Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو اور حق کو نہ چھپائو دراں حالیکہ تم جانتے ہو۔
وَلاَتَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَْکْتُمُوْا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 42) (اور حق اور باطل کو گڈمڈ نہ کرو اور حق کو نہ چھپائو دراں حالیکہ تم جانتے ہو) لا تلبسوا الحق بالباطلکا مفہوم لا تلبسوا۔ لبس سے ہے۔ یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن تمام معانی میں ایک تشابہ اور مناسبت بھی پائی جاتی ہے۔ مثلاً لَبِسَ الثَّوبَ کا معنی ہے ” اس نے کپڑاپہن لیا۔ “ لبس الامرُعَلَیہ کا معنی ہے ” اس نے معاملہ کو گڈمڈ کردیا “۔ کبھی اس کا معنی ہوتا ہے ” ایک دوسرے سے ٹکرادینا “۔ جیسے قرآن کریم میں ہے : قُل ھُوَالْقَادِرُعَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْیَلْبِسَکُمْ شِیَعًا (کہہ دیجئے ! وہ اللہ قادر ہے اس بات پر کہ بھیجے تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے نیچے سے یا تمہیں گروہ درگروہ کرکے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرادے) (الانعام 6: 65) اسی طرح لبس الشی بالشی کے معنی ہوتے ہیں ” ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط اور گڈ مڈ کردیا۔ “ یہاں بھی اس کا یہی مفہوم ہے کہ تم حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط اور گڈمڈ نہ کرو۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اللہ کے دین میں ان کی یہ جسارت ان کے اسی رویئے کا تسلسل تھا جس کا ذکر سابقہ آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ صاحب تفہیم قرآن نے اس کا جو مفہوم بیان کیا ہے ہم افادہ عام کے لیے اس کو نقل کرتے ہیں : (اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اہل عرب بالعموم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے، جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا۔ پھر ان کے علماء اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جماکر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلاکر اس رعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کردیا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ اہل مدینہ ان سے بےحد مرعوب تھے۔ کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے۔ رات دن کا ان سے میل جول تھا اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک ان پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ متمدن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبی کریم ﷺ نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جاکر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں، ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے چناچہ یہ سوال مکہ کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا اور جب نبی کریم ﷺ مدینے تشریف لائے تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہودی علماء کے پاس جاجاکر یہی بات پوچھتے تھے۔ مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید جو محمد ﷺ پیش کررہے ہیں غلط ہے یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اس میں کوئی غلطی ہے یا وہ اخلاقی اصول جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں ان میں سے کوئی چیز غلط ہے۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ پیش کررہے ہیں وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھلی کھلی تردید کرسکتے تھے، نہ سیدھی طرح سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انھوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی کریم ﷺ کے خلاف، آپ کی جماعت کے خلاف اور آپ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے۔ کوئی الزام آپ پر چسپاں کردیتے تھے۔ کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں اور طرح طرح کی الجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی الجھیں اور نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیرؤوں کو بھی الجھن میں ڈالنے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویہ تھا جس کی بناء پر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریر انہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چھپانے کی کوشش نہ کرو اور حق و باطل کو خلط ملط کرکے دنیاکو دھوکا نہ دو ) آیت کے آخر میں وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (حالانکہ تم جانتے ہو) ارشاد فرماکران کے خبث باطن پر ضرب لگائی ہے اور ان کی کتمان کی عادت کو عریاں کردیا ہے کہ تمہیں خوب معلوم ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تمہاری کتابوں میں نبی کریم ﷺ کی صفات مذکور ہیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے کس طرح آسمانی کتابوں میں قلم کاریاں کی ہیں اور تحریف اور ترمیم کی جسارتیں کی ہیں۔ تمہارے اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ تم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی، ان کی قربان گاہ اور مکہ کی سرزمین سے ان کا تعلق اور بیت اللہ کی تعمیر اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو وہاں بسانا اور صفاو مروہ سے ان کا تعلق ختم کرنے کے لیے کیا کیا تبدیلیاں کی تھیں۔ ایسی بیشمار خیانتیں ہیں جن کا ذکر کرنے کی بجائے : وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکہہ کر ان کے ضمیر کے اوپر ٹھوکر لگائی ہے کہ اگر کسی کے ضمیر میں بھی زندگی ہے تو شاید وہ اس چوٹ کو محسوس کرے اور اللہ کے دین کی طرف لوٹ آئے۔ اس کے بعد کی آیت کریمہ ایک طرح سے بنی اسرائیل کے لیے حکم بھی ہے جس سے ان کے اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی یاد دہانی مقصود ہے اور ساتھ ہی ساتھ تعریض بھی ہے جو سابقہ آیت کی تائید ہے۔ ارشاد فرمایا :
Top