Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 64
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ : پھر تم پھرگئے مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَلَوْلَا : پس اگر نہ فَضْلُ اللہِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهُ : اور اس کی رحمت لَكُنْتُمْ ۔ مِنَ : تو تم تھے۔ سے الْخَاسِرِیْنَ : نقصان اٹھانے والے
پھر تم نے اس کے بعداعراض کیا تو اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم نامرادوں میں سے ہوچکے ہوتے۔
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَج فَلَوْلَافَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَـکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (پھر تم نے اس کے بعداعراض کیا تو اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم نامرادوں میں سے ہوچکے ہوتے) (البقرۃ : 64) یعنی تورات کو اس تاکید اور اہتمام کے ساتھ ان کے حوالے کرنا اور پھر یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ انھیں کہنا کہ اس تورات کی تعلیمات پر عمل کے نتیجے ہی میں تم اپنی دنیا اور آخرت بنا سکتے ہو اور اگر تم نے اس کے احکام سے روگردانی کی اور اس کتاب کا حق ادا نہ کیا تو تم اللہ کے عذاب کا شکار بھی ہوسکتے ہو اور پھر مسلسل ان احکام کی یاددہانی کے لیے وہ اپنی آنکھوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی دیکھتے رہے اور اللہ کی رحمتوں کا نزول بھی برابر ان پر ہوتا رہا۔ بایں ہمہ انھوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کتاب سے اعراض کارویہ اختیار کیا۔ کبھی اس کتاب کے احکام کو تاویلوں کا تختہ مشق بنایا، کبھی صریحاً اطاعت سے انکار کردیا، اس سب کچھ کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برستا اور انھیں تباہ و برباد کردیا جاتا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے ہم عصر اہل کتاب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ یہ سارے جرائم تمہارے اسلاف نے کیے۔ لیکن چونکہ تم ان کے کرتوتوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور تم اپنے آپ کو ان کا ہر لحاظ سے حقیقی جانشین ثابت کررہے ہو اس لحاظ سے ان کے یہ اعمال تمہارے اعمال ہیں کیونکہ تم ان کے فکری اور عملی وارث ہو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں تباہ کردیا جاتا نتیجۃً تمہارا دنیا میں کہیں وجود نہ ہوتا۔ لیکن تمہارا ان تمام بداعمالیوں کے باوجود صفحہ ہستی پر ایک مذہبی گروہ کے طور پر موجود ہونا یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ تمہاری تاریخ کے مختلف ادوار میں اگرچہ تمہارے اسلاف بڑی سزائوں سے گزر چکے ہیں لیکن تمہیں مکمل طور پر تباہ نہیں کیا گیا یہ صرف اس لیے تاکہ تمہیں پیغمبر آخرالزمان ﷺ کی بعثت سے سنبھلنے کا ایک آخری موقعہ دیا جائے۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ عزت کی زندگی حاصل کرلو۔ ورنہ تمہیں اب تک جس طرح سامانِ عبرت بناکر رکھا گیا ہے آئندہ تمہارے ساتھ اس سے بھی بدتریں سلوک ہوگا۔ امتِ مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ امت محمدیہ کے لیے بھی اس میں لمحہ فکریہ ہے کہ بنی اسرائیل اور یہود جو امت محمدیہ ہی کی طرح ایک حامل دعوت امت تھے ان کے بارے میں صاف صاف بتایا جارہا ہے کہ ان کی بقا اور عزت کا تمام تر دارومدار ان کی طرف نازل ہونے والی کتاب پر عمل کرنے پر تھا۔ جب تک وہ اس پر عامل رہے تو وہ دنیا کی ایک عظیم قوم تھے۔ انھیں بڑے بڑے ملکوں کی حکمرانی بھی حاصل تھی۔ لیکن جب انھوں نے اپنی کتاب سے اعراض کیا تو وہ سامانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ آج اس امت کے لیے بھی سوچنے کا موقعہ ہے کہ ہماری قسمت بھی ترازو میں ہے۔ قرآن کریم ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت محفوظ شکل میں ہمارے پاس ہے، ہمارے ساتھ بھی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اہل کتاب کے ساتھ تھا۔ ہماری بقا اور سرافرازی کا دارومدار اسی دین سے وابستگی پر ہے۔ ورنہ اس سے اعراض کی صورت میں ہمارے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اہل کتاب کے ساتھ ہوچکا۔
Top