Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنھوں نے تم میں سے سبت کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندرہوجائو
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِیْ السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَ ۔ فَجَعَلْنٰھَا نَکَالًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَمَا خَلْفَھَاوَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔ (البقرۃ : 65 تا 66) (اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنھوں نے تم میں سے سبت کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندرہوجاؤ۔ پھر ہم نے اسے عبرت بنادیا اس زمانہ کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لیے اور نصیحت بنادیا اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) نقض عہد کی مثال گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اللہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اور ترغیب اور ترہیب سے کام لیتے ہوئے تورات حوالے کی اور ان پر اچھی طرح یہ بات واضح کردی کہ تورات کے احکام پر عمل کرنے ہی میں تمہارے لیے فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے۔ لیکن بنی اسرائیل نے ایک وقت آیا کہ ان ساری تاکیدات کو نظر انداز کرتے ہوئے احکامِ تورات سے روگردانی کی۔ ظاہر ہے کہ یہ روگردانی اور اعراض کا مکمل عمل بیک وقت رونما تو نہیں ہوا ہوگا۔ مختلف وقتوں میں سرکشی یا نافرمانی کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہوں گی۔ چناچہ ان کے اعراض کی جستہ جستہ مثالیں اگلے رکوعوں میں دور تک بیان کی گئی ہیں۔ چناچہ اس کی سب سے پہلی مثال اس آیت کریمہ میں دی گئی ہے۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا ؟ سورة الاعراف میں اس واقعہ کو کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ہم بھی اگر اللہ کو منظور ہوا تو وہیں اس کی تفصیل عرض کریں گے۔ لیکن آیت کی وضاحت کے لیے اجمالاً عرض یہ ہے کہ یہ واقعہ سورة اعراف کے بیان کے مطابق ایک ایسے شہر میں پیش آیا جہاں بنی اسرائیل کی کوئی شاخ آباد تھی اور وہ شہر ساحل سمندر پر واقع تھا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا زمانہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ حضرت دائود کا زمانہ حکومت ” 1013 قبل مسیح تا 973 قبل مسیح “ کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا نام ” ایلات “ تھا۔ اسی بستی کو ” ایلہ “ بھی کہا گیا ہے۔ یہ فلسطین کے جنوب میں عرب کی عین شمالی سرحد پر قدیم علاقہ ادوم میں بحر قلزم کی مشرقی خلیج میں لب ساحل واقع ہے۔ موجودہ جغرافیہ میں اس کو ” عقبہ “ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور عقبہ، خلیج عقبہ کی مشہور بندرگاہ ہے۔ اس شہر میں یہودی آباد تھے۔ انھیں اللہ نے حکم دیا تھا کہ تم سبت کے دن کو اللہ کی یاد اور عبادت کے لیے مخصوص کردو۔” سبت “ ، ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ دن ان کے لیے محترم بنایا گیا تھا اور اس دن کے بارے میں حکم دیا کہ اس روز تجارت، زراعت، شکار وغیرہ ہر قسم کا دنیوی کام ممنوع ہوگا اور جو اس دن کوئی دنیوی کام کرے گا اس کی سزا قتل ہوگی۔ چناچہ تورات میں آج بھی یہ الفاظ موجود ہیں۔ پس سبت کو مانواس لیے کہ وہ تمہارے لیے مقدس ہے اور جو کوئی اس کو پاک نہ جانے وہ ضرور مارڈالا جائے .... جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مارڈالا جائے (خروج 31: 14، 15) “ یہاں اس واقعہ کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اشارہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ یہاں ” لام اور قد “ دو حرف تاکید کے لیے آئے ہیں۔ قد، تحقیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور لام حرف تاکید ہے۔ اس لیے تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ تم اس واقعہ کو جانتے ہو۔ یعنی تمہاری تاریخوں میں یہ واقعہ محفوظ ہے اور لوگوں میں چونکہ اکثر اس کا تذکرہ رہتا ہے اس لیے سب اس واقعہ سے آگاہ ہیں۔ جو واقعہ اس قدر مشہور ہو اس کی تفصیل بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہوتی۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ تم نے یعنی تمہارے اسلاف نے سبت کے بارے میں حدود سے تجاوز کیا تھا۔ یعنی انھیں سبت کے احترام اور اس کے تقدس کو ملحوظ رکھنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کو انھوں نے پائوں تلے روند ڈالا۔ انھیں دنیوی کاروبار کرنے کی ممانعت کی گئی تھی لیکن انھوں نے طریقے طریقے سے کاروبار جاری رکھا۔ یہ لوگ چونکہ ساحل بحر پر آباد تھے اور ساحل بحر پر رہنے والے لوگوں کی گزر بسر کا بڑا ذریعہ مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فرمانبرداری کو آزمانے کے لیے حکم دیا گیا کہ تم ہفتے کے چھ دن شوق سے شکار کرو لیکن سبت کے روزسبت کے احترام میں شکار کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن جب انھوں نے نافرمانی کارویہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش میں شدت پید اکردی اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ ہفتے کے چھ دن بہت کم مچھلی ملتی۔ لیکن سبت کے دن سطح آب پر مچھلیاں درانہ وار اٹھکیلیاں کرتی نظر آتیں۔ مچھلی ہمیشہ پانی میں ڈوب کرتیرتی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے بتایا ہے کہ سبت کے دن مچھلیاں سر اٹھائے سطح آب پر تیزی سے شکاریوں کی طرف بڑھتی چلی آتیں۔ چناچہ بنی اسرائیل اس آزمائش کی تاب نہ لاسکے انھوں نے اس حکم کو توڑنے کے لیے حیلے نکالے۔ سمندر سے کچھ فاصلے پر گڑھے کھود لیے اور ان گڑھوں تک نالیاں نکال لیں۔ چناچہ سبت کے دن ان نالیوں کے دہانے کھول دیتے اور مچھلیاں اپنے گڑھوں میں بھر لیتے اور اتوار کے دن گڑھوں سے مچھلیاں پکڑ لیتے اس طرح سے وہ یہ تاثر دیتے کہ ہم نے اللہ کے حکم کی تعمیل بھی کی اور اپنی ضرورت بھی پوری کرلی۔ اس طریقے سے انھوں نے اللہ کے حکم کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اس پر اللہ کا عذاب حرکت میں آیا اور یہ سارے نافرمان لوگ بندر بنادیئے گئے۔ مسخ حقیقی تھا یا معنوی بعض لوگوں کو گمان یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر بندر نہیں بنائے گئے تھے بلکہ یہ مسخ اور چہروں کا بگاڑ معنوی طور پر ہوا تھا کہ شکلیں ان کی انسانوں کی تھیں لیکن طور اطوار بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ یہ سزا بھی کوئی کم سزانھیں لیکن جس طرح اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اور جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور مزید فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو اس وقت کی دنیا اور بعد کے آنے والوں کے لیے عبرت بنادیا ہے کہ جنھوں نے انھیں دیکھاوہ بھی کانپتے رہے اور جنھوں نے ان کے بارے میں سنا ان پر بھی لرزہ طاری ہوا۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ الفاظ کو حقیقی معنی میں لیا جائے۔ روایات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کیا یہ موجودہ بندر انھیں کی اولاد ہیں ؟ آنحضرت نے جواب دیا کہ نہیں۔ بندر اس واقعہ سے پہلے بھی موجود تھے، موجودہ بندر انھیں بندروں کی اولاد ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل کے لوگوں کو جو بندر بنایا گیا تھا وہ تین دن کے بعد مرگئے تھے۔ وہ تین دن تک ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے رہے چیختے رہے بالآخر فنا کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ اس واقعہ میں عبرت کا سامان تو اس قدر ہے کہ آدمی اگر بالکل دل کا اندھا نہ ہوجائے تو وہ اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں نصیحت بھی ہے۔ لیکن نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کو ملتی ہے جوگوشِ نصیحت نیوش رکھتے ہوں اور جن کے پہلو میں قلب سلیم موجود ہو۔ آئیے اس واقعہ میں دیکھیں کہ اس میں ہمارے لیے کیا کیا نصیحتیں مضمر ہیں۔ اس واقعہ میں مضمر نصیحتیں 1 سبت کا دن ان کے لیے مقدس بنایا گیا تھا۔ یعنی اسے ذکر اللہ اور عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا تاکہ ہفتہ بھر دنیوی جھمیلوں کی مصروفیت دلوں پر جو زنگ چڑھا دیتی ہے اس کے اتارنے کا سامان ہوتا رہے۔ آدمی ہزار کوشش کرے کہ وہ ہر کام کو اللہ کے احکام کے مطابق انجام دے۔ لیکن انسانی فطرت یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوتاہی بھی ہوجاتی ہے اور کبھی نہ کبھی طبیعت خواہشات سے زنگ آلود بھی ہوجاتی ہے۔ دنیوی مشاغل اپنے اثرات ضرور چھوڑتے ہیں۔ اللہ سے تعلق میں یکسوئی نہیں رہتی۔ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایک دن ایسا ہو جس میں تمام دنیوی آلائشوں سے یکسو ہو کر آدمی اللہ کو یاد کرسکے۔ چناچہ سبت کا دن اسی غرض کے لیے بنی اسرائیل کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ عیسائیوں نے شائد اسی غرض کو سامنے رکھتے ہوئے اتوار کے دن کو اپنے لیے مقدس بنالیا۔ انجیل سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان کے لیے اتوار کے دن کو مقدس ٹھہرایا گیا ہو۔ لیکن عیسائی بہرحال اس دن کو ایسا ہی مقدس سمجھتے ہیں جیسے یہود کے لیے سبتکادن۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد جب ایک نئی امت وجود میں آئی تو پروردگار نے ان کے لیے جمعہ کے دن کو مقدس ٹھہرایا۔ یہود کی طرح مسلمانوں کو یہ حکم تو نہیں دیا گیا کہ تم اس میں کوئی دنیا کا کاروبار نہیں کرسکتے۔ البتہ ! یہ ضرور تاکید فرمائی گئی کہ جمعہ کی اہمیت اور عظمت کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ جمعہ کی نماز کی اہتمام کے ساتھ پابندی کرنا اور اس دن کو ذکر اللہ اور تذکیرودعوت کے لیے زیادہ سے زیادہ مخصوص کرنے کی کوشش کرنا۔ چناچہ قرون اولیٰ میں ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن عموماً دنیوی کاروبار سے احتراز کرتے تھے، دن ڈھلنے سے پہلے ہی جمعہ کی نماز کے لیے مسجدیں بھر جاتی تھیں اور جمعہ کے لیے مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے تھے۔ انھیں اجتماعات میں خلفاء بڑے بڑے فیصلوں کے اعلانات کرتے تھے۔ اس دن کی عظمت کے لیے حضور نے بیشمار فضائل بیان فرمائے اور یہاں تک تاکید فرمائی کہ جمعرات ہی سے جمعہ کی تیاری شروع ہوجانی چاہیے۔ آنحضرت کا ارشاد ہے : ” جو شخص جمعہ کی صبح کو اٹھ کر یہ پوچھتا ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ وہ بربادہوگیا۔ “ مزید فرمایا کہ ” جمعہ کے دن اللہ کی جانب سے فرشتے مسجدوں کے دروازے میں رجسٹر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس میں ہر آنے والے کا نام لکھتے ہیں اور یہ نام لکھنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک خطیب خطبہ دینے کے لیے منبر پر فروکش نہیں ہوجاتا۔ خطیب کے آجانے کے بعد وہ رجسٹر بند کرکے خود خطبہ سننے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ آتے ہیں وہ جمعہ کی نماز سے تو ضرور سبکدوش ہوجائیں گے لیکن ثواب و درجات سے محروم کردئیے جائیں گے۔ “ ہمیں سوچنا چاہیے کہ مسلمانوں کا آج کا طرز عمل جمعہ کے بارے میں کس حد تک بگڑ گیا ہے۔ ظہر کی چار رکعتوں کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا اس لیے حکم دیا گیا ہے تاکہ دو رکعت کی جگہ دین سیکھنے کے لیے خطیب کی تقریر سننے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ جمعہ کا اصل مقصدتذکیر و دعوت ہے صرف عبادت نہیں اور تذکیر و دعوت تقریر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قوموں کی تاریخ کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر قوم نے اپنے مقدس دن کو اپنی شناخت کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ اسرائیل کی حکومت یہودی ہونے کی وجہ سے سبت کی عظمت کو سمجھتی ہے اس لیے انھوں نے اپنی مملکت میں سبت کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹی کا دن بنایا ہے۔ کیونکہ جب ہفتے میں چھٹی کا دن آتا ہے تو ہر عمر کے آدمی کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ چھٹی آخر اسی دن کیوں کی جاتی ہے ؟ کسی اور دن کیوں نہیں ؟ اسی سے اس کے سامنے اس دن کی اہمیت اور عظمت واضح ہوتی ہے اور اس سے انھیں اپنی شناخت میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ عیسائی باوجود اس کے کہ صدیوں سے مذہب کی حقیقت سے بےگانہ ہوچکے ہیں ان کے یہاں مذہب کے نام کے سوا شائد ہی کوئی چیز باقی رہ گئی ہو۔ بایں ہمہ انھوں نے اتوار کے دن کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اتوار کو اپنی شناخت بنائے رکھا۔ برصغیر میں جب ان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو انھوں نے یہاں بھی اتوار کے دن کو چھٹی کے دن کے طور پر مقرر کیا۔ لیکن ہماری بدنصیبی کا عجیب عالم ہے کہ ہم نے اپنے مقدس دن کو شناخت کے طور پر استعمال کرنا تو دور کی بات ہے عبادت کے نور سے بھی محروم کردیا۔ کاروبار سے نکل کر یا دفتر سے چھٹی ہونے کے بعد جمعہ کے لیے ایسے وقت میں پہنچنا کہ خطیب کی تقریر سننے کا بھی موقع ملے یہ ہمارے لیے مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔ اذانیں گونجتی رہتی ہیں کاروبار جاری رہتا ہے۔ دفتر سے نکل کر گھر پہنچتے جمعہ کا اکثر وقت نکل جاتا ہے۔ لوگ یا تو جمعہ ہی نہیں پڑھتے یا جمعہ پڑھتے ہیں تو صرف عربی خطبہ یا دو رکعت نما زکی حد تک۔ کاش ! ہم کبھی اپنی ان محرومیوں پر غور کرسکیں۔ 2 اس بستی کے رہنے والوں پر جو عذاب آیا اس کا سبب صرف یہ نہیں تھا کہ انھوں نے سبت کے تقدس کو پامال کیا تھا۔ بلکہ اس پامالی کی شکل میں انھوں نے احکامِ خداوندی کا تمسخراڑایا تھا۔ انھیں شکار کھیلنے سے روکا گیا تھا تو انھوں نے مخالفت اور نافرمانی کے لیے حیلے تجویز کرلیے۔ چناچہ دین کو اس طرح مذاق بنانے اور اللہ کے احکام کو بگاڑنے کی انھیں یہ سزاملی کہ وہ بندر بنادیئے گئے اور آج تک بطور عبرت ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس میں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انھوں نے ایک حکم کا مذاق اڑایا تو ان کا انجام یہ ہوا۔ ہم نے تو دین کا بند بند توڑ ڈالا۔ معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، تہذیب اور تمدن میں کون سی چیز ایسی ہے جس میں ہم نے احکامِ خداوندی کی پرواہ کی ہے۔ جن کی معاشرت اللہ کے احکام کے مطابق ہے ہم انھیں دقیانوسی سمجھتے ہیں۔ جو تہذیبی طور پر مسلمان رہنا چاہتے ہیں، ہم انھیں آثار قدیمہ میں شمار کرتے ہیں۔ جو اللہ کے قانون کی بالادستی پر اصرار کرتے ہیں انھیں ہم انتہاپسند قرار دیتے ہیں۔ سود کے معاملے میں ہم نے اللہ کے قانون کا وہ مذاق اڑایا ہے کہ پناہ بخدا۔ شرم وحیا کو اللہ کے رسول نے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ ہم نے بےحیائی کو اپنی تہذیب سمجھ لیا ہے اور اس میں ہماری جسارتوں کا عالم یہ ہے کہ ہمارا پورا میڈیا اس میں غرق ہوگیا ہے اور جو زیادہ بےحیائی کا کردار کامیابی سے ادا کرتا ہے، ہم اسے تمغہ دینا ضروری سمجھتے ہیں اور اگر وہ مرجاتا ہے تو ہم اسے ناقابلِ تلافی نقصان سمجھتے ہیں۔ احکامِ شریعت کا مذاق اڑانا اور انھیں پرانے وقتوں کی باتیں قرار دینا ہمارے دانشور طبقے کا معمول ہوگیا ہے۔ اگر بنی اسرائیل پر چند احکام کا تمسخر اڑانے سے اللہ کا عذاب ٹوٹتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا ؟ یہ تو آنحضرت ﷺ کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ ہم مسخ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں ورنہ ہم نے بھی اپنے چہرے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت پورا عالم اسلام ذلت کے جس عذاب میں مبتلا ہے وہ ہمارے اپنے اعمال کا شرعی نتیجہ ہے۔ جب کوئی اللہ کا بندہ مسلمانوں کی اس حالت ِ زار پر اپنے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ادھر سے آواز آتی ہے ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ 3 زیر بحث آیت کریمہ میں غور کرنے سے ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو سبت کے احترام کے سلسلے میں بطور خاص یہ حکم دیا گیا کہ تم سبت کے دن شکار نہ کھیلو۔ وہ لوگ چونکہ ساحل بحر پر رہنے والے تھے اور ساحل کے مکینوں کی غذا میں عموماً مچھلی کو غالب حصہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بات تو قابل فہم ہے کہ مچھلی کے شکار کے بغیر ان کے لیے غذائی ضرورت کو پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن اس کے لیے یہ کیا ضروری تھا کہ وہ سبت کے دن بھی مچھلی پکڑتے۔ باقی ہفتے کے 6 دن کیا مچھلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کفایت نہیں کرسکتے تھے۔ آج کی متمدن دنیا میں بھی متعدد ملکوں میں ہفتے کے دنوں میں ایک دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اور اس سے قومی سطح پر کبھی کوئی مسئلہ پیدانھیں ہوا۔ اگر وہ ایک دن مچھلی کا گوشت حاصل نہ کر پاتے تو یقینا ان کے لیے بھی کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھیں پیغمبر کے ذریعے اچھی طرح یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ اگر تم نے سبت کے احترام میں شکار کھیلنا نہ چھوڑا تو تم پر اللہ کا عذاب آسکتا ہے۔ بایں ہمہ انھوں نے شکار پر ضد کی۔ البتہ اس کے لیے ایسے حیلے تلاش کیے جس سے اللہ کا حکم مذاق ہو کر رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر انھوں نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ گوشت کی ایک دن کی کمی کو برداشت کیوں نہ کرسکے ؟ بعض اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ان کی بےصبری کی وجہ یہ تھی کہ ہفتے کے چھ دنوں میں بہت کم مچھلی دریا میں آتی تھیں۔ لیکن سبت کے دن مچھلی ہجوم کر کے آتی تھیں، جس سے باقی چھ دنوں کی کمی بھی پوری ہوجاتی۔ اب اگر وہ سبت کے دن بھی مچھلی نہ پکڑتے تو یقینا ان کی غذائی ضرورت پورا نہ ہوتی۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیکن اس سے سوال کا مکمل جواب نہیں ملتا البتہ سوال ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ جو اپنی مخلوق کو غذا فراہم کرتا ہے۔ اس میں عام طور پر کبھی ایسا نہیں ہو تاکہ غذا کی بہم رسانی کا جو ذریعہ ہے اس میں اچانک رکاوٹ پیدا کردی جائے یا اسے کسی دن کے ساتھ مخصوص کردیا جائے۔ اس کا تو مستقل ایک تکوینی نظام ہے جو اللہ کی مشیت اور حکمت کے مطابق چلتا رہتا ہے اور جب کبھی کہیں کسی ایسی تبدیلی کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے پیچھے یقینا کوئی سبب کارفرما ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں بھی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ایسا سبب کیا پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اللہ کے نظام میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔ قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اللہ کا جب کوئی بندہ اللہ کے حکم کے مطابق حلال رزق پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حلال رزق میں ایسی برکت ڈال دیتا ہے کہ وہ تھوڑا بھی ہو جب بھی اس کی ضرورتوں کے لیے کفایت کرجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حلال رزق پر اکتفا کی بجائے حرام رزق پر ہاتھ مارتا ہے بلکہ حلال رزق پر صبر کرنے سے انکار کردیتا ہے اور وہ اللہ کے حکم کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے نفس یا شیطان کی بندگی کرنے لگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی طبیعت کو اس طرح کا بنا دیتے ہیں کہ حلال رزق اس کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ وہ چاہے بڑی تعداد میں بھی ہو لیکن وہ یہی محسوس کرتا ہے کہ میرا اس سے گزارہ نہیں ہوگا۔ شیطان اسے ضروریات کی فراوانی سے ڈراتا ہے۔ کبھی فقر کی تباہ ناکیاں اس کے سامنے لا کھڑی کردیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حرام کو اپنی ضرورت سمجھنے لگتا ہے۔ آج بھی ہم اگر اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ رشوت سے پرہیز کرتے ہیں اور ہر طرح کے حرام مال سے اجتناب کرتے ہیں، اللہ انھیں برکت عطا فرماتا ہے اور ان کی تنخواہ ان کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ لیکن جو لوگ حرام ذرائع تلاش کرلیتے ہیں اور پھر اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انھیں ہزار سمجھائو کہ تم حرام کھا رہے ہو کل کو اللہ کو جاکر کیا جواب دو گے ؟ تو وہ بڑی عاجزی سے جواب دیتے ہیں کہ کیا کریں ؟ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے حلال ذرائع اس کے لیے کفایت نہیں کرتے حالانکہ انھیں کے ساتھ کام کرنے والے انھیں جیسی ضروریات رکھنے والے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو تنخواہ ہی میں گزارہ کرتے ہیں اور ان کا گزارہ ہوجاتا ہے۔ ان کے حق میں اللہ کا یہی قانون حرکت میں آتا ہے کہ ان کے مال میں بےبرکتی کردی جاتی ہے اور ان کی طبیعت میں یہ بات اتاردی جاتی ہے کہ تم حرام کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوگئی تھی۔ مسلسل اللہ کی نافرمانیوں کے باعث وہ اللہ کے قانون کی زد میں آگئے اور بےصبری میں حدود سے تجاوز کرگئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب نے انھیں اہل دنیا کے لیے عبرت بنادیا۔ اگلی آیات کریمہ میں بنی اسرائیل کے نقض عہد اور سرکشی کی ایک اور مثال بیان فرمائی گئی ہے۔
Top