Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، نہ ان سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔
وَاتَّقُوْایَوْمًا لَّاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ ” اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، نہ ان سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ “ (البقرۃ : 48) اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے اور دیکھئے۔ یہ تنبیہ کس قدر شدید ہے کہ تمہاری گمراہی کی تمام تر بنیاد جس نے تمہیں آخرت کی جواب دہی سے بےنیاز کردیا ہے۔ یہ ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم اپنی زندگی میں چاہے کیسی ہی گمراہیوں میں مبتلا ہوجائیں اور کیسی ہے بداعمالیوں کا ارتکاب کریں ہم چونکہ اولاد ہیں اللہ کے عظیم پیغمبروں کی اس لیے قیامت کے دن ہم سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔ اگر کوئی باز پرس ہوئی بھی تو ہمارے یہ عظیم آبائو اجداد اللہ کے عذاب سے ہمیں بچالیں گے۔ وہ ہمارے اور پروردگار کے درمیان حائل ہوجائیں گے اور ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑالیں گے۔ اس لیے نہایت واضح الفاظ میں فرمایا جارہا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے آبائو اجداد تمہاری تمام تر گمراہیوں کے باوجود قیامت کے دن تمہارے کام آئیں گے حالانکہ قیامت کا دن ایسا دن ہے جس میں کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ کام آنے کی تین ہی صورتیں ہیں۔ کہ اللہ اگر اپنے قانونِ عدالت کے تحت کسی کو پکڑے تو کوئی شفاعت اور سفارش کرنے والا شفاعت اور سفارش سے اسے چھڑالے۔ اور یا کوئی مالی معاوضہ دے کر اللہ کو راضی کرلیاجائے کہ اس شخص کی بےایمانیوں اور بداعمالیوں کا ہم یہ معاوضہ دیتے ہیں اس لیے آپ اس کو چھوڑ دیجئے۔ جیسے بعض دفعہ قاتل کو دیت ادا کرکے چھڑالیا جاتا ہے۔ تو وہاں بھی پروردگار سے یہ پوچھ لیاجائے کہ ان گناہوں کا کیا معاوضہ ہوسکتا ہے چناچہ جو معاوضہ طے ہو اسے ادا کرکے چھڑا لیاجائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گناہوں کی پاداش میں پکڑاجائے تو اس کے مددگار اس کی مدد کے لیے پہنچ جائیں اور اپنی حمایت اور مدد کے زور سے اسے چھڑالیں۔ کسی کے کام آنے کی یہی تینوں صورتیں ہیں۔ اللہ فرماتا ہے وہاں یہ تینوں صورتیں ممکن نہیں ہوں گی۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس اسلوبِ کلام سے بظاہر یہ بات مترشح ہورہی ہے کہ شفاعت کرنے والے، معاوضہ ادا کرنے والے اور مدد کرنے والے اپنی سی کوشش کریں گے لیکن ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ وہاں سرے سے اللہ کے غضب کے سامنے نہ کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا، نہ مدد کو پہنچے گا نہ کوئی معاوضہ کا تصور کرسکے گا۔ عربی زبان کا ایک اسلوب یہ ہے کہ اس میں بظاہر ایک شے کے لازم کی نفی ہوتی ہے لیکن مقصود درحقیقت ملزوم کی نفی ہوتی ہے۔ یہاں بھی مقصود لازم کی نہیں بلکہ ملزوم کی نفی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دوزخیوں کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْن وَلَا صَدِیقٍ حَمِیْم ” نہ ہمارے کوئی سفارش کرنے والے ہیں اور نہ سرگرم دوست۔ “ یعنی ایسا نہیں کہ سفارش یا مدد قبول نہیں کی جائے گی بلکہ سرے سے کوئی سفارش کرنے والا اور کوئی مدد کو پہنچنے والانھیں ہوگا۔ جہاں تک معاوضہ دینے اور حمایت اور مدد سے چھڑالینے کا تعلق ہے۔ اس کے بارے میں نہ بنی اسرائیل میں کوئی غلط فہمی تھی اور نہ امت اسلامیہ میں کوئی غلط فہمی ہے۔ شفاعت کی حقیقت البتہ شفاعت کے بارے میں بنی اسرائیل بھی بری طرح غلط فہمی کا شکار تھے اور اس امت کے بھی بہت سے افراد اس غلط فہمی کا شکار ہیں۔ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ نے نفس شفاعت سے انکار نہیں کیا بلکہ نصوص قرآن وسنت سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ البتہ اس کو مشروط ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ جہاں تک کافر، مشرک اور منافق کا تعلق ہے ان کے بارے میں تو شفاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ جن لوگوں کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہے لیکن نیکیوں میں کمی اور برائیوں میں زیادتیوں کے باعث اندیشہ ہے کہ انھیں جہنم میں بھیج دیا جائے ان کے بارے میں شفاعت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں شرط یہ ٹھہرائی گئی ہے۔ کہ جس کے بارے میں اللہ اجازت دیں گے اس کے بارے میں پیغمبر یا اللہ کے نیک بندے سفارش کریں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ بغیر اذن خداوندی کے جو چاہے اور جس کے بارے میں چاہے شفاعت کرنا شروع کردے۔ حتی کہ وہ پہلی شفاعت جسے شفاعت کبریٰ کہا گیا ہے۔ وہ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ میری اس سے مراد یہ ہے کہ جب تمام انسان میدانِ حشر میں حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ ہر شخص نفسی نفسی پکاررہا ہوگا۔ لوگ آخر اولوالعزم رسولوں کی طرف رجوع کریں گے کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ انسانوں کا حساب کتاب شروع کریں لیکن کوئی پیغمبر اور رسول بھی اس کی جرأت نہ کرسکے گا۔ آخر میں لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جائیں گے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں اجازت طلبی کے لیے سرسجدے میں رکھ دوں گا اور اس وقت میں نہیں جانتا کہ میں کن کلمات سے اللہ کی حمد وثنا کروں گا اس وقت اللہ کی جانب سے وہ کلمات تحمید وتمجید میرے دل میں القاء کیے جائیں گے۔ میں ان کلمات سے اللہ کو یاد کروں گا، میں نہیں جانتاکتنا عرصہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہوں گا۔ پھر آواز آئے گی،” محمد سر اٹھائو، مانگو دیا جائے گا “۔ پھر میں عرض کروں گا ” یا اللہ ! تیری مخلوق بےحد پریشانی میں ہے۔ حساب کتاب شروع کرنے کا حکم عطا فرمایئے “۔ اس شفاعت اور سفارش کے بعد اللہ تعالیٰ حساب کتاب شروع کرنے کا حکم دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس کسی کے بارے میں بھی آنحضرت ﷺ یا اللہ کے نیک بندوں میں سے کوئی سفارش کرنا چاہے گا تو سب سے پہلے اللہ سے اجازت طلب کرے گا۔ اجازت ملے گی تو سفارش کرے گا ورنہ کوئی بھی سفارش کی جرأت نہ کرسکے گا اور اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ کسی کو سزادینا چاہے گا لیکن انبیائے کرام اور اولیائے عظام سفارش سے اسے چھڑالیں گے تو اس سے تو جزا وسزاکا پورا قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر بغیر کسی اصول اور بغیر اذن خداوندی کے سفارش سے کام چلنے لگے تو پھر ایمان وعمل کی کیا ضرورت ہے ؟ یہی تو وہ تصور ہے جس نے ہمیشہ قوموں کو گمراہ کیا۔ اسی تصور نے بنی اسرائیل کو تباہ کیا اور اسی کے ہاتھوں ہم تباہ ہورہے ہیں۔ بدعمل سے بدعمل آدمی اس سہارے اپنی بداعمالیاں جاری رکھتا ہے کہ ہم اللہ کے محبوب پیغمبر کی امت ہیں۔ اگر اللہ نے ہمارا مواخذہ کرنا چاہا بھی تو حضور یہ مواخذہ نہیں ہونے دیں گے تو شفاعت اور سفارش کا یہ تصور جو ہمارے ذہنوں میں ہے، قرآن وسنت کے بالکل برعکس ہے۔ اگر اسے قبول کرلیاجائے تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا پوری شریعت تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم جب کسی کے پاس سفارش کے لیے جاتے ہیں تو سفارش کرنے والادو تصورات لے کرجاتا ہے ایک تو یہ کہ جس کے پاس میں جارہا ہوں وہ مقام و مرتبہ میں میرے برابر ہے یا مجھ سے فروتر ہے یا کم ازکم میرا اس پر اتنا اثر ہے کہ وہ میری سفارش کو رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اللہ کریم کے بارے میں اگر کوئی ایسا تصور کرے کہ مخلوق میں سے بڑی سے بڑی مخلوق بھی اللہ کے برابر ہوسکتی ہے یا اس پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ تو یہ ایک ایسا کفر ہے جو معرفتِ خداوندی سے محرومی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ جس شخص کو اللہ کی ذات وصفات سے کچھ بھی آگاہی ہے وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ خالق و مخلوق برابر ہوسکتے ہیں۔ سفارش کے حوالے سے دوسرا تصور یہ ہے کہ سفارش کرنے والا جب کسی سزا دینے والے کے پاس سفارش کے لیے جاتا ہے تو وہ جاکر یہ کہتا ہے کہ آپ نے جس شخص کو سزادی ہے یقینا آپ نے اس کو مجرم سمجھ کر سزادی ہے کیونکہ آپ کو اس کے بارے میں ایسی ہی اطلاعات دی گئی ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے وہ شخص بالکل بےگناہ ہے۔ آپ کو جو کچھ بتایا گیا وہ بالکل غلط ہے آپ چونکہ اس شخص کو خود نہیں جانتے آپ نے اطلاعات پر اعتبار کیا میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کو یقین دلائوں کہ میں ذاتی طور پرا سے جانتا ہوں وہ شخص ہرگز ایسا نہیں۔ اندازہ فرمائیے کیا اللہ تعالیٰ کسی شخص کے بارے میں بیخبر بھی ہوسکتے ہیں ؟ جس ذات خداوندی کے علم کا یہ حال ہے کہ وہ کائنات کے ان گوشوں سے بھی واقف ہے، جہاں تک کسی انسان کی رسائی نہیں اور جس کے علم کی وسعتوں کا حال یہ ہے کہ وہ انسان کے دل و دماغ میں آنے والے خیالات تک کو جانتا ہے۔ صحرا میں کوئی پتہ گرتا ہے تو وہ اسے دیکھتا ہے، سمندر کے نیچے کوئی مچھلی حرکت کرتی ہے، تو وہ اس کی آواز سنتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ اس کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ کوئی سفارش کرنے والا جاکر اسے یہ کہے کہ آپ نے غلط اطلاعات پر اعتبار کرکے فلاں شخص کو جو سزادی ہے وہ بالکل غلط ہے میں اس کے صحیح حالات سے آپ کو آگاہی دینے کے لیے آیا ہوں۔ اس لیے شفاعت کا یہ تصور تو اللہ کی ذات وصفات کے تصور کے لیے بالکل اجنبی بلکہ مخالف ہے۔ لیکن بنی اسرائیل ایسے ہی تصورات میں الجھے ہوئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ان کی پوری زندگی ایمان وعمل کے نور سے محروم ہوگئی تھی اور یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ وہ امت اسلامیہ جو قیامت تک کے لیے انسانی ہدایت کے عظیم منصب پر فائز کی گئی ہے، اس کی بھی بڑی تعداد اسی گمراہی کا شکار ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایمان وعمل کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور توجہ دلانے پر اسی جاہلانہ تصور کا سہار الیتے ہیں۔ ان دونوں آیتوں پر ایک دفعہ پھر نظر ڈال لیجئے۔ آپ محسوس کریں گے کہ بنی اسرائیل کو ان کی نسبتوں اور ان کے منصب کے حوالے سے ان کا حقیقی مقام یاد دلایا گیا ہے اور پھر معاً بعد وہ آخرت کے بارے میں جن گمراہیوں کا شکار ہوکر اپنی پوری زندگی کو داغ داغ کرچکے ہیں۔ اس کی پوری تصویر ان کے سامنے کھینچ دی گئی ہے اور پھرا نہیں دعوت دی گئی ہے کہ ذراغور کرو تمہارا نشیمن کن بلندیوں پر تھا اور آج تم کن پستیوں میں گرگئے ہو۔ یہ آخری امت بھی چونکہ انہی کے نقوش قدم پر چل رہی ہے، اس لیے ہماے قومی شاعر نے جو قرآن کریم کا طالب علم ہے، بالکل اسی اسلوب پر اس امت کو بھی غیرت دلانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے کہا تھا : ؎ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سردارا پھر آگے چل کر، اُ مت کی حالت پر دل گرفتہ ہو کر کہتا ہے : ؎ اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا بس یہی بات بنی اسرائیل سے کہی جارہی ہے اور حقیقت میں ہمیں سنائی جارہی ہے۔ اے کاش ! ہم سننے کی کوشش کریں۔
Top