Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی۔ اور نمازوں میں کھڑے رہو اللہ کے حضور فرمانبردارانہ اور خاموشی کے ساتھ
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ق وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ۔ (نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی، اور نمازوں میں کھڑے رہو اللہ کے حضور فرمانبردارانہ اور خاموشی کے ساتھ) (238) اس آیت کریمہ سے پہلے کی آیات میں نکاح اور طلاق کے مسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے بعد کی دو آیات بھی انہی مسائل سے متعلق ہیں، لیکن نکاح اور طلاق کے مسائل کے درمیان ایسی دو آیات کا لانا جن کا تعلق نماز سے ہے بظاہر بےجوڑ سی بات معلوم ہوتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نہایت مربوط کتاب ہے۔ لیکن اگر ہم سورة البقرۃ کے مضامین کی ترتیب کو دیکھیں اور سیاق کلام کو سمجھنے کی کوشش کریں تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آیات بےجوڑ نہیں بلکہ مربوط کلام کا ایسا حصہ ہیں جنھوں نے ربط کلام کی تکمیل کی ہے۔ سابقہ آیات سے ربط حقیقت یہ ہے کہ آیت 163 وَاِلٰہـُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ سے احکام و قوانین کا جو باب شروع ہوا تھا اس کا اللہ تعالیٰ نے توحید کے ذکر سے آغاز فرمایا تھا۔ کیونکہ جس پروردگارِ عالم کے احکام و قوانین کے ذکر کا آغاز ہو رہا تھا اگر اس کی الوہیت ‘ وحدانیت اور حاکمیت پر ایمان و یقین میں کمی ہو تو کوئی بھی شخص اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور اگر کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت ایمان لے بھی آئے تو اس ایمان میں اطاعت کے لیے آمادگی نہیں ہوگی اور نہ اس میں یقین کی وہ قوت ہوگی جو ایمان کے مخالف حالات میں انسان کو ثابت قدم رکھتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے توحید کا ذکر فرمایا ‘ پھر توحید پر دلائل قائم کیے ‘ اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اس کی محبت کو لازم ٹھہرایا اور جو لوگ محض زبانی حد تک اللہ کو مانتے ہیں لیکن اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں یا اس کی صفات میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ان پر تنقید فرمائی اور ان کے برے انجام سے انھیں آگاہ کیا۔ اس کے بعد مختلف احکام ذکر فرمائے لیکن آیت نمبر 177 پر پہنچ کر پھر اس حقیقت کا اعادہ فرمایا کہ ایمان و عمل کی اصل قوت مشرق و مغرب کی طرف منہ کرلینا نہیں بلکہ ان تمام حقائق کو تسلیم کرنا ہے جنھیں ایمانیات یا ضروریاتِ دین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے جو مال و دولت عطا فرمایا ہے اسے تمام مستحق لوگوں پر صرف اس جذبے سے خرچ کرنا ہے کہ اس سے اللہ راضی ہوگا اور یہ اس کی محبت کا لازمی تقاضا ہے۔ اللہ کے ساتھ قلب و دماغ کا مضبوط رشتہ اور انسان کے پاس مال و دولت کو اللہ کی امانت سمجھ کر اس کے بندوں پر خرچ کرنا یہ دو بنیادی حقیقتیں ہیں جن کے ساتھ تمام ایمان و اطاعت کے رشتے بندھے ہوئے ہیں۔ ان میں کمزوری جس طرح عقیدے کی کمزوری پر منتج ہوتی ہے اسی طرح عمل میں ویرانی کا باعث بنتی ہے۔ ان کی پختگی اور رسوخ فی القلب کے لیے اللہ نے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا۔ چناچہ اب احکام و قوانین کے باب کو سمیٹتے ہوئے ان آیات پر اسے ختم کیا جا رہا ہے جس میں پھر نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ پہلے صرف اقامت صلوۃ کا حکم تھا اس آیت میں محافظت صلوٰۃ کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی نگاہ میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی جس یقین اور اطاعت کے جذبے پر کھڑی ہے اس کی نشو و نما اور اس کی بقا کے لیے اگر کوئی تیربہدف نسخہ ہوسکتا ہے تو وہ صرف نماز ہے۔ اس لیے پورے قرآن کریم میں عقائد یا احکام و قوانین کے تذکرے کے بعد ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نماز کا حکم دیتے ہیں اور یا اس کی یاددہانی کراتے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ شہر پناہ ہے جس نے دین کے پورے شہر کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔ اور یہی وہ قوت ہے جو ساری شریعت کے قیام و بقا کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک حصار کی حیثیت دی ہے جس کی موجودگی میں پوری شریعت محفوظ رہتی ہے اور انسان کے یقین و عمل کی قوتیں اپنے اپنے نہج پہ کام کرتی رہتی ہیں۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا من اقامھا فقد اقام الدین و من ہدمہا فقد ہدم الدین (جس نے اسے قائم رکھا اس نے پورے دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے ڈھا دیا اس نے پورے دین کو ڈھا دیا) حضرت عمر فاروق ( رض) نے فرمایا تھا کہ ” اس جہاد میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہیں۔ “ کیونکہ نماز ہی انسان کی سوچ ‘ احساس اور عمل کی قوتوں کو صحیح رخ دیتی ہے۔ یہی اس کے جذبات کی نگہداشت کرتی ہے۔ اشتغالِ دنیا کے ہجوم سے انسان کو نکال کر بار بار اللہ کے دروازے پر جھکاتی ہے اور اس کے قبلے کو درست رکھتی ہے۔ مزید یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ امن کے حالات میں اگرچہ نفسانی خواہشات کے مقابلے میں نماز قائم کرنا آسان نہیں لیکن غیر معمولی حالات کی نسبت مشکل بھی نہیں۔ اس لیے عام حالات میں تو پروردگار اقامت صلوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ‘ لیکن جنگ کی ہولناکیوں میں جب کہ جان و تن کی سلامتی کی فکر ہوتی ہے اور پوری توجہ دشمن کی کاروائیوں کی طرف ہوتی ہے۔ ایسے ہولناک حالات میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور ہر طرف سے کٹ کر اس سے لو لگا کے کھڑے ہوجانا آسان کام نہیں۔ ایسے حالات میں اقامت صلوٰۃ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ محافظت صلوٰۃ کا حکم دیا گیا۔ کیونکہ جب آیت نمبر 177 نازل ہوئی ہے تو ابھی مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں ہوا تھا لیکن پیش نظر آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جبکہ جہاد فرض ہوچکا تھا اسی لیے دوسری آیت کریمہ میں جنگ کے دوران نماز پڑھنے کے طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا اور آنحضرت ﷺ نے اس کی تفصیلی صورت متعین فرمائی۔ ان دونوں آیات پر احکام و قوانین کے باب کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد کی دو آیتوں کا تعلق ضمنی حالات سے ہے جو اس باب کے خاتمے کے بعد نازل ہوئیں اور انھیں اس باب کے ساتھ ملحق کردیا گیا تاکہ احکام کی ترتیب سمجھنے میں آسانی پید اہو اور اس سے اہل علم قرآنی مضامین کا شعور پیدا کریں اور اس بات کا اشارہ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ ۔ الخ سے بھی فرما دیا۔ آیات کا پس منظر اور ربط سمجھ لینے کے بعد اب ان آیات کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ تو ایک مستقل اصطلاح ہے جس کا تعلق زندگی کے ہر طرح کے حالات سے ہے۔ ایک مومن کو نماز بہرصورت اس طرح پڑھنی چاہیے جس میں نماز کے تمام لوازم و شرائط اور اس کے آداب و ارکان کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ اور سورة البقرۃ کی ابتدائی آیات کی وضاحت میں ہم اس کا تذکرہ کرچکے ہیں۔ البتہ محافظت صلوٰۃ کا لفظ اقامت صلوٰۃ سے زیادہ نگہداشت اور اہتمام پر دلالت کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن کی حالت میں تو یقینا ایک مومن پورے آداب و ارکان کی پابندی سے نماز ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جنگ کی ہولناکیوں میں ایسا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ایک طرف دشمن چڑھا آرہا ہے اور دوسری طرف نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ ایک مومن جس کا قلبی رشتہ اللہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ ایسے حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح نماز کی ادائیگی کی کوشش کرے گا۔ اور اگر مسلم سپاہ کا جرنیل حقیقی مومن ہے تو وہ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس طرح نماز کا اہتمام کرے گا جس طرح آنحضرت ﷺ نے ایسے حالات میں صحابہ کو نماز پڑھائی اور احادیث میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ اور اگر حالات اس کی بالکل اجازت نہ دیتے ہوں تو پھر بھی ایک مومن ایک بےکلی اور بےچینی میں مبتلا ہوگا کہ ” ہائے میری نماز نکلی جا رہی ہے میں کیا کروں ؟ “ اس طرح کے اعمال اور احساسات محافظت صلوٰۃ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اَلصَّلٰوۃِ الْوُسْطیٰ سے کیا مراد ہے ؟ اَلصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰیکا لغوی معنی تو بیچ کی نماز ہے۔ لیکن نمازوں کی نگہداشت کا حکم دینے کے بعد بطور خاص صلوٰۃ الوسطی کی نگہداشت کا حکم دینا کیا مفہوم رکھتا ہے ؟ اس میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ الصلوۃ الوسطی کا معنی جس طرح بیچ والی نماز ہوتا ہے اسی طرح نہایت قدرومنزلت کی حامل نماز بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ نمازوں میں سے ہر نماز اللہ کے یہاں نہایت قدرومنزلت کی حامل ہے۔ لیکن اس نماز کی قدرومنزلت کا کیا ٹھکانہ ہے جو تلواروں کی چھائوں میں اد ا کی جائے۔ گھمسان کے رَن میں بھی نماز سے غفلت نہ ہونا اور امکانی حد تک اس کی ادائیگی کی کوشش کرنا ایک مومن کا حقیقی جوہر ہے اور جو نماز بھی ایسی کیفیت اور ایسے حالات میں ادا کی جائے گی وہ یقینا الصلوٰۃ الوسطی کہلائے گی۔ اس لحاظ سے جو نماز بھی جنگ کے دوران پڑھی جائے اسے الصلوٰۃ الوسطی ہی کہا جائے گا۔ لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ کیونکہ یہی وہ نماز ہے جس پر صحیح طور پر بیچ کی نماز کا اطلاق ہوتا ہے۔ ایک طرف دن کی دو نمازیں ہیں فجر اور ظہر اور دوسری طرف رات کی دو نمازیں ہیں مغرب اور عشاء۔ ان دونوں کے بیچ میں عصر کی نماز ہے۔ اس کی بعض دیگر خصوصیات کو دیکھتے ہوئے اس کی مزید اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ان خصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نماز ایک ایسے وقت پڑھی جاتی ہے جو عام حالات میں نہایت مشغولیت اور مصروفیت کا وقت ہوتا ہے۔ دن بھر کا تھکا ماندہ مسافر اسی وقت رات آنے سے پہلے منزل پر پہنچنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ دکاندار دکان بڑھانے سے پہلے کوشش کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کمائی میں اضافہ کرلے اور دن بھر میں جو کاروبار کیا ہے اسے شام ہونے سے پہلے سمیٹ لے۔ ہر ملازم اپنی مقررہ ڈیوٹی کو سر انجام دینے اور سمیٹنے میں مصروف ہوتا ہے۔ جس طرح پرندے سر شام اپنے گھونسلوں میں میں پہنچنے کے لیے بےچین ہوتے ہیں اسی طرح ہر مصروف آدمی اپنی مصروفیت کو سمیٹ کر اپنے گھر کی راہ لینا چاہتا ہے۔ آج اگرچہ بجلی کی روشنی نے حالات بدل دیے ہیں لیکن دنیا میں جس تیزی سے بد امنی پھیل رہی ہے اس کے پیش نظر شہر بھی شام ہی کو بند ہونے لگے ہیں اور دیہات تو پہلے ہی بجلی نہ ہونے کے باعث شام سے پہلے بچے کی آنکھ کی طرح بند ہوجاتے ہیں۔ اور جہاں تک جنگ کا تعلق ہے اگر دو فوجوں میں گھمسان کی جنگ ہو رہی ہو تو ہر فوج رات کی تاریکی چھا جانے سے پہلے پہلے آخری حملہ کرنے کی فکر میں ہوتی ہے۔ زخموں سے چور چور سپاہی اپنی پوری قوت سمیٹ کر دشمن پر غالب آنے کے لیے بےقرار ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں اس نماز کا وقت آتا ہے اور قرآن کریم اس وقت کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر خاص طور پر اس کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے۔ جنگ احزاب میں آنحضرت ﷺ کی عصر کی نماز قضا ہوگئی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے جنھوں نے ہماری صلوٰۃ الوسطی قضا کی۔ اگرچہ بعض اہل علم اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث صلوٰۃ الوسطی کو عصر کی نماز قرار دینے کے لیے واضح دلیل ہے۔ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ، قَنَتَ کا معنی خضوع اور تذلل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اصل روح خشوع و خضوع ‘ عاجزی اور خشیت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے محافظت کی وضاحت کردی گئی ہے۔ کہ اگر تم واقعی نمازوں کی نگہداشت کرنا چاہتے ہو تو محض اس طرح سے نہیں ہوگی کہ آپ اذان سن کر مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز کے مخصوص اعمال انجام دینے کے بعد مطمئن ہوجائیں کہ میں نے نماز کی ادائیگی کا فرض انجام دے دیا ہے۔ یقینا یہ عمل نماز کی ظاہری حالت کی نگہداشت کے لیے ضروری ہے لیکن اس کی حقیقی نگہداشت اس وقت ہوگی جب دل میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہوگی۔ دل کی یہ کیفیت آدمی کا رشتہ اللہ سے مضبوط کرتی ہے۔ اسی سے اس کی نماز حقیقی نماز بنتی ہے۔ اور یہی نماز ایک نمازی کا اصل سرمایہ ہے۔
Top