Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 241
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ : اور مطلقہ عورتوں کے لیے مَتَاعٌ : نان نفقہ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق کچھ دینا دلانا ہے۔ یہ خدا سے ڈرنے والوں پر حق ہے
وَلِلْمُطَلَّـقَاتِ مَتَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اٰیٰـتِـہٖ لَعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ ع (اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق کچھ دینا دلانا ہے۔ یہ خدا سے ڈرنے والوں پر حق ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کو بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو) (241 تا 242) ” مطلقات کو کچھ دینے کا حکم اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف یاددہانی کے لیے اعادہ مقصود ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پہلا حکم ان عورتوں کے لیے تھا جنھیں خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی۔ ان میں سے ایک تو وہ مطلقہ ہے جس کا مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا اسے تو تحفہ وغیرہ کی صورت میں کچھ فائدہ پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا اور جس کا مہر باندھا گیا تھا اس کے لیے متاع سے مراد یہ تھا کہ اسے نصف مہر دے دیا جائے۔ لیکن اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کا ذکر ہے جن کو ان کے شوہروں نے ان سے مباشرت کے بعد طلاق دی۔ ان کی دو قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو وہ جن کا مہر مقرر کیا گیا تھا ان کو فائدہ پہنچانا یہ ہے کہ پورا مہر دیا جائے۔ اور دوسری وہ عورتیں جن کا مہر مقرر نہیں کیا گیا ‘ انھیں فائدہ پہنچانا یہ ہے کہ انھیں مہر مثل دیا جائے۔ لیکن اگر متاع سے مطلق فائدہ پہنچانا مراد لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی مطلقہ عورت جس کا مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا اور اسے خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اسے تو کوئی تحفہ یا کپڑوں کا جوڑا دینا واجب ہے اور باقی تمام مطلقہ عورتوں کو متاع یعنی کوئی تحفہ وغیرہ دینا مستحب ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا ” حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ “ کہ مطلقہ عورتوں کو کچھ نہ کچھ دینا اہل تقویٰ پر ایک حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ اہل تقویٰ ہیں اور وہ کبھی حالات سے مجبور ہو کر اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو اگرچہ قانونی طور پر اپنی بیویوں کو کوئی تحفہ دے کر رخصت کرنا یا انھیں اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے کوئی مدد دینا ضروری نہیں۔ اسلامی حکومت بھی ایسا نہ کرنے والوں پر قانون شکنی کا الزام نہیں لگا سکتی۔ لیکن قرآن کریم سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ان باتوں کو متقین کے لیے حقوق وصفات کا درجہ دیا ہے۔ اس لیے متقیوں کو یہ بات کسی طرح بھی زیب نہیں دیتی کہ وہ اگر تقویٰ کی زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو وہ اپنی بیویوں کے معاملے میں اس طرز عمل کا اظہار نہ کریں۔ دنیا میں ممکن ہے اس طرز عمل کی کوئی اہمیت نہ سمجھی جائے لیکن آخرت میں یہی اعمال بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ آیت کے اس ٹکڑے نے گزشتہ آیت کی نوعیت متعین کردی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ یہ آیت توضیح کی حیثیت رکھتی ہے۔ 234 نمبر آیت میں بیان کردہ حکم کے بعد لوگوں کے اندر جو سوال اور جستجو پیدا ہوئی ‘ اس کی وضاحت کے لیے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اللہ کا یہ احسان ہے کہ وہ اس طرح کی توضیحی آیات سے ربط کی بہت ساری مشکلات کو آسان کردیتا ہے۔ ایک اہل علم کے کہنے کے مطابق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ( قرآن کریم نے اجمال کے بعد تفصیل ‘ ایجاز کے بعد توضیح اور توضیح کے بعد توضیح مزید کا جو یہ طریقہ اختیار کیا ہے اس میں تربیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ازاں جملہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے دین میں غور و فکر اور اس کے فوائد و مصالح اور اس کے اسرار و حکم تک پہنچنے کے لیے ہماری عقل کی تربیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تدریج کو نمایاں کر کے اس حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی فرماتا ہے کہ ہم دین میں عقل کو کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ اور پیش آنے والے حالات و معاملات میں ان کلیات سے کس طرح جزئیات مستنبط کرسکتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف لَعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ (ماخوذ از : تدبر قرآن)
Top