Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
(اے بنی اسرائیل ! میرے اس احسان کو یاد کروجو میں نے تم پر بطور انعام کیا اور اس بات کو یاد کرو کہ میں نے تمہیں دنیا والوں پر فضیلت دی۔
یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ (اے بنی اسرائیل ! میرے اس احسان کو یاد کروجو میں نے تم پر بطور انعام کیا اور اس بات کو یاد کرو کہ میں نے تمہیں دنیا والوں پر فضیلت دی) (البقرۃ : 47) سابقہ رکوع کے آغاز میں بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا گیا ہے۔ اب بارے دگر اسی انداز میں خطاب فرمایا جارہا ہے۔ اس پر غور کرنے سے کئی باتیں کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ 1 جو ذات یا جو گروہ بہت عزیز ہو جب اس کے اندر بگاڑ پیدا ہو تو اس کا چاہنے والا اس کے بگاڑ کو سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اسے نہایت پیار اور محبت سے دوبارہ راہ راست پر لایا جائے۔ چناچہ وہ نہایت محبت بھرے انداز میں اسے بار بار پکارتا ہے اس کی غلطیوں پر متنبہ کرتا ہے اور اس کا اصلی مقام یاد دلاکر اسے اپنی اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ کسی کا بیٹابگڑ جائے تو باپ اور بیٹے میں جو حقیقی محبت کا رشتہ ہے اس رشتے کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے باپ اپنے بیٹے کے بگاڑ کو سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔ وہ طریقے طریقے سے اسے نصیحت کرکے راہ راست پر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ نصیحت کرتے ہوئے باربار بیٹابیٹا کہہ کر اپنے بیٹے کو پکارتا ہے۔ تاکہ بیٹے کو اس بات کی شرم محسوس ہو کہ جو باپ مجھے بیٹا بیٹا کہتے ہوئے نہیں تھکتا میں اس کی نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے شرم محسوس کیوں نہیں کرتا۔ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں، لیکن جن پر اس کی عنایت کی نظر ہوتی ہے وہ ان سے معاملہ ایسا ہی کرتا ہے جیسے کوئی چاہنے والا اپنے پسند کے لوگوں سے کیا کرتا ہے۔ 2 بنی اسرائیل کے لفظ سے خطاب کرکے یہ تصور دینا بھی معلوم ہوتا ہے کہ اے لوگو ! تم یاد کرو کہ تم کس کی اولاد ہو۔ تم اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہو جو اللہ کے نبی اور حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی وراثت کے امین تھے۔ انھیں دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا یہی ان کا مقصد زندگی تھا اور یہی ان کا منصبی فریضہ تھا۔ تم اگر واقعی جائز طور پر بنی اسرائیل کہلاتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے ؎ باپ کا علم اگر بیٹے کو نہ ازبر ہو تو پھر پسر لائقِ میراثِ پدر کیوں کر ہو تم نے جو طرز عمل اختیار کرلیا ہے، جو طور اطوار اپنالیے ہیں۔ زندگی میں جو ترجیحات طے کرلی ہیں، دنیاکو مقصود بناکر جس طرح آخرت کو فراموش کردیا ہے اور اللہ کے نبیوں کی تعلیمات اور اللہ کی کتابوں کو پش پشت ڈال چکے ہو۔ کیا حضرت یعقوب کی اولاد ہونے کا یہی تقاضا ہے ؟ تمہیں اگر اور کچھ یاد نہیں تو اپنی نسبتوں کو تو خوب یا درکھتے ہوکاش ان نسبتوں کی حقیقت کو سمجھنے کی بھی کوشش کرو۔ اور یہ بھی جانو کہ ان نسبتوں کے تقاضے کیا ہیں۔ بنی اسرائیل کی فضیلت کی حقیقت 3 سابقہ رکوع کے آغاز میں اپنے انعامات کی یاد دلائی تھی۔ لیکن انعامات کا ذکر نہیں فرمایا تھا۔ لیکن یہاں ان بیشمار انعامات میں سے سب سے پہلے اس انعام کا ذکر کیا جارہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب انعامات سے افضل اور سب انعامات کی بنیاد ہے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ” یاد کرو میں نے تمہیں دنیاوالوں پر فضیلت دی “ اس فضیلت سے مراد قوموں کی ہدایت اور رہنمائی کا وہ منصب ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک خاص دور میں منتخب فرمایا تھا۔ اس وقت کی دنیا اپنے پاس دنیا کی ہر نعمت رکھتی تھی۔ ریاستوں کی کمی تھی نہ حکومتوں کی، زمینیں آباد تھیں، زراعت ترقی پر تھی، ایک خاص حد تک صنعتیں رواں دواں تھیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں دولت کی ریل پیل تھی۔ لیکن ان کے پاس وہ نعمت نہیں تھی جو اللہ کی نعمتوں میں سب سے عظیم ہے۔ اس نعمت سے بنی اسرائیل کو نوازا گیا تھا۔ اپنی توحید کی علمبرداری اللہ نے ان کے سپرد کی تھی۔ نبوت کا چراغ ان کے گھروں میں جلتا تھا۔ زندگی گزارنے کا ضابطہ اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کے اصول بنی اسرائیل کے سپرد کیے گئے تھے۔ وہ روشنی جس سے زندگی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں۔ اس روشنی کا امین بنی اسرائیل کو بنایا گیا تھا اور انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ تم یہ نور اور روشنی لے کر ہر اس جگہ پہنچو جہاں تاریکیوں کے ڈیرے ہیں۔ تم اپنے گردوپیش کی انسانی دنیا کو اس کے خالق ومالک سے آگاہ کرو۔ انھیں بتائو کہ تمہارا خالق ومالک کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ تم انھیں یاد دلائو کہ دنیا تمہاری ابدی آرام گاہ نہیں، یہ ایک مہلت عمل ہے۔ جہاں آنے والی زندگی ( جسے آخرت کہتے ہیں) کے لیے تیاری کرنی ہے۔ تم دنیوی نعمتوں میں کتنی بھی ترقی کرجاؤ، تمہارے خزانے کیسے ہی بھرپور ہوجائیں، تمہاری زمینیں بیشک سونا اگلنے لگیں، اللہ کی نگاہ میں ان میں سے کسی چیز کی قدروقیمت نہیں۔ اس کی نگاہ میں وہ محل قابل نفرت ہے جہاں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو اور وہ جھونپڑا قابل عظمت ہے جہاں اللہ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری ہوتی ہے۔ یہ وہ فریضہ منصبی ہے جس سے بنی اسرائیل گراں بار کیے گئے تھے۔ اسی فریضہ کی ادائیگی میں ان کی تمام فضیلتوں کا راز مضمر تھا کیونکہ جو فضیلت کسی منصب کی ذمہ داریوں سے وابستہ ہوتی ہے وہ اس وقت تک باقی رہتی ہے، جب تک منصب کی ذمہ داریوں میں کوتاہی سرزد نہیں ہوتی اور جب منصبی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا جائے تو محض فضیلت کا دعویٰ کام نہیں آتا البتہ یہ ضرور ہے کہ ذمہ داری کی ادائیگی سے گریز اور اپنی فضیلت کے دعویٰ پر اصرار آخرت میں سخت جواب دہی کا سبب بن جائے گا۔ نہایت پیار سے باربار بنی اسرائیل کہہ کر یہ فرمایا جارہا ہے کہ تمہاری تمام تر فضیلت تمہاری منصبی ذمہ داریوں سے متعلق تھی۔ لیکن تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تمہار ابنی اسرائیل ہونا ہی تمہاری فضیلت کا اصلی سبب ہے۔ اگر تم اپنی اس گمراہی سے نکلنے کی کوشش کرو اور اپنے منصب کی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کی فکر کرو۔ تو دوبارہ پھر اپنی فضیلت کو پاسکتے ہو۔ لیکن تم نے اگر ایسا نہ کیا بلکہ صرف یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ کیونکہ ہم عظیم پیغمبروں کی اولاد ہیں اور ہمیشہ ہمارے ہی خاندان میں نبی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں آخرت کی جواب دہی کا کوئی کھٹکا نہیں۔ کوئی بڑی سے بڑئی ذات بھی اپنے چہیتوں کو نقصان نہیں پہنچایا کرتی۔ جہنم دوسرے لوگوں کے لیے ہے، ہمیں جہنم سے کوئی خطرہ نہیں۔ بدرجہ آخر اگر ہمیں جہنم میں بھیجا بھی گیا تو یہ چند دنوں کی بات ہے جلدی ہمیں جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ فرمایا جارہا ہے کہ یہ تمہارے مفروضوں پر مبنی وہ غلط اعتقادات ہیں جنھوں نے تمہاری دنیا تو برباد کی ہی ہے آخرت بھی برباد کردیں گے۔ اس لیے ہم تمہیں آگاہی دیتے اور تنبیہ کرتے ہیں۔
Top