Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی تھی۔ جو تمہیں برے عذاب چکھاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ ط وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآئٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ۔ (البقرۃ : 49) (اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی تھی۔ جو تمہیں برے عذاب چکھاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی) اس آیت کریمہ سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے ایسے نمایاں واقعات پیش کیے جارہے ہیں، جس سے بنی اسرائیل کا بچہ بچہ واقف تھا۔ اس لیے بجائے تفصیل بیان کرنے کے اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ہم عصر بنی اسرائیل اگرچہ براہ راست ان واقعات سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لیکن وہ اپنے آبائو اجداد کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کو نہ صرف تسلیم کرتے تھے بلکہ ان پر فخر بھی کرتے تھے۔ اس لیے قرآن کریم نے ان واقعات کو اس طرح پیش کیا ہے گویا یہ انھیں کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ ان واقعات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بیسیوں احسانات کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کے رویے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ احسانات پر شکر ادا کرنے کی بجائے، عموماً ناشکری کرتے رہے۔ ان میں اطاعت گزار لوگوں کاتناسب معصیت کار اور نافرمان لوگوں سے کم تھا۔ انھوں نے ایک سے ایک بڑی ناشکری اور بدعملی کا ارتکاب کیا۔ لیکن اللہ نے عموماً ان کے ساتھ رحمت کا سلوک فرمایا مگر جب یہ حد سے گزرجاتے رہے تو پھر اللہ کا عذاب بھی آیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے، لیکن یہاں جن واقعات کا تذکرہ ہورہا ہے، ان کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور سے ہے۔ یہیں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ دور شروع ہوتا ہے، جس کا تذکرہ تورات میں ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جب بنی اسرائیل کو حامل دعوت امت ہونے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ چونکہ یہ تاریخ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے اس لیے سب سے پہلے ان واقعات کا ذکر کیا جارہا ہے، جن کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے ہے اور یہی دور مصائب کے لحاظ سے بنی اسرائیل کا بدترین دور بھی ہے۔ آل کا مفہوم اس آیت کریمہ میں آل فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یوں تو یہ اہل کا مترادف ہے، لیکن اس میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے۔ اس سے مراد صرف کسی کی اولاد نہیں ہوتی بلکہ یہ لفظ آل واولاد، قوم و قبیلہ اور اتباع وانصار پر بولا جاتا ہے۔ یہاں بھی مراد یہ ہے کہ معاملہ صرف فرعون اور اس کی اولاد تک نہ تھا بلکہ فرعون کی حکومت کے تمام اعوان وانصار فرعون سے خاندانی یا مذہبی تعلق رکھنے والے لوگ اور اہل مصر میں سے اس کے خیر خواہ یا مفاداتی رشتہ رکھنے والے سب لوگ مراد ہیں۔ فرعون سے مراد اسی طرح فرعون کسی متعین بادشاہ کا ذاتی نام نہیں بلکہ یہ قدیم شاہانِ مصر کا عام لقب تھا۔ نام اس کا رعمسیس یا منفتاح تھا تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر بادشاہوں کے نام نہیں چلتے بلکہ وہ اپنے لقب سے پکارے جاتے ہیں، جس طرح ہمارے زمانہ میں ابھی کل تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر، روس کے تاجدار کو زار، اور ترکی کے فرماں روا کو سلطان کہتے تھے۔ مصر میں جب تک بادشاہت رہی والی مصر کو سلطان یا خدیو کہا جاتا تھا۔ والی دکن کو نظام کہتے تھے، اسی طرح یہ فرعون بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا اس بادشاہ کا نام ہے جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو واسطہ پڑا۔ البتہ اب جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس کے گھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پلے بڑھے ہیں اس کا نام رعمسیس تھا۔ البتہ جس کے سامنے آپ دعوت لے کر گئے اور جس کے ساتھ آپ کی کشمکش جاری رہی اور جو بالآخر بحر قلزم کی موجوں کی نذر ہوا وہ اس فرعون کا بیٹا منفتاح تھا۔ قرآن کریم کی بلاغت کی داد دیجئے وہ تاریخ کی تحقیق کے درپے تو نہیں ہوتا کیونکہ وہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں البتہ ایسا لفظ استعمال کرجاتا ہے جس سے صحیح بات کی طرف اشارہ ہوجاتا ہے۔ یہاں بھی قرآن کریم نے فرعون کا نام نہیں لیا بلکہ فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے مصر کا ہر بادشاہ مراد لیا جاسکتا ہے۔ اب اگر وہ ایک تھا تو بھی فرعون تھا اور اگر اس کی جگہ دوسرے نے لے لی اور اس سے حضرت موسیٰ کا واسطہ پڑا تو وہ بھی فرعون تھا اور یہ عمومی لفظ دونوں پر صادق آتا ہے۔ یَسُوْمُوْنَـکُمْ کا مفہوم اور تفصیل اس آیت کریمہ میں اپنے احسانات میں سے سب سے پہلا احسان یہ ذکر فرمایا ہے کہ آل فرعون تم پر بدترین مظالم ڈھا رہے تھے اور پھر ان مظالم کی تفصیل بیان کرنے کی بجائے صرف ایک ظلم کا ذکر کیا ہے۔ لیکن تاریخ اور تورات میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل جو پیغمبروں کی اولاد تھے اور جنھوں نے مصر پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی طویل عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس طرح سے وہ نہایت معزز لوگوں کی قوم تھے۔ لیکن اب آل فرعون کے ہاتھوں وہ اس حال کو پہنچ گئے تھے کہ گھروں سے لے کر بازاروں تک ہر طرح کی بیگار ان سے لی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل کی عورتیں گھروں میں فرعونیوں کی خدمت کرتیں، گھروں کی صفائی کا کام کرتیں، برتن مانجھتیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتیں اور گھروں میں عموماً آنے جانے کے باعث ان کی عزت اور عفت ہر وقت ہوس کا ہدف بنی رہتی اور مرد دن بھر بیگار کرنے میں جتے رہتے۔ سخت سے سخت کام ان سے لیے جاتے۔ بعض دفعہ گھوڑوں اور بیلوں کی جگہ انھیں جوت لیا جاتا اور بڑی بڑی عمارتوں میں وہ اینٹیں اور پتھر اٹھانے کا کام کرتے، پہاڑوں سے پتھر توڑتوڑ کر لانے کا کام بھی انھیں سے لیا جاتا۔ ایک بدتریں غلامی کا دور تھا جس سے یہ گزر رہے تھے۔ اسی کو قرآن کریم نے یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ سے تعبیر کیا ہے۔ ” سوم “ کسی پر سخت ترین بوجھ ڈالنے کو کہتے ہیں۔ ان پر ظلم سے لے کر محرومی تک ہر طرح کا بوجھ لدا ہوا تھا۔ البتہ ایک جان سلامت تھی سو وہ بھی سلامت نہ رہی۔ بچوں کے قتل کا سبب کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے فرعون نے کوئی نہایت بھیانک خواب دیکھا، جس کی تعبیر اس دور کے تعبیر کے ماہرین نے یہ بتائی کہ عنقریب بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو بڑا ہو کر تیری حکومت کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ اسی خواب کے باعث فرعون نے اس خطرے سے بچنے کے لیے یہ انتظام کیا کہ اگر لڑکی ہو تو اسے زندہ چھوڑ دیا جائے اور اگر لڑکا پیدا ہو تو اسے قتل کردیا جائے یا دریا کے پانی میں بہا دیا جائے۔ لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ خواب کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ سراسر ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ مصر کے قرب و جوار میں ایسے قبائل آباد تھے جو فرعون اور اس کی حکومت کے دشمن تھے۔ وہ آئے دن شورش برپا کرتے اور حکومت کا نظام تہس نہس کردیتے۔ ادھر جب فرعون نے یہ محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کی آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور مصر میں ان کی آبادی کاتناسب تشویش کی حد کو چھونے لگا ہے۔ تو اس نے عمائدین حکومت سے مشورہ کیا کہ اگر بنی اسرائیل کی آبادی اسی تیزی سے بڑھتی رہی اور انھوں نے اگر قبائل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرلیاتویہ ہماری حکومت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ قبل از وقت اس کا سد باب کیا جائے۔ چناچہ بچوں کے قتل کا یہ فیصلہ اسی خطرے کو روکنے کی ایک تدبیر تھی۔ قرآن کریم نے ان کے اس فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے بیٹوں کے لیے فرمایا ہے :” وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے “ بیٹوں کے لیے تو ” ابناء “ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں بجائے ” بنات ” کا لفظ استعمال کرنے کے ” نساء “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ بیٹیوں کو بنات کہا جاتا ہے، نساء نہیں کہا جاتا۔ نساء تو جوان اور بڑی عمر کی عورتوں پر بولا جاتا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں الفاظ کے انتخاب میں بنی اسرائیل کے جذبات کو چھیڑنا مقصود ہے تاکہ ان کے دلوں میں تشکر کے جذبات ابھریں۔ بیٹوں کا لفظ بول کر ان کے دلوں میں اولاد کی محبت کے جذبات پیدا کیے گئے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ بیٹوں کا قتل محض انسانی المیہ نہیں تھا بلکہ وہ انتہائی سنگ دلی اور سفاکی کا مظہر بھی تھا۔ ظالم سے ظالم حکومتیں بھی بچوں پر ظلم کرنا کبھی پسند نہیں کرتیں اور انسانی احساسات کا حال یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کے قتل ہونے پر انسانی احساسات اس قدر بےقابو نہیں ہوتے جتنے اولاد اور وہ بھی چھوٹی اولاد کے قتل پر بےقابو اور برہم ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کے زندہ رکھنے کی بات کی جاتی تو اس سے تو ایک نیکی کا تأثر ابھرتا ہے کہ چلیے اگر وہ بیٹوں کو مارتے تھے تو بیٹیوں سے تو کوئی تعرض نہیں کرتے تھے۔ لیکن نساء کا لفظ کہہ کر ان کی شقاوت کو ہی نمایاں نہیں کیا گیا بلکہ بنی اسرائیل کے جذباتِ غیرت کو بھی ہوا دی گئی ہے کہ وہ تمہاری بیٹیوں کو اس لیے زندہ نہیں چھوڑتے تھے کہ وہ بیٹیاں ہیں بلکہ اس لیے زندہ چھوڑتے تھے کہ وہ بڑی ہو کر عورتیں بنیں تاکہ ان کی ہوس رانی کے کام آئیں۔ ذرا غور کیجئے ! کسی قوم پر اس سے بڑا ظلم نہیں ہوسکتا کہ ان کی نرینہ اولاد کو ختم کرکے ان کی نسل ختم کردی جائے اور ان کی عورتوں کو باقی رکھ کر گھروں میں ان سے خدمت بھی لی جائے اور ساتھ ساتھ ان کی قوم کی غیرت کا جنازہ بھی نکال دیاجائے۔ یہ وہ بدترین آزمائشوں کا سلسلہ تھا جو بنی اسرائیل کے لیے عذاب عظیم بن گیا تھا۔ پھر اللہ کی رحمت حرکت میں آئی اور اس نے بنی اسرائیل کو اس عذاب عظیم سے اس طرح نجات دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ انھوں نے فرعون کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور اللہ کی بندگی کی طرف اسے بلایا۔ فرعون نے اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے بنی اسرائیل پر مظالم میں اور شدت پید اکردی۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ کئی سالوں تک یہ کشمکش جاری رہی، بنی اسرائیل اگرچہ گمراہی کی دلدل میں اترچکے تھے لیکن پھر بھی اللہ کو مانتے تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور آخرت کو تسلیم کرتے تھے۔ یوں کہہ لیجئے کہ وہ بگڑے ہوئے مسلمان تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ فرعون اور اہل مصر کسی طرح راہ راست اختیار کرنے کو تیار نہیں تو آپ نے اللہ کی ہدایت کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ آپ بنی اسرائیل کو ساتھ لیکر ملک شام جو ان کا آبائی وطن تھا ہجرت کرجائیں۔ چناچہ اسی وجہ سے آپ نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔ لیکن فرعون نے اس مطالبہ کو ماننے سے انکار کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ فرعونی اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور بنی اسرائیل چونکہ پوری طرح ان کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے ان کا مصر میں رہنا اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہ کن ہے۔ انھیں ایک اسلامی امت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس غلامی سے انھیں نجات ملے۔ اب اس کی ایک ہی صورت تھی کہ آپ انھیں رات کی تاریکی میں لے کرنکلیں اور کسی طرح ملک شام پہنچ جائیں۔ چناچہ اسی فیصلے کے مطابق وہ رات کی تاریکی میں بنی اسرائیل کو لے کرنکلے اس زمانہ میں نہ آج جیسی باقاعدہ سڑکیں تھیں، نہ راستوں میں روشنی کا انتظام، شب کی تاریکی میں راستہ بھول گئے۔ اور بجائے اس کے کہ شمال کی طرف کچھ اور آگے بڑھ کر اپنے دائیں طرف مشرق کی طرف مڑتے، وہ پہلے ہی مشرق کو گھوم گئے۔ ادھر فرعون کو بھی خبر ہوگئی، وہ اپنے لشکر کی کمان خود کرتا ہوا، تیزی سے تعاقب میں آپہنچا۔ اب اسرائیلیوں کے سامنے یعنی مشرق کی جانب سمندر تھا اور دائیں بائیں شمال اور جنوب میں پہاڑیاں تھیں اور پشت پر یعنی مغرب کی جانب مصری لشکر۔ اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ سامنے بحر قلزم کی موجوں نے راستہ روک لیا ہے اور پیچھے فرعون کی فوجوں نے ان کا نکل بھاگنے کا راستہ بند کردیا ہے۔ اب وہ دو موتوں کے درمیان ہیں بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں چونکہ ابھی انھیں تربیت کا موقع نہیں ملا تھا اور برسوں کی غلامی نے ان کے اندر نہ کوئی انفرادی خوبی چھوڑی تھی اور نہ اجتماعی۔ عزم وہمت اور مشکلات سے کھیلنا آزاد لوگوں کے شیوے ہیں۔ غلامی کا حاصل تو زندگی کی ضروریات کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کندہ ناتراش قوم چیخ اٹھی : اِنَّالَمُدْرَکُون ” اے موسیٰ ! ہم تو پکڑ لیے گئے “۔ تم ہمیں یہاں اس لیے لائے تھے کہ ہم چوہوں کی طرح ماردئیے جائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ پر اعتماد اور نبوت کے جلال سے بولے۔ کَلاَّ ” ہرگز نہیں ! “ اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْنِ ” یقینا میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ ضرور مجھے راستہ دے گا۔ “ یہ بحر قلزم کی موجیں میرا راستہ نہیں روک سکتیں اور فرعون کی فوجیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس کے بعد کیا ہوا، اگلی آیت کریمہ میں اس کا ذکر ہے۔
Top