Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ
: اور البتہ تم نے جان لیا
الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا
: جنہوں نے زیادتی کی
مِنْكُمْ
: تم سے
فِي السَّبْتِ
: ہفتہ کے دن میں
فَقُلْنَا
: تب ہم نے کہا
لَهُمْ
: ان سے
كُوْنُوْا
: تم ہوجاؤ
قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ
: ذلیل بندر
اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنھوں نے تم میں سے سبت کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندرہوجائو
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِیْ السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَ ۔ فَجَعَلْنٰھَا نَکَالًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَمَا خَلْفَھَاوَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔ (البقرۃ : 65 تا 66) (اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنھوں نے تم میں سے سبت کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندرہوجاؤ۔ پھر ہم نے اسے عبرت بنادیا اس زمانہ کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لیے اور نصیحت بنادیا اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) نقض عہد کی مثال گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اللہ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اور ترغیب اور ترہیب سے کام لیتے ہوئے تورات حوالے کی اور ان پر اچھی طرح یہ بات واضح کردی کہ تورات کے احکام پر عمل کرنے ہی میں تمہارے لیے فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے۔ لیکن بنی اسرائیل نے ایک وقت آیا کہ ان ساری تاکیدات کو نظر انداز کرتے ہوئے احکامِ تورات سے روگردانی کی۔ ظاہر ہے کہ یہ روگردانی اور اعراض کا مکمل عمل بیک وقت رونما تو نہیں ہوا ہوگا۔ مختلف وقتوں میں سرکشی یا نافرمانی کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہوں گی۔ چناچہ ان کے اعراض کی جستہ جستہ مثالیں اگلے رکوعوں میں دور تک بیان کی گئی ہیں۔ چناچہ اس کی سب سے پہلی مثال اس آیت کریمہ میں دی گئی ہے۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا ؟ سورة الاعراف میں اس واقعہ کو کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ہم بھی اگر اللہ کو منظور ہوا تو وہیں اس کی تفصیل عرض کریں گے۔ لیکن آیت کی وضاحت کے لیے اجمالاً عرض یہ ہے کہ یہ واقعہ سورة اعراف کے بیان کے مطابق ایک ایسے شہر میں پیش آیا جہاں بنی اسرائیل کی کوئی شاخ آباد تھی اور وہ شہر ساحل سمندر پر واقع تھا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا زمانہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ حضرت دائود کا زمانہ حکومت ” 1013 قبل مسیح تا 973 قبل مسیح “ کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا نام ” ایلات “ تھا۔ اسی بستی کو ” ایلہ “ بھی کہا گیا ہے۔ یہ فلسطین کے جنوب میں عرب کی عین شمالی سرحد پر قدیم علاقہ ادوم میں بحر قلزم کی مشرقی خلیج میں لب ساحل واقع ہے۔ موجودہ جغرافیہ میں اس کو ” عقبہ “ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور عقبہ، خلیج عقبہ کی مشہور بندرگاہ ہے۔ اس شہر میں یہودی آباد تھے۔ انھیں اللہ نے حکم دیا تھا کہ تم سبت کے دن کو اللہ کی یاد اور عبادت کے لیے مخصوص کردو۔” سبت “ ، ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ دن ان کے لیے محترم بنایا گیا تھا اور اس دن کے بارے میں حکم دیا کہ اس روز تجارت، زراعت، شکار وغیرہ ہر قسم کا دنیوی کام ممنوع ہوگا اور جو اس دن کوئی دنیوی کام کرے گا اس کی سزا قتل ہوگی۔ چناچہ تورات میں آج بھی یہ الفاظ موجود ہیں۔ پس سبت کو مانواس لیے کہ وہ تمہارے لیے مقدس ہے اور جو کوئی اس کو پاک نہ جانے وہ ضرور مارڈالا جائے .... جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مارڈالا جائے (خروج 31: 14، 15) “ یہاں اس واقعہ کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اشارہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ یہاں ” لام اور قد “ دو حرف تاکید کے لیے آئے ہیں۔ قد، تحقیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور لام حرف تاکید ہے۔ اس لیے تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ تم اس واقعہ کو جانتے ہو۔ یعنی تمہاری تاریخوں میں یہ واقعہ محفوظ ہے اور لوگوں میں چونکہ اکثر اس کا تذکرہ رہتا ہے اس لیے سب اس واقعہ سے آگاہ ہیں۔ جو واقعہ اس قدر مشہور ہو اس کی تفصیل بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہوتی۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ تم نے یعنی تمہارے اسلاف نے سبت کے بارے میں حدود سے تجاوز کیا تھا۔ یعنی انھیں سبت کے احترام اور اس کے تقدس کو ملحوظ رکھنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کو انھوں نے پائوں تلے روند ڈالا۔ انھیں دنیوی کاروبار کرنے کی ممانعت کی گئی تھی لیکن انھوں نے طریقے طریقے سے کاروبار جاری رکھا۔ یہ لوگ چونکہ ساحل بحر پر آباد تھے اور ساحل بحر پر رہنے والے لوگوں کی گزر بسر کا بڑا ذریعہ مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فرمانبرداری کو آزمانے کے لیے حکم دیا گیا کہ تم ہفتے کے چھ دن شوق سے شکار کرو لیکن سبت کے روزسبت کے احترام میں شکار کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن جب انھوں نے نافرمانی کارویہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش میں شدت پید اکردی اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ ہفتے کے چھ دن بہت کم مچھلی ملتی۔ لیکن سبت کے دن سطح آب پر مچھلیاں درانہ وار اٹھکیلیاں کرتی نظر آتیں۔ مچھلی ہمیشہ پانی میں ڈوب کرتیرتی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے بتایا ہے کہ سبت کے دن مچھلیاں سر اٹھائے سطح آب پر تیزی سے شکاریوں کی طرف بڑھتی چلی آتیں۔ چناچہ بنی اسرائیل اس آزمائش کی تاب نہ لاسکے انھوں نے اس حکم کو توڑنے کے لیے حیلے نکالے۔ سمندر سے کچھ فاصلے پر گڑھے کھود لیے اور ان گڑھوں تک نالیاں نکال لیں۔ چناچہ سبت کے دن ان نالیوں کے دہانے کھول دیتے اور مچھلیاں اپنے گڑھوں میں بھر لیتے اور اتوار کے دن گڑھوں سے مچھلیاں پکڑ لیتے اس طرح سے وہ یہ تاثر دیتے کہ ہم نے اللہ کے حکم کی تعمیل بھی کی اور اپنی ضرورت بھی پوری کرلی۔ اس طریقے سے انھوں نے اللہ کے حکم کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اس پر اللہ کا عذاب حرکت میں آیا اور یہ سارے نافرمان لوگ بندر بنادیئے گئے۔ مسخ حقیقی تھا یا معنوی بعض لوگوں کو گمان یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر بندر نہیں بنائے گئے تھے بلکہ یہ مسخ اور چہروں کا بگاڑ معنوی طور پر ہوا تھا کہ شکلیں ان کی انسانوں کی تھیں لیکن طور اطوار بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ یہ سزا بھی کوئی کم سزانھیں لیکن جس طرح اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اور جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور مزید فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو اس وقت کی دنیا اور بعد کے آنے والوں کے لیے عبرت بنادیا ہے کہ جنھوں نے انھیں دیکھاوہ بھی کانپتے رہے اور جنھوں نے ان کے بارے میں سنا ان پر بھی لرزہ طاری ہوا۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ الفاظ کو حقیقی معنی میں لیا جائے۔ روایات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کیا یہ موجودہ بندر انھیں کی اولاد ہیں ؟ آنحضرت نے جواب دیا کہ نہیں۔ بندر اس واقعہ سے پہلے بھی موجود تھے، موجودہ بندر انھیں بندروں کی اولاد ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل کے لوگوں کو جو بندر بنایا گیا تھا وہ تین دن کے بعد مرگئے تھے۔ وہ تین دن تک ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے رہے چیختے رہے بالآخر فنا کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ اس واقعہ میں عبرت کا سامان تو اس قدر ہے کہ آدمی اگر بالکل دل کا اندھا نہ ہوجائے تو وہ اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں نصیحت بھی ہے۔ لیکن نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کو ملتی ہے جوگوشِ نصیحت نیوش رکھتے ہوں اور جن کے پہلو میں قلب سلیم موجود ہو۔ آئیے اس واقعہ میں دیکھیں کہ اس میں ہمارے لیے کیا کیا نصیحتیں مضمر ہیں۔ اس واقعہ میں مضمر نصیحتیں 1 سبت کا دن ان کے لیے مقدس بنایا گیا تھا۔ یعنی اسے ذکر اللہ اور عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا تاکہ ہفتہ بھر دنیوی جھمیلوں کی مصروفیت دلوں پر جو زنگ چڑھا دیتی ہے اس کے اتارنے کا سامان ہوتا رہے۔ آدمی ہزار کوشش کرے کہ وہ ہر کام کو اللہ کے احکام کے مطابق انجام دے۔ لیکن انسانی فطرت یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوتاہی بھی ہوجاتی ہے اور کبھی نہ کبھی طبیعت خواہشات سے زنگ آلود بھی ہوجاتی ہے۔ دنیوی مشاغل اپنے اثرات ضرور چھوڑتے ہیں۔ اللہ سے تعلق میں یکسوئی نہیں رہتی۔ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایک دن ایسا ہو جس میں تمام دنیوی آلائشوں سے یکسو ہو کر آدمی اللہ کو یاد کرسکے۔ چناچہ سبت کا دن اسی غرض کے لیے بنی اسرائیل کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ عیسائیوں نے شائد اسی غرض کو سامنے رکھتے ہوئے اتوار کے دن کو اپنے لیے مقدس بنالیا۔ انجیل سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان کے لیے اتوار کے دن کو مقدس ٹھہرایا گیا ہو۔ لیکن عیسائی بہرحال اس دن کو ایسا ہی مقدس سمجھتے ہیں جیسے یہود کے لیے سبتکادن۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد جب ایک نئی امت وجود میں آئی تو پروردگار نے ان کے لیے جمعہ کے دن کو مقدس ٹھہرایا۔ یہود کی طرح مسلمانوں کو یہ حکم تو نہیں دیا گیا کہ تم اس میں کوئی دنیا کا کاروبار نہیں کرسکتے۔ البتہ ! یہ ضرور تاکید فرمائی گئی کہ جمعہ کی اہمیت اور عظمت کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ جمعہ کی نماز کی اہتمام کے ساتھ پابندی کرنا اور اس دن کو ذکر اللہ اور تذکیرودعوت کے لیے زیادہ سے زیادہ مخصوص کرنے کی کوشش کرنا۔ چناچہ قرون اولیٰ میں ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن عموماً دنیوی کاروبار سے احتراز کرتے تھے، دن ڈھلنے سے پہلے ہی جمعہ کی نماز کے لیے مسجدیں بھر جاتی تھیں اور جمعہ کے لیے مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے تھے۔ انھیں اجتماعات میں خلفاء بڑے بڑے فیصلوں کے اعلانات کرتے تھے۔ اس دن کی عظمت کے لیے حضور نے بیشمار فضائل بیان فرمائے اور یہاں تک تاکید فرمائی کہ جمعرات ہی سے جمعہ کی تیاری شروع ہوجانی چاہیے۔ آنحضرت کا ارشاد ہے : ” جو شخص جمعہ کی صبح کو اٹھ کر یہ پوچھتا ہے کہ آج کونسا دن ہے ؟ وہ بربادہوگیا۔ “ مزید فرمایا کہ ” جمعہ کے دن اللہ کی جانب سے فرشتے مسجدوں کے دروازے میں رجسٹر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس میں ہر آنے والے کا نام لکھتے ہیں اور یہ نام لکھنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک خطیب خطبہ دینے کے لیے منبر پر فروکش نہیں ہوجاتا۔ خطیب کے آجانے کے بعد وہ رجسٹر بند کرکے خود خطبہ سننے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ آتے ہیں وہ جمعہ کی نماز سے تو ضرور سبکدوش ہوجائیں گے لیکن ثواب و درجات سے محروم کردئیے جائیں گے۔ “ ہمیں سوچنا چاہیے کہ مسلمانوں کا آج کا طرز عمل جمعہ کے بارے میں کس حد تک بگڑ گیا ہے۔ ظہر کی چار رکعتوں کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا اس لیے حکم دیا گیا ہے تاکہ دو رکعت کی جگہ دین سیکھنے کے لیے خطیب کی تقریر سننے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ جمعہ کا اصل مقصدتذکیر و دعوت ہے صرف عبادت نہیں اور تذکیر و دعوت تقریر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قوموں کی تاریخ کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر قوم نے اپنے مقدس دن کو اپنی شناخت کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ اسرائیل کی حکومت یہودی ہونے کی وجہ سے سبت کی عظمت کو سمجھتی ہے اس لیے انھوں نے اپنی مملکت میں سبت کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹی کا دن بنایا ہے۔ کیونکہ جب ہفتے میں چھٹی کا دن آتا ہے تو ہر عمر کے آدمی کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ چھٹی آخر اسی دن کیوں کی جاتی ہے ؟ کسی اور دن کیوں نہیں ؟ اسی سے اس کے سامنے اس دن کی اہمیت اور عظمت واضح ہوتی ہے اور اس سے انھیں اپنی شناخت میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ عیسائی باوجود اس کے کہ صدیوں سے مذہب کی حقیقت سے بےگانہ ہوچکے ہیں ان کے یہاں مذہب کے نام کے سوا شائد ہی کوئی چیز باقی رہ گئی ہو۔ بایں ہمہ انھوں نے اتوار کے دن کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اتوار کو اپنی شناخت بنائے رکھا۔ برصغیر میں جب ان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو انھوں نے یہاں بھی اتوار کے دن کو چھٹی کے دن کے طور پر مقرر کیا۔ لیکن ہماری بدنصیبی کا عجیب عالم ہے کہ ہم نے اپنے مقدس دن کو شناخت کے طور پر استعمال کرنا تو دور کی بات ہے عبادت کے نور سے بھی محروم کردیا۔ کاروبار سے نکل کر یا دفتر سے چھٹی ہونے کے بعد جمعہ کے لیے ایسے وقت میں پہنچنا کہ خطیب کی تقریر سننے کا بھی موقع ملے یہ ہمارے لیے مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔ اذانیں گونجتی رہتی ہیں کاروبار جاری رہتا ہے۔ دفتر سے نکل کر گھر پہنچتے جمعہ کا اکثر وقت نکل جاتا ہے۔ لوگ یا تو جمعہ ہی نہیں پڑھتے یا جمعہ پڑھتے ہیں تو صرف عربی خطبہ یا دو رکعت نما زکی حد تک۔ کاش ! ہم کبھی اپنی ان محرومیوں پر غور کرسکیں۔ 2 اس بستی کے رہنے والوں پر جو عذاب آیا اس کا سبب صرف یہ نہیں تھا کہ انھوں نے سبت کے تقدس کو پامال کیا تھا۔ بلکہ اس پامالی کی شکل میں انھوں نے احکامِ خداوندی کا تمسخراڑایا تھا۔ انھیں شکار کھیلنے سے روکا گیا تھا تو انھوں نے مخالفت اور نافرمانی کے لیے حیلے تجویز کرلیے۔ چناچہ دین کو اس طرح مذاق بنانے اور اللہ کے احکام کو بگاڑنے کی انھیں یہ سزاملی کہ وہ بندر بنادیئے گئے اور آج تک بطور عبرت ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس میں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ انھوں نے ایک حکم کا مذاق اڑایا تو ان کا انجام یہ ہوا۔ ہم نے تو دین کا بند بند توڑ ڈالا۔ معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، تہذیب اور تمدن میں کون سی چیز ایسی ہے جس میں ہم نے احکامِ خداوندی کی پرواہ کی ہے۔ جن کی معاشرت اللہ کے احکام کے مطابق ہے ہم انھیں دقیانوسی سمجھتے ہیں۔ جو تہذیبی طور پر مسلمان رہنا چاہتے ہیں، ہم انھیں آثار قدیمہ میں شمار کرتے ہیں۔ جو اللہ کے قانون کی بالادستی پر اصرار کرتے ہیں انھیں ہم انتہاپسند قرار دیتے ہیں۔ سود کے معاملے میں ہم نے اللہ کے قانون کا وہ مذاق اڑایا ہے کہ پناہ بخدا۔ شرم وحیا کو اللہ کے رسول نے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ ہم نے بےحیائی کو اپنی تہذیب سمجھ لیا ہے اور اس میں ہماری جسارتوں کا عالم یہ ہے کہ ہمارا پورا میڈیا اس میں غرق ہوگیا ہے اور جو زیادہ بےحیائی کا کردار کامیابی سے ادا کرتا ہے، ہم اسے تمغہ دینا ضروری سمجھتے ہیں اور اگر وہ مرجاتا ہے تو ہم اسے ناقابلِ تلافی نقصان سمجھتے ہیں۔ احکامِ شریعت کا مذاق اڑانا اور انھیں پرانے وقتوں کی باتیں قرار دینا ہمارے دانشور طبقے کا معمول ہوگیا ہے۔ اگر بنی اسرائیل پر چند احکام کا تمسخر اڑانے سے اللہ کا عذاب ٹوٹتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا ؟ یہ تو آنحضرت ﷺ کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ ہم مسخ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں ورنہ ہم نے بھی اپنے چہرے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت پورا عالم اسلام ذلت کے جس عذاب میں مبتلا ہے وہ ہمارے اپنے اعمال کا شرعی نتیجہ ہے۔ جب کوئی اللہ کا بندہ مسلمانوں کی اس حالت ِ زار پر اپنے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ادھر سے آواز آتی ہے ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ 3 زیر بحث آیت کریمہ میں غور کرنے سے ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو سبت کے احترام کے سلسلے میں بطور خاص یہ حکم دیا گیا کہ تم سبت کے دن شکار نہ کھیلو۔ وہ لوگ چونکہ ساحل بحر پر رہنے والے تھے اور ساحل کے مکینوں کی غذا میں عموماً مچھلی کو غالب حصہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بات تو قابل فہم ہے کہ مچھلی کے شکار کے بغیر ان کے لیے غذائی ضرورت کو پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن اس کے لیے یہ کیا ضروری تھا کہ وہ سبت کے دن بھی مچھلی پکڑتے۔ باقی ہفتے کے 6 دن کیا مچھلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کفایت نہیں کرسکتے تھے۔ آج کی متمدن دنیا میں بھی متعدد ملکوں میں ہفتے کے دنوں میں ایک دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اور اس سے قومی سطح پر کبھی کوئی مسئلہ پیدانھیں ہوا۔ اگر وہ ایک دن مچھلی کا گوشت حاصل نہ کر پاتے تو یقینا ان کے لیے بھی کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھیں پیغمبر کے ذریعے اچھی طرح یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ اگر تم نے سبت کے احترام میں شکار کھیلنا نہ چھوڑا تو تم پر اللہ کا عذاب آسکتا ہے۔ بایں ہمہ انھوں نے شکار پر ضد کی۔ البتہ اس کے لیے ایسے حیلے تلاش کیے جس سے اللہ کا حکم مذاق ہو کر رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر انھوں نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ گوشت کی ایک دن کی کمی کو برداشت کیوں نہ کرسکے ؟ بعض اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ان کی بےصبری کی وجہ یہ تھی کہ ہفتے کے چھ دنوں میں بہت کم مچھلی دریا میں آتی تھیں۔ لیکن سبت کے دن مچھلی ہجوم کر کے آتی تھیں، جس سے باقی چھ دنوں کی کمی بھی پوری ہوجاتی۔ اب اگر وہ سبت کے دن بھی مچھلی نہ پکڑتے تو یقینا ان کی غذائی ضرورت پورا نہ ہوتی۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔ لیکن اس سے سوال کا مکمل جواب نہیں ملتا البتہ سوال ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ جو اپنی مخلوق کو غذا فراہم کرتا ہے۔ اس میں عام طور پر کبھی ایسا نہیں ہو تاکہ غذا کی بہم رسانی کا جو ذریعہ ہے اس میں اچانک رکاوٹ پیدا کردی جائے یا اسے کسی دن کے ساتھ مخصوص کردیا جائے۔ اس کا تو مستقل ایک تکوینی نظام ہے جو اللہ کی مشیت اور حکمت کے مطابق چلتا رہتا ہے اور جب کبھی کہیں کسی ایسی تبدیلی کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے پیچھے یقینا کوئی سبب کارفرما ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں بھی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ایسا سبب کیا پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اللہ کے نظام میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔ قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اللہ کا جب کوئی بندہ اللہ کے حکم کے مطابق حلال رزق پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حلال رزق میں ایسی برکت ڈال دیتا ہے کہ وہ تھوڑا بھی ہو جب بھی اس کی ضرورتوں کے لیے کفایت کرجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حلال رزق پر اکتفا کی بجائے حرام رزق پر ہاتھ مارتا ہے بلکہ حلال رزق پر صبر کرنے سے انکار کردیتا ہے اور وہ اللہ کے حکم کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے نفس یا شیطان کی بندگی کرنے لگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی طبیعت کو اس طرح کا بنا دیتے ہیں کہ حلال رزق اس کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ وہ چاہے بڑی تعداد میں بھی ہو لیکن وہ یہی محسوس کرتا ہے کہ میرا اس سے گزارہ نہیں ہوگا۔ شیطان اسے ضروریات کی فراوانی سے ڈراتا ہے۔ کبھی فقر کی تباہ ناکیاں اس کے سامنے لا کھڑی کردیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حرام کو اپنی ضرورت سمجھنے لگتا ہے۔ آج بھی ہم اگر اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ رشوت سے پرہیز کرتے ہیں اور ہر طرح کے حرام مال سے اجتناب کرتے ہیں، اللہ انھیں برکت عطا فرماتا ہے اور ان کی تنخواہ ان کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ لیکن جو لوگ حرام ذرائع تلاش کرلیتے ہیں اور پھر اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انھیں ہزار سمجھائو کہ تم حرام کھا رہے ہو کل کو اللہ کو جاکر کیا جواب دو گے ؟ تو وہ بڑی عاجزی سے جواب دیتے ہیں کہ کیا کریں ؟ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے حلال ذرائع اس کے لیے کفایت نہیں کرتے حالانکہ انھیں کے ساتھ کام کرنے والے انھیں جیسی ضروریات رکھنے والے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو تنخواہ ہی میں گزارہ کرتے ہیں اور ان کا گزارہ ہوجاتا ہے۔ ان کے حق میں اللہ کا یہی قانون حرکت میں آتا ہے کہ ان کے مال میں بےبرکتی کردی جاتی ہے اور ان کی طبیعت میں یہ بات اتاردی جاتی ہے کہ تم حرام کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوگئی تھی۔ مسلسل اللہ کی نافرمانیوں کے باعث وہ اللہ کے قانون کی زد میں آگئے اور بےصبری میں حدود سے تجاوز کرگئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب نے انھیں اہل دنیا کے لیے عبرت بنادیا۔ اگلی آیات کریمہ میں بنی اسرائیل کے نقض عہد اور سرکشی کی ایک اور مثال بیان فرمائی گئی ہے۔
Top