Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ
: اور خوشخبری دو جو لوگ
آمَنُوْا
: ایمان لائے
وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ
: اور انہوں نے عمل کئے نیک
اَنَّ لَهُمْ
: کہ ان کے لئے
جَنَّاتٍ
: باغات
تَجْرِیْ
: بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِهَا
: ان کے نیچے سے
الْاَنْهَارُ
: نہریں
كُلَّمَا
: جب بھی
رُزِقُوْا
: کھانے کو دیا جائے گا
مِنْهَا
: اس سے
مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ
: سے۔ کوئی پھل
رِزْقًا
: رزق
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
هٰذَا الَّذِیْ
: یہ وہ جو کہ
رُزِقْنَا
: ہمیں کھانے کو دیا گیا
مِنْ
: سے
قَبْلُ
: پہلے
وَأُتُوْا
: حالانکہ انہیں دیا گیا ہے
بِهٖ
: اس سے
مُتَشَابِهًا
: ملتا جلتا
وَلَهُمْ
: اور ان کے لئے
فِیْهَا
: اس میں
اَزْوَاجٌ
: بیویاں
مُطَهَّرَةٌ
: پاکیزہ
وَهُمْ
: اور وہ
فِیْهَا
: اس میں
خَالِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
اور بشارت دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے، اس بات کی کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہی ہیں جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا، حالانکہ وہ دئیے گئے اس سے ملتا جلتا، اور ان کے لیے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُط کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًالا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (البقرۃ : 25) (اور بشارت دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے، اس بات کی کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جب جب ان کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہی ہیں جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا، حالانکہ وہ دئیے گئے اس سے ملتا جلتا، اور ان کے لیے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے (اور یہ اسلوب انسانی فطرت کے عین مطابق ہے) کہ جب وہ انکار کرنے والوں ناشکری کرنے والوں یا بد عملی کرنے والوں کو اپنے عذاب سے ڈراتا ہے اور انھیں ان کے برے انجام سے آگاہ کرتا ہے تو ساتھ ہی ان لوگوں کو جو ایمان لاتے اور نیک اعمال اختیار کرتے ہیں انھیں اچھے انجام اور اپنی رحمتوں اور نوازشوں کی بشارت بھی دیتا ہے۔ اللہ نے انسانی فطرت اس طرح کی بنائی ہے اور انسانی طبیعتوں کو اس طرح کے پیمانے میں ڈھالا ہے کہ وہ کسی بھی ذمہ داری کے کام کے لیے جلدی آمادہ نہیں ہوتا بالخصوص جس کام کے لیے اسے محنت کرنی پڑے یا مشقت سے گزرنا پڑے تو وہ اپنی طبیعت کو آسانی سے اس کے لیے ہموار نہیں کرسکتا ایسی صورت میں اسے آمادہ عمل کرنے کے لیے دو ہی طریقے موثر ہوتے ہیں۔ (1) ترغیب (2) ترہیب۔ یعنی کسی انعام یا کسی معاوضے کی خواہش انسان کو عمل کے لیے اکساتی ہے۔ یا عمل نہ کرنے کی صورت میں کسی نقصان کا اندیشہ یا کسی سزا کا خوف اسے عمل پر مجبور کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بنیادی طور پر معقولیت پسند ہے۔ عقل کی بات اسے اپیل کرتی ہے اور نیکی کی بات اسے اچھی لگتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ گردوپیش کے اثرات طبیعتوں پر اتنے غالب آجاتے ہیں کہ طبیعتوں کا ان سے آزاد ہونا کسی بڑے محرک کا محتاج ہوتا ہے۔ اور وہ محرک ترغیب یاترہیب کی صورت میں وجود میں آتا ہے۔ قرآن کریم بھی سب سے پہلے اپنی دعوت کو طبیعتوں میں اتارنے کے لیے دلائل سے کام لیتا ہے۔ عقل پسند اور حالات کے مقابلہ کرنے کے قابل طبیعتیں دلائل سے متاثر ہو کر قرآن کریم کی دعوت کو قبول کرلیتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ تھوڑی رہی ہے۔ اس لیے عام انسانی حالت کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم عموما ترغیب اور ترہیب سے کام لیتا ہے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ توحید و رسالت پر پہلے ایسے دلائل دئیے گئے جنھیں ہم دلائل قاطعہ اور حجج بالغہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن جو طبیعتیں یا جو لوگ ایسے دلائل کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کے دل و دماغ پر جمی ہوئی گرد ان دلائل سے اترنے نہیں پاتی تو ان کے لیے پروردگار نے پہلے ترہیب سے کام لیا اور انھیں یہ کہہ کر ان کے انجام سے ڈرایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب کو اس کا چیلنج قبول کرنے میں ناکام ہو کر بھی کتاب اللہ ماننے سے انکار کرتے ہو تو پھر اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور اس کے بعد اپنے اسلوب کے مطابق ان لوگوں کو بشارت سے نوازا جنھوں نے اللہ کی توحید رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کو اللہ کی کتاب ماننے کا اقرار کیا اور اس کے دئیے ہوئے نظام زندگی کے مطابق زندگی کارویہ بنانے کے لیے تیار ہوگئے۔ کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ عذابِ جہنم سے بچنے کے لیے اعمالِ صالحہ بھی ضروری ہیں یہاں بطور خاص ایک بات کو ذہین نشین کرلینا چاہیے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں جن لوگوں کو بشارت دی جارہی ہے ان کی دو صفات بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ایمان لائے ہر اس چیز پر جس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے نیک عمل کیئے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے صرف ایمان کافی نہیں اس کے لیے اعمال صالحہ بھی ضروری ہیں۔ ایک شخص جو ایمانیات کو مان کر مومن بن جاتا ہے، لیکن وہ اللہ کی شریعت کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا ارکانِ اسلام کی فکر نہیں کرتافرائض کی پابندی نہیں کرتامکارمِ اخلاق کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتا ایسا شخص فقہ کی نگاہ میں اور مسلمانوں کے رجسٹر میں تو ضرور مسلمان کہلائے گا البتہ اسے گناہ گار مسلمان کہیں گے اور یہ محض ایمان اسے جہنم کے ابدی عذاب سے بھی شاید بچالے۔ لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ میں جہنم کی آگ سے بچ جاؤں اور مجھے کسی طرح کا بھی عذاب نہ ہو اور میں حساب کتاب کے بعد سیدھا جنت پہنچ جاؤں تو یہ اعمال صالحہ کے بغیرممکن نہیں۔ اعمال صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جو اللہ کی شریعت کے مطابق حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ محض اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر ایک آدمی شرعی احکام کی پابندی تو کرتا ہے لیکن اس کی نیت میں اخلاص نہیں یا اس کے عقیدے میں شرک کی آمیزش ہے۔ یا پیش نظر اللہ کی رضا نہیں تو ایسا عمل عمل صالح نہیں کہلاتا اور اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ مسلمانوں میں زوال کا شکار ہونے کے بعد جو مفاسد پیدا ہوئے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فسادیہ ہے کہ ایمان بھی بےمیل نہ رہا اخلاص دلوں سے جاتارہا، حسن نیت کا تصور ہی اپنی اہمیت کھو بیٹھا، لیکن اس سے بھی بڑی خرابی یہ پید اہوئی کہ صرف ایمانی دعویٰ کو عمل کی پابندی کے بغیر کافی سمجھ لیا گیا۔ جو آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے چاہے اس کے اعمال قرآن وسنت کے یکسر خلاف ہوں، اسے مومن سمجھ لیا جاتا ہے بلکہ بہت سے لوگ تو یہاں تک جسارت کر گزرتے ہیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں کون اچھا ہے اور کون برا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھائی اور برائی محض زبانی باتیں ہیں جن کا کوئی عملی وجود نہیں۔ اس آیت کریمہ میں صاف بتایا گیا ہے کہ اللہ جن لوگوں کو بشارت کے قابل سمجھتا ہے وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔ انہی کے لیے اللہ کی جنت ہے اور اللہ کے انعامات ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ متشابھًا کا مفہوم قرآن کریم میں یہاں بھی اور اس کے علاوہ بیسیوں مقامات پر جنت کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ وہ ایسے باغات ہوں کے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ عرب جیسے صحرائی اور ریگستانی علاقے میں سرسبز باغ اللہ کی بیش بہا نعمت تھی۔ اور ویسے بھی میدانی علاقوں میں بھی باغات کی قدروقیمت اور اس کی دل آویزی ہمیشہ انسانی آرزئوں میں نمایاں مقام کی حامل رہی ہیں۔ کوئی بھی مصنوعی منظر باغ کی دل آویزی کا مماثل نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کریم باغوں میں سے بھی جنت کے باغات کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ کیونکہ باغ کا سب سے زیادلکش تصور یہ ہے کہ وہ بلندی پر ہو اور اس کے نیچے نہر جاری ہو۔ بلندی اس کے منظر کی دل کشی میں اضافہ کرتی ہے اور سیلاب وغیرہ کی آفتوں سے محفوظ رکھتی ہے اور نیچے بہنے والی نہر اس کی شادابی کی ضمانت دیتی ہے۔ سورة بقرۃ ہی کی آیت نمبر 265 میں تو بطور خاص اس کا ذکر فرمایا کمثل جنۃ بربوۃ کہ ایسا باغ جو بلندی پر ہو۔” ربوۃ “ بلند جگہ یا بلند ٹیلے کو کہتے ہیں۔ تو مقصود اس سے جنت کی دل آویزی، سرسبزی، شادابی اور دل کشی کو نمایاں کرنا ہے۔ اس کے بعد جنت میں اہل جنت کو جو نعمتیں میسر آئیں گی اور جو انھیں عیش دوام نصیب ہوگا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت کی نعمتوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی اہل جنت کو کھانے کے لیے کوئی پھل دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ پھلوں کی افراط ہوگی اور درختوں کے ساتھ اس طرح پھل لٹک رہے ہوں گے کہ کھانے سے پہلے ان کی دل کشی ہی انسان کی لذت کو دوچند کرنے کے لیے کافی ہوگی جنت کا ہر باسی جب اس منظر کی خوبصورتی اور رعنائی میں ڈوبا ہوا ہوگا تو خدام پھلوں کے طشت سجائے جب انھیں اپنی طرف متوجہ کریں گے، تو وہ دیکھ کر یہ کہیں گے (یہاں کہنے سے عربی اسلوب کے مطابق دونوں ہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے یا جی ہی جی میں کہیں گے) کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو اس سے پہلے ہمیں دئیے جاچکے ہیں اس کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب تو یہ کہ تھوڑی دیر پہلے خدام نے جو ہماری خدمت میں پھل پیش کیے تھے وہ اسی طرح کے تھے اور یہ بھی اسی قسم کے پھل ہیں۔ لیکن جب وہ انھیں کھا کردیکھیں گے تو ان کا مزا اور ان کی لذت اور ان کی خوشبو پہلے کھائے ہوئے پھلوں سے اس قدر مختلف ہوگی اور وہ اس قدر خوش ذائقہ ہوں گے کہ وہ حیران ہو کر رہ جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ اللہ کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں وہ جس فراوانی سے پھل پیدا کرتا ہے اور پھر پھلوں میں جس قدر تنوع پیدا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ لطف ولذت میں ایسی ایسی جدتیں پیدا کرسکتا ہے جو انسان کے خواب و خیال میں بھی نہیں گزرسکتیں۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ پھل جو ہمارے سامنے پیش کیے جارہے ہیں، یہ اپنی شکل و صورت اور رنگ روپ میں بالکل ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے ہمیں دنیا میں عطا فرمائے تھے وہاں آم دیا تھا تو کئی کئی قسموں پر مشتمل اور لطف ولذت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف اور انگور دئیے تھے تو قدو قامت اور مزے اور لذت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر یہ جنت کے پھل بھی معلوم ہوتا ہے اپنی ساری خوبی اور رعنائی کے باوجود ویسے ہی ہیں جیسے ہم دنیا میں کھاچکے ہیں۔ لیکن جب وہ انھیں کھاکر دیکھیں گے تب انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ پھل تو دنیا کے پھلوں سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ جنت کے پھل محض ان کے ہم شکل تھے لیکن شکل و صورت کے علاوہ کسی چیز میں بھی وہ ان کے ہمسر نہ تھے۔ قرآن کریم نے اس بات کو بھی ایک سے زیادہ جگہ بیان کیا ہے کہ جنت میں اہل جنت کو نہ پیاس لگے گی نہ بھوک کی تکلیف ہوگی۔ یعنی وہ تمام عوارض اور وہ تمام حاجات جو انسان کی مشکل کا باعث بھی ہیں اور کمزوری کا بھی اور اگر بروقت انھیں پورا کرنے کا موقع نہ ملے تو وہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ غذ ا کی یافت میں اگر تاخیر ہوجائے اور بھوک کا دورانیہ بڑھ جانے کے باعث ناقابل برداشت ہونے لگے۔ تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہی بھوک اور اشتہا جو نعمتوں میں لطف ولذت کا حقیقی سبب ہے کس قدر تکلیف دہ بھی ہے۔ جب بھوک برداشت نہیں ہوتی تو کمردوہری ہونے لگتی ہے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کمر سیدھی رکھنے کے لیے اور چلنے اور کام کرنے کی آسانی پیدا کرنے کے لیے عرب پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ لیکن جنت میں آدمی کو بھوک نہیں لگے گی۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھوک کے بغیر بہتر سے بہتر کھانا اور بہتر سے بہتر نعمت آدمی کو مزا نہیں دیتی۔ بھوک ہو تو نان جویں بھی خوش ذائفہ معلوم ہوتا ہے۔ بھوک نہ ہو تو مرغ مسلم بھی کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن جنت میں اللہ کا عجیب احسان ہوگا کہ انسان کو کوئی حاجت لاحق نہیں ہوگی۔ بھوک لگے گی نہ پیاس لیکن اس کے باوجود جنت کی نعمتیں انھیں مزا دیں گی وہ جتنی کھائیں گے ہر دفعہ نئے لطف و لذت سے شاد کام ہوں گے۔ انسانی احساسات اللہ نے اس طرح تخلیق فرمائے ہیں کہ ان کے تقاضوں کی بجاآوری محض غذائی ضرورتیں پورا کردینے سے نہیں ہوتی کسی آدمی کو محل میں رہائش دے دیجئے خدام خدمت میں لگا دیجئے۔ ضرورت کی ہر چیز بافراط مہیا کردیجئے۔ لیکن کسی کو اس سے ملنے نہ دیجئے۔ اسے تنہائی میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیجئے یقین جانئے وہ شخص متذکرہ بالا نعمتوں کے باوجود خود کشی کرنے پر تیار ہوجائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انسانی احساسات کا تقاضا صرف غذائی ضروت کا پورا ہونا ہی نہیں بلکہ انسانوں سے ملنا اور دوست احباب کے ساتھ بزم آرائی بھی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کو قید ِتنہائی میں رکھا گیا ضروریات زندگی کی کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن آپ جیسا صابر آدمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا ؎ قید اور قید بھی تنہائی کی شرم رہ جائے شکیبائی کی دوست احباب سے بڑھ کر انسانی احساس کی سیرابی اور زندگی کی خوشگواری کے لیے مرد کو بیوی کی اور عورت کو شوہر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت صرف جوانی میں نہیں بڑھاپے میں بھی علیٰ حالہٖ قائم رہتی ہے۔ اللہ نے مرد و عورت کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ہر ایک کی شخصیت میں ایک جھول رکھا ہے جو دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس لیے مرد بیوی کے بغیر اور بیوی شوہر کے بغیر اپنی شخصیت میں نامکمل رہتے ہیں۔ دونوں کے احساسات کی سیرابی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اللہ سے ڈرنے والے اسلامی قالب میں ڈھلے ہوئے، مکارمِ اخلاق کے پیکر اور شائستہ اطوار ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے جیتے اور ایک دوسرے کے لیے مرتے ہوں اور اللہ کے خوف نے جس طرح انھیں حقوق آشنا بنایاہو اسی طرح ان کے اندرونی احساسات کی تہذیب بھی کی ہو۔ ایسی صورتحال میں تنگی وترشی اور خوشحالی و بدحالی اضافی چیزیں ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ازواجِ مطہرۃ کا مفہوم میری ان گزارشات کو پیش نظر رکھئے اور پھر دیکھئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں میں بطور خاص ازواج مطھرۃ کا ذکر فرمایا ہے جس کا ترجمہ عام طور پر ” پاکیزہ بیویاں “ کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ازواج، زوج کی جمع ہے۔ اس کا اطلاق شوہر پر بھی ہوتا ہے اور بیوی پر بھی کیونکہ زوج کا معنی ہے ” جوڑا “ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے جوڑا ہیں۔ مطہرہ مؤنث ہونے کی وجہ سے یہ گمان کیا گیا ہے کہ یہاں بیویوں کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مؤنث جمع کی صفت کے طور پر بھی آتا ہے، چاہے وہ جمع مذکر ہو یا مؤنث۔ اس لیے اگر ازواج مطہرہ سے شوہر اور بیوی دونوں مراد لیے جائیں تو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت میں اللہ تعالیٰ اہل ِ جنت کو جو بیش بہا نعمتیں عطا فرمائیں گے ان میں ایک بہت بڑی نعمت یہ بھی ہوگی کہ مرد اور عورت دونوں کو ایسے جوڑے دئیے جائیں گے ( یعنی مرد کو بیوی اور عورت کو شوہر) جو مطہر ہوں گے۔ مطہر کا مطلب یہ ہے کہ جن کی فکری اور عملی تطہیر ہوچکی ہوگی، جنھیں تربیت سے یا من جانب اللہ اس طرح شائستہ بنادیا ہوگا کہ نہ ان کی فکر میں کجی ہوگی نہ عمل میں خرابی اور نہ مزاج میں ناہمواری۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سرتاپا ہمدردی اور خیر خواہی ہوں گے۔ ان کے مزاج اور ان کی فکر میں اسقدر ہم آہنگی ہوگی کہ سوچ سے لے کر عمل تک کہیں اختلاف جنم نہیں لے گا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مسرت اور خوشی کا باعث ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ جنت میں یہ قیام اور یہ نعمتوں کی فراوانی اور یہ میاں بیوی کی ہم آہنگی سے جو مسرتوں سے بھرپور ماحول میسر آئے گا اس ماحول سے اہل ِ جنت کو کبھی نکلنے کا حکم نہیں دیا جائے گا وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ انھیں کبھی موت آئے گی نہ ان نعمتوں کو کبھی زوال ہوگا۔
Top