔ یہ بات ہمارے معاشرے میں بالکل اجنبی معلوم ہوگی۔ کیونکہ ہمارے یہاں علیحدگی کا مطلب دشمنی سے کم نہیں ہوتا۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے انتہائی بیزار ہوتے ہیں اور دونوں خاندان ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیار ہوتے ہیں۔ لیکن اس آیت کریمہ میں پروردگار یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ بعض دفعہ مزاجوں کے تفاوت یا کسی اور ناگزیر سبب کے باعث بات اگر علیحدگی تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان تلخ اور تکلیف دینے والے لمحوں کو سلیقے سے نہ گزارا جاسکے۔ خاص طور پر پڑھے لکھے گھرانوں میں اولاً تو میاں بیوی کو مل بیٹھ کر کوئی سمجھوتہ کرلینا چاہیے اور اگر وہ بری طرح جذبات کی گرفت میں ہیں تو پھر دونوں خاندانوں کے بڑے لوگوں کو بیٹھ کر خوش اسلوبی سے یہ معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اور ایک دوسرے کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ دونوں نوجوان ہیں ‘ بردباری نہیں دکھا سکے اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں سمجھداری کا ثبوت نہیں دے سکے۔ اب جب کہ وہ ایک دوسرے سے اتنا دور چلے گئے ہیں تو ہمیں ان تلخیوں کو بڑھانے کے بجائے ان کی علیحدگی کا فیصلہ اس طرح کرنا چاہیے کہ علیحدگی بھی ہوجائے ‘ لیکن خاندانوں میں دشمنی کی بنیاد نہ پڑے۔ صحابہ کی مثالیں اس پر شاہد و عادل ہیں۔ قرآن کریم تو اس بات پر زور دیتا ہے کہ بیوی کو علیحدہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ‘ جاتے ہوئے معذرت کی جائے اور ساتھ ہی کچھ تحائف بھی دیئے جائیں ‘ زیادہ نہیں تو کپڑوں کے ایک دو جوڑے ہی دے دیئے جائیں۔ شوہر بیوی سے عطیات و تحائف واپس نہیں لے سکتا وَلَا یَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّـآ اٰ تَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئًا سے ایک اور اہم بات ارشاد فرمائی گئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو یہ بات یقینا اجنبی معلوم ہوگی کیونکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ جب کہیں طلاق تک نوبت پہنچتی ہے تو فریقین اپنا اپنا حساب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لڑکی والے جہیز کی ایک ایک چیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انھیں یقینا اس مطالبے کا حق ہے۔ اور شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کی تمام چیزیں واپس کرے۔ البتہ شوہر نے اپنی بیوی کو جو کچھ دیا اس میں سے ایک تو وہ ہے جس کا تعلق نان ‘ نفقہ اور کسوۃ وغیرہ یعنی بیوی کے حقوق سے ہے۔ ان کا تو شوہر کسی طرح مطالبہ نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ یہ تو اس کے ذمے واجبات تھے۔ رہے وہ تحائف جو مختلف وقتوں میں شوہر اپنی چاہت سے اپنی بیوی کو دیتا ہے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم اپنی بیویوں کو محبت اور شوق سے دے چکے ہو وہ چونکہ ان کی ملکیت بن چکے ہیں اس لیے ان میں سے کچھ بھی واپس لینا تمہارے لیے جائز نہیں۔ سورة النساء میں ارشاد فرمایا گیا کہ تم اپنی بیویوں سے اپنے دیئے ہوئے تحائف کیسے واپس لیتے ہو جب کہ تم ان سے انتہائی قریبی تعلق قائم کرچکے ہو۔ اور ان بیویوں نے محبت کے ان لمحوں میں تم سے کیسے کیسے پختہ وعدے بھی لیے تو کیا اب یہ سب کچھ بھول بھال کر تم ایک ایک چیز کا مطالبہ کرو گے۔ شوہر کی حیثیت ایک برتر حیثیت ہے۔ اس کے اندر قدرت نے مردانگی اور فتو ّت رکھی ہے۔ اسے ہرگز یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بیوی کے سامنے حساب کھول کر بیٹھ جائے۔ ہاں اگر اس نے اپنی بیوی کو زیور پہننے کے لیے دیا ‘ لیکن اس کی ملکیت میں نہیں دیا۔ یا اسی طرح کوئی اور قیمتی چیز جو صرف وقتی فائدہ اٹھانے کے لیے دی لیکن وہ ہے شوہر کی ملکیت تو ایسی چیز کو یقینا واپس لینے کا حق ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ شوہر کو حتیٰ الامکان عظمت کا ثبوت دینا چاہیے۔ ہاں اس سے ایک صورت مستثنیٰ ہے۔ صورتِ مستثنیٰ ، خلع کا بیان اِلَّآ اَنْ یَّخَافَـآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَاللّٰہِ آیت کریمہ کے اس جملہ میں صورت مستثنیٰ کو بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی اس بات کا اندیشہ کریں کہ وہ میاں بیوی کی حیثیت میں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے یعنی حدود اللہ کو بروئے کار لانا دونوں کے نزدیک مشکل ہوجائے ‘ شوہر اپنی ہٹ پر قائم ہو ‘ وہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کے لیے تیار نہیں ‘ وہ ہر قیمت پر بیوی کو لونڈی بنا کر رکھنا چاہتا ہے ‘ اسے مارتا پیٹتا ہے ‘ حقوق ادا کرنے کے بجائے اس پر سختی کرتا ہے ‘ اسے طلاق دے کر الگ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور شرفاء کی طرح بیوی بنا کر رکھنا بھی منظور نہیں ‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بیوی کے دل میں اس کی طرف سے نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ اب اسے ایک بیوی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ‘ وہ اسے شوہر محسوس نہیں ہوتا ‘ بلکہ ایک ایسا اجنبی محسوس ہوتا ہے جس کے شکنجے میں پھنس کر رہ گئی ہے اور یا یہ ہے کہ شوہر ایسی کوئی زیادتی تو نہیں کرتا لیکن بیوی آزادانہ زندگی کی عادی ہے۔ وہ شرم و حیا کی پابندیوں کو اپنے لیے ظلم سمجھتی ہے۔ وہ اسے کسی بات سے روکتا ہے تو وہ اس کے روکنے کے حق کو چیلنج کرتی ہے ‘ وہ گھر میں ایک متوازی گھر بنا کر رہنا چاہتی ہے جس میں اس کے آنے جانے ‘ ملنے جلنے اور طور اطوار پر کوئی پابندی نہ ہو۔ حاصل کلام یہ کہ بیوی شوہر کی زیادتیوں کی وجہ سے بیزار ہو یا اپنی نامناسب سوچ اور غیر شرعی تصورات کے باعث ‘ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی ہو ‘ یقینا گھر میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور جب یہ بگاڑ لا ینحل صورت اختیار کرلے اور بیوی ہر قیمت پر فیصلہ کرلے کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا اور شوہر اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس کے بعد دو ہی صورتیں ہیں کہ میاں بیوی دونوں اپنے اپنے خاندان میں سے حکم تجویز کریں اور بیوی ان کے ذریعے سے علیحدگی کی کوشش کرے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ وہ عدالت میں اپنے حق کے حصول کے لیے مرافعہ کرے۔ یعنی وہ عدالت کے ذریعے علیحدگی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ” خلع “ کہا جاتا ہے۔ دونوں خاندان اپنے گھر ہی میں اس مسئلے کو نمٹا سکیں تو سب سے اچھی بات ہے اور اگر گھر میں یہ بات طے نہ ہو سکے تو عدالت کا فرض ہے کہ پہلے تو وہ فریقین میں مصالحت کی کوشش کرے اور کامیابی نہ ہو تو عدالت بیوی کو حکم دے کہ اس نے اپنے شوہر سے مہر میں جو کچھ لیا تھا اسے واپس کر دے۔ اور اس کے بعد عدالت ان کے درمیان تفریق کر دے۔ اسے خلع کہتے ہیں۔ اس کا حکم طلاق بائن کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوعہ عورت عدت اتنی گزارے گی جتنی مطلقہ عورتیں گزارتی ہیں۔ لیکن اس عدت کے دوران شوہر اس سے رجوع نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی دونوں دوبارہ نکاح کا ارادہ کریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ فقہائِ احناف کی رائے اس بارے میں یہ ہے کہ زوجین کے درمیان حالات کی خرابی کی ذمہ داری اگر تو شوہر پر ہے تو پھر اسے خلع کی صورت میں بیوی سے کچھ بھی لینا مناسب نہیں۔ لیکن اگر زیادتی بیوی کی ہے تو جتنا اس نے بیوی کو دیا تھا اتنا اس سے لینا مباح ہے۔ البتہ زیادہ لینے کے بارے میں علماء اختلاف کرتے ہیں۔ بعض اس کو جائز قرار دیتے ہیں اور بعض اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نہایت توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ خلع اگرچہ ظالم شوہر سے بیوی کے لیے نجات حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس لحاظ سے اسے اللہ کی رحمت کہنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا معمولی معمولی باتوں اور مزاج میں ایسے اختلاف کی بنیاد پر جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو اور جس کی موجودگی میں زندگی گزاری جاسکتی ہو ؟ اگر عورت خلع طلب کرے تو کیا عدالت کو اسے اجازت دے دینی چاہیے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ بہت نازک ہے۔ اور اس میں عدالت کی مومنانہ بصیرت اور تفقہ کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ بات تو اسلامی نقطہ نگاہ سے طے شدہ ہے کہ ایسے ذوقی اور سطحی نوعیت کے اختلافات جو عموماً مزاجوں میں پائے جاتے ہیں اور شریف عورتیں جن کی موجودگی میں بھی بڑی کامیاب زندگی گزارتی ہیں ایسی صورت میں عورت کو خلع یا فسخ نکاح کا مطالبہ لے کر نہیں اٹھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر عورت کو یہ حق استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے خاندانی نظام کی بقا دشوار ہوجائے گی۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے تاکیداً ارشاد فرمایا کہ خلع کے معاملے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خلع کا مطالبہ کرنے والی خاتون کیا محض کندھا بدلنے اور ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے مطالبہ تو نہیں کر رہی۔ اگر ایسا ہے تو یہ ہزار دفعہ مسترد کردینے کے لائق ہے۔ لیکن اگر خاتونِ خانہ کے مطالبہ میں واقعی حقیقت موجود ہے تو پھر اسے روکنا اور اس حق سے محروم رکھنا بھی ظلم کے مترادف ہے۔ ایک عورت اگر اپنے شوہر کے مظالم اور اس کے برے رویے سے اس حد تک نالاں ہے کہ اس کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے تو اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ‘ اگرچہ اتنا آسان بھی نہیں۔ اس لیے خلفائے راشدین اس بارہ بھی نہایت احتیاط کرتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ( رض) کے پاس ایک خاتون خانہ نے خلع کا مقدمہ دائر کیا۔ آپ ( رض) نے اسے بلا کر سمجھایا۔ لیکن وہ راضی نہ ہوئی۔ آپ ( رض) نے یہ اندازہ کرنے کے لیے کہ اس کے دعوے میں کہاں تک صداقت ہے آپ ( رض) نے حکم دیا کہ سے بکریوں کے باڑے میں رکھاجائے۔ چناچہ اس نے دو راتیں وہاں گزاریں۔ ظاہر ہے بکریوں کا باڑہ کوئی رہنے کی جگہ تو نہیں۔ ہر وقت کی جانوروں کی دھماچوکڑی ‘ پھر چاروں طرف بدبو کے ڈھیر …کون ایسی جگہ میں رات آرام سے گزار سکتا ہے۔ دو راتوں کے بعد جب اسے حضرت عمر فاروق ( رض) نے بلایا اور پوچھا کہ تمہاری یہ دو راتیں کیسی گزریں ؟ َخاتون نے کہا کہ شادی کے بعد ان راتوں میں جی بھر کے سوئی ہوں۔ حضرت عمر فاروق ( رض) اس کے غم کی حقیقت کو سمجھ گئے اور آپ نے ان کے درمیان جدائی کا حکم دے دیا۔ لیکن اگر معاملہ اس طرح کا ہو کہ بیوی انتہائی خوبصورت ہے اور شوہر انتہائی بدصورت ‘ بیوی کو شادی سے پہلے شوہر کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ‘ ماں باپ نے اس عظیم تفاوت کی طرف توجہ نہیں دی۔ بیوی کی پہلی نظر جب شوہر پر پڑی تو اس کے دل میں بیزاری اور نفرت کا ایک بگولا اٹھا جس نے اسے پوری طرح ہلا کر رکھ دیا۔ اب اگر ایسی خاتون شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہے تو عدالت کے لیے فیصلہ کرنا یقینا مشکل ہوگا۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ مزاج کا فرق برداشت ہوجاتا ہے لیکن حس جمال ‘ حسن و قبح اور خوبصورتی اور بد صورتی کا فرق بعض دفعہ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جمیلہ بنت عبداللہ نے جب اپنے شوہر ثابت بن قیس ( رض) کو دیکھا کہ وہ شکل و صورت کے اعتبار سے نہایت مفلس ہے۔ اور جمیلہ واقعی اسم با مسمیٰ تھیں۔ تو باوجود مومنہ ‘ صالحہ اور صحابیہ ہونے کے وہ بدصورتی پر سمجھوتہ نہ کرسکیں اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی لا انا ولا ثابت لایجمع رأسی و رأسہ شیٔ ” میں اور ثابت ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، میرا سر اور اس کا سر ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے “ آنحضرت ﷺ کی بصیرت نے اختلاف کی اس گہرائی کو پوری طرح سمجھا اور فرمایا ” کیا تم وہ باغ واپس کرنے کے لیے تیار ہو جو ثابت نے تم کو مہر میں دیا تھا ؟ “ جمیلہ نے کہا ” وہ بھی واپس کرنے کو تیار ہوں اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی دینے کو تیار ہوں۔ “ آنحضرت ﷺ نے وہ باغ حضرت ثابت ( رض) کو واپس کردیا اور ان دونوں میں تفریق کردی۔ مختصر یہ کہ فسخ نکاح یا خلع کا حق عورت کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس کو لعنت اور زحمت بننے سے بچانے کے لیے لڑکیوں کی اسلامی تربیت ضروری ہے۔ اور عدالت کے منصب پر فائز منصف جس طرح بصیرت کا حامل ہونا چاہیے اسی طرح اسلامی شریعت اور اسلامی حکمت میں ڈھلا ہوا بھی ہونا چاہیے۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا۔ یعنی ان احکام کی پابندی کرنا اور کبھی خواہشات نفس کو ان احکام پر غالب نہ آنے دینا۔ میاں بیوی کے جو حقوق مقرر کردیئے گئے ہیں اور جانبین کے ایک دوسرے پر جو فرائض عائد کردیئے گئے ہیں اور دونوں کو زندگی گزارنے کے لیے جو آداب سکھائے گئے ہیں اور اگر کہیں تلخی ہوجائے تو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں اور اگر علیحدگی کی نوبت آجائے تو علیحدگی کا جو طریقہ سکھایا گیا ہے اور قدم قدم پر جس حکمت سے آشنا کیا گیا ہے یہ سب اللہ کی حدود ہیں ان کی پابندی مسلمان کی دنیا اور آخرت میں کامیاب زندگی کی ضمانت ہے اور ان حدود کی پامالی دنیا اور آخرت میں تباہی اور ناکامی کا سبب ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو شخص بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے وہ درحقیقت ظلم کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنی قسمت پھوڑتا ہے ‘ اپنی زندگی برباد کرتا اور اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔
Top