Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو اللہ کے عہد کو اس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کا اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو نامراد ہونے والے ہیں۔
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖص وَیَقْطَعُوْنَ مَآاَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ (البقرۃ : 27) (جو اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں نامراد ہونے والے) فسق کا معنی و مفہوم فِسقکامعنی ہے ،” نکل جانا “ بلکہ زیادہ واضح مفہوم میں ” اچھل کر نکل جانایا پھلانگتے ہوئے نکل جانا “۔ عربی کا ایک محاورہ ہے جس سے اس کے معنی پر روشنی پڑتی ہے۔ فسقت الرطبۃ عن القشرۃ ” کھجور (کی گُٹھلی) چھلکے سے پھدک کر نکل گئی “ یعنی اگر آپ انگوٹھے کی پور پر کھجور کو رکھ کر اس کے ایک کنارے پر انگشتِ شہادت کے پور سے دبائو ڈالیں تو گٹھلی چھلکے سے پھدک کر نکل جاتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہ فِسق اس نکلنے کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اچھلنے، کودنے اور پھلانگنے کا ارادہ بھی شامل ہو۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ جو شخص معروف سے منکر اور اطاعت سے نافرمانی کی طرف نکل جاتا ہے، اسے فاسق کہتے ہیں۔ البتہ یہ نافرمانی اور معروف سے نکل جانا کبھی معمولی درجے کا بھی ہوتا ہے یعنی ایک آدمی فرائض میں غفلت کرنے لگے، یا ادب واحترام میں لاپرواہی دکھانے لگے لیکن ایک رویہ یہ ہے کہ نمازوں سے یکسر تعلق توڑ لیا جائے بےحیائی اور بےشرمی کو تہذیب کا نام دے دیا جائے اور بڑی سے بڑی نافرمانی پر بھی طبیعت میں گرانی پید انہ ہو۔ بلکہ طبیعت اس کو معمول کی بات سمجھے، اور پھر یہ رویہ اگر اپنی حد تک محدود رہے تو شریعت کی زبان میں اسے ” فِسق “ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ نافرمانی کھلم کھلا کی جانے لگے اور کوئی ملامت اس پر اثر انداز نہ ہو تو اسے عموماً فجور کا نام دیا جاتا ہے۔ فقہ کی زبان میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب اور صغیرہ پر اصرار کو فسق کہا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کریم بڑی سے بڑی نافرمانی جو کفر تک پہنچا دیتی ہے، اسے بھی فسق سے تعبیر کرتا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے۔ فاسق کی دو نمایاں علامتیں ان کے فسوق کو بیان کرتے ہوئے چند نمایاں باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں کہ یہ فاسق لوگ وہ ہیں جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں۔ اس سے مراد دو طرح کے عہد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو وہ عہد ہے جسے ” عہد الست “ کہا جاتا ہے کہ جسے عالم ارواح میں پروردگار نے تمام روحوں سے لیا تھا۔ سب سے پوچھا تھا : الست بربکمتو سب نے جواب میں کہا تھا : بلٰی کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔ تو جو آدمی اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، وہ اس عہد کو توڑتا ہے کیونکہ اللہ کو رب ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ آپ کے احکام کی اطاعت اور آپ کی ذات کی بندگی کریں گے اور یا اس عہد سے مراد وہ عہد ہے، جو ہر مومن ایمان قبول کرتا ہوا کلمہ شہادت پڑھکر اللہ کے ساتھ کرتا ہے۔ جب ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ” میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں “ تو وہ درحقیقت یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی کو معبود اور حاکم حقیقی نہیں سمجھتا۔ میں اسی کی بندگی کروں گا اور اسی کے احکام کی اطاعت کروں گا۔ جو لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اس کے احکام کی اطاعت نہیں کرتے یا اس کے مقابلے میں دوسروں کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔ بجائے اللہ کے دیئے ہوئے آئین اور قانون کو نافذ کرنے کے وہ دوسروں کے وضع کردہ یا اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرتے ہیں تو وہ اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں۔ کیونکہ ایک مسلمان اسلام قبول کرنے کے بعد جس طرح اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا، اس کے سوا کسی اور کی نماز نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح وہ اپنے مال و دولت میں تصرف اپنے اعضاء وجوارح کا استعمال اپنی قلبی اور دماغی صلاحیتوں سے خدمت بھی اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں لے سکتا۔ وہ جس طرح انفرادی اور شخصی زندگی میں اللہ کا بندہ ہے اسی طرح وہ اجتماعی زندگی میں بھی اللہ کا بندہ اور اس کی بندگی کے عہد میں بندھا ہوا ہے۔ تو جہاں تہاں بھی بندگی اور اطاعت کا یہ عہد ٹوٹتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہیں فسق کا ارتکاب شروع ہوجاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ فاسق وہ لوگ ہیں کہ وہ ہر اس رشتے کو کاٹتے ہیں، جسے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس مختصر سے جملے میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدن واخلاق کی پوری دنیا پر جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلقات تک پھیلی ہوئی ہے، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہے۔ ان میں سے ہر تعلق ٹوٹنے سے انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے قیام و استحکام پر زد پڑتی ہے اور ان کے ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ تصور کیجئے ! میاں بیوی کے تمام تر تعلقات کا دارومدار اس عہد کی پابندی پر ہے جو نکاح کی صورت میں دونوں نے ایک دوسرے سے باندھا ہے۔ پھر اولاد کا وجود اور ان کی تعلیم و تربیت کا تمام تر دارومدار اس بات پر ہے کہ ماں باپ اپنے عہد و پیمان کی پابندی کرتے ہوئے اولاد کی ذمہ داریوں کا بوجھ کہاں تک اٹھاتے ہیں، اسی پر گھر کی سلامتی کا دارومدار ہے۔ اور پھر یہ گھر کی سلامتی خاندان کے وجود کی بنیاد بنتی ہے اور خاندان کی مضبوطی آگے چل کر قومی استحکام کی ضمانت دیتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے رحمی رشتوں پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے قطع رحمی کو بہت بڑا جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ پھر یہیں سے معاشرے کی بنیادپڑتی ہے۔ پھر پورے معاشرے میں معاشرے کا ایک ایک فرد ہمسائیگی اور معاشرت کے عہدوں میں بندھا ہوا ہے۔ بازاروں اور منڈیوں میں کاروبار اور معاشی ہم آہنگی کا دارومدار اس عہد و پیمان پر ہے جو کاروبار کرنے والے ایک دوسرے سے استوار کرتے ہیں۔ سماجی رشتے قومی تعلقات حکومت اور عوام کے باہمی روابط پھر اس سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی تعلقات ان تمام کا دارومدار درجہ بدرجہ ان عہود و مواثیق پر ہے جن کے نتیجے میں یہ تعلقات وجود میں آتے ہیں۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ تو اسلامی رشتے کی وجہ سے اللہ اور رسول سے کیے ہوئے عہد میں بندھے ہوئے ہیں۔ جن کی سلامتی پر پوری امت مسلمہ کی قوت اور سلامتی انحصار کرتی ہے۔ جہاں اس میں دراڑیں پڑتی ہیں وہیں سے امت مسلمہ کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ جو لوگ ان رشتوں میں سے کسی رشتے کو بھی کاٹتے ہیں اور کسی بندھن کو بھی توڑتے ہیں وہ اپنی اس بدعہدی اور بدعملی کے باعث زمین میں فساد کا راستہ کھولتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے یہ عہد ٹوٹتے جاتے ہیں ویسے ویسے یہ زمین فساد سے بھرتی جاتی ہے۔ اور یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس معاشرے میں فساد پھیل جائے اس کی قومی بنیادیں استوار نہیں رہتیں۔ ایک ایک کرکے ادارے ٹوٹنے لگتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انسانی اقدار بھی دم توڑجاتی ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ہر سو نامرادی اور ناکامی اپنا تسلط جما لیتی ہے۔ اسی لیے یہاں ارشاد فرمایا گیا : اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْن۔ (یہی لوگ ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں)
Top