Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور بشارت دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے، اس بات کی کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہی ہیں جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا، حالانکہ وہ دئیے گئے اس سے ملتا جلتا، اور ان کے لیے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًالا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 25) (اور بشارت دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے، اس بات کی کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہی ہیں جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا، حالانکہ وہ دئیے گئے اس سے ملتا جلتا، اور ان کے لیے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے (اور یہ اسلوب انسانی فطرت کے عین مطابق ہے) کہ جب وہ انکار کرنے والوں ناشکری کرنے والوں یا بد عملی کرنے والوں کو اپنے عذاب سے ڈراتا ہے اور انھیں ان کے برے انجام سے آگاہ کرتا ہے تو ساتھ ہی ان لوگوں کو جو ایمان لاتے اور نیک اعمال اختیار کرتے ہیں انھیں اچھے انجام اور اپنی رحمتوں اور نوازشوں کی بشارت بھی دیتا ہے۔ اللہ نے انسانی فطرت اس طرح کی بنائی ہے اور انسانی طبیعتوں کو اس طرح کے پیمانے میں ڈھالا ہے کہ وہ کسی بھی ذمہ داری کے کام کے لیے جلدی آمادہ نہیں ہوتا بالخصوص جس کام کے لیے اسے محنت کرنی پڑے یا مشقت سے گزرنا پڑے تو وہ اپنی طبیعت کو آسانی سے اس کے لیے ہموار نہیں کرسکتا ایسی صورت میں اسے آمادہ عمل کرنے کے لیے دو ہی طریقے موثر ہوتے ہیں۔ (1) ترغیب (2) ترہیب۔ یعنی کسی انعام یا کسی معاوضے کی خواہش انسان کو عمل کے لیے اکساتی ہے۔ یا عمل نہ کرنے کی صورت میں کسی نقصان کا اندیشہ یا کسی سزا کا خوف اسے عمل پر مجبور کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بنیادی طور پر معقولیت پسند ہے۔ عقل کی بات اسے اپیل کرتی ہے اور نیکی کی بات اسے اچھی لگتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ گردوپیش کے اثرات طبیعتوں پر اتنے غالب آجاتے ہیں کہ طبیعتوں کا ان سے آزاد ہونا کسی بڑے محرک کا محتاج ہوتا ہے۔ اور وہ محرک ترغیب یاترہیب کی صورت میں وجود میں آتا ہے۔ قرآن کریم بھی سب سے پہلے اپنی دعوت کو طبیعتوں میں اتارنے کے لیے دلائل سے کام لیتا ہے۔ عقل پسند اور حالات کے مقابلہ کرنے کے قابل طبیعتیں دلائل سے متاثر ہو کر قرآن کریم کی دعوت کو قبول کرلیتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ تھوڑی رہی ہے۔ اس لیے عام انسانی حالت کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم عموما ترغیب اور ترہیب سے کام لیتا ہے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ توحید و رسالت پر پہلے ایسے دلائل دئیے گئے جنھیں ہم دلائل قاطعہ اور حجج بالغہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن جو طبیعتیں یا جو لوگ ایسے دلائل کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کے دل و دماغ پر جمی ہوئی گرد ان دلائل سے اترنے نہیں پاتی تو ان کے لیے پروردگار نے پہلے ترہیب سے کام لیا اور انھیں یہ کہہ کر ان کے انجام سے ڈرایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب کو اس کا چیلنج قبول کرنے میں ناکام ہو کر بھی کتاب اللہ ماننے سے انکار کرتے ہو تو پھر اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور اس کے بعد اپنے اسلوب کے مطابق ان لوگوں کو بشارت سے نوازا جنھوں نے اللہ کی توحید رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کو اللہ کی کتاب ماننے کا اقرار کیا اور اس کے دئیے ہوئے نظام زندگی کے مطابق زندگی کارویہ بنانے کے لیے تیار ہوگئے۔ کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ عذابِ جہنم سے بچنے کے لیے اعمالِ صالحہ بھی ضروری ہیں یہاں بطور خاص ایک بات کو ذہین نشین کرلینا چاہیے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں جن لوگوں کو بشارت دی جارہی ہے ان کی دو صفات بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ایمان لائے ہر اس چیز پر جس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے نیک عمل کیئے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے صرف ایمان کافی نہیں اس کے لیے اعمال صالحہ بھی ضروری ہیں۔ ایک شخص جو ایمانیات کو مان کر مومن بن جاتا ہے، لیکن وہ اللہ کی شریعت کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا ارکانِ اسلام کی فکر نہیں کرتافرائض کی پابندی نہیں کرتامکارمِ اخلاق کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتا ایسا شخص فقہ کی نگاہ میں اور مسلمانوں کے رجسٹر میں تو ضرور مسلمان کہلائے گا البتہ اسے گناہ گار مسلمان کہیں گے اور یہ محض ایمان اسے جہنم کے ابدی عذاب سے بھی شاید بچالے۔ لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ میں جہنم کی آگ سے بچ جاؤں اور مجھے کسی طرح کا بھی عذاب نہ ہو اور میں حساب کتاب کے بعد سیدھا جنت پہنچ جاؤں تو یہ اعمال صالحہ کے بغیرممکن نہیں۔ اعمال صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جو اللہ کی شریعت کے مطابق حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ محض اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر ایک آدمی شرعی احکام کی پابندی تو کرتا ہے لیکن اس کی نیت میں اخلاص نہیں یا اس کے عقیدے میں شرک کی آمیزش ہے۔ یا پیش نظر اللہ کی رضا نہیں تو ایسا عمل عمل صالح نہیں کہلاتا اور اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ مسلمانوں میں زوال کا شکار ہونے کے بعد جو مفاسد پیدا ہوئے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فسادیہ ہے کہ ایمان بھی بےمیل نہ رہا اخلاص دلوں سے جاتارہا، حسن نیت کا تصور ہی اپنی اہمیت کھو بیٹھا، لیکن اس سے بھی بڑی خرابی یہ پید اہوئی کہ صرف ایمانی دعویٰ کو عمل کی پابندی کے بغیر کافی سمجھ لیا گیا۔ جو آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے چاہے اس کے اعمال قرآن وسنت کے یکسر خلاف ہوں، اسے مومن سمجھ لیا جاتا ہے بلکہ بہت سے لوگ تو یہاں تک جسارت کر گزرتے ہیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں کون اچھا ہے اور کون برا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھائی اور برائی محض زبانی باتیں ہیں جن کا کوئی عملی وجود نہیں۔ اس آیت کریمہ میں صاف بتایا گیا ہے کہ اللہ جن لوگوں کو بشارت کے قابل سمجھتا ہے وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔ انہی کے لیے اللہ کی جنت ہے اور اللہ کے انعامات ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ متشابھًا کا مفہوم قرآن کریم میں یہاں بھی اور اس کے علاوہ بیسیوں مقامات پر جنت کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ وہ ایسے باغات ہوں کے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ عرب جیسے صحرائی اور ریگستانی علاقے میں سرسبز باغ اللہ کی بیش بہا نعمت تھی۔ اور ویسے بھی میدانی علاقوں میں بھی باغات کی قدروقیمت اور اس کی دل آویزی ہمیشہ انسانی آرزئوں میں نمایاں مقام کی حامل رہی ہیں۔ کوئی بھی مصنوعی منظر باغ کی دل آویزی کا مماثل نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کریم باغوں میں سے بھی جنت کے باغات کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ کیونکہ باغ کا سب سے زیادلکش تصور یہ ہے کہ وہ بلندی پر ہو اور اس کے نیچے نہر جاری ہو۔ بلندی اس کے منظر کی دل کشی میں اضافہ کرتی ہے اور سیلاب وغیرہ کی آفتوں سے محفوظ رکھتی ہے اور نیچے بہنے والی نہر اس کی شادابی کی ضمانت دیتی ہے۔ سورة بقرۃ ہی کی آیت نمبر 265 میں تو بطور خاص اس کا ذکر فرمایا کمثل جنۃ بربوۃ کہ ایسا باغ جو بلندی پر ہو۔” ربوۃ “ بلند جگہ یا بلند ٹیلے کو کہتے ہیں۔ تو مقصود اس سے جنت کی دل آویزی، سرسبزی، شادابی اور دل کشی کو نمایاں کرنا ہے۔ اس کے بعد جنت میں اہل جنت کو جو نعمتیں میسر آئیں گی اور جو انھیں عیش دوام نصیب ہوگا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت کی نعمتوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی اہل جنت کو کھانے کے لیے کوئی پھل دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ پھلوں کی افراط ہوگی اور درختوں کے ساتھ اس طرح پھل لٹک رہے ہوں گے کہ کھانے سے پہلے ان کی دل کشی ہی انسان کی لذت کو دوچند کرنے کے لیے کافی ہوگی جنت کا ہر باسی جب اس منظر کی خوبصورتی اور رعنائی میں ڈوبا ہوا ہوگا تو خدام پھلوں کے طشت سجائے جب انھیں اپنی طرف متوجہ کریں گے، تو وہ دیکھ کر یہ کہیں گے (یہاں کہنے سے عربی اسلوب کے مطابق دونوں ہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے یا جی ہی جی میں کہیں گے) کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو اس سے پہلے ہمیں دئیے جاچکے ہیں اس کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب تو یہ کہ تھوڑی دیر پہلے خدام نے جو ہماری خدمت میں پھل پیش کیے تھے وہ اسی طرح کے تھے اور یہ بھی اسی قسم کے پھل ہیں۔ لیکن جب وہ انھیں کھا کردیکھیں گے تو ان کا مزا اور ان کی لذت اور ان کی خوشبو پہلے کھائے ہوئے پھلوں سے اس قدر مختلف ہوگی اور وہ اس قدر خوش ذائقہ ہوں گے کہ وہ حیران ہو کر رہ جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ اللہ کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں وہ جس فراوانی سے پھل پیدا کرتا ہے اور پھر پھلوں میں جس قدر تنوع پیدا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ لطف ولذت میں ایسی ایسی جدتیں پیدا کرسکتا ہے جو انسان کے خواب و خیال میں بھی نہیں گزرسکتیں۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ پھل جو ہمارے سامنے پیش کیے جارہے ہیں، یہ اپنی شکل و صورت اور رنگ روپ میں بالکل ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے ہمیں دنیا میں عطا فرمائے تھے وہاں آم دیا تھا تو کئی کئی قسموں پر مشتمل اور لطف ولذت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف اور انگور دئیے تھے تو قدو قامت اور مزے اور لذت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر یہ جنت کے پھل بھی معلوم ہوتا ہے اپنی ساری خوبی اور رعنائی کے باوجود ویسے ہی ہیں جیسے ہم دنیا میں کھاچکے ہیں۔ لیکن جب وہ انھیں کھاکر دیکھیں گے تب انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ پھل تو دنیا کے پھلوں سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ جنت کے پھل محض ان کے ہم شکل تھے لیکن شکل و صورت کے علاوہ کسی چیز میں بھی وہ ان کے ہمسر نہ تھے۔ قرآن کریم نے اس بات کو بھی ایک سے زیادہ جگہ بیان کیا ہے کہ جنت میں اہل جنت کو نہ پیاس لگے گی نہ بھوک کی تکلیف ہوگی۔ یعنی وہ تمام عوارض اور وہ تمام حاجات جو انسان کی مشکل کا باعث بھی ہیں اور کمزوری کا بھی اور اگر بروقت انھیں پورا کرنے کا موقع نہ ملے تو وہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ غذ ا کی یافت میں اگر تاخیر ہوجائے اور بھوک کا دورانیہ بڑھ جانے کے باعث ناقابل برداشت ہونے لگے۔ تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہی بھوک اور اشتہا جو نعمتوں میں لطف ولذت کا حقیقی سبب ہے کس قدر تکلیف دہ بھی ہے۔ جب بھوک برداشت نہیں ہوتی تو کمردوہری ہونے لگتی ہے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کمر سیدھی رکھنے کے لیے اور چلنے اور کام کرنے کی آسانی پیدا کرنے کے لیے عرب پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ لیکن جنت میں آدمی کو بھوک نہیں لگے گی۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھوک کے بغیر بہتر سے بہتر کھانا اور بہتر سے بہتر نعمت آدمی کو مزا نہیں دیتی۔ بھوک ہو تو نان جویں بھی خوش ذائفہ معلوم ہوتا ہے۔ بھوک نہ ہو تو مرغ مسلم بھی کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن جنت میں اللہ کا عجیب احسان ہوگا کہ انسان کو کوئی حاجت لاحق نہیں ہوگی۔ بھوک لگے گی نہ پیاس لیکن اس کے باوجود جنت کی نعمتیں انھیں مزا دیں گی وہ جتنی کھائیں گے ہر دفعہ نئے لطف و لذت سے شاد کام ہوں گے۔ انسانی احساسات اللہ نے اس طرح تخلیق فرمائے ہیں کہ ان کے تقاضوں کی بجاآوری محض غذائی ضرورتیں پورا کردینے سے نہیں ہوتی کسی آدمی کو محل میں رہائش دے دیجئے خدام خدمت میں لگا دیجئے۔ ضرورت کی ہر چیز بافراط مہیا کردیجئے۔ لیکن کسی کو اس سے ملنے نہ دیجئے۔ اسے تنہائی میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیجئے یقین جانئے وہ شخص متذکرہ بالا نعمتوں کے باوجود خود کشی کرنے پر تیار ہوجائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انسانی احساسات کا تقاضا صرف غذائی ضروت کا پورا ہونا ہی نہیں بلکہ انسانوں سے ملنا اور دوست احباب کے ساتھ بزم آرائی بھی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کو قید ِتنہائی میں رکھا گیا ضروریات زندگی کی کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن آپ جیسا صابر آدمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا ؎ قید اور قید بھی تنہائی کی شرم رہ جائے شکیبائی کی دوست احباب سے بڑھ کر انسانی احساس کی سیرابی اور زندگی کی خوشگواری کے لیے مرد کو بیوی کی اور عورت کو شوہر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت صرف جوانی میں نہیں بڑھاپے میں بھی علیٰ حالہٖ قائم رہتی ہے۔ اللہ نے مرد و عورت کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ہر ایک کی شخصیت میں ایک جھول رکھا ہے جو دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لیے مرد بیوی کے بغیر اور بیوی شوہر کے بغیر اپنی شخصیت میں نامکمل رہتے ہیں۔ دونوں کے احساسات کی سیرابی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اللہ سے ڈرنے والے اسلامی قالب میں ڈھلے ہوئے، مکارمِ اخلاق کے پیکر اور شائستہ اطوار ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے جیتے اور ایک دوسرے کے لیے مرتے ہوں اور اللہ کے خوف نے جس طرح انھیں حقوق آشنا بنایاہو اسی طرح ان کے اندرونی احساسات کی تہذیب بھی کی ہو۔ ایسی صورتحال میں تنگی وترشی اور خوشحالی و بدحالی اضافی چیزیں ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ازواجِ مطہرۃ کا مفہوم میری ان گزارشات کو پیش نظر رکھئے اور پھر دیکھئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں میں بطور خاص ازواج مطھرۃ کا ذکر فرمایا ہے جس کا ترجمہ عام طور پر ” پاکیزہ بیویاں “ کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ازواج، زوج کی جمع ہے۔ اس کا اطلاق شوہر پر بھی ہوتا ہے اور بیوی پر بھی کیونکہ زوج کا معنی ہے ” جوڑا “ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے جوڑا ہیں۔ مطہرہ مؤنث ہونے کی وجہ سے یہ گمان کیا گیا ہے کہ یہاں بیویوں کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مؤنث جمع کی صفت کے طور پر بھی آتا ہے، چاہے وہ جمع مذکر ہو یا مؤنث۔ اس لیے اگر ازواج مطہرہ سے شوہر اور بیوی دونوں مراد لیے جائیں تو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت میں اللہ تعالیٰ اہل ِ جنت کو جو بیش بہا نعمتیں عطا فرمائیں گے ان میں ایک بہت بڑی نعمت یہ بھی ہوگی کہ مرد اور عورت دونوں کو ایسے جوڑے دئیے جائیں گے ( یعنی مرد کو بیوی اور عورت کو شوہر) جو مطہر ہوں گے۔ مطہر کا مطلب یہ ہے کہ جن کی فکری اور عملی تطہیر ہوچکی ہوگی، جنھیں تربیت سے یا من جانب اللہ اس طرح شائستہ بنادیا ہوگا کہ نہ ان کی فکر میں کجی ہوگی نہ عمل میں خرابی اور نہ مزاج میں ناہمواری۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سرتاپا ہمدردی اور خیر خواہی ہوں گے۔ ان کے مزاج اور ان کی فکر میں اسقدر ہم آہنگی ہوگی کہ سوچ سے لے کر عمل تک کہیں اختلاف جنم نہیں لے گا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مسرت اور خوشی کا باعث ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ جنت میں یہ قیام اور یہ نعمتوں کی فراوانی اور یہ میاں بیوی کی ہم آہنگی سے جو مسرتوں سے بھرپور ماحول میسر آئے گا اس ماحول سے اہل ِ جنت کو کبھی نکلنے کا حکم نہیں دیا جائے گا وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ انھیں کبھی موت آئے گی نہ ان نعمتوں کو کبھی زوال ہوگا۔
Top