Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اگر تم شک میں ہو اس چیز کی جانب سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے۔ تو لائو، اس کے مانند کوئی سورت اور بلالو اپنے حمائتیوں کو بھی اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوْ النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُ ھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ج اُعِدَّتْ لِلْـکٰفِرِیْنَ ۔ (اگر تم شک میں ہو اس چیز کی جانب سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے۔ تو لائو، اس کے مانند کوئی سورت اور بلالو اپنے حمائیتوں کو بھی اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔ پس اگر تم نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکوگے تو پھر ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر بنیں گے، جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے) (البقرۃ : 23 تا 24) عقیدہ رسالت پر قرآن کریم سے استدلال سابقہ دونوں آیتوں میں ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہوئے اس کی توحید پر مخلوقات کی تخلیق انسان کے لیے ان کی افادیت، ان کے درمیان تنوع اور تضاد اور باہمی توافق کو بطور دلیل کے بیان فرمایا گیا ہے۔ اب پیش نظر دو آیتوں میں اسلام کے دوسرے بنیادی عقیدے کو ذکر فرمایا جارہا ہے۔ جسے ہم رسالت کہتے ہیں اور اس پر قرآن کریم کو بطور دلیل کے پیش کیا جارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب نبوت اور رسالت کا دعویٰ فرمایا تو ہر قوم کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ سے آپ کی نبوت کی دلیل مانگی۔ آپ نے اس پر دو دلائل بیان فرمائے۔ سب سے پہلے اپنے ذاتی کردار کو پیش کیا اور کوہ صفا پر کھڑے ہو کر لوگوں سے برملا سوال کیا کہ کیا زندگی میں میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے ؟ تمہیں کبھی مجھ سے غلط بیانی کا تجربہ ہوا ہے ؟ جب سب نے اعتراف کیا کہ چالیس سالوں میں ہم نے آپ کو ہمیشہ الصادق اور الامین پایا تو تب آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اور یہ بتلایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے مجھ پر اللہ کی وحی اترتی ہے اللہ کا سب سے مقرب فرشتہ جبریل مجھ پر قرآن کریم نازل کرتا ہے۔ ایک طرف تم میری ذات کی صداقت کو دیکھو اور دوسری طرف مجھ پر اترنے والی کتاب کو ملاحظہ کرو۔ قوم آپ کی صداقت کے اعتراف کے باوجود آپ کی نبوت کی تصدیق کے لیے تیار نہ ہوئی اور قرآن پاک کو جھٹلانے کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ جسے ہم ایک ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ قرآن کریم پر کفار کے اعتراضات اور ان کا جواب 1 کبھی تو یہ کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ کتاب تم پر اللہ کی طرف سے اترتی ہے بلکہ ہمارا گمان یہ ہے کہ تم اسے خود لکھ لیتے ہو محنت سے چند فصیح وبلیغ بول بنالیتے ہو اور اسے ہمارے سامنے پیش کرکے یہ دعویٰ کرتے ہو کہ اسے اللہ نے اتارا ہے۔ 2 کبھی یہ کہا کہ معلوم ہوتا ہے اس کتاب کی تیاری میں کوئی تمہاری مدد کرتا ہے۔ یہ ایک سازش ہے جسے مختلف لوگوں نے مل کر تیار کیا ہے اور مقصود اس سے قوم کے شیرازے کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ 3 اور کبھی یہ کہا کہ قرآن کریم دراصل ایک شاعری ہے۔ اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اسے شاعری کے مضامین اور شعر کا اسلوب القاء کرتا ہے۔ اسی طرح تم پر بھی کسی جن کا اثر ہے وہی تم پر اس کتاب کی آیات اتارتا ہے اور اسی کو تم لوگوں کے سامنے پیش کردیتے ہو۔ قرآن کریم نے اسی ترتیب سے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ سب سے پہلے یہ بات فرمائی کہ تم کہتے ہو محمد ﷺ خود اس کتاب کے مصنف ہیں۔ اگر واقعی یہ بات صحیح ہے تو پھر اس کا فیصلہ کوئی مشکل بات نہیں۔ اس لیے کہ تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ تمہاری طرح قریش کے ایک فرد ہیں۔ تمہاری ہی طرح آپ مکہ میں پروان چڑھے ہیں۔ تمہارے ہی ساتھ کھیل کود کر جوان ہوئے ہیں۔ جن لوگوں سے ملنے کا تمہیں اتفاق ہوا ہے انھیں سے وہ ملے ہیں۔ انھوں نے بیرون ملک چند دنوں کے چند سفر کیے ہیں جبکہ تم بہت زیادہ سفر کرچکے ہو اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ مکہ اور گرد وپیش میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں جس سے وہ علم حاصل کرسکتے جس طرح تم امی ہو وہ بھی امی ہیں۔ اس کے باوجود تمہارے دعویٰ کے مطابق اگر وہ ایسی آیات تیار کرلیتے ہیں جسے وہ اللہ کا کلام کہہ کر پیش کرتے ہیں اور اسی کو کتاب اللہ کہتے ہیں تو تمہارے لیے کیا مشکل ہے کہ تم بھی ویسی ہی کتاب یا ویسی ہی آیات بنا کرلے آئو اور اگر تم انفردی طور پر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو تم سب اہل مکہ اور باہر کے لوگوں کو بھی ساتھ ملاکر کوشش کردیکھو اگر تمہاری طرح کا ایک شخص بقول تمہارے کچھ لوگوں کو ساتھ ملاکر ایک کتاب تیار کرلیتا ہے۔ حالانکہ تم کسی کا نام بھی نہیں لیتے ہو تو تمہارے ساتھ مدد کرنے کے لیے تو بیشمار لوگ موجود ہیں تم میں بڑے سے بڑا خطیب موجود ہے ایسے ایسے شاعر موجود ہیں جن کی دھاک پورے عرب میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تم سب کو اپنے ساتھ بٹھائو اورا نہیں مجبور کرو کہ وہ اس کتاب کا جواب تیار کریں اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی جن قرآن کریم کی تیاری میں آپ کی مدد کررہا ہے تو تمہارے تو جنات سے دیرینہ رشتے ہیں تمہارے کاہن ان سے تعلق کا ہمیشہ دعویٰ کرتے ہیں تم ہمیشہ ان کے نام کی جے پکارتے ہو اور ہر مشکل میں ان سے مدد طلب کرتے ہو تم انھیں بھی اپنی مدد کے لیے بلالو۔ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ واقعی جنات انسانوں کی مدد کرتے ہیں تو ایسا موقعہ جس میں تمہارے دین کی سچائی کا سوال ہے، یقینا جن تمہاری مدد کریں گے۔ اپنے سارے شعراء، خطباء، فصحاء اور جنات کی مدد سے تم اس بات کو جھوٹا ثابت کردو کہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور جس کی مثال لانا کسی کے بس میں نہیں۔ قرآن کریم کا چیلنج قرآن کریم نے تین شکلوں میں یہ چیلنج دیا ہے۔ پہلے تو فرمایا کہ جن وانس مل کر اس قرآن جیسا کوئی قرآن بناکر لائیں۔ جب اس کے جواب میں خاموشی رہی۔ لیکن مخالفت جاری رہی تو پھر فرمایا اس جیسی دس سورتیں بنا کرلے آئو اور جب یہ بھی نہ ہوسکاتو پھر فرمایا : فاتوا بسورۃ من مثلہ ” اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آئو “۔ اندازہ کیجئے ! اس سے ہلکا چیلنج اور کیا ہوسکتا ہے کہ صرف ایک سورت بنا کر لائی جائے کیونکہ سورت سے مراد کوئی بڑی سورت نہیں سورة الکوثر جیسی تین بولوں پر مشتمل سورة ہی پیش کردو تب بھی چیلنج کا جواب ہوجائے گا، لیکن اگر تم ایسانہ کرسکو اور یقینا نہیں کرسکو گے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنی واضح دلیل اور اتنی مضبوط حجت قائم ہوجانے کے بعد بھی تم اگر رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لائو اور آپ کی نبوت کو تسلیم نہ کرو اور قرآن کریم کو اللہ کی کتاب نہ مانو تو پھر اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اولاً دنیا ہی میں عذاب آئے اور اگر اللہ کی مشیت سے تم دنیا میں عذاب سے بچ جاؤ تو پھر جہنم کی اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ یہاں جن پتھروں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد عام پتھر نہیں بلکہ وہ پتھر ہیں جنھیں بتوں کی شکل میں یا استھان کی شکل میں پوجا گیا ہو۔ بتوں کو عذاب دینے کی وجہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شرک اور کفروہ آتش گیر مادے ہیں جس سے جہنم کی آگ بھڑکتی ہے۔ جن انسانوں میں یہ مادہ ہوگا وہ بھی اسی آگ کی تیزی کے کام آئیں گے اور جن پتھروں میں اس شرک کی آمیزش ہوگی انھیں بھی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت بھی کردی ہے ارشاد فرمایا : اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ” بیشک تم اور جن کی تم پوجا کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہوگے “۔ یعنی جن بتوں کو تم پوجتے ہو جو پتھروں سے تراشے جاتے ہیں انھیں بھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح ان میں شرک کا آتش گیر مادہ موجود ہے جس کی وجہ سے جہنم کی آگ بھڑکے گی اسی طرح انھیں جہنم میں ڈالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب یہ لوگ اپنے ساتھ انھیں بھی جہنم میں جلتا ہوا دیکھیں گے تو تب انھیں اندازہ ہوگا کہ جنھیں ہم خدا بنائے بیٹھے تھے ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ عرب اپنی فصاحت کلام میں یکتا تھے۔ ان کی طلاقت لسانی اور شعر گوئی کا پوری دنیا میں جواب نہ تھا اس لیے ان کے لیے قرآن کریم کا جواب دینا کوئی مشکل نہ تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے اگر جواب نہیں دیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جواب دے نہیں سکتے تھے بلکہ انھوں نے اسے درخور اعتناء نہیں سمجھا اور اپنی حیثیت سے اسے بہت فروتر جانا۔ لیکن اس طرح کی بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو عربوں کے مزاج سے ناواقف ہو اور جس کے سامنے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد مکہ میں برپا ہونے والی کشمکش کی تاریخ نہ ہو۔ ورنہ جو آدمی عربوں کے مزاج سے آگاہی رکھتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ عربوں میں غیرت و حمیت انہتا کو پہنچی ہوئی تھی جس طرح وہ جنگ میں پیچھا دکھانے کو موت سے بدترخیال کرتے تھے اسی طرح اگر انھیں خطابت یا شاعری میں مقابلے کا چیلنج دیا جاتاتو وہ اسے غیرت کا مسئلہ بنالیتے اور جب تک اپنے مقابل کا چیلنج قبول کرتے ہوئے جواب نہ دے لیتے انھیں چین نہیں آتا تھا۔ ملک کے دور دراز کسی کونے کا کوئی آدمی ملک کے دوسرے کنارے پر رہنے والے کسی آدمی کی ہجو کہتا تھا تو یہ لمبا سفر کرکے اس کا جواب دینے کے لیے وہاں پہنچتا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآن کریم کی تعلیمات کی رہنمائی میں اٹھنے والی تحریک کا 21 سال تک عربوں نے اس طرح مقابلہ کیا کہ اس کے لیے بیسیوں لڑائیاں لڑیں۔ اپنے بھائی بند اور بچے قتل کرائے مسلمانوں کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ حتی کہ اسی کشمکش میں عرب کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہوگئی، خوش نصیب اسلام کی آغوش میں آگئے۔ بدنصیب قتل ہوگئے یا ملک سے بھاگ گئے۔ جزیرہ عرب کی حد تک کفر مکمل طور پر فنا ہوگیا۔ جس قوم نے ایسی جانگسل کشمکش میں پیچھا نہ دکھایا اور جس نے خوں ریز معرکوں میں اپنے کفر سے کبھی پسپائی اختیار نہ کی ہو۔ اس کے بارے میں یہ سمجھنا کہ انھوں نے مخالفت میں سب کچھ کیا لیکن یہ قرآن کریم کا چیلنج اس لیے قبول نہ کیا کہ وہ ان کے نزدیک چنداں اہمیت کا حامل نہ تھا حالانکہ اسی پر کفر واسلام کے معرکے کا دارومدار تھا۔ تو یہ بات کم فہمی اور بےعقلی کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ قرآن کریم میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ قرآن کریم کے اس چیلنج پر صدیاں گزرگئیں اور دنیائے کفر نے اسلام کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کا جتن کرڈالا لیکن اس چیلنج کا جواب دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ کس قدر آسان کام ہے کہ اگر قرآن جیسی کتاب یا اس جیسی چند سورتیں یابدرجہ آخر ایک ہی سورت لاکر پیش کردی جائے اور دنیا کے اہل علم و دانش فیصلہ کردیں کہ واقعی یہ کوشش قرآن جیسی یا قرآن سے بہتر ہے تو اسلام کے پائوں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ وجوہِ اعجاز اس حوالے سے مختلف علماء نے اعجازِ قرآن کے نام سے ان وجوہ اعجاز کو بیان کیا ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی مثال لانا انسان کے لیے ممکن کیوں نہیں۔ اس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان وجوہ اعجاز میں سے اپنی ہمت کے مطابق کچھ نہ کچھ عرض کردیں۔ ا لفاظ کا اعجا ز کسی بھی کتاب کا مطالعہ شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کے الفاظ سے واسطہ پڑتا ہے۔ کتاب چاہے علم وفن کے کسی شعبہ سے متعلق ہو الفاظ کا استعمال تو ہر مضمون کی ضرورت ہے۔ اگر الفاظ فصاحت و بلاغت کی ٹکسال سے ڈھل کے نکلے ہیں تو پہلے ہی مرحلہ میں کتاب کا قاری کتاب کے مطالعے میں ایک لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا علمی مقام کیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی ہمیں سب سے پہلے الفاظ کا حسن اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لیکن اس حسن اور خوبی کو سمجھنے کے لیے اصل ذریعہ تو پڑھنے والے کا اپنا حسن ذوق ہے۔ اگر وہ فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ ذوق رکھتا ہے تو پھر اسے قواعد و ضوابط یا لغت سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جس طرح جمالیاتی ذوق رکھنے والا ہر خوبصورت چیز میں پہلی نظر پڑتے ہی خوبصورتی محسوس کیے بغیر نہیں رہتا۔ بلکہ اس کا ذوق چند ہی لمحوں میں فیصلہ کردیتا ہے کہ اس چیز میں خوبصورتی اور حسن کس کمال پر ہے۔ البتہ ! جس شخص میں جمالیاتی ذوق کی کمی ہوگی اسے کسی بھی چیز کی خوبصورتی کو سمجھانے کے لیے اصول و ضوابط کا حوالہ دینا پڑے گا۔ قرآن کریم کو جب عرب کے فصحاء وبلغاء نے دیکھا تو مخالف اور دشمن ہوتے ہوئے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کے حسن سے گھائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ولید بن مغیرہ ہو، عتبہ بن ربیعہ ہو یا نضربن حارث ہو، یہ لوگ ایمان نہیں لائے، لیکن قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کے علاوہ کئی اور اشرافِ قریش تھے جو قرآن کریم کو چھپ چھپ کر سنتے تھے۔ وہ اپنے قومی تعصبات کے باعث مخالفت بھی کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی قرآن کی عظمت کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ لیکن اہل عجم کو فصاحت و بلاغت کے بعض حوالوں سے واضح کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم میں وہ ایسی کیا بات ہے جس نے اسے معجز بنادیا۔ چناچہ سب سے پہلے جب ہم اس کے الفاظ کو دیکھتے ہیں تو الفاظِ قرآن کے تین پہلو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ 1 دنیا کی کسی بھی زبان کی بڑی سے بڑی ادبی کتاب کو دیکھ لیجئے وہ یہ دعویٰ کبھی نہیں کرسکتی کہ اس کتاب کی عبارت آرائی جن الفاظ سے ہوئی ہے ان میں کوئی لفظ بھی غیر فصیح نہیں کیونکہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت کے معیار پر پورا اترتاہو۔ عربی زبان بھی اپنی انتہائی وسعت کے باوجود اس کمزوری سے مبرّا نہیں۔ لیکن قرآن کریم میں الحمد سے لے کر والناس تک نہ صرف یہ کہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیر فصیح نہیں بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہ فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔ جسے تبدیل کرنا کلام میں عیب پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں اسے کوئی ایسی بات کہنا پڑی ہے جس کے صحیح مفہوم کی ادائیگی کے لیے عربی زبان میں کوئی فصیح لفظ موجود نہیں تو قرآن کریم نے اس لفظ کے استعمال کی بجائے عربی زبان کو ایک نیا لفظ عطا کیا ہے جس سے وہ مفہوم صحیح طور پر ادا ہوجاتا ہے جو قرآن کریم کے پیش نظر ہے۔ مثلاً زمانہ جاہلیت میں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بہت سے عربی الفاظ مستعمل تھے مثلاً موت، ہلاک، فنا، حتف، شعوب، حمام، منون، سام، قاضیہ، نیط، فود، مقدار، جباز، قتیم، حلاق، طلاطل، طلاطلہ، عول، ذام، کفت، جداع، جُزرۃ، خالج۔ لیکن ان میں سے اکثر الفاظ کے پس منظر میں اہل عرب کا یہ قدیم نظریہ جھلکتا تھا کہ موت کے ذریعہ انسان کے تمام اجزاء ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاتے ہیں۔ اور اس کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں۔ قرآن کریم نے جب موت کی حقیقت بیان کرنا چاہی تو اس نے متذکرہ بالا الفاظ میں سے کسی ایک کا استعمال کرنا پسند نہیں کیا کیونکہ ان کے اندر جو تصور کارفرما تھا وہ اسلامی عقیدے کے بالکل برعکس تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے ایک ایسا لفظ عربی زبان کو دیا جو نہایت خوبصورت مختصر اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ اس مفہوم کو ادا کررہا ہے جو موت کی حقیقت ہے۔ وہ لفظ ہے ” تَوَفِّیْ “ جس کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا “ اس لفظ نے یہ بھی واضح کردیا کہ موت ابدی فنا کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح قبض کرنے کا نام ہے۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ چاہے وہ جسم کے منتشر اجزا یکجا کرکے ان میں دوبارہ روح لوٹا سکتا ہے۔ موت کے لیے یہ لفظ قرآن کریم سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا۔ اور آج نہ صرف عربی زبان بلکہ اردو زبان میں بھی وفات کے لفظ سے اس کا استعمال عام ہے۔ 2 اسی طرح آپ ہر زبان میں دیکھیں گے کہ بعض ایسے الفاظ بھی ہوتے ہیں جو صوتی اعتبار سے فصیح اور پسندیدہ نہیں سمجھے جاتے۔ لیکن زبان میں چونکہ ان الفاظ کا متبادل نہیں ہوتا۔ اس لیے اہل زبان انھیں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی حیرت میں ڈال دینے والی فصاحت و بلاغت اس کے لیے عجیب راستہ نکالتی ہے کہ وہ اس لفظ کو استعمال نہیں کرتی۔ البتہ ! بات کہنے کے لیے ایسی خوبصورت تعبیر اختیار کرتی ہے کہ بات بھی ادا ہوجاتی ہے لیکن اس لفظ کے استعمال کی نوبت نہیں آتی۔ عربی میں تعمیرِ مکان کے لیے پکی ہوئی اینٹوں کے لیے جتنے الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ سب ثقیل، مبتذل اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً آجر، قرمد اور رطوب، یہ تینوں الفاظ صوتی اعتبار سے غیر فصیح سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے فرعون اور ہامان کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے جب یہ بیان کرنا چاہا کہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا تھا کہ میرے لیے ایک اونچا محل تعمیر کرنے کے لیے اینٹیں پکائو۔ تو اس میں اینٹوں کا لفظ آنا ناگزیر تھا اور میں عرض کرچکا ہوں کہ عربی زبان میں اینٹوں کے لیے تینوں مستعمل لفظ غیر فصیح ہیں۔ قرآن کریم کے لیے یہ بات نامناسب تھی کہ وہ انسانی تحریروں کی طرح مجبور ہو کر غیر فصیح لفظ استعمال کرے۔ چناچہ اس نے اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایسا معجزانہ انداز اختیار کیا کہ مفہوم بھی ادا ہوگیا اور ثقیل الفاظ کے استعمال کا عیب بھی کلام میں پیدا نہ ہوا۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَقَالَ فِرْعَوْنَ یٰٓاَیُّھَاالْمَلَأ مَاعَلِمْتُمْ لَـکُمْ مِّنْ اِلٰـہٍ غَیْرِیْ فَاَوْقِدْلِیْ یَا ہَامَانُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا (اور فرعون نے کہا ! اے سردارانِ قوم ! مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود معلوم نہیں پس اے ہامان ! گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لیے ایک محل تعمیر کرو) اس آیت کریمہ میں دیکھ لیجئے کہ اینٹیں پکانے کا مفہوم بھی ادا ہوگیا لیکن اس کے لیے غیر فصیح لفظ کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔ 3 اسی طرح عربی زبان میں بعض الفاظ مفرد ہونے کی صورت میں نہایت سبک اور فصیح ہیں۔ لیکن ان کی جمع ثقیل سمجھی جاتی ہے۔ اس کی ادائیگی میں نسبتاً ثقالت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً زمین کو عربی زبان میں ” ارض “ کہتے ہیں۔ یہ واحد اور مفرد ہونے کی شکل میں کس طرح چست اور ہلکا پھلکا لفظ ہے۔ لیکن اس کی جمع دو صورتوں میں آتی ہے اور دونوں ہی ثقیل سمجھی جاتی ہیں۔” ارضون اور اراضی “۔ یہ دونوں لفظ اہل ذوق کو بوجھل محسوس ہوتے ہیں اور ان کے خیال میں ان کی وجہ سے کلام کی سلاست پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن جہاں بھی جمع کا مفہوم ادا کرنا ہو تو عرب مجبور ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی لفظ کو استعمال کریں۔ لیکن قرآن کریم میں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کہیں بھی ارض کو جمع کی صورت میں استعمال نہیں کیا گیا۔ حتی کہ جہاں یہ بتانا تھا کہ جس طرح اللہ نے سات آسمان بنائے ہیں اسی طرح سات زمینیں بھی بنائی ہیں تو وہاں بھی ارض کو مفرد صورت میں اس طرح لایا گیا ہے کہ جمع کا مفہوم ادا ہوگیا ہے۔ ذرا اس آیت کریمہ کو پڑھئے اور سردھنئے۔ اللہ الذی خلق سبع سمٰوٰت ومِنَ الاَرضِ مِثلَھُنَّ ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پید اکیے ہیں اور زمین میں سے بھی اتنی ہی “۔ اس آیت کریمہ میں دیکھئے سماء کی جگہ جمع لائی گئی ہے لیکن ارض کی جمع لانے کی بجائے ومن الارض مثلھن کہہ کر اس خوبی سے مفہوم ادا کیا کہ فصاحت و بلاغت سجدہ ریز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ ان دو مثالوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا معیار اس کمال تک پہنچا ہوا ہے کہ جس کی مثال لانا انسان کے لیے ممکن نہیں۔ ترکیب کا اعجاز قرآن کے قاری کو عام کتابوں کی طرح دوسری جس چیز سے سابقہ پڑتا ہے وہ ان الفاظ سے بننے والے جملوں کی ترکیب اور ان کی ساخت ہے۔ قرآن پاک کا ایک ایک جملہ اپنے اندر وہ حسن، وہ چابک دستی، وہ چستی، اور وہ خوبصورتی رکھتا ہے کہ دوسری کسی کتاب میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مشکل سے مشکل بات کو سلاست کالباس پہنا دینا، سادہ سی بات کو شوکت و شکوہ کی تصویر بنادینا، اور پھر ان میں شیرینی پیدا کردینا کہ حسن ذوق رکھنے والاداد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ قرآن کریم کا معمول ہے کہ میں صرف اس کی ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ عرب جیسے جری، بہادر، اور قانون سے بیخبر معاشرے میں خوں ریزی عام سی بات تھی۔ وہ اسے روکنے کے لیے قاتل سے قصاص لینے کو بہت بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اور اسی لیے اس پر ہمیشہ اپنے خطبوں اور اپنی حکمتوں میں زور دیتے رہتے تھے چناچہ اس مفہوم کے کئی مقولے ان میں مشہور ہوگئے تھے۔ مثلاً القتل احیاء للجمیع ” قتل اجتماعی زندگی ہے “ اور القتل انفی للقتل ” قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے۔ “ اکثروا القتل لیقل القتل ” قتل زیادہ کرو تاکہ قتل کم ہوجائے “۔ ان جملوں کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ زبان زد عام تھے اور انتہا درجہ فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اس مفہوم کو ادا فرمایا ہے، لیکن اس شان سے ادا فرمایا ہے کہ تمام مشہور جملوں کی فصاحت و بلاغت اس کے سامنے ماند ہو کر رہ گئی ہے۔ ارشاد ہے : ولکم فی القصاص حیاۃ ” اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے “۔ اس جملے کے اختصار جامعیت، سلاست، شوکت، اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھئے بلاغت کا معجز شاہکار معلوم ہوتا ہے اور پہلے کے تمام جملے اس کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔ اسلوب کا اعجاز الفاظ اور ترکیب کے اعجاز کے بعد قرآن کریم کا حیرت میں ڈال دینے والا اعجاز وہ ہے جس کا اظہار قرآن کریم کے اسلوب میں ہوتا ہے۔ وہ بظاہر ایک فصیح وبلیغ عربی زبان کی کتاب ہے لیکن اس کے اسلوب کی شیرینی، اثراندازی اور رنگارنگی اپنے اندر وہ وسعت اور ندرت رکھتی ہے کہ آدمی جیسے جیسے اسے پڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے اس طرح حیران و ششدر ہوتا جاتا ہے جس طرح ایک آدمی اگر کسی ایسے گلشن میں داخل ہوجائے جس میں بیشمار اقسام کے پھول کھلے ہوئے ہوں اور ہر پھول کا رنگ، خوشبو، سائز، اور شکل و صورت بالکل ایک دوسرے سے الگ ہو تو آدمی اس گلشن میں رنگ ونور کے سیلاب میں ڈوبتا تو چلا جاتا ہے لیکن اس کے لیے ان پھولوں کے رنگوں کی پہچان، ان میں ہر ایک کی انفرادیت کی شناخت، ان میں سے ہر ایک کی خوشبو کا الگ الگ احساس اور ان میں پائے جانے والے تنوع کا شمارہرگز ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح قرآن کریم بھی ایک ایسا گلشن ہے جس کے اسلوب کے اتنے رنگ ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے گلشن میں بھی ان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے زبان قلم کو یارا نہیں کہ اس کے اسلوب کے بارے میں کوئی کافی شافی بات لکھ سکے۔ لیکن اس میں جو باتیں بہت نمایاں ہیں جن کو جان لینا ہی اس کے اعجاز کو سمجھ لینے کے لیے کافی ہے ان میں سے چند ایک کا تذکرہ ہم کرتے ہیں۔ 1 سب سے پہلی جو چیز اسے پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے آدمی کو ورطہ حیرت میں ڈالتی ہے وہ اس کا صوتی آہنگ ہے۔ قرآن کریم منظوم کتاب نہیں، وہ سراسر نثر پر مشتمل ہے۔ لیکن آج تک دنیا میں کوئی ایسی کتاب نثر میں نہیں لکھی گئی جس کو پڑھ کر یا سن کر آدمی کے جمالیاتی ذوق کو تحریک ہوتی ہو اور وہ ایک لذت اور حلاوت محسوس کرتاہو۔ شعر میں تو ملتے جلتے الفاظ قافیہ آرائی، اوزان کی پابندی اور کبھی کبھی ردیف کی یکسانیت ایک صوتی آہنگ پیدا کرتی ہے، جو لطف ولذت کا باعث بنتی ہے۔ لیکن نثر میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہوتی لیکن کوئی شخص بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ جب بھی کوئی اچھا قاری قرآن پاک کو اس میں ڈوب کر پڑھتا ہے تو سننے والاممکن ہی نہیں کہ اس کے سحر میں مسحور نہ ہوجائے۔ ایسے بہت سارے واقعات مشہو رہیں کہ غیر مسلم تک قرآن پاک شوق سے سنتے اور اس کی تاثیر سے متاثر ہوتے اور بسا اوقات ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ ممکن ہے اہل علم اس کا سبب قرآن کریم کے متوازن صوتی آہنگ کو قرار دیں، لیکن کسی اہل علم کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس کا سراغ پاسکے یا اس کی مثال لاسکے کہ یہ متوازن صوتی آہنگ عروض اور وزن کی پابندیوں کے بغیر کس طرح ممکن ہے اور قرآن کریم میں وہ کیا اسباب ہیں جس کی وجہ سے یہ معجزہ وجود میں آیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس شخص کو بھی ادبی ذوق اور جمالیاتی حس کا کچھ حصہ ملا ہے، وہ قرآن کریم کے اس اعجاز کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ 2 دنیا کے بڑے بڑے فصیح وبلیغ ادیب اور خطیب گزرے ہیں۔ لیکن اگر ان کے ادب اور ان کی خطابت کا تجزیہ کیا جائے تو آپ محسوس کریں گے کہ ہر ادیب اور خطیب کا ایک خاص رنگ اور ایک خاص آہنگ ہے اور جب وہ اس سے باہر نکلتا ہے تو بےرنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ بڑے سے بڑے آدمی کا بھی ایک خاص ذوق ہوتا ہے اور ہمیشہ وہ اپنے ذوق کے مطابق لکھنے یابولنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے مطالعے کے مخصوص میدان ہوتے ہیں اور اس سے ہٹ کر وہ کبھی کوئی موثر رول ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم کے اسلوب کا عجیب عالم ہے کہ لوگوں نے اسلوب کی قسمیں کی ہیں، خطابی، ادبی اور علمی۔ لیکن قرآن کریم کا اسلوب ان تمام اسالیب پر حاوی ہے۔ وہ علم وادب، نصیحت و فہمائش اور دعوت و قانون کی ایک ایسی بہار ہے جس کے جلو میں اپنے اپنے وقت اور ضرورت کے مطابق تمام اسالیب پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں بیک وقت شگفتگی بھی ہے اور متانت بھی۔ اس میں زور بھی ہے اور بالیدگی بھی۔ اس کا مخاطب صاحب علم ہے تو علم کے موتی چنتا ہے۔ الہڑ دیہاتی ہے تو وہ بھی سر دھنتا ہے۔ محققین ہیں تو ان کے لیے تحقیق کا وافر سامان موجود ہے۔ کوئی سائنس کا ذوق رکھنے والا ہے تو اس کے لیے فلسفہ اور سائنس کے دقیق مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم بعض دفعہ ایک ہی بات کو کئی مرتبہ دہرا کر کہتا ہے لیکن کیا مجال ہے کہ اس کی تاثیر میں کمی آنے پائے اس نے بعض ان مضامین کو بھی بلاغت کے اوج کمال تک پہنچادیا ہے۔ جس میں کوئی بشری ذہن ہزار کوشش کے بعد بھی کوئی ادبی چاشنی پیدا نہیں کرسکتا۔ مثلاً قانونِ وراثت کو لیجئے یہ ایک ایسا خشک اور سنگلاخ موضوع ہے کہ اس میں دنیا کے تمام ادیب اور شاعر مل کر بھی ادبیت اور عبارت کا حسن پیدا نہیں کرسکتے۔ لیکن قرآن کریم نے جس اسلوب سے سورة نساء میں وراثت کے مسائل بیان کیے ہیں اسے پڑھتا ہوا آدمی یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی ادبی شہ پارے کی تلاوت کررہاہو، اس کا ایک ایک جملہ اس کے دامن ذوق کو کھینچتا ہے۔ مختصر یہ کہ اسلوب کے بیشمار پہلو ہیں، جن کو شمار کرنے کے لیے بھی ایک سفینہ چاہیے۔ لیکن قرآن پاک ایک ایسا خزینہ ہے جس میں علم کے ہر گوشے تحریر وتقریر کے ہر زاویے اور ادب کے ہر پیمانے کے حوالے سے ایسے بیش بہا ہیرے اور جواہرات بھرے ہوئے ہیں کہ اہل ذوق کا تجسس تھک کرہار جاتا ہے، لیکن اس خزانے میں کبھی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کی پیشگوئیاں قرآن کریم کے وجوہ اعجاز کا ایک پہلو وہ چیزیں ہیں جن کی صداقت دنیا پر منکشف ہوچکی ہے۔ ہم یہاں قرآن پاک کی تعلیمات کا ذکر نہیں کررہے کیونکہ انھیں جانچنے کے لیے علم اور دیانت چاہیے۔ لیکن وہ باتیں جنھیں تاریخ نے سچا ثابت کردکھایا یا دنیا ان انکشافات کو ماننے پر مجبور ہوگئی ان میں سے ہم چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ 1 آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی میں دنیا کی دو عظیم طاقتوں یعنی روم اور ایران میں شدید جنگ جاری تھی۔ اس جنگ میں ایرانی فوجیں مسلسل رومیوں پر غالب آتی جارہی تھیں۔ ملک کا بیشتر حصہ رومیوں کے ہاتھوں سے چھن چکا تھا۔ ایرانی لشکرشام کے بڑے بڑے شہروں کو تاراج کرتا ہوا قسطنطنیہ کے دامن میں پڑائو ڈال چکا تھا۔ رومی حکومت کے لیے اپنی آزادی برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہورہا تھا۔ اس صورتحال سے قریش مکہ بہت خوش تھے وہ ایران کو آتش پرست ہونے کی وجہ سے اپنے مشابہ اور روم کو اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے مشابہ سمجھتے تھے اور ایرانیوں کا غلبہ ان کے نزدیک اپنی فتح اور مسلمانوں کی شکست کا شگون تھا۔ ان حالات میں سورة روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے : ” الٓمّٓ۔ روم والے قریب ترین سرزمین (یعنی شرق اردن) میں مغلوب ہوگئے اور وہ اس مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آجائیں گے۔ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے کام پہلے بھی اور بعد بھی۔ اور اس روز مسلمان اللہ کی مدد کی وجہ سے خوش ہوں گے، اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ زبردست اور مہربان ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ جو لوگ روم اور ایران کے جنگی حالات سے باخبر تھے ان کے لیے یہ پیشگوئی قطعی طور پر ناقابلِ یقین تھی۔ چناچہ قریش کے ایک ممتاز سردار ابی ابن خلف نے حضرت ابوبکر سے شرط لگالی کہ اگر تین سال کے دوران رومی غالب آگئے تو میں تمہیں دس اونٹ دوں گا اور غالب نہ آسکے تو تم مجھے دس اونٹ دو گے۔ اس وقت اس طرح کی شرط جائز تھی۔ اس لیے حضرت ابوبکرصنے اسے منظور فرمالیا اور آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع کی آپ نے فرمایا قرآن نے بضع سنین ” چند سالوں میں “ فرمایا ہے اور عربی میں لفظ بضع کا اطلاق ” تین سے لے کر نو سالوں “ تک ہوتا ہے۔ لہٰذا تم ابی ابن خلف سے اونٹوں کی تعداد بڑھا کر شرط کی مدت نو سال مقرر کرلو۔ مشہور مورخ ایڈورڈ گبن اس پیشگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” اس وقت جب کہ یہ پیش گوئی کی گئی کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعید از قیاس نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ ہرقل کے ابتدائی بارہ سال رومی شہنشاہیت کے خاتمے کا اعلان کررہے تھے۔ “ سقوط زوال سلطنتِ روما۔ ج : 5، صفحہ : 73، 74) اپنی پہلی شکست کے ٹھیک سات سال بعد قیصر روم بالکل خلاف توقع قسطنطنیہ سے باہر نکلا اور اس کی فوجوں نے ایرانیوں پر پے درپے حملے کرکے ان کو متعدد مقامات پر شکست دی اور اس کے بعد رومی لشکر ہر جگہ غالب ہی آتاچلا گیا۔ اس طرح سے قرآن کریم کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ 2 قرآن کی پیش گوئیوں میں آنحضرت ﷺ کے قیام مکہ کے دوران وہ پیش گوئی بھی ہے جس میں قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ اسلام مکہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور مکہ کے اطراف سمیٹے جارہے ہیں۔ مکی زندگی میں قریش کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ قریش بالکل سر پر پہنچ گئے تو آنحضرت نے نہایت اطمینان سے صدیق اکبر سے فرمایا : گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ان اللہ معنا ” بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے “۔ قرآن کریم نے انھیں الفاظ میں اس واقعہ کو ذکر کیا اور پھر جب آپ غار ثور میں تین دن قیام کے بعد مدینہ طیبہ کے راستے پر جحفہ کے قریب پہنچے تو وہاں سے مکہ معظمہ جانے والی سڑک نظر آئی اور طبعی طور سے آپ کو وطن کی یاد آئی اور اسے مستقلاً چھوڑ دینے کے خیال سے رنج ہوا۔ تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : ان الذی فرض علیک القراٰن لرآدک الی معاد ” بلاشبہ ! جس ذات نے قرآن کے احکام آپ پر فرض کیے ہیں وہ دوبارہ آپ کو لوٹائے گا “۔ اس وقت آپ جس بےسروسامانی کے عالم میں مکہ مکرمہ سے نکلے تھے اس کے پیش نظر ظاہری لحاظ سے اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی کوئی توقع نہ تھی۔ لیکن چند ہی سال بعد آپ اسی شہر مکہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور یہ پیشین گوئی پوری ہو کر رہی۔ 3 اس طرح کی پیش گوئیاں جن کا تعلق ذہانت اور حالات سے ہو تو کوئی بھی ذہین آدمی حالات کا جائزہ لے کر کرسکتا ہے۔ لیکن ایسی پیش گوئی کرنا جس کا تعلق سراسر دوسری قوم کے ارادوں اور ان کے قلبی احساسات سے ہو، وہ یقینا انسانی بساط سے باہر ہے۔ اس طرح کی پیشگوئی یقینا وہی کتاب کرسکتی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہو۔ یہود ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں۔ آخرت کی فلاح و کامیابی صرف ہمارے لیے ہے اور صرف ہم ہی لوگ جنت میں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے ایک بات کا ان سے مطالبہ کیا اور پھر حتمی انداز میں پیش گوئی فرمائی کہ تم یہ کام کبھی نہیں کروگے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے : قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُالْآخِرَۃُ عِنْدَاللّٰہِ خَالِصَۃً مِّن دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ وَلَنْ یَّتَمَنَّوہُ اَبْدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ بِاالظَّالِمِیْنَ (آپ فرمادیجئے ! (اے یہودیو ! ) اگر اللہ کے پاس صرف تمہارے لیے خالص طور پر دار آخرت ہے دوسروں کے لیے نہیں تو تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو (اور پھر حتمی انداز میں فرمایا) اور یہ لوگ اپنے کرتوت کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے ) اندازہ کیجئے ! یہ پیش گوئی اس وقت کی جارہی ہے جب یہود کے تمام قبیلے پوری شان و شوکت سے مدینے میں آباد ہیں اور ہر طرف ان کے علم اور تقدس کے چرچے ہیں اور وہ ہمیشہ بحث اور مناظرے کا بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ چیلنج سن کر ان کو سانپ سونگھ گیا حالانکہ وہ ایک لمحے میں قرآن کریم کے اس چیلنج کو غلط ثابت کرسکتے تھے۔ لیکن ان میں سے ایک شخص بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے آگے نہ بڑھا۔ جنگ احد کے دو گروہوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی کہ ان میں سے دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کرلیا تھا کہ پسپا ہوجائیں، ان کے دل کی حالت کو وہ خود جانتے تھے یا پروردگار۔ لیکن پروردگار نے اپنی کتاب پاک میں ان کے دل کے راز کو فاش کیا تو وہ اقرار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ جس کتاب کا نازل کرنے والا لوگوں کے قلبی احساسات، ان کے مخفی ارادوں، اور آئندہ کے عزائم کے بارے میں قطعی علم رکھتا ہو اس کتاب کو کتاب اللہ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ 4 جس زمانے میں یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس زمانے میں کسی کتاب کے دیر تک محفوظ رہنے کے اسباب یکسر ناپید تھے اور پھر یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اس وقت تک جتنی کتابیں آسمانوں سے نازل ہوچکی تھیں وہ محفوظ نہیں رہی تھیں اور مخالفتوں کا ہجوم بجائے خود یہ کہتا ہوا دکھائی دے رہا تھا کہ اس کتاب کے باقی رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ باایں ہمہ ! قرآن کریم نے خود دعویٰ کیا اور آج تک وہ دعویٰ اس کتاب میں موجود ہے : انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ” ہم نے ہی اس قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے “۔ دشمنوں سے پوچھئے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ اور اللہ کریم کا یہ وعدہ پورا ہوا یا نہیں۔ صدیاں گزر گئیں اس کا کوئی شوشہ تک نہ بدل سکا۔ اس کا کوئی نقطہ تک نہ مٹ سکا۔ اس میں تحریف و ترمیم کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ قرآن کریم کو مٹانے او اس میں تحریف و ترمیم کرنے کی جو سازشیں ہوتی رہیں اس کا ریکارڈ تاریخ میں محفوظ ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کی ترتیب بدل کر اہل مغرب کی نگرانی میں نہایت سستے نسخے قرآن کریم کے شائع کیے گئے۔ لیکن لوگوں نے خود انھیں نفرت سے ٹھکرادیا۔ قرامطہ کے فتنے نے عالم اسلام کو ہلا ڈالا۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، کتب خانے جلا ڈالے، قدیم کتابوں کے بڑے بڑے ذخیرے دریا میں بہا دئیے۔ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں پریس پر پابندی لگا کر اور قرآن کریم کو جلا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن قرآن کریم کی یہ پیشگوئی کہ اللہ اس کی حفاظت فرمائے گا آج تک اس پیش گوئی کی صداقت کو کوئی نہ جھٹلاسکا۔ قرآن کریم کے انکشافات قرآن کریم کی پیش گوئیوں کی طرح اس کے انکشافات بھی ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے انکشافات صرف کتاب اللہ کا ہی حصہ ہوسکتے ہیں اور جن باتوں نے اس کتاب کو معجز بنایا ہے ان میں یہ انکشافات بھی شامل ہیں۔ ان انکشافات میں بہت سے علمی اور تاریخی حقائق کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جن سے اس کتاب کے نزول کے وقت کوئی شخص بھی واقف نہیں تھا۔ ان انکشافات کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے۔ 1 قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ جس وقت فرعون دریا میں غرق ہونے لگا تو اس نے جان بچانے کے لیے زبانی طور پر ایمان لانے کا اقرار کیا جس کے جواب میں باری تعالیٰ نے فرمایا : آٰ لْـٰٔنَ وَقَدْعَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَـکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ط (اب (ایمان لاتا ہے ؟ ) حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فساد مچانے والوں سے تھا۔ پس ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے عبرت بن جائے) (یونس 10: 91) جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اور اس کے بعد بھی صدیوں تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فرعون کی لاش اب تک صحیح سلامت موجود ہے۔ لیکن تقریباً دو صدیاں پیشتر اہرامِ مصر کی کھدائی میں ایک ایسا ہال دریافت ہوا جس میں بعض فراعنہ مصر کی حنوط شدہ لاشیں ملیں۔ جب انھیں تابوتوں سے نکال کر ان کی پٹیاں کھولی گئیں تو ایک لاش ایسی نکلی جس پر نمک کی تہہ جمی ہوئی تھی اور اس کی ناک پر مچھلی کے کاٹنے کا نشان تھا۔ فرانسیسی ماہرین جو ان لاشوں کا جائزہ لے رہے تھے، انھیں حیرت ہوئی کہ یہ نمک کی تہہ کہاں سے آگئی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا فرعون ہے جو کسی سمندر میں غرق ہوا اور پھر سمندر نے اس کی لاش باہر اگل دی اور یہ نمک سمندر کا نمک ہے جو پانی کے ساتھ اس کے جسم میں سرایت کرگیا اور پھر آہستہ آہستہ جسم کے اوپر آکر اس کی تہہ جم گئی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے جس فرعون کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ بحر قلزم میں غرق ہوا تھا اور پھر ہم نے اس کے جسم کو نجات دے دی تھی اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھا یہ وہی فرعون ہے۔ چناچہ آج اس کی وہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے۔ 2 قرآن کریم کا دوسرا ارشاد ہے : وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (الذّٰریٰت 51: 49) (اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑے پیدا کیے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو) جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت عالم تصور یہ تھا کہ نر اور مادہ کے جوڑے صرف انسانوں یا جانوروں میں ہوتے ہیں یا پھر چند نباتات میں۔ لیکن سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ قرآنی حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے کہ نرومادہ ہر چیز میں موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں ان جوڑوں کا نام نرومادہ رکھ لیا کہیں مثبت (Positive) اور منفی (Negative) اور کہیں الیکڑون اور پروٹون اور کہیں نیوٹرون اور پوزیٹرون بلکہ ایک آیت میں قرآن کریم نے صراحتہً یہ بھی واضح فرمادیا کہ بہت چیزوں میں جوڑوں کا پایا جانا ابھی لوگوں کو معلوم نہیں : سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّالاَیَعْلَمُوْنَ ۔ (36: 36) (پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ان میں جن کو زمین اگاتی ہے اور انسانوں میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جنھیں یہ لوگ نہیں جانتے ) مختصر یہ کہ جن وجوہ اعجاز نے قرآن پاک کو معجزہ بنادیا ہے ان پر گفتگو نامکمل رہے گی اگر ہم اس موضوع کا تذکرہ نہ کریں جس سے یہ کتاب بحث کرتی ہے۔ اور ضمناً یہ ذکر نہ کریں کہ قرآن کریم نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے۔ ہم اس سلسلے میں دنیائے اسلام کے ایک مشہور مفکر کے خیالات مستعار لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : ” جس موضوع سے یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ ایک وسیع ترین موضوع ہے جس کا دائرہ ازل سے ابدتک پوری کائنات پر حاوی ہے۔ وہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم وآئین پر کلام کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق اور ناظم مدبر کون ہے ؟ کیا اس کی صفات ہیں ؟ کیا اس کے اختیار ات ہیں ؟ اور وہ حقیقتِ نفس الامری کیا ہے جس پر اس نے یہ پورا نظام عالم قائم کیا ہے۔ وہ اس جہان میں انسان کی حیثیت اور اس کا مقام ٹھیک ٹھیک مشخص کرکے بتاتی ہے کہ یہ اس کا فطری مقام اور یہ اس کی پیدائشی حیثیت ہے جسے بدل دینے پر وہ قادر نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مقام اور اس حیثیت کے لحاظ سے انسان کے لیے فکروعمل کا صحیح راستہ کیا ہے، جو حقیقت سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور غلط راستے کیا ہیں جو حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں۔ صحیح راستے کے صحیح ہونے اور غلط راستوں کے غلط ہونے پر وہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز سے نظام کائنات کے ایک ایک گوشے سے انسان کے لیے نفس اور اس کے وجود سے اور انسان کی اپنی تاریخ سے بیشمار دلائل پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان غلط راستوں پر کیسے اور کن اسباب سے پڑتارہا ہے اور صحیح راستہ جو ہمیشہ ایک ہی تھا اور ایک ہی رہے گا کس ذریعہ سے اس کو معلوم ہوسکتا ہے اور کس طرح ہر زمانے میں اس کو بتایا جاتارہا ہے۔ وہ صحیح راستے کی صرف نشاندہی کرکے نہیں رہ جاتی بلکہ اس راستے پر چلنے کے لیے ایک پورے نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ جس میں عقائد، اخلاق، تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت، قانون، غرض حیات انسانی کے ہر پہلو کے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کردیا گیا ہے۔ مزید برآں وہ پوری تفصیل کے ساتھ بتاتی ہے کہ اس صحیح راستے کی پیروی کرنے اور ان غلط راستوں پر چلنے کے کیا نتائج اس دنیا میں ہیں اور کیا نتائج دنیا کا موجودہ نظام ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے عالم میں رونما ہونے والے ہیں۔ وہ اس دنیا کے ختم ہونے اور دوسرا عالم برپا ہونے کی نہایت مفصل کیفیت بیان کرتی ہے۔ اس تغیر کے تمام مراحل ایک ایک کرکے بتاتی ہے۔ دوسرے عالم کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے۔ اور پھر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ وہاں انسان کیسے ایک دوسری زندگی پائے گا اور کس طرح اس کی دنیوی زندگی کے اعمال کا محاسبہ ہوگا، کن امور کی اس سے بازپرس ہوگی، کیسی ناقابلِ انکار صورت میں اس کا پورا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ کیسی زبردست شہادتیں اس کے ثبوت میں پیش کی جائیں گی۔ جزا اور سزا بانے والے کیوں جزا اور سزا پائیں گے۔ جزاپانے والوں کو کیسے انعامات ملیں گے اور سزا پانے والے کس کس شکل میں اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گے۔ اس وسیع مضمون پر جو کلام اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اس حیثیت سے نہیں ہے کہ اس کا مصنف کچھ صغری کبریٰ جوڑ کر قیاسات کی ایک عمارت تعمیر کررہا ہے بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس کا مصنف حقیقت سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ اس کی نگاہ ازل سے ابد تک سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ تمام حقائق اس پر عیاں ہیں کائنات پوری کی پوری اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ نوعِ انسانی کے آغاز سے اس کے خاتمہ تک ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے بعد اس کی دوسری زندگی تک بھی وہ اس کو بیک نظردیکھ رہا ہے اور وہ قیاس و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر انسان کی رہنمائی کررہا ہے۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے ان میں سے کسی ایک کو بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جاسکا۔ جو تصور کائنات و انسان پیش کرتا ہے وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجہیہ کرتا ہے اور ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیادبن سکتا ہے۔ فلسفہ وسائنس اور علوم وفنون کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور سب کے درمیان منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط، اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے۔ پھر عملی حیثیت سے جو رہنمائی اس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق انسان کو دی ہے، وہ انتہائی پاکیزہ ہی نہیں بلکہ 14 سو سال سے روئے زمین کے مختلف گوشوں میں بیشمار انسان بالفعل اس کی پیروی کررہے ہیں اور تجربے نے ان کو بہترین ثابت کیا ہے۔ کیا اس شان کی کوئی انسانی تصنیف دنیا میں موجود ہے یا کبھی موجودرہی ہے جسے اس کتاب کے مقابلے میں لایا جاسکتا ہو ؟ “ کیا دنیا کی کوئی ایسی کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالاہو کہ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے۔ 14 سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ آج اگرچہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں براہ راست اس کے اثرات کم محسوس ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی امت مسلمہ کو اگر کوئی چیز بچا رہی ہے اور بہت سارے دلوں میں شعلہ بن کر سلگ رہی ہے اور جب اندھیرا گہرا ہوجائے گا تو وہ روشنی بن کر طلوع ہوگی اور امت مسلمہ نئے سفر پر نکل کھڑی ہوگی۔ وہ یہی کتاب ہے اور یا وہ ذات ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی۔ یہی اس کا سب سے بڑا اعجاز ہے جس نے اس کتاب کو بےمثل اور معجز بنادیا ہے۔
Top