Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِیْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
وَالَّذِیْنَ
: اور جو لوگ
هَادُوْا
: یہودی ہوئے
وَالنَّصَارَىٰ
: اور نصرانی
وَالصَّابِئِیْنَ
: اور صابی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰہِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
: اور روز آخرت پر
وَعَمِلَ صَالِحًا
: اور نیک عمل کرے
فَلَهُمْ
: تو ان کے لیے
اَجْرُهُمْ
: ان کا اجر ہے
عِنْدَ رَبِّهِمْ
: ان کے رب کے پاس
وَلَا خَوْفٌ
: اور نہ کوئی خوف ہوگا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
هُمْ
: وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
(اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابی۔ (غرض) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے، سو ان سب کے لیے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ کوئی اندیشہ ان کے لیے ہے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج وَلاَخَوْفٌ عَلَیْھِم وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ (البقرۃ : 62) (اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابی۔ (غرض) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے، سو ان سب کے لیے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ کوئی اندیشہ ان کے لیے ہے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے) اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا سے مراد اس آیت کریمہ میں چار گروہوں کا ذکر کرنے کے بعد ایک اصولی بات ارشاد فرمائی ہے۔ ہم اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم ان چاروں گروہوں کا تعارف کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے مومن اور مسلمان مراد ہیں۔ اَلَّذِیْنَ ھَادُوْاسے وہ لوگ مراد ہیں۔ جنھوں نے یہودیت اختیار کی یہودی مذہب کے پیروکار بن گئے اور اپنا نام یہودی رکھ لیا۔ اس لفظ کے استعمال کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اپنے حقیقی مذہب کے اعتبار سے تو مسلمان ہی تھے۔ لیکن جب ان میں بگاڑ انتہا کو پہنچ گیا تو وہ اپنا اصل نام تک بھول گئے۔ انھوں نے مسلمان کہلانے کی بجائے اپنے آپ کو یہودی کہلا نا شروع کردیا۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان میں چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چوتھے بیٹے یہوذا کی اولاد کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں غلبہ حاصل ہوگیا تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے تک پہنچ کر وہ چونکہ اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئے اس لیے انھوں نے اپنا اصل نام چھوڑ کریہوذا کی طرف اپنی نسبت کرلی اور باقی گروہوں نے بھی رفتہ رفتہ اسی نام کو اپنے مذہبی اور قومی نام کے طور پر قبول کرلیا۔ شروع شروع میں ممکن ہے تلفظ کچھ مختلف رہا ہو لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودی کا لفظ مستحکم ہوگیا۔ اب اس نام کے ساتھ جو لوگ اپنے آپ کو منسوب کررہے تھے۔ ان میں ایک گروہ تو وہ تھا جو نسب کے اعتبار سے بنی اسرائیل کہلاتا تھا اور دوسرا گروہ وہ تھا جنھوں نے یہودیوں کے زیراثر رہنے کی وجہ سے یہ مذہب اختیار کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب یہود ایک نسلی مذہب ہے تبلیغی مذہب نہیں۔ کسی غیر اسرائیلی کو باضابطہ یہودی بنانے کا طریقہ ان کے ہاں بالکل نہیں۔ لیکن عرب میں متعدد قبیلے ایسے آباد تھے جو نہ پیدائشی یہودی تھے نہ نسلاً اسرائیلی بلکہ عرب یا غیربنی اسرائیل تھے۔ لیکن یہود کی صحبت سے متاثر اور ان کے علوم سے مرعوب ہو کر انھوں نے پہلے یہود کے طور طریقے اور پھر ان کے عقیدے اختیار کرلیے اور رفتہ رفتہ ان کا شمار بھی یہودی آبادی میں ہونے لگا۔ بجائے الیہود کے اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا لانے میں یہی نکتہ مضمر ہے۔ تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ یہاں ذکر جس گروہ کا ہورہا ہے اس سے مراد صرف بنی اسرائیل نہیں بلکہ وہ تمام لوگ مراد ہیں جو مذہب یہود سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل کی قومی حکومت ووجاہت کا خاتمہ تو ظہور اسلام سے مدتوں پہلے بلکہ کہنا چاہیے کہ 70 عیسوی میں مشرک رومیوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی بربادی کے بعد ہی ہوگیا تھا اور رسول ﷺ کے معاصرین یہود کی حیثیت صرف مذہبی اور دینی فرقہ کی رہ گئی تھی۔ یہاں اسی فرقہ کا ذکر ہورہا ہے۔ نصاریٰ کون ہیں ؟ اَلنَّصٰرٰی : نصاریٰ جمع ہے، نصرانی کی۔ ملک شام (حال فلسطین) میں ایک قصبہ ناصرہ ہے۔ علاقہ گلیلی میں بیت المقدس سے ستر میل شمال میں اور بحر روم سے مشرق میں بیس میل کے فاصلے پر موجودہ آبادی آٹھ اور نوہزار کے درمیان ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آبائی وطن یہی قصبہ ہے اور آپ یسوع ناصری اسی مناسبت سے کہلاتے ہیں۔ ناصرہ ہی کو عربی تلفظ میں نصران بھی کہتے ہیں۔ نصرانی کا انتساب اسی قصبہ کی جانب ہے۔ سموا بذٰلک انتساباً الی قریۃ یقال لھا نصران (راغب) نصران قریۃ بالشام ینسب الیہ النصٰرٰی (جوہری) یہی اشتقاق ایک روایت میں حضرت ابن عباس صحابی سے ابن جریر نے نقل کیا ہے اور یہی قول قتادہ وابن جریج تابعین کا ہے۔ بعض نے اسے عربی کا لفظ فرض کرکے نصرت سے مستشق سمجھا ہے۔ لیکن قول صحیح یہی ہے جو ابھی گزر چکا ہے۔ خوب خیال کرلیاجائے کہ قرآن یہاں ذکر مسیحیوں کا نہیں نصاریٰ کا کررہا ہے اور قرآن کریم کا ہر لفظ پرحکمت ہوتا ہے۔ مسیحی وہ ہیں جو اناجیلِ اربع پر ایمان رکھتے ہیں۔ مسیح کو خدا کا نبی نہیں، خدا کا بیٹامانتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کے قالب میں حلول کر آیا تھا۔ آخرت میں نجات دینے والا خدا کو نہیں مسیح ابن اللہ کو یقین کرتے ہیں۔ اور خدائی کو تین اقنوموں میں تقسیم کرکے ایک ناقابلِ فہم فلسفہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر اقنوم بجائے خود بھی خدا ہے اور تین اقنوم مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں۔ اس کھلے ہوئے شرک کے قائلوں کا ذکر ہرگز اس مقام پر مقصود نہیں اس لیے نام بھی جو مشہور اور چلا ہوا تھا اسے ترک کرکے نصاریٰ لایا گیا۔ نصاریٰ ۔ نصرانی معرب ہے Nazarene کا۔ حضرت مسیح کے سچے پیرو ان کو نبی ماننے والے ابتدائی زمانے میں Nazarenes کہلاتے تھے۔ یہ توحید کے قائل تھے اور بجائے اناجیلِ اربع کے صرف انجیل متی کو مانتے تھے۔ آگے چل کریہی لوگ ابونیہ بھی کہلائے۔ لیکن جب مشرکانہ عقائد کا زور بندھا اور اصل مسیحیت حلولیت اور تثلیث ہی قرار پاگئی تو قدرۃً نصرانیت کا ستارہ بھی گردش میں آیا اور نصرانی اور نصرانیت کے الفاظ بجائے عزت و تکریم کے تحقیر کے موقع اور ذم کے محل میں استعمال ہونے لگے۔ موجودہ مسیحیت سرتاسر پولوسیت ہے۔ اور تمام تر پولوس Paul طرسوسی کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ حضرت مسیح کے چند روز بعد ہی شروع ہوگئی تھی اور نصرانی اس کے بالکل منکر تھے۔ (تفسیر ماجدی) اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم جس گروہ کا نصاریٰ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔ وہ موجودہ عیسائی نہیں ہیں جو اپنے آپ کو مسیحی کہلانا پسند کرتے ہیں اور نصاریٰ کے لفظ کو باعث تحقیر سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے جن پیروکاروں کی تعریف کی ہے اور جنھیں مسلمانوں کے قریب قرار دیا ہے، وہ وہ لوگ تھے جو کہتے تھے، انانصاریٰ ” ہم نصاریٰ ہیں “ اور اس پر فخر کرتے تھے۔ یہ لوگ خلیفہ برحق شمعون کے پیروکار تھے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے جانشینوں نے آنحضرت ﷺ پر ایمان لاکر اسلام کی دولت پائی۔ صابیوں سے کون مراد ہیں ؟ اَلصَّابِئِیْنَ : صابی کی جمع ہے۔ اس کے لفظی معنی میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ بعض اہل علم کا گمان ہے کہ یہ لفظ ” صباء “ سے بنا ہے۔ صباء کے معنی ” طلوع ہونے “ کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ اپنی ستارہ شناسی اور معرفت نجوم میں مہارت کے سبب سے اس نام سے موسوم ہوئے ہوں۔ لیکن مشرکین مکہ نے جس طرح اس لفظ کا استعمال کیا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صابی اس شخص کو کہتے تھے جو اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں آجائے یا اس کی طرف مائل ہوجائے۔ امام راغب نے اس کا یہی معنی کیا ہے۔ یہ ایک مذہبی فرقہ گزرا ہے، جو عرب کے شمال مشرق میں شام و عراق کی سرحد پر آباد تھا اور بعض لوگ جزیرہ موصل کو اس کا مسکن قرار دیتے ہیں۔ ان کے اعتقادات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض اہل علم کا گمان یہ ہے کہ یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے اور اس لیے اصلاً اہل کتاب میں سے تھے۔ اپنے آپ کو نصاریٰ یحییٰ کہتے تھے۔ گویا حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی امت تھے۔ حضرت عمر اور حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) جیسے محقق صحابہ نے ان کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے۔ اس لیے وہ ان کے ذبیحہ کو حلال سمجھتے تھے۔ البتہ مجاہد اور حسن کا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ کسی خاص دین کے پیرو نہیں تھے بلکہ یہودیت اور مجوسیت کے مابین تھے۔ لیکن قتادہ اور حسن بصری سے یہاں تک منقول ہے کہ وہ اہل قبلہ تھے اور پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے اور امام ابوحنیفہ ( رح) جو خود بھی عراقی تھے اس لیے زیادہ امکان ہے کہ وہ ان کے بارے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہوں۔ وہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال سمجھتے تھے اور ان کی عورتوں سے نکاح بھی جائز قرار دیتے تھے۔ تاریخِ عراق پر ایک مستند مستشرق کی کتاب کا اردو ترجمہ کچھ عرصہ پہلے انجمنِ ترقی اردو دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس کے صفحہ 47 پر فاضل مترجم ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اور ینٹل کالج لاہور لفظ مینڈین Mandean پر حاشیہ دیتے ہیں۔ (مینڈین بزبان آرامی بمعنی اولوالعلم اس فرقہ کے لوگ عراق میں اب بھی موجود ہیں اور صابیون کہلاتے ہیں۔ وہ لوگ اگرچہ عیسائی نہیں ہیں تاہم جان دی بپٹسٹ کو مانتے ہیں۔ عراق کے عوام الناس ان کو حضرت یحییٰ کی امت کہتے ہیں) (ایران بہ عہد ساسانیاں) حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اندازے ہیں اس مذہب کے ماننے والوں کا اب کہیں وجود نہیں ملتا، نہ کوئی ان کی مستند تاریخ موجود ہے۔ اس وجہ سے ان کے متعلق اعتماد سے کوئی بات کہنا مشکل ہے۔ لیکن قرآن مجید کے زمانہ نزول میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرقہ کی حیثیت سے ان لوگوں کا وجود بالکل معروف تھا۔ گزشتہ آیات کریمہ میں بنی اسرائیل جو اللہ کے نبیوں کی اولاد تھے، پروردگار نے ان پر اپنے بےپایاں احسانات کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی بداعتقادیوں اور بد اعمالیوں کا تذکرہ بھی فرمایا۔ آخر میں نتیجہ نکالتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہ بنی اسرائیل جب اپنی سرکشی کے باعث حدود سے تجاوز کرگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی پھٹکار ماری۔ جس کے نتیجے میں یہ لوگ نمونہ عبرت بن گئے۔ اس لیے اے دنیا کے تمام مذہبی گروہو ! تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خاندانی یا گروہی انتساب اللہ کے یہاں سرخ رو ہونے کے لیے کافی نہیں۔ بلکہ اس کی بارگاہ میں قبولیت پانے کے لیے جو سرمایہ درکار ہے اس کا نام ایمانِ خالص اور عمل صالح ہے تمہاری نسبت چاہے کسی گروہ سے بھی ہے حتیٰ کہ اگر تم مسلمانوں سے بھی تعلق رکھتے ہو اور امت محمدیہ میں ہونے کا تمہیں شرف حاصل ہے تو یاد رکھو ایمان وعمل کے بغیر محض ایمان کا دعویٰ یا محض گروہی نسبتیں تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی۔ اگر یہ نسبتیں کام آنے والی ہوتیں تو بنی اسرائیل اپنے انجامِ بد کو نہ پہنچتے۔ بین السطور میں یہ بات بھی جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ بنی اسرائیل یا یہودی ہی اصل میں تمام مذہبی گروہوں کی بنیاد ہیں۔ عیسائی اور صابی ان کے بعد وجود میں آئے اور انھیں کا بگاڑ دوسرے گروہوں پر اثر انداز ہوتا رہا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بنی اسرائیل میں جتنی گمراہیاں پیدا ہوئیں اس کا سبب ان کا یہ بنیادی تصور تھا نحن ابناء اللہ واحباء ہ ” ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں “۔ اس لیے قیامت کے دن ہمیں کسی بازپرس کا اندیشہ نہیں اور اگر کوئی معمولی بازپرس ہوئی بھی تو ہوسکتا ہے چند دنوں کے لیے جہنم جانا پڑے لیکن اس کے بعد پھر جنت ہی ہمارا ٹھکانہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے چہیتوں کے سوا کسی اور کو جنت کیسے دے سکتا ہے ؟ ان کے اس غلط اعتماد نے ان کی پوری عملی زندگی کو ویران کردیا۔ وہ جز اور سزا سے بےنیاز ہو کر ہر برائی پر جری ہوگئے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں امت محمدیہ کے سامنے بھی اس پوری تاریخ کے تناظر میں یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ تم بھی کہیں اپنی نسبت پر مغرور ہو کر اپنی اعتقادی اور عملی زندگی کو تباہ نہ کرلینا۔ کیونکہ اگر ایمان اور عمل کی خرابیاں اللہ کے نبیوں کی اولاد کو تباہ کرسکتی ہیں تو تم اس برے انجام سے کیسے بچ سکو گے۔ اس لیے سب سے پہلے ان کا ذکر فرمایا گیا ہے اور باقی گروہوں کا ذکر تاریخی آئینہ کے طور پر ان کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ بس یہی وہ حقیقت ہے جو اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ اس آیت سے بعض لوگوں کے اخذ کردہ غلط مفہوم کی تردید سیاقِ کلام کو دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت میں یہ بیان کرنا ہرگز مقصود نہیں کہ نجات کے لیے کن کن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ گروہی وابستگیاں ایمان وعمل کے بغیر تباہی کا باعث تو ہوسکتی ہیں نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ لیکن نہ جانے کس طرح بعض متکلمین اور منکرین سنت نے اس سے یہ بات اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ان مذاہب کے ماننے والے اگر اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے رہے تو ان کی نجات کے لیے کافی ہے۔ انھیں محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر مذہب بنیادی طور پر سچائی کا حامل ہے اس لیے کسی دوسرے مذہب کو ماننایا کسی دوسرے نبی کو تسلیم کرنا اس کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ یہ بات اگر تسلیم کرلی جائے تو نہ صرف مذہب کی تاریخ تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ سیاق کلام سے بھی اس کا کوئی جوڑ باقی نہیں رہتا اور ساتھ ہی ساتھ جو لوگ قرآن کریم کو مانتے ہیں اور پھر اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں تو ان کے لیے اس سوال کا جواب دینا ناممکن ہوجاتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا اور قرآن کریم کو ماننا ضروری نہیں تو پھر جن آیات میں آنحضرت اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے آخر ان آیات کا کیا مفہوم ہوگا ؟ اور مزید یہ بات بھی کہ رسول اللہ ﷺ نے جو سالہاسال تک اہل کتاب کو دعوت دی وہ کس بات کی دعوت تھی اور پھر حضور کی دعوت اور اہل کتاب کے درمیان جو کشمکش رہی ہے اور جس کے نتیجے میں یہود کو ملک چھوڑنا پڑا۔ حتی کہ خلافتِ راشدہ میں پورے جزیرئہ عرب سے انھیں نکال دیا گیا۔ اس کی آخر کیا توجیہ کی جائے گی ؟ یہ تو بالکل سامنے کی باتیں ہیں جو معمولی غور وفکر کرنے والا آدمی بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس خیال سے کہ اس بات کو برسوں سے بڑی شدومد سے پھیلا یا جارہا ہے اور آج بھی ہمارا دانشور طبقہ جو صریحاً اسلام کا انکار کرنے کی جرات نہیں رکھتا وہ اس طرح کی باتوں کی اوٹ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کرتارہتا ہے اور دلیل کے طور پر اس آیت کریمہ کو پیش کرتا ہے۔ اس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس پر ایک مختصر گفتگو کی جائے۔ کسی بھی کتاب کی کسی بات کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ 1 سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جس سیاق کلام میں یہ بات کہی جارہی ہے اس بات کو اس سیاق کلام سے مربوط ہونا چاہیے یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاق کلام سے کوئی اور بات مفہوم ہورہی ہو لیکن اسی سلسلے کی کسی عبارت کا مفہوم بالکل اس کے برعکس مراد لے لیاجائے۔ 2 کتاب کی کسی بھی عبارت کا مفہوم وہ معتبر سمجھا جاتا ہے جو کتاب کی مجموعی تعلیمات سے مطابقت رکھتاہو اور اگر کوئی ایسا مفہوم مراد لے لیاجائے جو کتاب کی مجموعی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا تو یہ کتاب کا ایسا تضاد ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور عیب نہیں ہوسکتا۔ 3 کتاب میں اگر کسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور اس کتاب کی کسی عبارت سے اس حکم کے خلاف کسی بات کا اگر وہم ہورہا ہے تو اس وہم کو جھٹک دیا جائے گا۔ عبارت کا مفہوم وہ لیا جائے گا جو اس حکم کے مطابق ہوگا۔ آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تینوں حوالوں سے اس آیت کریمہ کا وہ مفہوم جو منکرینِ حدیث لے رہے ہیں۔ صحیح بیٹھتا ہے یا غلط ؟ سب سے پہلے ہم سیاق کلام کو دیکھتے ہیں۔ سورة بقرۃ کا جو مرکزی مضمون ہے وہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر ایمان لانادوسرے پر ایمان لانے کو مستلزم ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مانتا ہوں تو اسے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ وہ قرآن کریم کو بھی اللہ کی کتاب مانے کیونکہ حضور نے زندگی بھر قرآن کریم کو اپنی دعوت کی بنیاد بنایا اور باربار یہ دعویٰ کیا کہ جس خدا نے مجھے رسول بنایا ہے اس نے مجھ پر قرآن جیسی کتاب اتاری ہے۔ اسی طرح کوئی آدمی اگر قرآن کریم کو اللہ کی کتاب مانتا ہے تو اس کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ جس ذات عزیز پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اسے بھی اللہ کا رسول تسلیم کرے کیونکہ کتابیں ہمیشہ رسولوں پر نازل ہوتی ہیں خلا میں معلق نہیں ہوتیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورة بقرۃ کی آیت نمبر 40 اور 41 پڑھیئے۔ آیت نمبر چالیس میں بنی اسرائیل سے وعدہ پورا کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور وہ وعدہ کیا تھا کہ جب بھی نبی آخرالزماں تشریف لائیں گے تم ان پر ایمان لائو گے۔ اور اس کے بعد فرمایا وَاٰمِنُوْابِمَآاَنْزَلْتُ مُصَدِّقَالِّمَا مَعَکُمْ ” اور ایمان لائو اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے جو تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے۔ “ وَلاَ تَکُوْنُوْااَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ” اور تم سب سے پہلے اس کے کفر کرنے والے مت بنو “ اسی کی چند آیات کے بعد یہ آیت کریمہ ہے جو ہمارے پیش نظر ہے۔ غور فرمائیے ! چند آیات پیشتر پروردگار حکم دے رہے ہیں کہ جس نبی پر ایمان لانے کا تم سے ہمیشہ وعدہ لیا گیا وہ نبی تشریف لے آئے اور ان پر ہم نے کتاب بھی نازل کردی۔ اب ایفائے عہد کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کتاب پر ایمان لائو اور اس نبی پر ایمان لائو جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے۔ اسی سلسلہ ٔ کلام میں آگے جاکر یہ فرمایا جارہا ہے کہ کوئی بھی مذہبی گروہ ہو اس کی نجات کے لیے ایمان وعمل ضروری ہے محض گروہی وابستگی کافی نہیں۔ انصاف سے کہیے کہ یہاں جس ایمان کی بات ہورہی ہے کیا وہ ایمان صرف اپنے اپنے مذہب پر ایمان ہے یا اس ایمان سے وہ ایمان مراد ہے جس کا آیت نمبر 41 میں حکم دیا گیا ہے۔ یقینا سیاق وسباق کو دیکھتے ہویے یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں جس ایمان کا ذکرہورہا ہے وہ قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان کے بغیر قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ آیت نمبر 41 میں صاف فرمایا گیا ہے کہ اگر تم قرآن پاک اور نبی کریم ﷺ پر ایمان نہیں لائو گے تو یہ صریحاً کفر ہوگا اور دیکھو تم سب سے پہلے کفر کرنے والے نہ بنو۔ میں نہیں سمجھتاجو شخص اس آیت کریمہ کا وہ مفہوم مراد لیتا ہے جو سابقہ آیات کے بالکل خلاف ہے وہ قرآن کریم کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے کہ جس کتاب میں اس قدر کھلا تضاد ہو کہ جس بات کو وہ خود کفر قرار دے چند آیات کے بعد اسی کا حکم دینے لگے ایسی غلطی تو معمولی مصنف بھی نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ خالق کائنات اور غلطیوں سے پاک علم رکھنے والی ذات اپنی کتاب میں ایسی غلطی کا ارتکاب کرے۔ آئیے ! ہم اسی بات کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قرآن پاک نے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کانہ صرف حکم دیا ہے بلکہ اسی کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ضامن ٹھہرایا ہے۔ اور پھر اس میں مزید احتیاط یہ کی گئی ہے کہ عام انسانوں کو آنحضرت کی بعثت عامہ کے حوالے سے الگ حکم دیا اور اہل کتاب کے لیے الگ ذکر فرمایا تاکہ آنے والی دنیا میں کوئی اس تاویل کا سہارا نہ لے سکے کہ عام انسانوں کے لیے تو آنحضرت پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن اہل کتاب چونکہ پہلے ہی اپنے اپنے نبیوں اور کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے اس کی کوئی پابندی نہیں۔ اب دونوں کی مثالیں قرآن مجید میں دیکھئے۔ عام لوگوں کے لیے آنحضرت کی بعثت کا ذکر فرماکر بطور خاص اللہ پرا اور آپ پر ایمان لانے کا حکم دیاحالان کہ جب یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں پیغمبر فلاں قوم کے لیے مبعوث ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ان پر ایمان لانا ہوگا لیکن پروردگار نے کسی بات کو بھی مبہم نہیں رہنے دیا۔ ارشاد فرمایا : قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو َیُحْیِ وَیُمِیْتُص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِیِّ الَّذِیْ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (کہہ دو ! اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ اس اللہ کا جس کے لیے ہے آسمان اور زمین کی بادشاہی۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہ۔ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر جو ایمان لاتا ہے اللہ اور اس کے کلمات پر اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ ایاب ہو) (الاعراف : 157) اس آیت کریمہ میں دیکھئے کہ تمام انسانوں کی طرف آنحضرت ﷺ کی بعثت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس میں اگرچہ کوئی ابہام نہیں لیکن بہانہ جُو طبیعتیں یہ کہہ سکتی تھی کہ اس سے مراد شائدصرف عرب کے لوگ ہیں۔ اس لیے اس ابہام کو بھی یہ کہہ کر ختم کردیا کہ آپ اس اللہ کے رسول بن کر آئے ہیں، جس کی حکومت اور جس کی مملکت میں زمین اور آسمان سب شامل ہیں۔ اس لیے اس کا رسول بھی جہاں جہاں بھی جن اور انس کا وجود ہے سب کے لیے رسول بن کر آیا ہے۔ پھر آیت کے دوسرے حصے میں رسول کے لفظ کو بھی مبہم نہیں رہنے دیا بلکہ آپ کا وصفی نام جس کا تذکرہ پہلی آسمانی کتابوں میں ہے۔ اس کا ذکر فرماکر پوری طرح بات کو کھول کر رکھ دیا۔ جیسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جب آپ تمام انسانوں کی طرف رسول بن کر آئے ہیں تو ان میں اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ لیکن پروردگار نے قرآن کریم میں اہل کتاب کا اس حوالے سے الگ ذکر فرمایا اور ان کی فلاح و کامرانی کو اسی ایمان پر منحصر قرار دیا۔ سورة الاعراف میں موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی امت کے لیے دعا کا ذکر کیا گیا ہے جس میں آپ نے اپنی امت کے لیے اللہ سے رحمت مانگی ہے۔ اس کے جواب میں پروردگار نے فرمایا کہ یہ رحمت ان لوگوں کے لیے خاص ہوگی جو تقویٰ اختیار کریں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے اور ان میں سے جن کو پیغمبر آخرالزمان کا زمانہ ملے گا وہ ان پر ایمان بھی لائیں گے۔ بلکہ ان کے لیے اللہ کی رحمت کا تمام تر دارومدار اللہ اور اس کے آخری رسول پر ایمان لانے پر ہوگا۔ ارشاد فرمایا : وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآاِلَیْکَ ط قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَکْتُُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِیْ التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِط یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْاالنُّوْرَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الاعراف : 155 تا 156) (اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا، میں اپنا عذاب جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے۔ سو میں اس کو لکھ رکھوں گا، ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جس کو لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں، جو ان کو حکم دیتا ہے نیکی کا اور روکتا ہے برائی سے اور حلال ٹھہراتا ہے ان کے لیے پاکیزہ چیزیں اور حرام ٹھہراتا ہے ناپاک چیزیں اور ان سے دور کرتا ہے وہ بوجھ اور پھندے جو ان پر تھے۔ پس جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جنھوں نے اس کی تائید اور مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں) ان آیات پر غور کیجئے ! ان میں نہایت مبہم انداز میں اہل کتاب اور دوسرے تمام انسانوں کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا دارومدار اسی پر رکھا گیا ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں ان آیات میں قرآن پاک میں جو حکم دیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن زیربحث آیت میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مذہبی گروہ کے لیے اپنے اعتقادات کے مطابق عمل کرنے میں ہی نجات ہے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ان کے لیے ضروری نہیں تو اندازہ فرمائیے اس سے بڑھ کر کسی کتاب کے اندر تضاد کی اور بدتر سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے ؟ حالانکہ قرآن پاک کے طالب علم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے۔ ایک جگہ اگر وہ ایک بات کو مبہم یا مجمل انداز میں ذکر کرتا ہے تو دوسری جگہ اس اجمال یا ابہام کو کھول دیتا ہے۔ اور یہ تفصیل اور توضیح پہلی آیت کی تفسیر بن جاتی ہے۔ جب بھی کوئی قرآن کریم کا طالب علم ان آیتوں کا مفہوم متعین کرنا چاہے گا تو وہ دونوں آیتوں کو سامنے رکھے گا۔ یہاں بھی زیر بحث آیت کریمہ کا وہی مفہوم معتبر ہوگا جو مندرجہ بالا مفصل آیات کریمہ کی روشنی میں واضح ہورہا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی عام تعلیمات سے اس آیت کی وضاحت میں ہمیں کیا مدد ملتی ہے ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے جہاں بھی ایمان کا ذکر فرمایا ہے وہاں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو اکٹھے ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں آپ سینکڑوں جگہ آمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ کے الفاظ دیکھیں گے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ مزید ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سورة نساء میں رسول اللہ کے احکام سے پہلو تہی کو نفاق قرار دیا گیا ہے اور پروردگار نے قسم کھا کر یہ بات فرمائی کہ یہ لوگ ہزار ایمان کا دعویٰ کریں لیکن جب تک آپ کو زندگی کے ہر معاملے میں فیصلہ کن اتھارٹی تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک یہ صاحب ایمان نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو لوگ بظاہر اپنے آپ کو مومن کہتے تھے لیکن وہ حقیقت میں مومن نہیں تھے تو ان سے صراحتہً فرمایا : یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْاباللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَالکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلٰی رَسُولِہ ” اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہوا (یعنی ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو) ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ “ اندازہ فرمائیے ! اللہ کو وہ ایمان قبول نہیں جس میں رسول اور کتاب پر ایمان شامل نہ ہو۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں بھی قرآن کریم نے مجمل ایمان کا ذکر کیا ہے وہاں پوری امت نے بالاجماع ان تمام چیزوں پر ایمان لانا مراد لیا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً سورة العصر کو دیکھ لیجئے اس میں صرف ایمان کا ذکر ہے۔ لیکن تمام مفسرین نے اس میں تمام ایمانیات کو شامل کیا ہے۔ جن میں اللہ، اس کے رسول اور قرآن کریم پر ایمان کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ہم نے تین پہلوئوں سے زیر بحث آیت کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ آپ ان تینوں پہلوئوں پر غور فرمائیں اور پھر خدا لگتی کہیے کہ کیا قرآن کریم کی کسی آیت میں اس بات کا دور دور تک بھی امکان ہوسکتا ہے کہ ایمان سے مراد اپنے اپنے مذہب کے اعتقادات پر ایمان ہے۔ نہ اس میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان شامل ہے اور نہ قرآن کریم پر ایمان۔ یعنی یہودی یہودی رہے۔ عیسائی عیسائی رہے اور صابی صابی۔ ان سے بالکل نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نبی آخری الزمان پر ایمان کیوں نہ لائے ؟ تم نے قرآن پاک کی تعلیمات کو قبول کیوں نہ کیا ؟ اگر اس بات کو ذرا سا بھی تسلیم کرلیاجائے تو پھر اس بات کا جواب دینا ناممکن ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کس مقصد کے لیے ہے ؟ اور آپ نے 23 سال تک جس مقصد کی بالا دستی کے لیے جان توڑ کوششیں کیں اور زندگی کا ہر دکھ اٹھایا وہ مقصد آخر کیا تھا ؟ اگر اہل مذہب کو اپنے مذہب ہی پر باقی رہنا تھا تو پھر قرآن کریم کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے : ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالھُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ (اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے) حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد دنیا کے لیے صراط مستقیم پانے اور نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لایا جائے اور آپ کی پیروی کی جائے اس کے سوا نجات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ صرف اللہ پر ایمان لانا بھی رسول پر ایمان لانے کے بغیر ناممکن بھی ہے اور بےمعنی بھی۔ اللہ کے رسول دنیا میں آکر جس کشمکش سے گزرتے ہیں اس کی بنیاد اللہ کا انکار نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے رسول اور اس کی تعلیمات سے انکار ہوتا ہے کیونکہ رسول کی تعلیمات کے بغیر اللہ پر ایمان ایک ایسی بےمعنی چیز ہے جس کی کوئی شکل متعین نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے دین کے دشمنوں نے ہمیشہ ایمان باللہ سے ایمان بالرسول کو الگ کرنے کی سازش کی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے پورے دین کو ایک موم کی ناک بنادیا جائے کہ پھر ہر بدطینت شخص اپنی اپنی مرضی کے مطابق اس کا حلیہ بناتا اور بگاڑتا رہے۔ اس مناسب تنبیہ کے بعداگلی آیات کریمہ میں بنی اسرائیل کی عہد شکنیوں کو ذکر کیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ایمان وعمل کے نور سے محروم ہوگئی اور قرآن کریم کے نزول کے وقت ان کے پاس اپنے ماضی کی عظمت کے افسانوں کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ ان کی تاریخ کو ان کے سامنے رکھ کر بتایا جارہا ہے کہ تم ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص منصب پر فائز کیے گئے تھے جب تم نے اس مقصد کو نظرانداز کردیا تو وہ منصب بھی تم سے چھن گیا۔ تم اگر چاہتے ہو کہ دوبارہ تمہیں پھر وہی سرافرازیاں حاصل ہوں تو اس کے لیے تمہیں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانا ہوگا ورنہ اس کے بغیر تو تم ایک ایسا گروہ ہو جو دوسروں کے لیے اپنے اندر سامانِ عبرت کے سوا کچھ نہیں رکھتا۔ چناچہ دوسروں کو عبرت اور انھیں شرم دلانے کے لیے ان کے ماضی کے چند اوراق الٹے جارہے ہیں۔
Top