Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں پورے دو سال ‘ اس کے لیے جو پورا کرنا چاہتا ہے دودھ کی مدت کو۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان مائوں کا کھانا اور ان کا لباس دستور کے مطابق۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی حیثیت کے مطابق۔ نہ کسی ماں کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث اور نہ کسی باپ کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث۔ اور وارث پر بھی اسی قسم کی ذمہ داری ہے۔ پس اگر وہ دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کرلیں اپنی مرضی اور مشورہ سے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو کسی اور سے دودھ پلوائو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ جب کہ تم ادا کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا مناسب طریقے سے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو دیکھنے والا ہے
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَاج لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ م بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّـہٗ بِوَلَدِہٖ ق وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْہِمَا ط وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّـآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (اور مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلائیں پورے دو سال ‘ اس کے لیے جو پورا کرنا چاہتا ہے دودھ کی مدت کو۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان مائوں کا کھانا اور ان کا لباس دستور کے مطابق۔ کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی حیثیت کے مطابق۔ نہ کسی ماں کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث اور نہ کسی باپ کو ضرر پہنچایا جائے اس کے لڑکے کے باعث، اور وارث پر بھی اسی قسم کی ذمہ داری ہے۔ پس اگر وہ دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کرلیں اپنی مرضی اور مشورہ سے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو کسی اور سے دودھ پلوائو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ جب کہ تم ادا کردو جو تم نے دینا ٹھہرایا تھا مناسب طریقے سے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو دیکھنے والا ہے) (233) رضاعت کے مسائل بچوں کو دودھ پلانے اور ان کی تربیت کے مسائل ہمیشہ ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ لیکن اگر صورتحال یہ ہو کہ ابھی بچہ دودھ پی رہا ہے اور باپ نے بچے کی ماں کو طلاق دے دی یا باپ مرگیا اور ماں بیوہ ہوگئی۔ ایسی ناخوشگوار صورتحال میں بچے کو دودھ پلانے کے مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں رضاعت کے اور بچے کی تربیت کے حوالے سے جو مسائل بیان کیے جا رہے ہیں ان کا تعلق معمول کی زندگی سے بھی ہے اور ایسی ناخوشگوار صورت حال سے بھی۔ اس آیت سے پہلے اور بعد بھی چونکہ طلاق کا ذکر ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ روئے سخن زیادہ تر ان عورتوں کی طرف ہے جنھیں طلاق ہوچکی ہو اور بچے ان کے ابھی دودھ پی رہے ہوں۔ اس سلسلے میں جو احکام دیے گئے ہیں ہم انھیں ایک ترتیب سے ذکر کرتے ہیں : 1 بچوں کو دودھ پلانا مائوں کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر انھیں کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو تو دیانتاً ان پر دودھ پلانا واجب ہے۔ وہ بلا کسی عذر کے دودھ پلانے سے ہرگز انکار نہیں کرسکتیں۔ ماں کے لیے بچے کو دودھ پلانا صرف بچے کو غذا مہیا کرنا نہیں ( اگرچہ غذا کے نقطہ نگاہ سے بھی کوئی اور دودھ ماں کے دودھ کی برابری نہیں کرسکتا۔ طبی نقطہ نگاہ سے نہ صرف بچے کے لیے یہ دودھ سب سے محفوظ اور مفید غذا ہے۔ بلکہ ماں کے لیے بھی سینے کے امراض سے تحفظ کے لیے سب سے بڑی ضمانت ہے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں وہ عموماً سینے یا اور کسی جسمانی عارضے کا شکار ہوجاتی ہیں) بلکہ بچے کی اصلاح اور تربیت کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ ماں اگر اپنے اندر کوئی روحانی خصوصیات رکھتی ہے اور اس کے اندر اخلاقی اقدار کا گہرا احساس پایا جاتا ہے اور وہ نظریاتی طور پر مضبوط عقائد کی حامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندان کی صالح خصوصیات کی حامل بھی ہے تو یہ تمام قیمتی سرمایہ دودھ کے ساتھ بچے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ڈاکٹر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ موروثی امراض ماں باپ سے بچے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں اسی طرح ماں کی خاندانی خصوصیات اور اس کی متذکرہ بالا صفات کا بھی معتد بہ حصہ بچے کے تحت الشعور میں منتقل ہوجاتا ہے۔ بچہ جب تھوڑا سا بڑا ہو کر تربیت کو قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے تو تحت الشعور میں مخفی یہ صفات آہستہ آہستہ تربیت کا حصہ بننے لگتی ہیں۔ اور ماں باپ کی تمام روحانی ‘ اخلاقی اور روایتی خصوصیات آہستہ آہستہ اس کے نظریات ‘ اخلاق اور اعمال میں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ اور جو بچے اس نعمت سے محروم رہتے ہیں اگرچہ گھر کا ماحول بھی ان میں بہت ساری خصوصیات کو پید اکر دیتا ہے لیکن جو خصوصیات دودھ کے ساتھ منتقل ہوتی ہیں وہ بچہ یقینا اس سے محروم رہتا ہے اور ماں باپ کے طور اطوار کا قابل ذکر حصہ اسے نہیں ملتا۔ ہم ہمیشہ اخلاقی بگاڑ کے اسباب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کاش ہم کبھی ان فطری عوامل پر بھی توجہ دے سکیں۔ اور کاش کبھی ماں باپ کو ماں باپ بننے سے پہلے ان باتوں کا احساس بھی دلایا جاسکے تاکہ وہ غیر شعوری طور پر بچوں کو اس دولت سے محروم نہ رکھیں۔ اور وہ دل کی گہرائیوں سے اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ماں کے سینے سے صرف دودھ ہی نہیں پھوٹتا ‘ بلکہ شعور کا ایک نور بھی طلوع ہوتا ہے جو بچے کے سینے کو روشن کردیتا ہے اور ماں باپ کے پاکیزہ اطوار بچے کے طور اطوار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ماں باپ کی باتوں باتوں اور اپنے عمل کی صورت میں دی ہوئی تعلیم اور پھر اسلامی طریقے سے ان کا طریق تربیت ان کے اندر وہ نتائج پیدا کرتا ہے جس سے اسلامی فکر اور اسلامی عمل وجود میں آتا ہے۔ اکبر مرحوم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ بو آئے کیا بچے میں ماں باپ کے اطوار کی دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی 2 معمول کی زندگی میں تو میاں بیوی خوش اسلوبی سے جو مشورہ کرلیں اس پر عمل کریں۔ لیکن طلاق کے بعد شوہر اگر اپنی مطلقہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے تو پھر بچے کی ماں کے لیے بچے کو پورے دو سال دودھ پلانا ضروری ہے۔ بچے کو دو سال دودھ پلانا بچے کا حق ہے بچے کو اس قدرتی اور فطری غذا سے بلا وجہ محروم نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ماں طبی نقطہ نگاہ سے دودھ پلانے سے معذور ہوجائے یا اس کے لیے کوئی مشکل پیدا ہوجائے تو پھر وہ عذر بھی کرسکتی ہے۔ ورنہ عام حالت میں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سابقہ خاوند کے کہنے پر پوری مدت بچے کو دودھ پلائے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے۔ میاں بیوی اپنے مشورے سے کسی مجبوری کے باعث اسے کم تو کرسکتے ہیں ‘ اس میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ دو سال گزرنے کے بعد ماں کے لیے بچے کو اپنا دودھ پلانا بالکل حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ ( رح) کے حوالے سے جو اختلاف ذکر کیا جاتا ہے اس کا تعلق غالباً مدت رضاعت سے نہیں۔ بلکہ اس بات سے ہے کہ اگر کسی خاتون نے کسی غیر بچے کو دو سال کی عمر کے بعد بھی دودھ پلایا اگرچہ دودھ کی مدت گزر چکی ہے پھر بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ دودھ پلانے والی خاتون بچے کی رضاعی ماں کہلائے گی۔ اور ان کے درمیان ماں بیٹے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔ 3 وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ماں بچے کو جب تک دودھ پلاتی ہے اس وقت تک اس کے کھانے پینے ‘ رہنے سہنے اور کپڑے کی ذمہ داری بچے کے باپ پر ہے اور باپ یہ ذمہ داری دستور کے مطابق ادا کرے۔ دستور سے مرا دیہ ہے کہ اگر بچے کے ماں باپ دونوں امیر ہوں تو عورت کو امیرانہ ضروریات مہیا کی جائیں ‘ اس کا کھانا پینا پر تکلف ہو اور لباس بھی اس کی شان کی لائق ہو۔ لیکن اگر دونوں کے مالی حالات میں واضح تفاوت پایا جائے تو پھر جمہور کی رائے یہ ہے کہ مرد کے حالات کا لحاظ کیا جائے گا۔ اگر وہ غریب آدمی ہے تو اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور اگر وہ امیر آدمی ہے تو پھر اسے اپنی حیثیت کے مطابق بچے کی ماں کو ضروریات مہیا کرنی چاہئیں۔ اس آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا کہ مائوں کے لیے تو ” وَالِدٰتٌ“ کا لفظ استعمال ہوا جو والدہ کی جمع ہے لیکن باپ کے لیے بجائے والد کا لفظ استعمال کرنے کے ” اَلْمَوْلُوْدُ لَـہٗٗ ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (وہ شخص جس کا بچہ ہے) حالانکہ قرآن کریم میں باپ کے لیے ” والد “ کا لفظ ایک سے زیادہ جگہ پر آیا ہے۔ لیکن یہاں ” والد “ کے بجائے مذکورہ لفظ استعمال کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بچے کی رضاعت اور باقی تمام معاملات کے مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہی ڈالی گئی ہے۔ اور پھر بچے کو دودھ پلانے کے لیے اگر اس کی ماں کو طلاق ہوچکی ہے اور وہ دودھ پلانے کی اجرت مانگتی ہے تو اجرت کی ذمہ داری بھی باپ ہی کے سر پر ہے۔ باپ یہ کہہ سکتا ہے کہ بچہ جس طرح میری ذمہ داری ہے اسی طرح ماں کی بھی ذمہ داری ہے۔ آخر یہ تمام اخراجات کا بار مجھ پر ہی کیوں ڈالاجا رہا ہے ؟ اس کے اس احساس میں کمی پیدا کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ حقیقت میں بیٹا تمہاری طرف ہی منسوب ہوگا۔ وہ کہیں بھی رہے جب بھی اپنا نسب بتائے گا تو باپ کا نام لیے بغیر چارہ کار نہیں۔ کیونکہ نسب باپ ہی سے چلتا ہے۔ ماں یقینا حقوق اور احترام میں باپ کے ساتھ شریک ہے۔ لیکن انتساب میں باپ منفرد ہے۔ اس لیے ذمہ داریوں کا بار بھی باپ پر ہی ڈالا گیا ہے اور یہی ہر طرح سے مناسب بھی ہے۔ 4 فریقین میں سے کسی پر بھی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ماں اگر بچے کو دودھ پلانے سے کسی مجبوری کے باعث انکار کر دے تو باپ کے لیے اسے مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم چونکہ ماں ہو اس لیے چاہے کچھ بھی ہو تمہیں بہرصورت دودھ پلانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر ماں اس بات پر اصرار کرے کہ چونکہ اب بچہ طلاق کے بعد تمہاری ذمہ داری بن چکا ہے تو میں تو صرف اس صورت میں دودھ پلائوں گی کہ تم مجھے ایک بڑی رقم کی صورت میں اجرت ادا کرو اور باپ اپنی مالی پریشانیوں کے باعث اس کا متحمل نہ ہوسکتا ہو۔ تو باپ پر یہ سارا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ ماں کو کسی مناسب اجرت پر راضی ہونا پڑے گا۔ اسی طرح اگر بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول نہیں کرتا ‘ نہ کسی جانور کا دودھ پینے کے لیے تیار ہے اور اگر پیتا ہے تو اسے ہضم نہیں ہوتا تو پھر باپ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے تم جہاں چاہے جھک مارو یہ تمہارا درد سر ہے۔ بلکہ ماں کو مجبور کیا جائے گا کہ جیسے بھی ہو وہ بچے کو دودھ پلائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ بچے کے بارے میں نہ ماں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی اور نہ بچے کی آڑ لے کر باپ پر کوئی ناروا دبائو ڈالا جائے گا۔ دونوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا مکلف ہے۔ 5 اگر سوئے اتفاق سے باپ چل بسے اور بچہ یتیم رہ جائے تو اب سوال یہ ہے کہ بچے کی رضاعت ‘ تربیت ‘ اور غوروپرداخت کی ذمہ داری کس پر ہوگی ؟ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے ” وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکْ “ (جو ذمہ داریاں بچے کے حوالہ سے باپ پر تھیں وہی ذمہ داریاں بچے کے وارث پر بھی ہیں) یعنی اگر بچہ مرجائے تو جو اس کے ترکہ کے وارث ہوں گے وہی اب اس کی رضاعت اور تربیت کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اور اگر اس کے وارث ایک سے زیادہ ہوں تو ہر ایک پر بقدر میراث اس کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ذمہ داری صرف دودھ پلوانے کی حد تک نہیں بلکہ جب تک بچہ بالغ نہیں ہوجاتا اس وقت تک بچے کی تمام ذمہ داریاں وارثوں کے سر ہیں۔ فرض کیجئے کہ بچے کے وارثوں میں اس کی ماں اور اس کے دادا زندہ ہیں۔ تو یہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی۔ اس لیے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا۔ یعنی ایک تہائی ماں کے ذمے اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا۔ 6 فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا سے ایک اور مسئلہ بیان کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ اگر ماں باپ باہمی رضامندی اور مشورے سے شیر خوارگی کی مدت میں کمی کرتے ہوئے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانے کا فیصلہ کرلیں۔ اس فیصلے کا سبب ماں کی معذوری ہو یا بچے کی بیماری یا کوئی اور قابل لحاظ سبب ‘ تو پردردِگار فرماتے ہیں کہ اس میں ماں باپ کے لیے کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ کہ ہر صورت میں بچے کی مصلحت پیش نظر رہنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ میاں بیوی کے جھگڑے کا اثر بچے کی صحت اور زندگی پر پڑے۔ یہ آپس کے اختلافات میں الجھے رہیں اور بچہ اس کے نتیجے میں بیماری کی نذر ہوجائے۔ 7 وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلَادَکُمْ فَلاَ جَنَاحَ عَلَیْـکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّـآ اٰ تَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ میں ایک اور بات ارشاد فرمائی جا رہی ہے۔ ہمارے مفسرین نے اس کے دو مفہوم مراد لیے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر میاں بیوی باہمی مشورے سے کسی اور سے دودھ پلوانا چاہیں تو اس کی انھیں اجازت ہے اور اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جس عورت سے دودھ پلوانے کا فیصلہ ہوا ہے اسے دینے دلانے کی جو قرارداد پاس ہو اس کے مطابق اسے ٹھیک ٹھیک ادا کیا جائے۔ اور اسی تناسب سے دیا جائے جتنا معاشرے میں رواج اور دستور بن چکا ہو اور شرفاء جس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔ اور دوسرا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ اگر بچے کا باپ یا باپ کے مرنے کی صورت میں بچے کے وارث بچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کا فیصلہ کرلیں تو ایسا کرلینے میں کوئی گناہ نہیں۔ لیکن یہ بات ضروری ہے کہ بچے کی والدہ سے دینے دلانے کے سلسلے میں جو معاہدہ ہوچکا تھا اور جس کا وعدہ کیا جا چکا تھا اس کی پابندی کی جائے۔ ماں کو اس طرح کا صدمہ نہیں پہنچانا چاہیے جس سے وہ یہ سمجھے کہ مجھ سے میرا بچہ بھی چھین لیا گیا ہے اور مجھے بالکل بےکس اور بےبس بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ رضاعت اور تربیت کے مسائل بہت نازک ہیں اور میاں بیوی کے اختلافات اور علیحدگی کی صورت میں اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جانبین منفی جذبات کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ بچے کے معاملات جن کے سپرد بھی ہوں وہ اللہ سے ڈریں۔ بلکہ براہ راست خطاب کر کے فرمایا کہ بچے کی دیکھ بھال کرنے والو ! ہم نے تمہیں اس کے لیے ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ اور تمہاری ذمہ داریوں سے تمہیں پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ لیکن تم ان ذمہ داریوں سے صرف اس صورت میں عہدہ برآ ہوسکتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور یہ یقین رکھو کہ تم حاضر و غائب جو کچھ کرو گے۔ اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ وہ تمہارے ایک ایک معاملے کو دیکھ رہا ہے اور اسی کے مطابق تمہاری جزاء و سزاء کا فیصلہ ہوگا۔
Top