Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور ایمان لائو اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے۔ اور تم اس کے پہلے کافر نہ بنو، اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچو۔
وَاٰمِنُوْابِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقَا لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُوْنُوْااَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖص وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ز وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْن۔ (البقرۃ : 41) (اور ایمان لائو اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے پہلے کافر نہ بنو، اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچو) مَـآ اَنْزَلْتُسے مراد اس آیت کریمہ میں اللہ کے آخری رسول اور قرآن کریم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ مَااَنْزَلْتُسے مراداگرچہ قرآن کریم ہے اور قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی کتاب بھی کسی پیغمبر کے بغیر نہیں اترتی۔ جب تک پیغمبر پر ایمان نہ لایا جائے کتاب پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو جو بات خودبخود کلام سے واضح ہورہی ہے اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ جب یہ فرمایا گیا کہ اس چیز پر ایمان لائو جو میں نے نازل کی ہے تو یہ بات خودبخود سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کتاب جس زبان سے پڑھ کر سنائی جارہی ہے اور جو زبان اس کو اللہ کی کتاب کے طور پر پیش کررہی ہے اس کتاب پر ایمان لانے سے پہلے اس پر ایمان لائو پھر اس کے واسطے سے اس کتاب کو تسلیم کرو۔ مصدقاً کا مفہوم اس کے بعد دونوں کے حوالے سے ایک بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تمہیں تو اس پیغمبر اور اس کتاب کے ماننے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں تو تصدیق کررہے ہیں ان کتابوں کی اور اس دین کی جو تمہارے پاس ہے۔ البتہ اس تصدیق کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم باربار اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ جس طرح میں اللہ کی طرف سے آیا ہوں اسی طرح تورات، زبور اور انجیل بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل کی گئی تھیں۔ ان چاروں کتابوں کا سرچشمہ ایک ہی ذات خداوندی ہے جن پر یہ کتابیں اتری تھیں وہ سب اللہ کے نبی اور رسول تھے۔ ان کتابوں نے جو تعلیمات پیش کی تھیں میں اصولی طور پر اس کی تصدیق کرتا ہوں، مجھے اگر انکار ہے تو ان چیزوں سے ہے جو غلط طریقوں سے ان کتابوں میں شامل کردی گئی ہیں یا تحریف کرکے ان کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ اس طرح سے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ اہل کتاب کے پاس جو صحیفے ہیں ان کی تصدیق کررہے ہیں۔ اس پر سے تو اہل کتاب کو آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کا شکر گزار ہونا چاہیے چہ جائیکہ اسے ماننے سے انکار کردیں۔ دوسرا پہلو اس تصدیق کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اس طرح ان کی کتابوں کی تصدیق کررہی ہیں کہ ان کی کتابوں نے جابجا آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی علامات ذکر کی تھیں۔ آنحضرت کا تو نام مبارک اور حلیہ تک ان کتابوں میں موجود تھا۔ آپ کی بعض نمایاں عادات تک ان میں بیان کی گئی تھیں۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آنے والانبی بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمعیل میں سے ہوگا۔ اسی طرح قرآن پاک میں نازل کردہ تعلیمات کے حوالے سے بہت سی باتیں پہلی کتابوں میں موجود تھیں۔ آپ پر نازل ہونے والی وحی کی صفات تک کو بیان کیا گیا تھا اور اہل کتاب ہمیشہ ان علامتوں کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔ اب جب حضور تشریف لائے اور قرآن کریم نازل ہوا تو وہ بالکل ان صفات کے مطابق اور ان کا پیکربن کرآئے، جیسا ان کی کتابوں نے بیان کیا تھا۔ تو آنحضرت کا ان کتابوں کی بیان کردہ صفات کا حامل ہونا اور قرآن کریم کا انہی بیان کردہ نمایاں خصوصیات کا پرتو ہونا ایک ایسی تصدیق ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دونوں ایک ایک علامت کا مصداق بن کے آئے جبکہ ان کی کتابوں کی بیان کردہ پیشگوئیاں اور علامتیں اب تک اپنے حقیقی مصداق کے ظہور کی منتظر تھیں۔ اب اس کتاب اور اس پیغمبر کے ظہور نے ان کا مصداق دنیا کے سامنے پیش کرکے ان کی کتابوں کو سندتصدیق عطاکردی اور اس طرح سے بنی اسرائیل کا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ دیکھو ہماری کتابوں نے صدیوں پہلے جو کچھ کہا تھا آج دنیانے اپنی آنکھوں سے اسے سچا ہوتادیکھ لیاتوجس پیغمبرا و رجس کتاب نے ان کا سر فخر سے بلند کیا غضب خدا کا تم بجائے اس کے کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا دامن تھامتے اور اس کتاب کو سینے سے لگاتے تمہی سب سے پہلے اس کا انکار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا۔ وَلاَ تَـکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ ” تم ہی سب سے پہلے اس کے کافر نہ بنو “۔ اول کافر کا مفہوم اَوَّلَ کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے۔ کبھی اس کا مضاف الیہ نکرہ مفرد ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے اور کبھی جمع ہوتا ہے۔ جیسے : اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌفَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ ” اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلا اس کا عبادت کرنے والاہوتا “۔ تو یہاں دیکھئے العابدین جمع ہے۔ دونوں کے استعمال میں فرق یہ ہے کہ واحد ہونے کی صورت میں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کوئی اور بھی ہے یا نہیں لیکن جمع آنے کی صورت میں مفہوم یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلا میں ہی ہوں مجھ سے پہلا کوئی نہیں۔ تم سب سے پہلے کافر نہ بنوکا یہ مطلب نہیں کہ جب دوسرے کفر کرنے لگیں تو تمہیں بھی کفر کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن تمہیں سب سے پہلے یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو اصول دین سے واقف ہو، تم صاحب کتاب امت ہو۔ تمہاری کتابوں میں نبی آخرالزمان کی علامتیں موجود ہیں۔ ان علامتوں سے تم اچھی طرح رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو پہچانتے ہو کہ وہ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔ دنیا کے دوسرے لوگ اگر آپ پر ایمان لانے سے انکار کریں تو ان کے لیے کوئی عذر ہوسکتا ہے۔ لیکن تمہارے لیے تو کوئی عذر نہیں ناواقف بھول جائے تو تعجب نہیں ہوتا لیکن جاننے بوجھنے والا غلطی کرے تو نہ صرف کہ تعجب ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اصل غلطی کرنے والے تم پہلے شخص ہو کیونکہ ناواقف کی غلطی تو قابل ذکر نہیں ہوتی۔ دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش اور اہل مکہ نے اگرچہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کا انکار سب سے پہلے کیا کیونکہ اہل کتاب سے واسطہ تو ہجرت کے بعد پڑا۔ لیکن اہل مکہ نے اگر حضور کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو سب نے نہیں کیا بلکہ ایک خاصی بڑی تعداد ایمان لانے والوں کی بھی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے بعد مہاجرین کہلائے۔ اگر قریش میں بڑے بڑے مخالف اور معاند نظرآتے ہیں تو دوسری طرف قریش ہی میں جاں نثاروں اور فرمانبرداروں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے مسلسل 13 سال تک مخالفتوں کی آندھی میں بھی اسلام کا چراغ جلائے رکھا۔ پھر جب حضور ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں آپ کو اوس و خزرج سے واسطہ پڑاتو ایک مختصر عرصے میں ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی، لیکن اگر کسی گروہ نے ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر بحیثیت قوم اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ صرف بنی اسرائیل اور اہل کتاب ہیں۔ تو یہاں تقابل بحیثیت قوم کے فرمایا جارہا ہے کہ ایک طرف بنی اسرائیل کی قوم ہے اور دوسری طرف امی عرب ہیں، چاہے وہ عدنانی ہوں یا قحطانی۔ ان دونوں کا تقابل کریں تو بحیثیت قوم صرف اہل کتاب نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس لیے فرمایا کہ مجموعی طور پر تمہیں ہی اسلام قبول کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن تمہی سب سے پہلے کافر ہوگئے، تمہارے لیے یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی۔ اہلِ کتاب کی اسلام دشمنی کا حقیقی سبب ہماری متذکرہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل کتاب پر آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت پوری طرح واضح تھی۔ ان کے اہل علم کے ذہنوں میں اسلام کی صداقت کے بارے میں کوئی اخفا نہیں تھا۔ لیکن تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں صرف ٹھوکر ہی نہیں کھائی بلکہ وہ اسلام کے بدترین معاند اور دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور آنحضرت ﷺ کی انھیں راہ راست پر لانے کے لیے تمام مساعی جمیلہ غیر موثر رہیں۔ ایک قاری اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ ہم نے عرض کیا واقعی تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن پروردگار نے اس آیت کے اگلے جملے میں اس حقیقت سے نقاب اٹھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اسلام قبول نہ کرنا دراصل چند درچند خرابیوں کا منطقی نتیجہ تھا۔ اس کے لیے جو تعبیر اختیار کی گئی ہے اس میں قلت فکر کے باعث عموماً یہ بات ذہنوں سے اوجھل رہی۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَلاَ تَشْتَرُوْابِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ” میری آیتوں کو ثمن قلیل کے بدلے میں مت بیچو “۔ بعض برخود غلط قسم کے لوگوں نے تو اس کا یہ مطلب لیا کہ ثمن قلیل یعنی تھوڑی قیمت پر کتاب اللہ کی آیات کو بیچنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن اگر آیات کی کوئی بڑی قیمت مل جائے تو پھر یہ قیمت لے لینے میں کوئی حرج نہیں، حالانکہ یہ ایک معروف اسلوب ہے جس کے مطابق یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ بعض حقیقتیں یا بعض چیزیں اس قدر عظیم ہوتی ہیں کہ دنیا کے مال و دولت سے اس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی یعنی وہ معاوضے بدلے یاقیمت سے ماوراء اور بالا ہوتی ہیں، پوری دنیا بھی ان کی قیمت نہیں بن سکتی۔ ایسی چیزوں کی خریدو فروخت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کی قیمت کیا طے ہوئی ہے بلکہ بجائے خود ان کی قیمت کا طے ہونا ہی اور اس کو سامانِ فروخت سمجھ لینا ہی اس قدر مکروہ اور شنیع فعل ہے کہ جس سے نفرت ہونی چاہیے۔ آدمی ثمن قلیل کو چونکہ فطری طور پر حقیر اور قابل نفرت سمجھتا ہے اس لیے اس فعل کی کراہت اور شناعت کو نمایاں کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی جاتی ہے کہ تم ایسی بےنظیر چیزوں کو کسی بھی قیمت پر بیچو تم نے گویا ان کو ثمن قلیل کے بدلے بیچا ہے۔ لیکن اس آیت میں مزید غور وفکر سے جو بات ذہن میں آتی ہے اور جسے درحقیقت یہاں بیان کرنا مقصود ہے۔ وہ یہ بات نہیں کہ وہ کتاب اللہ کی آیات کو کس قیمت پر بیچ رہے ہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کے اللہ کی طرف سے نئی ہدایت کو قبول کرنے کے راستے میں جو اصل رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ انسانیت سے تہی دامن ہوگئے۔ روحانی زندگی ان کے لیے ایک اجنبی چیز بن گئی۔ دین جو بندے اور خدا کے درمیان ایک رشتہ ہے، وہ ان کے لیے کاروبار ہوگیا۔ اب ان کی زندگی میں دین، شریعت، آخرت ناقابل قدر چیزیں ہیں۔ یہ درحقیقت مفادات کے بندے اور ہوس کے اسیر ہیں۔ یہ ہر کام کرنے سے پہلے اپنے مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کی زندگی کا اصل ہدف دنیا، دولت دنیا اور دنیوی عزت وشہرت ہے۔ اس کے لیے انھیں کچھ بھی بیچنا پڑے یا اقدارِ انسانیت کو نیلامی پر چڑھاناپڑے تو انھیں دریغ نہیں ہوگا۔ اللہ کے دین کو چھوڑ دینا اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا محبوب اور اپنا مقصود بنالینا اور ہر فیصلے کو مفادات کی نگاہ سے دیکھنا یہ وہ رویہ ہے جس کی یہاں نشان دہی کی گئی ہے۔ اسی رویئے نے اہل کتاب کو آنحضرت ﷺ اور آپ کی دعوت کی دشمنی پر اکسایا اور یہی سوچ اور رویہ ہر دور میں انسانیت کی تباہی کا باعث بنتارہا۔ جب کوئی فرد یا کوئی قوم اس گمراہی کا شکار ہوتی ہے تو پھر اس کی زندگی پر اصل حکمرانی مفادات کی ہوتی ہے۔ وہ ہر چیزکو درہم و دینار کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بالکل یہ تصویر ہوتی ہے ؎ خاک باش و خوک باش ویاسگِ مردار باش ہرچہ باشی باش لیکن اند کے زردار باش اب ان کے اندیشے زندگی کی معنوی قدروں اخلاقی عظمتوں کی شکست وریخت یا آخرت میں جواب دہی کے حوالے سے نہیں ہوتے بلکہ ان کے تمام تر اندیشوں کا تعلق صرف ان کے مفادات سے ہوتا ہے۔ قوموں کانشیب و فراز اجتماعی زندگی کی شکست وریخت ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ انھیں اندیشہ ہوتا ہے تو صرف بازار کے اتار چڑھائو کا، پیداوار کے گرنے یا بڑھنے کا، کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی کا، یا پالیسیوں میں نقصان رساں عناصر کے در آنے کا۔ چناچہ آیت کے آخری حصے میں ان کی اسی بیماری کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا گیا : وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ” اور مجھ ہی سے ڈرو “ اس تلقین میں بھی اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ایک اہتمام اور زور ہے۔ جس نے حصر کا معنی پیدا کردیا ہے کہ تمہارے خوفوں اور اندیشوں کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہونا چاہیے جن سے تم نے بنا لیا ہے اور جن کی وجہ سے تمہاری زندگی کا رخ بالکل مخالف سمت کی طرف بدل گیا ہے۔ اب تمہارا رخ اللہ یا آخرت کی طرف ہونے کی بجائے دنیا اور مفاداتِ دنیا کی طرف ہے حالانکہ زندگی سودوزیاں کے اندیشہ سے برتر حقیقت کا نام ہے۔ اس میں جو چیز صالح خون بن کر دوڑتی ہے اور جو اس کی سمت کو درست رکھتی ہے، وہ اللہ کے سامنے جواب دہی کے نتیجے میں اپنے انجام کا خوف ہے۔ اس لیے تمہیں اگر کوئی خوف یا اندیشہ ہونا چاہیے تو وہ صرف یہ کہ تمہیں بہرحال میرے پاس آنا ہے تم اپنی ان بداعمالیوں کے ساتھ میرا سامنا کیسے کروگے ؟ اور تمہارے پاس تمہاری ان بداعمالیوں کا کیا جواب ہوگا ؟ تم نے جو اللہ سے شریعت پر مضبوطی سے قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ نبی آخرالزمان اور قرآن پر ایمان لائوگے بلکہ تم نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی عہد و پیمان باندھا تھا کہ تمہیں جو کتاب عطاہوئی ہے خلق خدا کے سامنے اس کی شہادت دوگے اور اس کے کسی بھی جز کو چھپائو گے نہیں۔ لیکن اب جب کہ تم نے دنیا کی حرص میں مبتلاہوکر ہر عہد کو توڑ ڈالا اور مفادات کے بندے بن کر رہ گئے بتائو میرے پاس آکر اس کا کیا جواب دوگے۔ اس لیے آج بھی تمہارے پاس یہ فیصلہ کرنے کا موقع باقی ہے کہ تمہیں مجھ سے ڈرنا ہے یا اپنے مفادات کے بارے میں اندیشوں کا اسیر رہنا ہے۔ دونوں صورتوں میں انجام واضح ہے ؎ دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم فَارْھَبُوْنِ اور فَاتَّقُوْنِ کا مفہوم اور دونوں میں فرق گزشتہ آیت میں فَارْھَبُونِکا لفظ آیا ہے۔ جو رہبت سے ہے اور یہاں فَاتَّقُونِ کا لفظ آیا ہے۔ جو اتقاء یا تقویٰ سے ہے، لفظی معنی تو دونوں کا ” ڈرنا “ ہوتا ہے۔ لیکن اہل علم اس کے مظاہر میں فرق کرتے ہیں۔ کسی کی عظمتوں کے جلال وتصور سے جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے وہ رہبت ہے اور کسی صاحب عظمت و جلال کے قہر وغضب سے بچنے اس کے مقرر کردہ حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام وآیات کی خلاف ورزی سے اجتناب و احتیاط کی جو بےچینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت وجلوت ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے وہ تقویٰ ہے۔ دونوں آیتوں میں ان دونوں لفظوں کا استعمال جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار نے بنی اسرائیل کو اپنے احسانات کا احساس دلا کر اور ان سے لیے ہوئے عہد و پیمان کی یاد دلاکر اور اپنی ذات کی عظمت و جلال سے ان کے دلوں میں ایک ایسی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے ان کے دل لرزاٹھیں اور پھر ان کو ایمان کی دعوت دے کر اور جن کمزوریوں کا وہ شکار ہیں، ان کی نشاندہی کرکے ان کے انجام سے انھیں آگاہ کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی ہولناک صورتحال سے انھیں دوچار ہونا پڑے گا، جس کی فکر مندی اگر آج پیدا کرلی جائے تو ہر اٹھا ہوا غلط قدم رک سکتا ہے۔ ورنہ اللہ کے غضب سے بچنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ یہ انجام کی فکرہی ہے جو انسان کو اللہ کے غضب سے بچاسکتی ہے اور اگر یہ فکر پیدا نہیں ہوتی اور اللہ کا غضب محض ایک مفروضہ بن کے رہ جاتا ہے، تو پھر زوال کی شکار امتوں کے اصحابِ علم و دانش بھی اپنے علم سے قوموں کی رہنمائی کا کام نہیں بلکہ قوموں کے بگاڑ کا کام لیتے ہیں۔ یہود چونکہ اسی زوال کا شکار ہوچکے تھے اس لیے ان کا اخلاقی زوال اسی انتہاء کو چھو رہا تھا جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جارہا ہے۔
Top