Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے دل تو بند ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کردی ہے تو شاذونادر ہی وہ ایمان لائیں گے۔
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط بَلْ لَّعَنَھَُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِ ھِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ ۔ (اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے دل تو بند ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کردی ہے تو شاذونادر ہی وہ ایمان لائیں گے) (البقرۃ : 88) قُلُوْبُنَا غُلْفٌ کا مفہوم جس آدمی یا جس قوم میں شرافت اور انسانیت کی معمولی رمق بھی ہو وہ کبھی پیغمبرانہ دعوت کے جواب میں یہ رویہ اختیار نہیں کرتا جو ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ کبھی تو مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے کہ تم جو بات کہتے ہو، ہوسکتا ہے وہ صحیح ہو، لیکن ہم کیا کریں وہ ہمارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہونے پاتی، دل و دماغ تو اللہ کے قبضے میں ہیں تم اللہ سے دعا کرو کہ ہمارے دل تمہاری باتوں کے لیے کھل جائیں اور کبھی تحقیر کے انداز میں کہتے کہ تمہاری باتیں عقل وخرد سے اس حد تک عاری ہیں کہ ہمارے دل اسے قبول نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمارے دل و دماغ اس قسم کی لایعنی باتوں کے لیے نہیں بنائے گئے۔ ہم معقولیت پسند لوگ ہیں، اگر تمہاری باتوں میں کوئی معقولیت ہوتی تو ہم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے۔ لیکن ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم فضول باتوں کو اہمیت دینے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ جس بات پر فخر کررہے ہیں، انھیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے لعنت کا نتیجہ ہے۔ جب کوئی شخص یا کوئی قوم اپنے کفر پر گھمنڈ کرنے لگتی ہے اور ہدایت اور نیکی کی ہر بات انھیں ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے تو وہ اللہ کے اس قانون کی گرفت میں آجاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کو ہدایت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ جیسے منہ کا مزہ بگڑ جائے تو شہد بھی کڑوا لگتا ہے اسی طرح ان کو بھی ہدایت کی ہر بات معقولیت کی سطح سے گری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
Top