Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
(کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو بھاگ کھڑے ہوئے اپنے گھروں سے حالانکہ وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا مر جائو۔ پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکرگزار نہیں ہوتے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ ص فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا قف ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ ۔ (کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو بھاگ کھڑے ہوئے اپنے گھروں سے حالانکہ وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا مرجاؤ۔ پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکرگزار نہیں ہوتے) (243) ربطِ آیات گزشتہ آیات کی تشریح میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ احکام و قوانین کا جو باب آیت نمبر 163 سے شروع ہوا تھا وہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہاں سے نیا سلسلہ کلام شروع ہو رہا ہے۔ گزشتہ باب میں اصل بیان تو بیت اللہ کے تعلق سے جہاد و انفاق کا ہو رہا تھا لیکن انفاق کی بحث کے حوالے سے یتیموں اور بیوگان کے مسائل کی طرف التفات ہوگیا اور اس کے بعد قرآن کریم نے اپنی عادت کے مطابق یتیموں کے حقوق بیان فرمائے اور پھر عورتوں کے مسائل کے حوالے سے تفصیل سے احکام دیے۔ اب پھر سلسلہ کلام اصل موضوع کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں سب سے پہلے ایک واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جس کا تعلق اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ایک اہم تصور سے ہے۔ اور یہ وہ تصور ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ میں پوری طرح پیوست نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ جہاد و انفاق کے حوالے سے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ وہ تصور یہ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آدمی اپنی بزدلی یا دنیا کی خواہش سے اپنی زندگی کو دراز نہیں کرسکتا۔ وہ ہزار کوشش بھی کرے موت کا معین وقت اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے زندگی کا بیشتر حصہ میدانِ جنگ میں گزارا ان میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ وہ اپنے بستر پر طبعی موت کا شکار ہوئے اور جو لوگ زندگی بھر خطرات سے بچنے کی کوشش کرتے رہے اور ایک سے ایک بڑھ کر محفوظ مقام میں رہنے کی کوشش کی۔ لیکن موت سے وہ بھی نہ بچ سکے۔ بلکہ بارہا ایسا ہوا کہ موت سے کھیلنے والوں نے طویل عمر پائی اور موت سے بچنے والوں کو مختصر زندگی نصیب ہوئی۔ اور ایسا بھی ہوا کہ ساری احتیاطوں کے باوجود ان کی موت کا سبب کوئی نہ کوئی حادثہ ٹھہرا۔ اس لیے مسلمانوں جیسی قوم جسے دنیا میں خیر و صلاح کا کام سونپا گیا ہے اور جنھیں قدم قدم پر مخالف قوتوں سے ٹکرانا پڑتا ہے ان کے اندر جب تک یہ عقیدہ راسخ نہ ہوجائے کہ موت وحیات سراسر اللہ کے قبضے میں ہے تم بےسبب اپنے آپ کو خطرات میں کبھی نہ جھونکنا۔ لیکن دینی اور ملی فرائض ادا کرتے ہوئے اگر خطرات میں جانا ناگزیر ہوجائے تو موت کے تصور سے کبھی پیچھے ہٹنے کی کوشش نہ کرنا۔ کیونکہ موت خطرات سے واقع نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے حکم سے واقع ہوتی ہے۔ اس وقت تک مسلمان کارزارِ حیات میں کوئی معرکہ سر نہیں کرسکتے۔ آئندہ چونکہ جہاد و انفاق کی بحث شروع ہو رہی ہے اس لیے اس بنیادی عقیدے کو رگ و ریشے میں اتارنے کے لیے ایک ایسا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جس کی شہرت کے باعث عرب کا بچہ بچہ اس سے واقف تھا۔ لیکن ایسے مشہور واقعات جو نسل در نسل سینہ بہ سینہ روایت ہوتے ہیں۔ اس میں صرف واقعہ کی اصل روح باقی رہ جاتی ہے واقعہ کی تفصیلات بالعموم غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ واقعہ بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اَلَمْ تَرَ کا مفہوم اس واقعے کا آغاز اَلَمْ تَرَسے کیا گیا ہے۔ اس طرح کے الفاظ سے اس واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو یا تو مخاطب گروہ کا عینی مشاہدہ ہوتا ہے یا واقعہ اس قدر مشہور ہوتا ہے کہ اسے ذکر کرنے سے پہلے اس کی نسبت یہ باور کرلیا جاتا ہے کہ مخاطب یقینا اس سے واقف ہوں گے۔ اور مزید یہ کہ یہاں یہ جو کہا گیا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا تو اس سلسلے میں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ دیکھنا ہمیشہ چشم بصارت سے نہیں ہوتا بلکہ وہم و تخیل ‘ غور و فکر اور عقل کی راہ سے بھی مطالعہ و مشاہدہ مراد ہوتا ہے۔ امام راغب الاصفہانی نے تصریح فرمائی ہے کہ جب اس فعل کا صلہ الیٰ کے ساتھ آتا ہے تو اس سے مقصود دیکھنا نہیں بلکہ کوئی نتیجہ نکالنا یا عبرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اندازِ بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ واقعہ ایک معروف واقعہ تھا جسے عام طور پر لوگ جانتے تھے۔ لیکن یہاں مقصود صرف یہ ہے کہ سننے والے اس سے عبرت حاصل کریں اور اس سے سبق سیکھیں۔ واقعہ کیا تھا ؟ تین نقطہ ہائے نظر اب سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور کس قوم کے ساتھ پیش آیا ؟ علامہ قرطبی (رح) نے ابن عطیہ سے واضح طور پر نقل فرمایا کہ مفسرین نے اس سلسلے میں جتنے قصے بیان کیے ہیں وہ سب ناقابلِ اعتماد ہیں۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ سے اس سلسلے میں صحیح سند کے ساتھ کوئی روایت منقول نہیں ہوئی اور دوسری یہ بات کہ یہ واقعہ مشہور ضرور تھا لیکن اس کی تفصیلات محفوظ نہیں تھیں اور لوگوں کو اس سے زیادہ غرض بھی نہیں ہوتی۔ اتنی بات سب کو معلوم تھی کہ ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ لیکن وہ کہاں پیش آیا ‘ کب پیش آیا اور کس قوم کے ساتھ پیش آیا ؟ تاریخ کی یہ تمام کڑیاں گم ہوگئیں۔ لیکن مفسرین نے ان کڑیوں کو ڈھونڈنے کے لیے جو کاوشیں کی ہیں ان میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ لیکن انھیں بھی حتمی تحقیق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے قدیم مفسرین جو کچھ فرماتے ہیں اس کا ماخذ تفسیر ابن کثیر ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ انھوں نے اگرچہ اسے بعض صحابہ اور تابعین کے حوالے سے نقل کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی حوالہ بھی ایسا نہیں جسے یقین کے ساتھ قبول کیا جاسکے۔ لیکن ہمارے مفسرین چونکہ اکثر اسے نقل کرتے ہیں اس لیے ہم بھی سب سے پہلے اسے معارف القرآن سے نقل کر رہے ہیں۔ 1 ” بنی اسرائیل کی کوئی جماعت ایک شہر میں بستی تھی۔ وہاں سخت وبا ‘ طاعون وغیرہ پھیلا۔ یہ لوگ جو تقریباً دس ہزار کی تعداد میں تھے گھبرا اٹھے اور موت کے خوف سے اس شہر کو چھوڑ کر سب کے سب دو پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع مقام میں جا کر مقیم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اور دنیا کی دوسری قوموں پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ موت سے کوئی شخص بھاگ کر جان نہیں چھڑا سکتا۔ دو فرشتے بھیج دیئے ‘ جو میدان کے دونوں سروں پر آ کھڑے ہوئے اور کوئی ایسی آواز دی جس سے سب کے سب بیک وقت مرے ہوئے رہ گئے ‘ ایک بھی زندہ نہ رہا۔ آس پاس کے لوگوں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی ‘ یہاں پہنچے۔ دس ہزار انسانوں کے کفن دفن کا انتظام آسان نہ تھا ‘ اس لیے ان کے گرد ایک احاطہ کھینچ کر حظیرہ جیسا بنادیا۔ ان کی لاشیں حسب دستور گل سڑ گئیں ‘ ہڈیاں پڑی رہ گئیں۔ ایک زمانہ کے بعد بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل بتلایا گیا ہے ‘ اس مقام سے گزرے۔ اس حظیرہ میں جگہ جگہ انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بکھرے ہوئے دیکھ کر حیرت میں رہ گئے۔ بذریعہ وحی ان کو ان لوگوں کا پورا واقعہ بتلا دیا گیا۔ حضرت حزقیل (علیہ السلام) نے دعا کی کہ یا اللہ ان لوگوں کو پھر زندہ فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں حکم دیا گیا کہ آپ ان شکستہ ہڈیوں کو اس طرح خطاب فرمائیں : ایتہا العظام البالیۃ ان اللّٰہ یأمرک ان تجمعی (یعنی اے ہڈیو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ہر جوڑ کی ہڈی اپنی جگہ جمع ہوجائے) پیغمبر کی زبان سے خدا تعالیٰ کا حکم ان ہڈیوں نے سنا اور حکم کی تعمیل کی۔ جن کو دنیا بےعقل و بےشعور سمجھتی ہے مگر دنیا کے ذرہ ذرہ کی طرح وہ بھی تابع فرمان اور اپنے وجود کے مناسب عقل و ادراک رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مطیع ہیں۔ قرآن کریم نے آیت اعطی کل شیء خلقہ ثم ہدی میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا پھر اس کو اس کے مناسب حال ہدایت فرمائی۔ مولانا رومی نے ایسے ہی امور کے متعلق فرمایا ہے ؎ خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ اند بہرحال ایک آواز پر ہر انسان کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لگ گئیں۔ پھر حکم ہوا کہ اب ان کو یہ آواز دو : ایتہا العظام ان اللہ یأمرک ان تکتسی لحماً و عصباً و جلداً (اے ہڈیو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنا گوشت پہن لو اور پٹھے اور کھال درست کرلو) یہ کہنا تھا کہ ہڈیوں کا ہر ڈھانچہ ان کے دیکھتے دیکھتے ایک مکمل لاش بن گئی۔ پھر حکم ہوا کہ اب ارواح کو یہ خطاب کیا جائے : ایتہا الارواح ان اللہ یأمرک ان ترجع کل روح الی الجسد الذی کانت تعمرہ۔ (اے ارواح ! تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے بدنوں میں لوٹ آئیں جن کی تعمیر وحیات ان سے وابستہ تھی) یہ آواز دیتے ہی ان کے سامنے سارے لاشے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے چار طرف دیکھنے لگے۔ سب کی زبانوں پر تھا ” سبحانک لا الہ الا انت۔ “ اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں۔ اس بستی کے لوگ نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک اللہ کی طرف سے طاعون کا عذاب ان پر مسلط ہوا اور پھر وہ ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ جان بچانے کے لیے گھروں سے بھاگے اور ایک محفوظ جگہ تلاش کرکے وہاں زندگی کا سامان کرکے بیٹھ گئے۔ لیکن موت نے انھیں وہاں بھی آپکڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ موت کو ہم اپنی بستی میں چھوڑ آئے ہیں اب یہاں موت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لیکن بظاہر ان کی محفوظ جگہ میں وہ تمام کے تمام موت کا نشانہ ہوگئے۔ لیکن پھر جب پیغمبر کی دعا سے اللہ نے انھیں زندہ کرنا چاہا تو انھیں زندہ کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت اللہ کی طرف سے آتی ہے زندگی بھی اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ جس طرح اس نے ان لوگوں کو زندہ کیا اسی طرح وہ قیامت میں تمام مخلوقات کو زندہ کرے گا۔ آخر آیت میں فرمایا کہ اللہ چونکہ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور فضل والا ہے اس لیے وہ ایسے واقعات سے لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ لوگ اس کا شکر گزار بننے کے بجائے کفرانِ نعمت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس واقعے میں چونکہ طاعون کا ذکر آیا ہے اس لیے مفسرین نے طاعون کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس تفصیلی بحث کا ذکر کرنا تو بہت مشکل ہے البتہ چند باتوں کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ طاعون کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کا ارشاد یہ ہے کہ جس سرزمین میں طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگنے کی اجازت نہیں۔ اور جو لوگ طاعون زدہ بستی سے باہر ہوں انھیں اس کے اندر نہیں جانا چاہیے۔ اس پر بعض لوگوں کو عقلی اشکال پیدا ہوا کہ طاعون زدہ مقام میں داخل ہونا اور طاعون زدہ مقام سے نہ ہٹنا یہ دونوں عملاً متضاد ہدایتیں ہیں۔ اگر طاعون بچنے کی چیز ہے تو وہاں سے ہٹنے کا بھی حکم ملنا چاہیے۔ اور بچنے کی چیز نہیں تو اس شہر میں پہنچ جانے میں کوئی مضائقہ نہ ہونا چاہیے۔ لیکن غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر وبا زدہ مقام سے ہر ایک کو نکلنے کی اجازت دے دی جائے تو سب لوگ بھاگنا شروع کردیں گے اور شہر خالی ہوجائے گا۔ اس بےتحاشا بھگدڑ سے آبادی کو جن مالی ‘ معاشی ‘ تمدنی اور اخلاقی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا ان کا سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں۔ مزید برآں اس سے عقیدہ و اخلاق کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ فرار ہمت ‘ ثبات قلب ‘ شجاعت اور باہمی ہمدردی کے بھی منافی ہے اور اسی سے توکل اور اعتماد علی اللہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور یہی چیزیں امت مسلمہ کا سرمایہ ہیں۔ اور رہی یہ بات کہ وہاں داخل نہیں ہونا چاہیے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جہاں وبا پھیلی ہوئی ہے اور موت کا بازار دھڑا دھڑ گرم ہے وہاں جا کر بلا وجہ موت کو دعوت دینا اسباب ظاہری کو بالکل نظر انداز کردینا ہے ‘ یہ بھی اسلامی نقطہ نگاہ سے غلط بات ہے۔ اس لیے اسلام نے ان دو متضاد پہلوئوں کے درمیان اعتدال اور سلامتی کی راہ نکالی اور حکم دیا کہ جہاں طاعون ہو وہاں جانے کی اجازت نہیں اور اس شہر کے رہنے والوں کو وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ نکلنا جس طرح عقیدے کو نقصان دیتا ہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے ساتھ طاعون کے جراثیم لے کر جائیں اور جو لوگ اس بیماری میں مبتلا نہیں ہیں ان کو بھی مبتلا کردیں۔ 2 دوسرا نقطہ نگاہ ہمارے جدید محققین کا ہے۔ وہ عہد عتیق سے بنی اسرائیل کے تاریخ کے آئینہ میں اس واقعے کو تلاش کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس واقعے میں مذکورہ موت کو حقیقی موت نہیں بلکہ ایمانی ‘ اخلاقی اور قومی موت تصور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے چونکہ اخلاقی اور ایمانی بےحسی اور نیند اور بےہوشی پر بھی موت کا اطلاق کیا ہے اس لیے وہ اسے بنیاد بنا کر یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ممکن ہے یہاں بھی انھیں معنوں میں موت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں دو واقعات کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔ جن میں سے ہم ایک کا تذکرہ تدبر قرآن سے نقل کرتے ہیں اور ساتھ ہی صاحب تدبر قرآن کی تصریحات کا بھی ذکر کرتے ہیں : اس آیت میں جس واقعے کی طرف اشارہ ہے اس کا تعلق بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس دور سے ہے جس کا ذکر صحیفہ سموئیل میں ہے۔ سموئیل نبی کے ظہور کے ابتدائی دور میں بنی اسرائیل سخت انتشار میں مبتلا تھے۔ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے یہ اس وقت تین لاکھ سے زیادہ تھے ‘ جیسا کہ سموئیل میں تصریح ہے۔ لیکن بدعات اور شرک کے غلبے کی وجہ سے ان کی مذہبی و اخلاقی حالت بھی بڑی خراب تھی اور اجتماعی تنظیم مفقود ہونے کی وجہ سے سیاسی حالت بھی بڑی ابتر تھی۔ ہر طرف سے دشمنوں کی یورش تھی اور یہ ان سے اس قدر مرعوب اور دہشت زدہ تھے کہ کسی سے مقابلے کی ہمت اپنے اندر نہیں پا رہے تھے۔ خاص طور پر فلسطینیوں نے ان کو بری طرح مرعوب کرلیا تھا۔ انھوں نے ان پر چڑھائی کر کے ان کا قتل عام بھی کیا اور ان سے خدا کا وہ صندوق بھی چھین کرلے گئے جس کی حیثیت ان کے ہاں بالکل قبلہ کی تھی جس کو وہ اپنی تمام عبادات اور تمام مہمات میں آگے آگے رکھتے تھے۔ ان کے ڈر سے بنی اسرائیل نے عقرون سے لے کر جات تک کے سارے شہر بھی خالی کردیے تھے۔ خوف و بزدلی کی یہ موت ان پر بیس برس طاری رہی۔ اس کے بعد سموئیل نبی نے ان کے اندر اصلاح و تجدید کا کام شروع کیا۔ ان کو شرک و بدعت سے توبہ کرنے اور اپنے انتشار کو دور کر کے از سر نو منظم و متحد ہونے کی دعوت دی۔ ان کی اس دعوت کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی اور اس طرح بنی اسرائیل میں بیس سال کی مرونی کے بعد از سر نو ایمانی و سیاسی زندگی کی حرکت پیدا ہوئی اور وہ اس قابل ہوئے کہ فلسطینیوں کے مقابل میں کھڑے ہو سکیں اور اپنے ان شہروں کو ان سے واپس لے سکیں ‘ جن کو خود خالی کر کے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ سموئیل میں یہ داستان بہت پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس کے کچھ ضروری حصے یہاں نقل کرتے ہیں جن سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے جو ہم نے اوپر پیش کیا ہے۔ فلسطینیوں سے بنی اسرائیل کی مرعوبیت ‘ ان کے ہاتھوں ان کے قتل عام اور خدا کے صندوق کے چھن جانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے : ” اور فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے ڈیرے کو بھاگا اور وہاں نہایت بڑی خونریزی ہوئی۔ کیونکہ تیس ہزار اسرائیل پیادے وہاں کھیت آئے اور خدا کا صندوق چھن گیا۔ “ (سموئیل باب 4‘ 10۔ 11) خدا کے صندوق کے چھن جانے کا جو اثر بنی اسرائیل پر پڑا اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے۔ ” اس خبر لانے والے نے جواب دیا اسرائیلی فلستیوں کے آگے سے بھاگے اور لوگوں میں بڑی خونریزی ہوئی اور تیرے دونوں بیٹے خفتی اور فیخ اس بھی مرگئے اور خدا کا صندوق چھن گیا۔ جب اس نے خدا کے صندوق کا ذکر کیا تو وہ کرسی پر سے پچھاڑ کھا کر پھاٹک کے کنارے گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی …… اور کہنے لگی کہ حشمت اسرائیل سے جاتی رہی۔ اس لیے کہ خدا کا صندوق چھن گیا تھا اور اس کا خسر اور خاوند جاتے رہے تھے سو اس نے کہا کہ حشمت اسرائیل سے جاتی رہی کیونکہ خدا کا صندوق چھن گیا ہے۔ “ (سموئیل باب 4‘ 17۔ 22) اس حادثہ کے بعد بنی اسرائیل پر پورے بیس سال تک خوف وبزدلی اور نوحہ و ماتم کی جو مرونی طاری رہی اور پھر سموئیل نبی نے ان کے اندر اصلاح و تجدید کی جو دعوت بلند کی ‘ اس کا ذکر اس طرح آتا ہے۔ ” اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا تب سے ایک مدت ہوگئی یعنی بیس برس گزر گئے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خدا وند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا اور سموئیل نے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے خدا وند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتائوں اور عتارات کو اپنے بیچ سے دور کرو اور خدا وند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کر کے فقط اسی کی عبادت کرو اور وہ فلستیوں کے ہاتھوں سے تمہیں رہائی دے گا۔ تب بنی اسرائیل نے بعلیم اور عتارات کو دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے۔ پھر سموئیل نے کہا کہ سب اسرائیل کو مصفاہ میں جمع کرو اور میں تمہارے لیے خداوند سے دعا کروں گا۔ “ (سموئیل باب 7‘ 2۔ 6) اس اجتماعی توبہ و استغفار اور تنظیم و اتحاد کے بعد بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلستیوں کے مقابل میں کھڑے ہو سکیں اور ان کو شکست دے کر ان سے اپنے چھنے ہوئے شہر اور ساتھ ہی اپنی چھنی ہوئی حشمت واپس لے سکیں۔ بنی اسرائیل کی اس نئی زندگی کا ذکر اس طرح آتا ہے : ” اور سموئیل بنی اسرائیل کے لیے خدا وند کے حضور فریاد کرتا رہا اور خداوند نے اس کی سنی اور جس وقت سموئیل اس سوختی قربانی کو گزران رہا تھا اس وقت فلستی اسرائیلیوں سے جنگ کرنے کو نزدیک آئے لیکن خداوند فلستیوں کے اوپر اس دن بڑی کڑک کے ساتھ گرجا اور ان کو گھبرا دیا اور انھوں نے اسرائیلیوں کے آگے شکست کھائی اور اسرائیل کے لوگوں نے مصفاہ سے نکل کر فلستیوں کو رگیدا اور بیت کر کے نیچے تک انھیں مارتے چلے گئے… سوفلستی مغلوب ہوئے اور اسرائیل کی سرحد میں پھر نہ آئے اور سموئیل کی زندگی بھر خداوند کا ہاتھ فلستیوں کے خلاف رہا۔ اور عقون سے جات تک کے شہر جن کو فلستیوں نے اسرائیلیوں سے لے لیا تھا وہ پھر اسرائیلیوں کے قبضہ میں آئے اور اسرائیلیوں نے ان کی نواحی بھی فلستیوں کے ہاتھ سے چھڑا لی۔ “ (سموئل باب 7‘ 10۔ 14) ہمارے نزدیک تاریخ بنی اسرائیل کا یہی جز ہے جس کی طرف آیت زیر بحث میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ جب انھوں نے خوف اور بزدلی کی زندگی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس ایمانی و اخلاقی موت کے حوالہ کردیا جس کی تعبیر مُوْتُوْا سے فرمائی۔ یہ معاملہ ٹھیک ٹھیک اس سنت اللہ کے مطابق ہوا جس کی طرف فَلَمَّا زَاغُوْا اَذَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبُہُمْ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی جب انھوں نے گمراہی پسند کی تو ان کو گمراہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ پھر جب ان کے اندر تجدید و احیائے ملت کی دعوت اٹھی اور انھوں نے از سر نو ایمان و اسلام کی حیات تازہ اختیار کرلینے کا عزم کرلیا تو اللہ نے ان کو از سر نو زندہ و متحرک کردیا۔ اسی چیز کو یہاں ثُمَّ اَحْیَاہُمْ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ قوموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسی اصول پر ہے اگر کوئی قوم اپنے لیے ذلت و نامرادی کو پسند کرتی ہے تو خدا اس کو ذلت و نامرادی کے حوالہ کردیتا ہے اور اگر کوئی قوم عروج و سربلندی کی طالب ہوتی ہے اور اس طلب کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کی ہمت دکھاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عزت و سربلندی بخشتا ہے اور یہ مرتبہ دے کر اس کو امتحان کرتا ہے۔ “ 3 تیسرا نقطہ نگاہ یہ کہ ہے یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف ہے۔ سورة مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے دشت و بیاباں میں بےخانماں پھر رہے تھے خود ایک ٹھکانے کے لیے بےتاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایماء سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارض فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کرلو تو انھوں نے بزدلی دکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے انھیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہوگئی اور دوسری نسل صحرائوں کی گود میں پل کر اٹھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے انھیں کنعانیوں پر غلبہ عطا فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یعنی ان کی پہلی نسل کا اس بیابان کی چالیس سالہ سیاحت میں مرجانا ‘ یہ ان کے لیے اللہ کا عذاب تھا۔ جس کا وہ شکار ہوگئے۔ اور پھر انہی کی نسل کو ایمان کی قوت سے بہرہ ور کرنا اور پیغمبر کے ہدایت کے مطابق جہاد کے ذریعے ان کا کنعانیوں پر غلبہ حاصل کرنا یہ وہ زندگی ہے جو اللہ نے دوبارہ ان کو عطا فرمائی۔ حاصل کلام یہ کہ اس آیت میں بیان کردہ واقعے سے کوئی واقعہ بھی مراد ہو وہ مقصود نہیں ہے۔ مقصود اصل میں وہ عبرت اور وہ سبق ہے جو یہ آیت مسلمانوں کو دے رہی ہے۔ کہ تم زندگی اور موت کو اللہ کے قبضے میں سمجھو اور موت سے ڈر کر کبھی بزدلی نہ دکھائو۔ نیز اس بات کا بھی یقین کرلو کہ اللہ کے کام کسی کے محتاج نہیں ہوتے اگر تم اپنی زندگی کی محبت میں اللہ کے راستے میں جہاد و قتال سے منہ پھیرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مٹا کر تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا جو تمہاری طرح نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے راستے میں وہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگی۔ تمہیں اگر محرومیوں سے بچنا ہے اور حقیقی زندگی مطلوب ہے تو پھر تمہیں آگے بڑھ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے علم جہاد بلند کرنا چاہیے۔
Top