Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور تم پر بدلیوں کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارے، کھائو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں اور انھوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ ط وَمَاظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 57) (اور تم پر بدلیوں کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارے، کھائو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں اور انھوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے) اللہ کے احسانات ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ بحر قلزم عبور کرنے کے بعد بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سیناکے مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ لوگ بےسروسامانی میں گھر سے نکلے تھے۔ کوئی خیمہ ڈیرہ ساتھ نہ تھا۔ ہوتابھی تو کب تک کام دیتا اور اس صحرا میں کوئی سر چھپانے کو جگہ نہ تھی۔ ایسی صورت حال میں جہاں غذا کا حصول ان کی بہت بڑی ضرورت تھی، اس سے بھی بڑی ضرورت دھوپ کی تپش اور موسم کی شدت سے بچائو کا سامان کرنا تھا اور یہ کوئی آسان بات نہ تھی۔ آج جب کہ وسائل کے اعتبار سے دنیا بہت ترقی کرچکی ہے، تب بھی اگر کسی ملک میں چند ہزار مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو ساری دنیا میں اپیلیں ہونے لگتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ تک حرکت میں آجاتی ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کے پاس تو وسائل نام کی کوئی چیزنہ تھی اور ان کی تعداد بھی لاکھوں میں کہی جاتی ہے۔ ان حالات میں ان کے سروں پر بادل کا چھاجانا اور سفر میں بھی بادل کا ساتھ ساتھ چلنا اور تورات کے مطابق رات کو ان کے ساتھ ساتھ روشنی کے ستون کا رہنا اور پھر غذا کے لیے من وسلویٰ کا مہیا ہونا۔ یہ اللہ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ انسانی حکومتیں اپنے تمام تر وسائل کے باوجود اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ اللہ نے ان پر بادل کا سایہ کرکے ان کو موسم کی شدت سے بچایا۔ ورنہ یہ لوگ دھوپ کی تپش سے جل جاتے اور غذا کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے من وسلوٰی کا انتظام کیا۔ من وسلویٰ کی تحقیق انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ترنجبین یادھنیے کے دانوں کی طرح شبنم کی صورت ایک چیز گرتی تھی، جو درختوں کے پتوں یا زمین پر جم جاتی اور خشک ہوکردانوں کی شکل اختیار کرلیتی اور بنی اسرائیل نہایت آسانی سے اسے اکٹھی کرکے چپاتیاں بنالیتے اور یہ مزے میں اس قدر میٹھی اور ایسی لذیذ تھی کہ شاید کوئی دوسری میٹھی چیز ایسی لذیذ نہ ہو اور سلویٰ بٹیر یا بٹیر کی طرح کا ایک پرندہ تھا، جو سمندر کی طرف سے اڑ کر آتا اور اتنا قریب اڑتا اور اتنی مختصر سی اڑان بھرتا کہ آدمی ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیتا اس سے ان کی گوشت کی ضرورت پوری کی گئی۔ ” من “ کو یہود نے استفہام کی شکل دے دی اور یہ کہا کہ اس کا نام اس لیے من پڑا کہ لوگوں نے جب پہلے پہل اس کو زمین پر پھیلے ہوئے دیکھاتو ایک دوسرے سے کہا من من کہ یہ کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر ان کی بدمذاقی کی دلیل ہے۔ عربی زبان میں من اور شاید عبرانی میں بھی ” احسان “ کے معنوں میں آتا ہے۔ یہ چونکہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھا اس لیے اس کو من کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح سلویٰ ” ہمدردی اور خیرخواہی “ کو کہتے ہیں۔ یہ گویا کہ خیرخواہی کا عمل تھا جو اللہ تعالیٰ کے کرم سے ظہور میں آیا۔ یہ نعمتیں دے کر ان سے کہا گیا یا ان نعمتوں کی کثرت زبان حال سے کہہ رہی تھی کہ اللہ نے یہ جو نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں انھیں شوق سے کھائو۔ یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں ان سے تمہارے دل و دماغ میں پاکیزگی پیدا ہوگی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ یہ احساس ہمیشہ توانا رہے کہ یہ اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں اور تورات میں بتایا گیا ہے کہ یہ بھی ان سے کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کی نعمتیں جو تمہیں بغیر محنت کے ملی ہیں انھیں ذخیرہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ جو اللہ آج نعمت دیتا ہے وہ کل بھی دے گا۔ ذخیرہ کرنا بےاعتمادی کے مترادف ہے کہ آج تو یہ نعمت مل گئی ہے، ہوسکتا ہے کل نہ ملے۔ لیکن بنی اسرائیل ذخیرہ اندوزی سے باز نہ آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ نعمتیں سڑنے لگیں اس کے بعد بجائے انھیں خطاب کرنے کے پروردگار نے ان سے منہ پھیر کر یہ بات فرمائی کہ ہم تو ان پر انعامات کی بارش کرتے رہے لیکن وہ ایسے احسان ناشناس تھے بجائے احسانات کا حق ادا کرنے کے انھوں نے ہمیشہ احسان فراموشی، حق تلفی، حق شکنی اور ظلم کارویہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں مختلف مصائب کا شکار ہوئے جو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھا۔ ہم ان پر ظلم کرنے والے نہیں تھے وہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
Top