Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 244
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور قتال کرو اللہ کے راستے میں اور خوب جان لو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَـہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَـبْصُطُ س ص وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (اور قتال کرو اللہ کے راستے میں اور خوب جان لو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے، تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے، اللہ ہی گھٹاتا ہے اور اللہ ہی بڑھاتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) (244 تا 245) قتال کا حکم دوسروں کے واقعات سے مسلمانوں کے سامنے جہادو انفاق کی اہمیت اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کا جذبہ ابھار کر اب اصل حکم ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں اللہ کے راستے میں قتال کرو تمہارے سامنے کفر کی طاقتیں پوری طرح مسلح ہوچکی ہیں اور وہ تمہیں ہر ممکن طریقے سے ختم کردینے پر تلی ہوئی ہیں۔ ان کی بےدینی اور ان کا شرک انھیں تمہاری بیخ کنی پر ابھار رہا ہے اور تم لوگ جو اللہ کے سپاہی ہو اور جنھیں دنیا میں ایک صالح انقلاب برپا کرنا ہے تمہارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ تم سر دھڑ کی بازی لگا دو اور اللہ کے راستے میں ہر طرح کے مصائب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور جہاد و قتال سے اپنے دشمنوں پر یہ ثابت کردو کہ تم مخالفتوں اور مشکلات سے گبھرانے والے نہیں ہو۔ اور نہ دشمنوں کی کثرت تمہیں ہراساں کرسکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات یاد رکھو کہ اللہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔ تم اپنے اللہ سے جو مانگو گے وہ اسے سنے گا اور اس کے بارے میں جس طرح کا احساس رکھو گے وہ اسے بھی جانتا ہے۔ دلوں میں چھپی ہوئی باتوں سے وہ آگاہ ہے۔ اس لیے اگر تم اس سے وابستگی کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو پھر اپنے دلوں کی دنیا کو اسی کی محبت ‘ اسی کی یاد اور اسی کے لیے غیرت سے آباد کرو۔ وہ تمہاری ہر حالت سے واقف ہے اس لیے کبھی اپنے آپ کو بےبس اور بےکس نہ سمجھو۔ انفاق کا حکم دوسری آیت کریمہ میں انفاق کا حکم دیا۔ کیونکہ جس طرح حق کی سربلندی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے اسی طرح جہاد و قتال کی تیاری کے لیے انفاق بھی کرنا ضروری ہے۔ مومن کا بھروسہ اگرچہ اللہ پر ہوتا ہے لیکن اسے اسلحہ جنگ کی بہرصورت ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کی نصرت و تائید اپنی جگہ لیکن فوج کے مصارف کے لیے پیسے کی ضرورت تو ناگزیر ہے۔ اس لیے یہاں قتال کے بعد انفاق کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس کا ذکر ایسے دلنواز انداز میں کیا کہ اس سے جھوم اٹھنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو بلکہ فرمایا کہ جہاد و قتال کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے بتائو تم میں سے کون اللہ کو قرض دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے تم جو بھی اس راستے میں خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی واپسی کی ضمانت دیتا ہے۔ کیونکہ قرض ایسی رقم یا ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی واپسی قرض لینے والے پر ضروری ہوتی ہے۔ ایک مومن جب اللہ کے راستے میں انفاق کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اللہ کو قرض دیتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ وہ یہ قرض دوگنا چوگنا کر کے قرض دینے والے کو واپس کرے۔ اللہ کی عنایات اپنے بندوں پر بےپایاں ہیں جن ان کا شمار ممکن نہیں۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ کسی شخص کے پاس بھی اگر کوئی مال و دولت ہے تو وہ اس کا اپنا نہیں بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔ اس کی دین اور بخشش ہے۔ اگر اللہ ہی کے راستے میں اسے خرچ کیا جائے تو وہ تو امانت کی ادائیگی کی ایک صورت ہے۔ لیکن اس کا کرم ملاحظہ کیجئے کہ وہ اپنے دیے ہوئے مال کو اپنا نہیں بلکہ مال داروں کا ارشاد فرما رہا ہے۔ اور پھر ان سے انھیں پر خرچ کیا جانے والا اپنے ذمے قرض ٹھہرا رہا ہے کہ تم اطمینان سے اللہ کے راستے میں خرچ کرو میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں کہ تمہاری ایک ایک پائی اس طرح واپس ہوگی کہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ حدیث میں اس کو مثال سے واضح فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” جب کوئی بندہ میرے راستے میں میرے نام پر دیتا ہے تو میں اسے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہوں اور پھر اسے اس طرح بڑھاتا ہوں جیسے تم اپنے گھوڑوں کے بچوں کو پالتے ہو۔ اور وہ میرے ہاتھ میں بڑھتے بڑھتے اتنا عظیم ہوجاتا ہے کہ احد پہاڑ بھی اس کے مقابلے میں پست ہوجاتا ہے۔ “ مزید اس بات پر توجہ فرمایئے کہ یہاں قرض کو قرض حسن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض دینے والا دل کی آمادگی اور خلوص نیت سے قرض دے۔ وہ محض چھدہ نہ اتارے بلکہ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کر کے خوشی محسوس کرے۔ اور قرض بھی ایسے مال میں سے دے جو حلال اور طیب ہو۔ اور اللہ کے راستے میں وہ چیز دے جو اسے انتہائی پسند ہو۔ قرآن و سنت کی یہی وہ ترغیبات ہیں جس کے نتیجے میں صحابہ کرام اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں لٹا دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایک صحابی ہیں جن کا نام ابو الدحداح ( رض) ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے پوچھا اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ قرض سے مستغنی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنت میں داخل کردیں۔ ابو الدحداح ( رض) نے یہ سن کر کہا اللہ کے رسول ہاتھ بڑھائیں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ ابوالدحداح ( رض) نے یہ کہنا شروع کیا میں کھجور کے دو باغوں کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ میری ملک میں کچھ نہیں۔ میں اپنے یہ دونوں باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ایک اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے لیے باقی رکھو۔ ابو الدحداح ( رض) نے کہا آپ ﷺ گواہ رہیے ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے 600 درخت ہیں اس کو میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اس پر نہایت مسرور ہو کر فرمایا : کم من عذقٍ رداحٍ و دار فیاحٍ لاب الدحداح (کھجوروں سے لبریز بیشمار درخت اور کشادہ محلات کس قدر ابوالدحداح کے لیے تیار ہیں) ابو الدحداح ( رض) گھر تشریف لائے ‘ آپ ( رض) کا گھر چونکہ باغ کے اندر تھا اس لیے باغ کے کنارے کھڑے ہو کر آواز دی ” یا ام الدحداح ! اے دحداح کی ماں ! بچوں کو لے کر باہر آجاؤ میں یہ باغ اللہ کو قرض دے چکا ہوں۔ “ بیوی یہ سن کر نہایت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں ” اے دحداح کے ابا ! آپ نے بہت اچھا سودا کیا۔ “
Top