Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 231
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ١۪ وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا١٘ وَّ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب طَلَّقْتُمُ : تم طلاق دو النِّسَآءَ : عورتیں فَبَلَغْنَ : پھر وہ پوری کرلیں اَجَلَھُنَّ : اپنی عدت فَاَمْسِكُوْھُنَّ : تو روکو ان کو بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا سَرِّحُوْھُنَّ : رخصت کردو بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ : تم نہ روکو انہیں ضِرَارًا : نقصان لِّتَعْتَدُوْا : تاکہ تم زیادتی کرو وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ فَقَدْظَلَمَ : تو بیشک اس نے ظلم کیا نَفْسَهٗ : اپنی جان وَلَا : اور نہ تَتَّخِذُوْٓا : ٹھہراؤ اٰيٰتِ : احکام اللّٰهِ : اللہ ھُزُوًا : مذاق وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَآ : اور جو اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَالْحِكْمَةِ : اور حکمت يَعِظُكُمْ : وہ نصیحت کرتا ہے تمہیں بِهٖ : اس سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کے قریب پہنچ جائیں تو ان کو دستور کے مطابق روک دو یا دستور کے مطابق رخصت کردو۔ اور تم ان کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے نہ روکو کہ تم حدود سے تجاوز کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائے گا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد رکھو اور اس کتاب و حکمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہاری نصیحت کے لیے اتاری اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے)
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْسَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ص وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّـتَـعْتَدُوْا وَمَنْ یَّـفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا ز وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْـکُمْ وَمَـآ اَنْزَلَ عَلَیْـکُمْ مِّنَ الْـکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُـکُمْ بِہٖ ط وَاتَّـقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ ع (اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کے قریب پہنچ جائیں تو ان کو دستور کے مطابق روک دو یا دستور کے مطابق رخصت کردو۔ اور تم ان کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے نہ روکو کہ تم حدود سے تجاوز کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائے گا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد رکھو اور اس کتاب و حکمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہاری نصیحت کے لیے اتاری اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے) (231) معروف کی مزید وضاحت گزشتہ آیات میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ ایک مطلقہ عورت کو کتنا عرصہ عدت گزارنی ہے ؟ اور یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ کتنی طلاقوں کے بعد تم بیوی سے رجوع کرسکتے ہو اور یہ بات بھی پوری طرح واضح کردی گئی ہے کہ جب رجوع کا فیصلہ کرو تو معروف کے مطابق کرو اور جب علیحدگی کا فیصلہ کرو تو وہ بھی معروف کے مطابق کرو۔ اور معروف سے کیا مراد ہے ؟ اس کی وضاحت ہم متذکرہ بالا گزارشات میں کرچکے ہیں۔ اب اسی حکم کو دہراتے ہوئے اس بات پر مزید زور دیا جا رہا ہے جو معروف کے مفہوم میں شامل ہے۔ لیکن لوگ ہمیشہ اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عرب اس عادت بد میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے لیکن اسلام آنے کے بعد جن لوگوں کو ابھی پوری اسلامی تربیت نہ مل سکی یا اللہ کے علم میں تھا کہ ایسے لوگ مسلمانوں میں پید اہوتے رہیں گے ان کے لیے موکد انداز میں یہ بات فرمائی جا رہی ہے کہ تم اگر اپنی بیویوں سے رجوع کا فیصلہ کرچکے ہو تو بہت اچھی بات ہے لیکن یہ رجوع کا فیصلہ اپنے گھر کے حالات ‘ اپنے تعلقات کی بہتری اور حدود اللہ کی بجا آوری کے لیے ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ ارادہ نہ ہو بلکہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ شیطانی خیال موجود ہو کہ دور جاہلیت کی طرح اب میں بار بار بیوی سے رجوع تو نہیں کرسکتا البتہ دوامکان تو میرے پاس اب بھی موجود ہیں جس کے ذریعے تقریباً چھ ماہ تک تو بیوی کو اذیت میں مبتلا کیا جاسکتا ہے کہ ایک طلاق دے کر عدت گزرنے کا انتظار کرو اور جب عدت گزرنے کے قریب آئے تو رجوع کرلو۔ پھر دوبارہ طلاق دو اور پھر عدت کا وقت ختم ہونے کے قریب آئے تو رجوع کرلو۔ اور یہ سب کچھ اس طرح کرو کہ نہ تو اپنی بیوی سے میاں بیوی جیسے تعلقات قائم کرو ‘ نہ اسے بیوی کے حقوق دو ‘ بلکہ اسے معلق حالت میں رکھو کہ نہ وہ اپنے آپ کو بیوی سمجھ سکے اور نہ اس کی جان چھوٹے کہ کہیں اور اپنے لیے قسمت آزمائی کرے۔ اس طرح اگر تم اسے ذہنی ٹارچر دینا چاہتے ہو اور تمہیں اس کی محرومی کے آنسو خوشی دینے کے باعث بنتے ہیں تو یہ وہ ” ضرار “ ہے جسے ایک عام مسلمان کے لیے بھی حرام کردیا گیا ہے۔ چہ جائیکہ بیوی کے لیے اسے روا رکھا جائے جس کی حیثیت شوہر کے لباس کی ہے۔ اور جو غیر حاضری میں شوہر کی عزت اور غیرت کی محافظ اور اس کے مال اور گھر کی امین ہے۔ اور اس کے گھر میں پلنے والی نسل انسانی نے اسی کے بطن سے جنم لیا ہے اور اسی کی تربیت سے فیض یاب ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ تو ایسا معاملہ کرتے ہوئے شرافت کو ویسے ہی پسینہ آنے لگتا ہے لیکن جو شخص بظاہر اسلام کی دی ہوئی ایک رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رجوع کرتا ہے لیکن بباطن وہ ایک گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ وہ حد سے تجاوز ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اس سلسلے میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ یہ ظالمانہ حرکت کرتا ہے وہ اصلا ً اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ کیونکہ جس نے اپنی بیوی کو مشق ستم بنایا مسلمان معاشرے میں اسے دوبارہ کبھی عزت والا گھر نہیں مل سکتا۔ اور ایسی کوئی خاتون اس کے عقد میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ جو اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش مند ہو۔ اس طرح سے اس کا گھر اس بری طرح سے اجڑتا ہے جو دوبارہ بسنے کا نام نہیں لیتا۔ اور اگر اس کی اولاد بھی ہے تو ایک وقت آتا ہے جب اولاد اپنی ماں کی محرومیوں کا انتقام اپنے باپ سے لیتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تم اگر اس رجوع کو بیوی کو تکلیف پہنچانے اور تنگ کرنے کا ذریعہ بناتے ہو تو تم درحقیقت اللہ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہو۔ کہ تم ایک یا دو طلاق دینے کے بعد بیوی سے اس لیے رجوع کرتے ہو کہ اللہ نے تمہیں یہ حق دیا ہے گویا کہ تم رجوع کرتے ہوئے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہو۔ لیکن جب اسی رجوع کو بیوی کی اذیت رسانی کا ذریعہ بناتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بیوی کو اذیت پہنچانے سے منع فرماتا ہے اور تم اسی کے دیے ہوئے حکم کو ذریعہ بنا کر اس ظلم کا راستہ کھولتے ہو۔ تو اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ تم اللہ کے حکم کو اللہ کے حکم سے ٹکراتے ہو۔ جس بات کی اجازت ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہو اور جس سے روکا گیا ہے حالانکہ وہ بھی اللہ کا حکم ہے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ یہ وہ مذاق ہے جو اللہ کے احکام سے کیا جاتا ہے۔ اور ہر معمولی عقل کا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی یقینا ایک بہت بڑا جرم ہے لیکن اس کے احکام کا مذاق اڑانا یہ نافرمانی سے بدرجہا بڑا جرم ہے۔ اسی بات کا آگے بڑھاتے ہوئے مزید فرمایا کہ تمہیں تو اللہ کے احکام کی نافرمانی یا ان کا مذاق اڑانا اس لیے بھی زیب نہیں دیتا کہ تمہیں تو اللہ نے اپنی نعمت یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب کا امین بنایا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا ہے۔ قیامت تک کے لیے تم حامل دعوت امت بنائے گئے ہو۔ تم دنیا میں مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہو جس کی روشنی میں دنیا کو ہدایت کے رستے پر چلنا ہے۔ تم کتنی بڑی ذمہ داریوں سے گراں بار ہو اس قدر عظمت اور ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوئے بھی اگر اللہ کے احکام کے ساتھ تمہارا یہ رویہ ہے تو ذرا غور کرو ؎ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی تمہاری اصل حیثیت کا احساس دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی تنبیہ بھی فرما رہے ہیں کہ اللہ سے ڈرو ‘ بیویوں سے معاملہ کرتے ہوئے یہ مت بھولو کہ تمہاری جلوتوں کی طرح تمہارے خلوتیں بھی اللہ کے علم میں ہیں۔ وہ اپنے علم کے مطابق تم سے ایک ایک بات کی باز پرس کرے گا۔ وہاں تمہاری نہ دروغ گوئی کام دے گی اور نہ سخن سازی کام آئے گی۔
Top