Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا
: اور ایمان لاؤ
بِمَا
: اس پر جو
اَنْزَلْتُ
: میں نے نازل کیا
مُصَدِّقًا
: تصدیق کرنے والا
لِمَا
: اس کی جو
مَعَكُمْ
: تمہارے پاس
وَلَا تَكُوْنُوْا
: اور نہ ہوجاؤ
اَوَّلَ کَافِرٍ
: پہلے کافر
بِهٖ
: اس کے
وَلَا تَشْتَرُوْا
: اور عوض نہ لو
بِآيَاتِیْ
: میری آیات کے
ثَمَنًا
: قیمت
قَلِیْلًا
: تھوڑی
وَاِيَّايَ
: اور مجھ ہی سے
فَاتَّقُوْنِ
: ڈرو
اور ایمان لائو اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے۔ اور تم اس کے پہلے کافر نہ بنو، اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچو۔
وَاٰمِنُوْابِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقَا لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُوْنُوْااَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖص وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ز وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْن۔ (البقرۃ : 41) (اور ایمان لائو اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے پہلے کافر نہ بنو، اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچو) مَـآ اَنْزَلْتُسے مراد اس آیت کریمہ میں اللہ کے آخری رسول اور قرآن کریم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ مَااَنْزَلْتُسے مراداگرچہ قرآن کریم ہے اور قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی کتاب بھی کسی پیغمبر کے بغیر نہیں اترتی۔ جب تک پیغمبر پر ایمان نہ لایا جائے کتاب پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو جو بات خودبخود کلام سے واضح ہورہی ہے اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ جب یہ فرمایا گیا کہ اس چیز پر ایمان لائو جو میں نے نازل کی ہے تو یہ بات خودبخود سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کتاب جس زبان سے پڑھ کر سنائی جارہی ہے اور جو زبان اس کو اللہ کی کتاب کے طور پر پیش کررہی ہے اس کتاب پر ایمان لانے سے پہلے اس پر ایمان لائو پھر اس کے واسطے سے اس کتاب کو تسلیم کرو۔ مصدقاً کا مفہوم اس کے بعد دونوں کے حوالے سے ایک بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تمہیں تو اس پیغمبر اور اس کتاب کے ماننے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں تو تصدیق کررہے ہیں ان کتابوں کی اور اس دین کی جو تمہارے پاس ہے۔ البتہ اس تصدیق کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم باربار اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ جس طرح میں اللہ کی طرف سے آیا ہوں اسی طرح تورات، زبور اور انجیل بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل کی گئی تھیں۔ ان چاروں کتابوں کا سرچشمہ ایک ہی ذات خداوندی ہے جن پر یہ کتابیں اتری تھیں وہ سب اللہ کے نبی اور رسول تھے۔ ان کتابوں نے جو تعلیمات پیش کی تھیں میں اصولی طور پر اس کی تصدیق کرتا ہوں، مجھے اگر انکار ہے تو ان چیزوں سے ہے جو غلط طریقوں سے ان کتابوں میں شامل کردی گئی ہیں یا تحریف کرکے ان کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ اس طرح سے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ اہل کتاب کے پاس جو صحیفے ہیں ان کی تصدیق کررہے ہیں۔ اس پر سے تو اہل کتاب کو آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کا شکر گزار ہونا چاہیے چہ جائیکہ اسے ماننے سے انکار کردیں۔ دوسرا پہلو اس تصدیق کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اس طرح ان کی کتابوں کی تصدیق کررہی ہیں کہ ان کی کتابوں نے جابجا آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی علامات ذکر کی تھیں۔ آنحضرت کا تو نام مبارک اور حلیہ تک ان کتابوں میں موجود تھا۔ آپ کی بعض نمایاں عادات تک ان میں بیان کی گئی تھیں۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آنے والانبی بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمعیل میں سے ہوگا۔ اسی طرح قرآن پاک میں نازل کردہ تعلیمات کے حوالے سے بہت سی باتیں پہلی کتابوں میں موجود تھیں۔ آپ پر نازل ہونے والی وحی کی صفات تک کو بیان کیا گیا تھا اور اہل کتاب ہمیشہ ان علامتوں کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔ اب جب حضور تشریف لائے اور قرآن کریم نازل ہوا تو وہ بالکل ان صفات کے مطابق اور ان کا پیکربن کرآئے، جیسا ان کی کتابوں نے بیان کیا تھا۔ تو آنحضرت کا ان کتابوں کی بیان کردہ صفات کا حامل ہونا اور قرآن کریم کا انہی بیان کردہ نمایاں خصوصیات کا پرتو ہونا ایک ایسی تصدیق ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دونوں ایک ایک علامت کا مصداق بن کے آئے جبکہ ان کی کتابوں کی بیان کردہ پیشگوئیاں اور علامتیں اب تک اپنے حقیقی مصداق کے ظہور کی منتظر تھیں۔ اب اس کتاب اور اس پیغمبر کے ظہور نے ان کا مصداق دنیا کے سامنے پیش کرکے ان کی کتابوں کو سندتصدیق عطاکردی اور اس طرح سے بنی اسرائیل کا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ دیکھو ہماری کتابوں نے صدیوں پہلے جو کچھ کہا تھا آج دنیانے اپنی آنکھوں سے اسے سچا ہوتادیکھ لیاتوجس پیغمبرا و رجس کتاب نے ان کا سر فخر سے بلند کیا غضب خدا کا تم بجائے اس کے کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا دامن تھامتے اور اس کتاب کو سینے سے لگاتے تمہی سب سے پہلے اس کا انکار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا۔ وَلاَ تَـکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ ” تم ہی سب سے پہلے اس کے کافر نہ بنو “۔ اول کافر کا مفہوم اَوَّلَ کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے۔ کبھی اس کا مضاف الیہ نکرہ مفرد ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے اور کبھی جمع ہوتا ہے۔ جیسے : اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌفَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ ” اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلا اس کا عبادت کرنے والاہوتا “۔ تو یہاں دیکھئے العابدین جمع ہے۔ دونوں کے استعمال میں فرق یہ ہے کہ واحد ہونے کی صورت میں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کوئی اور بھی ہے یا نہیں لیکن جمع آنے کی صورت میں مفہوم یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلا میں ہی ہوں مجھ سے پہلا کوئی نہیں۔ تم سب سے پہلے کافر نہ بنوکا یہ مطلب نہیں کہ جب دوسرے کفر کرنے لگیں تو تمہیں بھی کفر کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن تمہیں سب سے پہلے یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو اصول دین سے واقف ہو، تم صاحب کتاب امت ہو۔ تمہاری کتابوں میں نبی آخرالزمان کی علامتیں موجود ہیں۔ ان علامتوں سے تم اچھی طرح رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو پہچانتے ہو کہ وہ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔ دنیا کے دوسرے لوگ اگر آپ پر ایمان لانے سے انکار کریں تو ان کے لیے کوئی عذر ہوسکتا ہے۔ لیکن تمہارے لیے تو کوئی عذر نہیں ناواقف بھول جائے تو تعجب نہیں ہوتا لیکن جاننے بوجھنے والا غلطی کرے تو نہ صرف کہ تعجب ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اصل غلطی کرنے والے تم پہلے شخص ہو کیونکہ ناواقف کی غلطی تو قابل ذکر نہیں ہوتی۔ دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش اور اہل مکہ نے اگرچہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کا انکار سب سے پہلے کیا کیونکہ اہل کتاب سے واسطہ تو ہجرت کے بعد پڑا۔ لیکن اہل مکہ نے اگر حضور کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو سب نے نہیں کیا بلکہ ایک خاصی بڑی تعداد ایمان لانے والوں کی بھی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے بعد مہاجرین کہلائے۔ اگر قریش میں بڑے بڑے مخالف اور معاند نظرآتے ہیں تو دوسری طرف قریش ہی میں جاں نثاروں اور فرمانبرداروں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے مسلسل 13 سال تک مخالفتوں کی آندھی میں بھی اسلام کا چراغ جلائے رکھا۔ پھر جب حضور ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں آپ کو اوس و خزرج سے واسطہ پڑاتو ایک مختصر عرصے میں ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی، لیکن اگر کسی گروہ نے ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر بحیثیت قوم اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ صرف بنی اسرائیل اور اہل کتاب ہیں۔ تو یہاں تقابل بحیثیت قوم کے فرمایا جارہا ہے کہ ایک طرف بنی اسرائیل کی قوم ہے اور دوسری طرف امی عرب ہیں، چاہے وہ عدنانی ہوں یا قحطانی۔ ان دونوں کا تقابل کریں تو بحیثیت قوم صرف اہل کتاب نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس لیے فرمایا کہ مجموعی طور پر تمہیں ہی اسلام قبول کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن تمہی سب سے پہلے کافر ہوگئے، تمہارے لیے یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی۔ اہلِ کتاب کی اسلام دشمنی کا حقیقی سبب ہماری متذکرہ بالا گزارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل کتاب پر آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت پوری طرح واضح تھی۔ ان کے اہل علم کے ذہنوں میں اسلام کی صداقت کے بارے میں کوئی اخفا نہیں تھا۔ لیکن تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں صرف ٹھوکر ہی نہیں کھائی بلکہ وہ اسلام کے بدترین معاند اور دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور آنحضرت ﷺ کی انھیں راہ راست پر لانے کے لیے تمام مساعی جمیلہ غیر موثر رہیں۔ ایک قاری اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ ہم نے عرض کیا واقعی تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن پروردگار نے اس آیت کے اگلے جملے میں اس حقیقت سے نقاب اٹھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اسلام قبول نہ کرنا دراصل چند درچند خرابیوں کا منطقی نتیجہ تھا۔ اس کے لیے جو تعبیر اختیار کی گئی ہے اس میں قلت فکر کے باعث عموماً یہ بات ذہنوں سے اوجھل رہی۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَلاَ تَشْتَرُوْابِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ” میری آیتوں کو ثمن قلیل کے بدلے میں مت بیچو “۔ بعض برخود غلط قسم کے لوگوں نے تو اس کا یہ مطلب لیا کہ ثمن قلیل یعنی تھوڑی قیمت پر کتاب اللہ کی آیات کو بیچنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن اگر آیات کی کوئی بڑی قیمت مل جائے تو پھر یہ قیمت لے لینے میں کوئی حرج نہیں، حالانکہ یہ ایک معروف اسلوب ہے جس کے مطابق یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ بعض حقیقتیں یا بعض چیزیں اس قدر عظیم ہوتی ہیں کہ دنیا کے مال و دولت سے اس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی یعنی وہ معاوضے بدلے یاقیمت سے ماوراء اور بالا ہوتی ہیں، پوری دنیا بھی ان کی قیمت نہیں بن سکتی۔ ایسی چیزوں کی خریدو فروخت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کی قیمت کیا طے ہوئی ہے بلکہ بجائے خود ان کی قیمت کا طے ہونا ہی اور اس کو سامانِ فروخت سمجھ لینا ہی اس قدر مکروہ اور شنیع فعل ہے کہ جس سے نفرت ہونی چاہیے۔ آدمی ثمن قلیل کو چونکہ فطری طور پر حقیر اور قابل نفرت سمجھتا ہے اس لیے اس فعل کی کراہت اور شناعت کو نمایاں کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی جاتی ہے کہ تم ایسی بےنظیر چیزوں کو کسی بھی قیمت پر بیچو تم نے گویا ان کو ثمن قلیل کے بدلے بیچا ہے۔ لیکن اس آیت میں مزید غور وفکر سے جو بات ذہن میں آتی ہے اور جسے درحقیقت یہاں بیان کرنا مقصود ہے۔ وہ یہ بات نہیں کہ وہ کتاب اللہ کی آیات کو کس قیمت پر بیچ رہے ہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کے اللہ کی طرف سے نئی ہدایت کو قبول کرنے کے راستے میں جو اصل رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ انسانیت سے تہی دامن ہوگئے۔ روحانی زندگی ان کے لیے ایک اجنبی چیز بن گئی۔ دین جو بندے اور خدا کے درمیان ایک رشتہ ہے، وہ ان کے لیے کاروبار ہوگیا۔ اب ان کی زندگی میں دین، شریعت، آخرت ناقابل قدر چیزیں ہیں۔ یہ درحقیقت مفادات کے بندے اور ہوس کے اسیر ہیں۔ یہ ہر کام کرنے سے پہلے اپنے مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کی زندگی کا اصل ہدف دنیا، دولت دنیا اور دنیوی عزت وشہرت ہے۔ اس کے لیے انھیں کچھ بھی بیچنا پڑے یا اقدارِ انسانیت کو نیلامی پر چڑھاناپڑے تو انھیں دریغ نہیں ہوگا۔ اللہ کے دین کو چھوڑ دینا اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا محبوب اور اپنا مقصود بنالینا اور ہر فیصلے کو مفادات کی نگاہ سے دیکھنا یہ وہ رویہ ہے جس کی یہاں نشان دہی کی گئی ہے۔ اسی رویئے نے اہل کتاب کو آنحضرت ﷺ اور آپ کی دعوت کی دشمنی پر اکسایا اور یہی سوچ اور رویہ ہر دور میں انسانیت کی تباہی کا باعث بنتارہا۔ جب کوئی فرد یا کوئی قوم اس گمراہی کا شکار ہوتی ہے تو پھر اس کی زندگی پر اصل حکمرانی مفادات کی ہوتی ہے۔ وہ ہر چیزکو درہم و دینار کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بالکل یہ تصویر ہوتی ہے ؎ خاک باش و خوک باش ویاسگِ مردار باش ہرچہ باشی باش لیکن اند کے زردار باش اب ان کے اندیشے زندگی کی معنوی قدروں اخلاقی عظمتوں کی شکست وریخت یا آخرت میں جواب دہی کے حوالے سے نہیں ہوتے بلکہ ان کے تمام تر اندیشوں کا تعلق صرف ان کے مفادات سے ہوتا ہے۔ قوموں کانشیب و فراز اجتماعی زندگی کی شکست وریخت ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ انھیں اندیشہ ہوتا ہے تو صرف بازار کے اتار چڑھائو کا، پیداوار کے گرنے یا بڑھنے کا، کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی کا، یا پالیسیوں میں نقصان رساں عناصر کے در آنے کا۔ چناچہ آیت کے آخری حصے میں ان کی اسی بیماری کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا گیا : وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ” اور مجھ ہی سے ڈرو “ اس تلقین میں بھی اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ایک اہتمام اور زور ہے۔ جس نے حصر کا معنی پیدا کردیا ہے کہ تمہارے خوفوں اور اندیشوں کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہونا چاہیے جن سے تم نے بنا لیا ہے اور جن کی وجہ سے تمہاری زندگی کا رخ بالکل مخالف سمت کی طرف بدل گیا ہے۔ اب تمہارا رخ اللہ یا آخرت کی طرف ہونے کی بجائے دنیا اور مفاداتِ دنیا کی طرف ہے حالانکہ زندگی سودوزیاں کے اندیشہ سے برتر حقیقت کا نام ہے۔ اس میں جو چیز صالح خون بن کر دوڑتی ہے اور جو اس کی سمت کو درست رکھتی ہے، وہ اللہ کے سامنے جواب دہی کے نتیجے میں اپنے انجام کا خوف ہے۔ اس لیے تمہیں اگر کوئی خوف یا اندیشہ ہونا چاہیے تو وہ صرف یہ کہ تمہیں بہرحال میرے پاس آنا ہے تم اپنی ان بداعمالیوں کے ساتھ میرا سامنا کیسے کروگے ؟ اور تمہارے پاس تمہاری ان بداعمالیوں کا کیا جواب ہوگا ؟ تم نے جو اللہ سے شریعت پر مضبوطی سے قائم رہنے کا عہد کیا تھا اور یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ نبی آخرالزمان اور قرآن پر ایمان لائوگے بلکہ تم نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی عہد و پیمان باندھا تھا کہ تمہیں جو کتاب عطاہوئی ہے خلق خدا کے سامنے اس کی شہادت دوگے اور اس کے کسی بھی جز کو چھپائو گے نہیں۔ لیکن اب جب کہ تم نے دنیا کی حرص میں مبتلاہوکر ہر عہد کو توڑ ڈالا اور مفادات کے بندے بن کر رہ گئے بتائو میرے پاس آکر اس کا کیا جواب دوگے۔ اس لیے آج بھی تمہارے پاس یہ فیصلہ کرنے کا موقع باقی ہے کہ تمہیں مجھ سے ڈرنا ہے یا اپنے مفادات کے بارے میں اندیشوں کا اسیر رہنا ہے۔ دونوں صورتوں میں انجام واضح ہے ؎ دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم فَارْھَبُوْنِ اور فَاتَّقُوْنِ کا مفہوم اور دونوں میں فرق گزشتہ آیت میں فَارْھَبُونِکا لفظ آیا ہے۔ جو رہبت سے ہے اور یہاں فَاتَّقُونِ کا لفظ آیا ہے۔ جو اتقاء یا تقویٰ سے ہے، لفظی معنی تو دونوں کا ” ڈرنا “ ہوتا ہے۔ لیکن اہل علم اس کے مظاہر میں فرق کرتے ہیں۔ کسی کی عظمتوں کے جلال وتصور سے جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے وہ رہبت ہے اور کسی صاحب عظمت و جلال کے قہر وغضب سے بچنے اس کے مقرر کردہ حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام وآیات کی خلاف ورزی سے اجتناب و احتیاط کی جو بےچینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت وجلوت ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے وہ تقویٰ ہے۔ دونوں آیتوں میں ان دونوں لفظوں کا استعمال جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار نے بنی اسرائیل کو اپنے احسانات کا احساس دلا کر اور ان سے لیے ہوئے عہد و پیمان کی یاد دلاکر اور اپنی ذات کی عظمت و جلال سے ان کے دلوں میں ایک ایسی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے ان کے دل لرزاٹھیں اور پھر ان کو ایمان کی دعوت دے کر اور جن کمزوریوں کا وہ شکار ہیں، ان کی نشاندہی کرکے ان کے انجام سے انھیں آگاہ کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی ہولناک صورتحال سے انھیں دوچار ہونا پڑے گا، جس کی فکر مندی اگر آج پیدا کرلی جائے تو ہر اٹھا ہوا غلط قدم رک سکتا ہے۔ ورنہ اللہ کے غضب سے بچنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ یہ انجام کی فکرہی ہے جو انسان کو اللہ کے غضب سے بچاسکتی ہے اور اگر یہ فکر پیدا نہیں ہوتی اور اللہ کا غضب محض ایک مفروضہ بن کے رہ جاتا ہے، تو پھر زوال کی شکار امتوں کے اصحابِ علم و دانش بھی اپنے علم سے قوموں کی رہنمائی کا کام نہیں بلکہ قوموں کے بگاڑ کا کام لیتے ہیں۔ یہود چونکہ اسی زوال کا شکار ہوچکے تھے اس لیے ان کا اخلاقی زوال اسی انتہاء کو چھو رہا تھا جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جارہا ہے۔
Top