Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
(یہ کتاب ہدایت ہے) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں، اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج (یہ کتاب ہدایت ہے) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں، اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے ) قرآن کریم کی ہدایت کے نتیجے میں متقین میں جو صفات پید اہوتی ہیں۔ ان میں سے یہ چوتھی صفت ہے۔ پہلی صفت تھی، ” ایمان بالغیب “ ، دوسری صفت تھی،” اقامت صلوٰۃ “ یعنی عبادت اور تیسری صفت تھی ،” انفاق فی سبیل اللہ “ ، یعنی صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کا ادا کرنا۔ اب یہ چوتھی صفت بیان ہو رہی ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں، جو ہر اس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو آپ ﷺ کی طرف نازل کی گئی ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے کم وبیش تین سو تیرہ یا تین سو چودہ رسول آئے۔ رسول وہ ہوتا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نئی کتاب یا نیا صحیفہ نازل فرماتا ہے۔ جس کے ذریعے وہ نئی شریعت یا حکمت شریعت عطا فرماتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے پہلے تین سو تیرہ یاتین سو چودہ کتابیں یا صحیفے نازل ہوچکے تھے۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے فیض سے ایک مومن میں جو ذہن اور ذوق تیار ہوتا ہے، اس میں یہ بات پیوست ہوتی ہے کہ مجھے ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو قبول کرنا ہے اور اس پر ایمان لانا ہے۔ وہ جب بھی نازل ہو اور جہاں بھی نازل ہو چونکہ ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے وہ نکلنے والی تعلیم ہے، میں اس پر ایمان لائوں گا۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ حضور پر نازل کیا گیا ہے، قرآن سے استفادہ کرنے والے اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور جو کتابیں آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوچکی ہیں، انھیں بھی وہ اللہ کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں۔ اگر مزید تدبر سے کام لیں، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں چند باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ 1 انسان اگرچہ حواس اور عقل کی دولت رکھتا ہے اور وہ عقل کی مدد سے وہ کچھ جان لیتا ہے اور وہاں تک اس کی رسائی ہوجاتی ہے، جہاں کسی اور مخلوق کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن اپنے دل و دماغ کی تمام تر قوت کے باوجود وہ اس قابل نہیں ہے، کہ وہ یہ جان سکے کہ میرا خالق ومالک کن باتوں میں راضی ہوتا ہے اور کن باتوں میں ناراض۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے ایسا نظام فکر اور نظام عمل در کر ہے جو اس کی دنیا وعقبیٰ کی کامیابی کا ضامن ہو، ظاہر ہے کہ جو عقل کے بل بوتے پر تجویز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقل اپنی تمام تر خوبیوں اور رعنائیوں کے باوجود، زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی دینے کے قابل نہیں۔ اس کا دائرئہ فکر محسوسات اور معقولات کی دنیا تک محدود ہے اور انسانی زندگی کا تعلق چونکہ مابعد الطبیعات سے بھی ہے اور اس کی روحانی زندگی کے ڈانڈے چونکہ عالم الہٰیات اور عالم غیب سے بھی علاقہ رکھتے ہیں۔ اس لیے صرف عقل کی مدد سے ان ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ مزید براں یہ کہ زندگی کے اجتماعی معاملات میں، چونکہ انسانی عقلوں میں بہت تفاوت ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہ عقل جذبات، خواہشات اور مفادات کی ہوس سے عموماً مغلوب و مقہور ہوجاتی ہے۔ اس لیے اخلاقی دنیا میں اور انسان کی اجتماعی اقدار میں، عقل سے رہنمائی لینا، نہ قابل عمل ہے اور نہ خطرے سے خالی ہے۔ لیکن جو آدمی یا جو معاشرہ، اس بات پر یقین رکھتاہو کہ مجھے وحی الہٰی کی رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ میری رہنمائی کے لیے میری عقل کفایت کرتی ہے اور یا وہ یہ سمجھتا ہو کہ انسان از خود ترقی کرکے براہ راست اللہ سے راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ تو اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے قرآن کریم میں کوئی ہدایت نہیں۔ 2 جو آدمی وحی الہٰی کی راہنمائی کی ضرورت کا قائل تو ہو، لیکن قومی تعصب کا شکار ہو کر یہ سمجھے کہ میں تو اس وحی الہٰی کو تسلیم کروں گا، جو اس ذات گرامی پر نازل ہوئی تھی، جسے میں اپنا رسول سمجھتا ہوں اور اس کے علاوہ اگر یہ وحی کسی اور پر نازل ہوتی ہے، تو میں اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ جس طرح اہل کتاب آسمانی رہنمائی کو تسلیم کرتے تھے۔ یہود تورات کو مانتے تھے اور عیسائی انجیل کو۔ لیکن جب انھیں قرآن کریم پر ایمان لانے کے لیے کہا جاتا، کہ تم جانتے ہو کہ یہ بھی اللہ کی کتاب ہے اور اس کی صداقت کی گواہی تمہاری کتابوں میں موجود ہے۔ تو وہ صاف کہتے کہ ہم تو صرف اس کتاب کو مانتے ہیں، جسے ہم پر نازل کیا گیا تھا۔ اس لیے ہم اس کے علاوہ کسی اور رسول پر اترنے والی کتاب کو ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے ان کی اس گمراہی کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اللّٰہُ قَالُوْانُؤْمِنُ بِمَا اَنْزَلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَائَـہٗ (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لائو اس پر جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں، جو ہم پر نازل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے، اس سے کفر کرتے ہیں) ۔ یعنی اصلاً وہ لوگ گروہی تعصب کا شکار ہیں۔ ان کے نزدیک رہنمائی کے لیے اللہ کی طرف سے کتاب کا آنا کافی نہیں، بلکہ اس کتاب کا ان کے اپنے گروہ پر اترنا ضروری ہے۔ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ جو لوگ اصل سرچشمہء ہدایت سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ صرف اپنی کتاب کو ماننے کے دعوے دار ہیں، وہ اس قرآن کریم کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ 3 اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے، یومنون بالقرآن نہیں کہا، بلکہ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ فرمایا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم سے استفادہ کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو ہر اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ ﷺ پر نازل کی گئی ہے۔ اگر یہاں قرآن کریم کا نام لیا جاتا، تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن فرمایا یہ جارہا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ ﷺ پر نازل کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح وہ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ وہ آپ ﷺ پر اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ حدیث اور سنت پر بھی ایمان رکھتے ہیں کیونکہ اس کا مفہوم ومعنی بھی آپ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔ لیکن حدیث کا معنی اور مفہوم اللہ کی جانب سے نازل ہوتا رہا ہے، لیکن اس کے الفاظ حضور ﷺ کے اپنے ہیں۔ چناچہ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے، کہ وہ لوگ صرف قرآن پاک پر ایمان لانے کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ قرآن پاک کی عملی تشریح اور اس کے مبہمات کی وضاحت اور اس کے مجملات کی تفصیل جو حدیث کی شکل میں ہے، اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حدیث کو نظر انداز کرکے نہ قرآن پاک کو سمجھنا ممکن ہے اور نہ اس پر عمل کرنا۔ اور جو شخص حدیث کا انکار کرتا ہے اور صرف قرآن پاک کو کافی سمجھتا ہے، وہ قرآن پاک کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ختم نبوت کی طرف اشارہ 4 آیت کے اس حصے میں آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں، جو ہر اس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو آپ ﷺ پر نازل کی گئی ہے اور جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کی گئی ہے۔ حالانکہ جو کتابیں پہلے نازل ہوئی ہیں، وہ اپنا زمانہ گزار چکی ہیں۔ تحریف اور ترمیم کا شکار ہو کر اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھی ہیں۔ ان میں بیان کردہ اللہ کی شریعت کے متعدد احکام مٹادیئے گئے یا بدل دیئے گئے، اس لیے قرآن کریم کے آنے کے بعد وہ منسوخ ہوگئیں۔ اب اگر کوئی شخص ان پر ایمان نہیں لاتاتو بظاہر قرآن پر ایمان لانے کے بعد، شرعی زندگی میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا اور اللہ کی عطاکردہ رہنمائی میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ قرآن کریم کی رہنمائی اپنے وقت نزول سے لیکر قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے کافی وشافی ہے۔ با ایں ہمہ قرآن کریم ان پر ایمان لانے کو لازمی قرار دیتا ہے، کیونکہ آج اگرچہ ان پر عمل کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ قابل عمل نہیں رہیں۔ لیکن ان پر ایمان لانا بہر حال ضروری ہے، کیونکہ وہ بہرصورت اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان نہ لانے کا مطلب اللہ پر ایمان نہ لانے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کتاب کسی دور میں بھی نازل ہو، اس پر ایمان لانا اس لیے ضروری ہے کہ اس پر ایمان لانا اللہ پر ایمان لانے کو مستلزم ہے اور اس کو نہ ماننے کا مطلب اللہ کا انکار کرنا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ لی جائے، تو پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ اگر آنحضرت ﷺ کے بعد بھی اگر کسی رسول کو آنا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن کریم اس کا ذکر نہ کرتا۔ کیونکہ جب سابقہ رسول اور کتابیں، جن پر ایمان لانا یا نہ لانا عملی طور پر برابر ہے۔ ان کا ذکر پورے اہتمام سے کیا جارہا ہے، تو آئندہ آنے والے رسول اور اس پر اترنے والی کتاب کا تذکرہ یقینا بےحد اہمیت کا حامل تھا کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کا ایمان و عمل اسی سے وابستہ تھا اور ان کی دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا دارومدار یقینا اسی پر تھا۔ لیکن پورا قرآن کریم پڑھ جائیے، آپ کو بیسیوں جگہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سابقہ کتب اور سابقہ پیغمبروں پر ایمان لانے کا ذکر ملے گا۔ لیکن کہیں بھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی آنے والے پیغمبر اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہو۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح سابقہ آسمانی کتابوں میں آنحضرت ﷺ کے آنے کی خبر دی گئی، اگر آپ ﷺ کے بعد بھی کسی کو آنا ہوتا، تو یقینا قرآن کریم اس کی بھی خبر دیتا اور اس پرا یمان لانے کو لازم ٹھہراتا اور اس آیت کریمہ میں وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ کے بعد وماینزل بعدک کا لفظ ہوتا۔ وَبِالآْخِرَۃِ ھُمْ یُؤْقِنُوْنَ (البقرۃ : 4) (اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں) سورة فاتحہ کی توضیح و تفصیل کے ضمن میں آخرت پر مفصل گفتگو ہوچکی ہے۔ اس لیے اب اسے دہرانا مناسب نہیں۔ البتہ اختصار کے ساتھ چند باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1 غیب میں آخرت بھی شامل ہے۔ جو آدمی غیب پر ایمان رکھتا ہے، وہ یقینا آخرت کو بھی مانتا ہے۔ لیکن اس کا مستقلاً الگ ذکر کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ قرآن کریم جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے اور انسانی زندگی میں جس تبدیلی کا داعی ہے، اس کے لیے آخرت پر یقین بےحد ضروری ہے۔ اللہ، اس کے رسول ﷺ اور قرآن کو ماننا یقینا ہدایت کی بنیاد ہے۔ لیکن جب تک آخرت کی فکر دل و دماغ میں راسخ نہیں ہوتی، اس وقت تک اللہ کی ذات وصفات کا صحیح استحضار اور قرآن کریم سے صحیح استفادہ اور ذات رسالت مآب ﷺ سے صحیح وابستگی پیدا نہیں ہوتی۔ 2 آخرت کا معنی تو ہے دوسری زندگی۔ جو قیامت کے بعد جن وانس کو ملے گی، لیکن اس کا اطلاق چند عقائد و حقائق پر ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر یقین آخرت کے یقین کو مکمل کرتا ہے۔ 1 ان میں سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں میں یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے غیر ذمہ دار نہیں بنایا۔ وہ کوئی خود کاشتہ پودا نہیں، جو یونہی مَل دَل کے ختم ہوجائے اور نہ وہ شتر بےمہار ہے جو جدھر منہ اٹھائے چلتا پھرے۔ بلکہ اس کی زندگی کا مقصد ہے اور اس مقصد کے مطابق زندگی گزارنے کا اسے پابند بنایا گیا ہے۔ قیامت کے دن جسے آخرت کہا گیا ہے، اس سے اس مقصد کے حوالے سے باز پرس ہوگی۔ مختصر یہ کہ بازپرس کا یقین رکھنا اور اس کے لیے ایک دن کے آنے کا یقین رکھنا یہ آخرت کا پہلا تصور ہے۔ 2 دوسری بات یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام اور دنیا کی یہ زندگی دائمی اور ابدی نہیں۔ ایک وقت ایسا آئیگا جب یہ پورا کارخانہ تباہ ہوجائے گا۔ زمین پھٹ جائے گی آسمان ٹوٹ پھوٹ جائیں گے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ہر طرف تباہی اور موت کی حکومت ہوگی۔ 3 تیسری بات یہ کہ جس طرح دنیاکو موت کا شکار ہونا ہے اور اس زندگی کو ہمیشہ باقی نہیں رہنا، اسی طرح یہ تباہی اور بربادی بھی ہمیشہ نہیں رہے گی اس دنیا کے خاتمے کے ایک عرصے بعد اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں تمام نوع انسانی کو جو ابتدائِ آفرینش سے لے کر قیامت تک زمین پر پید اہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا اور پھر انھیں میدانِ حشر میں جمع کیا جائے گا۔ جہاں سب کے اعمال کا حساب ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ 4 چوتھی بات یہ کہ جو لوگ اللہ کے فیصلے کے نتیجے میں نیک قرار پائیں گے، وہ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جو لوگ اپنی بد اعمالیوں کے باعث بد ثابت ہوں گے، وہ جہنم کی نذر کردیئے جائیں گے۔ 5 پانچویں یہ بات کہ قیامت کے دن کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ایمان وعمل پر ہوگا۔ جس نے زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گذاری ہوگی، وہ کامیاب ٹھہرے گا۔ کیونکہ کامیابی اور ناکامی کا دارومدار موجودہ زندگی کی خوشحالی یا بدحالی پر نہیں، بلکہ حقیقی کامیاب وہ ہے، جو آخرت میں جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا۔ دنیا میں اگر کسی نے کبھی خوشی نہیں دیکھی اور ساری زندگی دکھوں میں گذاری۔ لیکن اس کی پوری زندگی پر ایمان وعمل کی حکمرانی رہی اور اس نے ہمیشہ اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، تو اس کی دنیا کی محرومیاں آخرت میں اس کے لیے توشہ ثابت ہوں گی۔ لیکن جس نے دنیا میں عیش و عشرت میں زندگی گذاری، اس کا یہ عیش و عشرت قیامت میں اس کے لیے حسرت کا سامان بن جائے گا۔ یہ چند عقائد اور حقائق ہیں جن پر یقین رکھنے کو ایمان بالآخرت کہتے ہیں۔ یہاں غور فرمائیے کہ آخرت کے ساتھ ” ایمان “ کے لفظ کی بجائے ” ایقان “ کا لفظ آیا ہے یہ نہیں کہا یُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ (وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں) بلکہ فرمایا وَبِالآْخِرَۃِ ھُمْ یُؤْقِنُوْنَ (وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ) ۔ ایمان اور ایقان میں فرق ” ایمان “ کے معنی تصدیق کرنے اور مان لینے کے ہیں۔ اس کی ضد کفر و انکار اور تکذیب ہے۔” ایقان “ کا معنی یقین کرنے کے ہیں۔ اس کی ضد گمان اور شک ہے۔ جس طرح کسی شے پر یقین رکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی اس پر ایمان بھی رکھتاہو، اسی طرح کسی چیز پر ایمان رکھنے کے لیے اس پر یقین کرنا شرط نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی کا ایمان محض گمان غالب پر مبنی ہو اور وہ آہستہ آہستہ گمان کی منزل سے نکل کر یقین کی منزل تک پہنچ جائے اور اس طرح اس کے ایمان کی تکمیل ہوجائے۔ دونوں کی مثالیں قرآن کریم اور تاریخ میں موجود ہیں۔ فرعون اور آل فرعون کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں نے مسلسل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر دل سے یقین کرلیا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور ظلم کے باعث ایمان لانے سے محروم رہے۔ ابو جہل کی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں محمد (e) کو جھوٹا نہیں کہتا، میں جانتا ہوں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، لیکن میں اس پر ایمان اس لیے نہیں لاسکتا کہ ایمان لانے کے بعد بنی ہاشم کا قبیلہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بڑھ جائے گا اور مزید یہ کہ ہمیں جو عزت حاصل ہے، وہ ایمان لانے کے بعد باقی نہیں رہے گی، کیونکہ اسلام تو ہر طرح کے تفاوت کو ختم کردیتا ہے۔ وہاں تو صرف تقویٰ سے عزت ملتی ہے، خاندانی انتساب سے کچھ نہیں ملتا۔ دور نہ جائیے، برطانیہ کا مشہور ادیب برناڈ شا، اسلام کو سچا مذہب سمجھتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ آج کے دور میں اگر کوئی مذہب چل سکتا ہے، تو وہ صرف اسلام ہے اور اگر کوئی شخصیت آج کے دور کی رہنما ہوسکتی ہے، تو وہ صرف محمد ﷺ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان نہ ہوا اور ایسا تو بارہا ہوتا ہے کہ آدمی غالب گمان پر کسی چیز کو تسلیم کرلیتا ہے، لیکن پھر تجربے سے اس کا غالب گمان یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یقینا ایسے لوگ قرن اول میں بھی ہوں گے کہ جو جب ایمان لائے تو یقین کی معراج پر نہ تھے۔ بالخصوص فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والوں میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کا ایمان یقین کی صورت اختیار کرگیا۔ یقین بہرحال انسانی شعور اور انسانی احساسات کی سب سے اعلیٰ منزل ہے۔ اس کے بعد عمل، ایثار اور شہادت کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی، تو آخرت پر ایمان لانے کو اسی یقین کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ کیونکہ آخرت کا عقیدہ ہی فرد اور قوم دونوں کی زندگیوں میں انقلاب کا سبب بنتا ہے۔ جس آدمی کو یقین آجائے کہ مجھے اپنے ایک ایک عمل اور زندگی کے ایک ایک لمحے کا اللہ کو حساب دینا ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کب اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے، ایسا شخص کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں جاسکتا۔
Top