Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ
: اور مائیں
يُرْضِعْنَ
: دودھ پلائیں
اَوْلَادَھُنَّ
: اپنی اولاد
حَوْلَيْنِ
: دو سال
كَامِلَيْنِ
: پورے
لِمَنْ
: جو کوئی
اَرَادَ
: چاہے
اَنْ يُّتِمَّ
: کہ وہ پوری کرے
الرَّضَاعَةَ
: دودھ پلانے کی مدت
وَعَلَي
: اور پر
الْمَوْلُوْدِ لَهٗ
: جس کا بچہ (باپ)
رِزْقُهُنَّ
: ان کا کھانا
وَكِسْوَتُهُنَّ
: اور ان کا لباس
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
لَا تُكَلَّفُ
: نہیں تکلیف دی جاتی
نَفْسٌ
: کوئی شخص
اِلَّا
: مگر
وُسْعَهَا
: اس کی وسعت
لَا تُضَآرَّ
: نہ نقصان پہنچایا جائے
وَالِدَةٌ
: ماں
بِوَلَدِھَا
: اس کے بچہ کے سبب
وَلَا
: اور نہ
مَوْلُوْدٌ لَّهٗ
: جس کا بچہ (باپ)
بِوَلَدِهٖ
: اس کے بچہ کے سبب
وَعَلَي
: اور پر
الْوَارِثِ
: وارث
مِثْلُ
: ایسا
ذٰلِكَ
: یہ۔ اس
فَاِنْ
: پھر اگر
اَرَادَا
: دونوں چاہیں
فِصَالًا
: دودھ چھڑانا
عَنْ تَرَاضٍ
: آپس کی رضامندی سے
مِّنْهُمَا
: دونوں سے
وَتَشَاوُرٍ
: اور باہم مشورہ
فَلَا
: تو نہیں
جُنَاحَ
: گناہ
عَلَيْهِمَا
: ان دونوں پر
وَاِنْ
: اور اگر
اَرَدْتُّمْ
: تم چاہو
اَنْ
: کہ
تَسْتَرْضِعُوْٓا
: تم دودھ پلاؤ
اَوْلَادَكُمْ
: اپنی اولاد
فَلَا جُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِذَا
: جب
سَلَّمْتُمْ
: تم حوالہ کرو
مَّآ
: جو
اٰتَيْتُمْ
: تم نے دیا تھا
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِمَا
: سے۔ جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرٌ
: دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں پورے دو سال ‘ اس کے لیے جو پورا کرنا چاہتا ہے دودھ کی مدت کو۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان مائوں کا کھانا اور ان کا لباس دستور کے مطابق۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی حیثیت کے مطابق۔ نہ کسی ماں کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث اور نہ کسی باپ کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث۔ اور وارث پر بھی اسی قسم کی ذمہ داری ہے۔ پس اگر وہ دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کرلیں اپنی مرضی اور مشورہ سے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو کسی اور سے دودھ پلوائو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ جب کہ تم ادا کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا مناسب طریقے سے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو دیکھنے والا ہے
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَاج لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ م بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّـہٗ بِوَلَدِہٖ ق وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْہِمَا ط وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّـآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں پورے دو سال ‘ اس کے لیے جو پورا کرنا چاہتا ہے دودھ کی مدت کو۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان مائوں کا کھانا اور ان کا لباس دستور کے مطابق۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی حیثیت کے مطابق۔ نہ کسی ماں کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث اور نہ کسی باپ کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث، اور وارث پر بھی اسی قسم کی ذمہ داری ہے۔ پس اگر وہ دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کرلیں اپنی مرضی اور مشورہ سے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو کسی اور سے دودھ پلوائو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ جب کہ تم ادا کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا مناسب طریقے سے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو دیکھنے والا ہے) (233) رضاعت کے مسائل بچوں کو دودھ پلانے اور ان کی تربیت کے مسائل ہمیشہ ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ لیکن اگر صورتحال یہ ہو کہ ابھی بچہ دودھ پی رہا ہے اور باپ نے بچے کی ماں کو طلاق دے دی یا باپ مرگیا اور ماں بیوہ ہوگئی۔ ایسی ناخوشگوار صورتحال میں بچے کو دودھ پلانے کے مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں رضاعت کے اور بچے کی تربیت کے حوالے سے جو مسائل بیان کیے جا رہے ہیں ان کا تعلق معمول کی زندگی سے بھی ہے اور ایسی ناخوشگوار صورت حال سے بھی۔ اس آیت سے پہلے اور بعد بھی چونکہ طلاق کا ذکر ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ روئے سخن زیادہ تر ان عورتوں کی طرف ہے جنھیں طلاق ہوچکی ہو اور بچے ان کے ابھی دودھ پی رہے ہوں۔ اس سلسلے میں جو احکام دیے گئے ہیں ہم انھیں ایک ترتیب سے ذکر کرتے ہیں : 1 بچوں کو دودھ پلانا مائوں کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر انھیں کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو تو دیانتاً ان پر دودھ پلانا واجب ہے۔ وہ بلا کسی عذر کے دودھ پلانے سے ہرگز انکار نہیں کرسکتیں۔ ماں کے لیے بچے کو دودھ پلانا صرف بچے کو غذا مہیا کرنا نہیں ( اگرچہ غذا کے نقطہ نگاہ سے بھی کوئی اور دودھ ماں کے دودھ کی برابری نہیں کرسکتا۔ طبی نقطہ نگاہ سے نہ صرف بچے کے لیے یہ دودھ سب سے محفوظ اور مفید غذا ہے۔ بلکہ ماں کے لیے بھی سینے کے امراض سے تحفظ کے لیے سب سے بڑی ضمانت ہے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں وہ عموماً سینے یا اور کسی جسمانی عارضے کا شکار ہوجاتی ہیں) بلکہ بچے کی اصلاح اور تربیت کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ ماں اگر اپنے اندر کوئی روحانی خصوصیات رکھتی ہے اور اس کے اندر اخلاقی اقدار کا گہرا احساس پایا جاتا ہے اور وہ نظریاتی طور پر مضبوط عقائد کی حامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندان کی صالح خصوصیات کی حامل بھی ہے تو یہ تمام قیمتی سرمایہ دودھ کے ساتھ بچے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ڈاکٹر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ موروثی امراض ماں باپ سے بچے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں اسی طرح ماں کی خاندانی خصوصیات اور اس کی متذکرہ بالا صفات کا بھی معتد بہ حصہ بچے کے تحت الشعور میں منتقل ہوجاتا ہے۔ بچہ جب تھوڑا سا بڑا ہو کر تربیت کو قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے تو تحت الشعور میں مخفی یہ صفات آہستہ آہستہ تربیت کا حصہ بننے لگتی ہیں۔ اور ماں باپ کی تمام روحانی ‘ اخلاقی اور روایتی خصوصیات آہستہ آہستہ اس کے نظریات ‘ اخلاق اور اعمال میں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اور جو بچے اس نعمت سے محروم رہتے ہیں اگرچہ گھر کا ماحول بھی ان میں بہت ساری خصوصیات کو پید اکر دیتا ہے لیکن جو خصوصیات دودھ کے ساتھ منتقل ہوتی ہیں وہ بچہ یقینا اس سے محروم رہتا ہے اور ماں باپ کے طور اطوار کا قابل ذکر حصہ اسے نہیں ملتا۔ ہم ہمیشہ اخلاقی بگاڑ کے اسباب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کاش ہم کبھی ان فطری عوامل پر بھی توجہ دے سکیں۔ اور کاش کبھی ماں باپ کو ماں باپ بننے سے پہلے ان باتوں کا احساس بھی دلایا جاسکے تاکہ وہ غیر شعوری طور پر بچوں کو اس دولت سے محروم نہ رکھیں۔ اور وہ دل کی گہرائیوں سے اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ماں کے سینے سے صرف دودھ ہی نہیں پھوٹتا ‘ بلکہ شعور کا ایک نور بھی طلوع ہوتا ہے جو بچے کے سینے کو روشن کردیتا ہے اور ماں باپ کے پاکیزہ اطوار بچے کے طور اطوار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ماں باپ کی باتوں باتوں اور اپنے عمل کی صورت میں دی ہوئی تعلیم اور پھر اسلامی طریقے سے ان کا طریق تربیت ان کے اندر وہ نتائج پیدا کرتا ہے جس سے اسلامی فکر اور اسلامی عمل وجود میں آتا ہے۔ اکبر مرحوم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ بو آئے کیا بچے میں ماں باپ کے اطوار کی دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی 2 معمول کی زندگی میں تو میاں بیوی خوش اسلوبی سے جو مشورہ کرلیں اس پر عمل کریں۔ لیکن طلاق کے بعد شوہر اگر اپنی مطلقہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے تو پھر بچے کی ماں کے لیے بچے کو پورے دو سال دودھ پلانا ضروری ہے۔ بچے کو دو سال دودھ پلانا بچے کا حق ہے بچے کو اس قدرتی اور فطری غذا سے بلا وجہ محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ماں طبی نقطہ نگاہ سے دودھ پلانے سے معذور ہوجائے یا اس کے لیے کوئی مشکل پیدا ہوجائے تو پھر وہ عذر بھی کرسکتی ہے۔ ورنہ عام حالت میں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سابقہ خاوند کے کہنے پر پوری مدت بچے کو دودھ پلائے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے۔ میاں بیوی اپنے مشورے سے کسی مجبوری کے باعث اسے کم تو کرسکتے ہیں ‘ اس میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ دو سال گزرنے کے بعد ماں کے لیے بچے کو اپنا دودھ پلانا بالکل حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ ( رح) کے حوالے سے جو اختلاف ذکر کیا جاتا ہے اس کا تعلق غالباً مدت رضاعت سے نہیں۔ بلکہ اس بات سے ہے کہ اگر کسی خاتون نے کسی غیر بچے کو دو سال کی عمر کے بعد بھی دودھ پلایا اگرچہ دودھ کی مدت گزر چکی ہے پھر بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ دودھ پلانے والی خاتون بچے کی رضاعی ماں کہلائے گی۔ اور ان کے درمیان ماں بیٹے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔ 3 وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ماں بچے کو جب تک دودھ پلاتی ہے اس وقت تک اس کے کھانے پینے ‘ رہنے سہنے اور کپڑے کی ذمہ داری بچے کے باپ پر ہے اور باپ یہ ذمہ داری دستور کے مطابق ادا کرے۔ دستور سے مرا دیہ ہے کہ اگر بچے کے ماں باپ دونوں امیر ہوں تو عورت کو امیرانہ ضروریات مہیا کی جائیں ‘ اس کا کھانا پینا پر تکلف ہو اور لباس بھی اس کی شان کی لائق ہو۔ لیکن اگر دونوں کے مالی حالات میں واضح تفاوت پایا جائے تو پھر جمہور کی رائے یہ ہے کہ مرد کے حالات کا لحاظ کیا جائے گا۔ اگر وہ غریب آدمی ہے تو اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور اگر وہ امیر آدمی ہے تو پھر اسے اپنی حیثیت کے مطابق بچے کی ماں کو ضروریات مہیا کرنی چاہئیں۔ اس آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا کہ مائوں کے لیے تو ” وَالِدٰتٌ“ کا لفظ استعمال ہوا جو والدہ کی جمع ہے لیکن باپ کے لیے بجائے والد کا لفظ استعمال کرنے کے ” اَلْمَوْلُوْدُ لَـہٗٗ ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (وہ شخص جس کا بچہ ہے) حالانکہ قرآن کریم میں باپ کے لیے ” والد “ کا لفظ ایک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے۔ لیکن یہاں ” والد “ کے بجائے مذکورہ لفظ استعمال کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بچے کی رضاعت اور باقی تمام معاملات کے مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہی ڈالی گئی ہے۔ اور پھر بچے کو دودھ پلانے کے لیے اگر اس کی ماں کو طلاق ہوچکی ہے اور وہ دودھ پلانے کی اجرت مانگتی ہے تو اجرت کی ذمہ داری بھی باپ ہی کے سر پر ہے۔ باپ یہ کہہ سکتا ہے کہ بچہ جس طرح میری ذمہ داری ہے اسی طرح ماں کی بھی ذمہ داری ہے۔ آخر یہ تمام اخراجات کا بار مجھ پر ہی کیوں ڈالاجا رہا ہے ؟ اس کے اس احساس میں کمی پیدا کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ حقیقت میں بیٹا تمہاری طرف ہی منسوب ہوگا۔ وہ کہیں بھی رہے جب بھی اپنا نسب بتائے گا تو باپ کا نام لیے بغیر چارہ کار نہیں۔ کیونکہ نسب باپ ہی سے چلتا ہے۔ ماں یقینا حقوق اور احترام میں باپ کے ساتھ شریک ہے۔ لیکن انتساب میں باپ منفرد ہے۔ اس لیے ذمہ داریوں کا بار بھی باپ پر ہی ڈالا گیا ہے اور یہی ہر طرح سے مناسب بھی ہے۔ 4 فریقین میں سے کسی پر بھی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ماں اگر بچے کو دودھ پلانے سے کسی مجبوری کے باعث انکار کر دے تو باپ کے لیے اسے مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم چونکہ ماں ہو اس لیے چاہے کچھ بھی ہو تمہیں بہرصورت دودھ پلانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر ماں اس بات پر اصرار کرے کہ چونکہ اب بچہ طلاق کے بعد تمہاری ذمہ داری بن چکا ہے تو میں تو صرف اس صورت میں دودھ پلائوں گی کہ تم مجھے ایک بڑی رقم کی صورت میں اجرت ادا کرو اور باپ اپنی مالی پریشانیوں کے باعث اس کا متحمل نہ ہوسکتا ہو۔ تو باپ پر یہ سارا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ ماں کو کسی مناسب اجرت پر راضی ہونا پڑے گا۔ اسی طرح اگر بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول نہیں کرتا ‘ نہ کسی جانور کا دودھ پینے کے لیے تیار ہے اور اگر پیتا ہے تو اسے ہضم نہیں ہوتا تو پھر باپ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے تم جہاں چاہے جھک مارو یہ تمہارا درد سر ہے۔ بلکہ ماں کو مجبور کیا جائے گا کہ جیسے بھی ہو وہ بچے کو دودھ پلائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ بچے کے بارے میں نہ ماں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی اور نہ بچے کی آڑ لے کر باپ پر کوئی ناروا دبائو ڈالا جائے گا۔ دونوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا مکلف ہے۔ 5 اگر سوئے اتفاق سے باپ چل بسے اور بچہ یتیم رہ جائے تو اب سوال یہ ہے کہ بچے کی رضاعت ‘ تربیت ‘ اور غوروپرداخت کی ذمہ داری کس پر ہوگی ؟ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے ” وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکْ “ (جو ذمہ داریاں بچے کے حوالہ سے باپ پر تھیں وہی ذمہ داریاں بچے کے وارث پر بھی ہیں) یعنی اگر بچہ مرجائے تو جو اس کے ترکہ کے وارث ہوں گے وہی اب اس کی رضاعت اور تربیت کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اور اگر اس کے وارث ایک سے زیادہ ہوں تو ہر ایک پر بقدر میراث اس کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ذمہ داری صرف دودھ پلوانے کی حد تک نہیں بلکہ جب تک بچہ بالغ نہیں ہوجاتا اس وقت تک بچے کی تمام ذمہ داریاں وارثوں کے سر ہیں۔ فرض کیجئے کہ بچے کے وارثوں میں اس کی ماں اور اس کے دادا زندہ ہیں۔ تو یہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی۔ اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا۔ یعنی ایک تہائی ماں کے ذمے اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔ 6 فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا سے ایک اور مسئلہ بیان کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ اگر ماں باپ باہمی رضامندی اور مشورے سے شیر خوارگی کی مدت میں کمی کرتے ہوئے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانے کا فیصلہ کرلیں۔ اس فیصلے کا سبب ماں کی معذوری ہو یا بچے کی بیماری یا کوئی اور قابل لحاظ سبب ‘ تو پردردِگار فرماتے ہیں کہ اس میں ماں باپ کے لیے کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ کہ ہر صورت میں بچے کی مصلحت پیش نظر رہنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ میاں بیوی کے جھگڑے کا اثر بچے کی صحت اور زندگی پر پڑے۔ یہ آپس کے اختلافات میں الجھے رہیں اور بچہ اس کے نتیجے میں بیماری کی نذر ہوجائے۔ 7 وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلَادَکُمْ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْـکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّـآ اٰ تَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ میں ایک اور بات ارشاد فرمائی جا رہی ہے۔ ہمارے مفسرین نے اس کے دو مفہوم مراد لیے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر میاں بیوی باہمی مشورے سے کسی اور سے دودھ پلوانا چاہیں تو اس کی انھیں اجازت ہے اور اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جس عورت سے دودھ پلوانے کا فیصلہ ہوا ہے اسے دینے دلانے کی جو قرارداد پاس ہو اس کے مطابق اسے ٹھیک ٹھیک ادا کیا جائے۔ اور اسی تناسب سے دیا جائے جتنا معاشرے میں رواج اور دستور بن چکا ہو اور شرفاء جس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔ اور دوسرا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ اگر بچے کا باپ یا باپ کے مرنے کی صورت میں بچے کے وارث بچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کا فیصلہ کرلیں تو ایسا کرلینے میں کوئی گناہ نہیں۔ لیکن یہ بات ضروری ہے کہ بچے کی والدہ سے دینے دلانے کے سلسلے میں جو معاہدہ ہوچکا تھا اور جس کا وعدہ کیا جا چکا تھا اس کی پابندی کی جائے۔ ماں کو اس طرح کا صدمہ نہیں پہنچانا چاہیے جس سے وہ یہ سمجھے کہ مجھ سے میرا بچہ بھی چھین لیا گیا ہے اور مجھے بالکل بےکس اور بےبس بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ رضاعت اور تربیت کے مسائل بہت نازک ہیں اور میاں بیوی کے اختلافات اور علیحدگی کی صورت میں اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جانبین منفی جذبات کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ بچے کے معاملات جن کے سپرد بھی ہوں وہ اللہ سے ڈریں۔ بلکہ براہ راست خطاب کر کے فرمایا کہ بچے کی دیکھ بھال کرنے والو ! ہم نے تمہیں اس کے لیے ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ اور تمہاری ذمہ داریوں سے تمہیں پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ لیکن تم ان ذمہ داریوں سے صرف اس صورت میں عہدہ برآ ہوسکتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور یہ یقین رکھو کہ تم حاضر و غائب جو کچھ کرو گے۔ اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ وہ تمہارے ایک ایک معاملے کو دیکھ رہا ہے اور اسی کے مطابق تمہاری جزاء و سزاء کا فیصلہ ہوگا۔
Top