Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
یہ لوگ دھوکہ دینا چاہتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے حالانکہ یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اس کا احساس نہیں کرتے۔
قرآن نے ان کی اس دلیل کا پردہ چاک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآاَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۔ (یہ لوگ دھوکہ دینا چاہتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے حالانکہ یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اس کا احساس نہیں کرتے) (البقرۃ : 9) خدع اور مخادعت میں فرق سب سے پہلے تو الفاظ کو دیکھئے یُخٰدِعُوْن کا مصدر مخادعت ہے۔ یہ مفا علہ کا وزن ہے۔ مفا علہ کے باب میں فعل جانبین سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ مستقل قاعدہ نہیں کبھی کبھی اس خاصہ سے مجرد ہو کر بھی یہ فعل استعمال ہوتا ہے اور جانبِ واحد سے اس کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ذہن میں رہے کہ اس آیت میں یُخٰدِعُوْنَ (جو مخادعت سے ہے) کا جس طرح استعمال ہوا ہے اسی طرح یَخْدَعُوْن جو خدع سے ہے، اس کا بھی استعمال ہوا ہے ان دونوں کے معنی میں فرق سمجھ لینا چاہیے۔ مخادعت، دھوکا دینے کی ایسی کوشش کو کہتے ہیں جس میں کامیابی کی کوئی امید نہیں ہوتی اور دھوکا دینے والا صرف اپنی حماقت کا ثبوت دیتا ہے اور خدع دھوکا دہی کی ایسی کوشش کو کہتے ہیں جس میں کامیابی کی امید تو ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی ناکامی بھی ہوجاتی ہے۔ تو پہلے فرمایا کہ وہ اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے مخادعت کو استعمال کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی کوشش ہے جس میں کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ کو دھوکا دینے میں کون کامیاب ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کا نتیجہ یہ ضرور ہوگا کہ وہ اس دھوکا دہی میں خود دھوکا کھا جائیں گے۔ پھر ان کی حماقت کو نمایاں کرنے کے لیے فرمایا وَمَا یَشْعُرُوْنَ ان کی حماقت ملاحظہ کیجئے کہ انھیں اپنی حماقت کا احساس ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض جو علاج سے بچنا چاہتاہو اسے پکڑ کر اس کے ہمدرد کسی طبیب کے پاس لے جائیں اور طبیب اسے نہایت ہمدردی سے ایک نسخہ لکھ کر دے اور اس کے فوائدکو بیان کرتے ہوئے اس کی افادیت بھی اس پر واضح کرے لیکن یہ مریض چرب زبانی سے اسے یہ یقین دلائے کہ مجھے اس نسخے کے استعمال پر آپ اصرار نہ کریں کیونکہ میں اس سے پہلے ایک بہت اچھے طبیب کا ایک بہت مفید نسخہ استعمال کررہا ہوں۔ اور باہر نکل کر جی ہی جی میں یا اپنے ملنے والوں کے سامنے خوشی کا اظہار کرے کہ دیکھو میں نے اس معالج کو کس طرح دھوکا دیا۔ غور فرمائیے ! اس دھوکا کا نقصان معالج کو ہوگا یا مریض کو۔ وہ بظاہر اسے دھوکا دے رہا ہے لیکن حقیقت میں دھوکا کھارہا ہے۔ پہلی آیت میں جن اہل دانش کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح اپنے مومن ہونے کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں اور اس طریقے سے وہ اللہ کو اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کے اس دعوے کی حقیقت دیکھتے ہیں۔ وہ اللہ کو وحدہٗ لاشریک مانتے ہیں۔ ان کے پیغمبروں اور ان کی کتابوں نے انھیں یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ تمہارا صرف خالق ہی نہیں بلکہ وہ تمہارا رب بھی ہے یعنی وہ تمہارا حاکم حقیقی بھی ہے۔ جس طرح اس نے تمہیں تخلیق فرمایا تمہیں زندگی عطاکی، زندگی کی بقاء کے اسباب فراہم کیے، اسی طرح اس نے اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا طریقہ بھی سکھایا۔ زندگی گزارنے کے لیے ایک شریعت عطا فرمائی۔ اور اس شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نافذ کرنے کا تمہیں پابند بنایا لیکن تم نے اللہ کو اس طرح مانا کہ عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنادیا اور کتاب اللہ کی اطاعت کی بجائے تم نے اپنے احبار اور رہبان کو تحلیل و تحریم کے اختیارات دے دئیے۔ اللہ کی حاکمیت کو تم نے بندوں میں تقسیم کردیا اور اس کے عطاکردہ قانون کو بجائے نافذ کرنے کے موم کی ناک بناکے رکھ دیا۔ مزید تم یہ کہتے ہو کہ ہم آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ تم خوب جانتے ہو کہ آخرت کا دن جزا سزا کا دن ہے۔ جس دن صرف ایمان وعمل کا سکہ چلے گا۔ اللہ کے عدل کی کارفرمائی ہوگی، نیک لوگ جزا پائیں گے اور برے لوگ سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اس دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارا نام ونسب کیا ہے ؟ بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے ایمان کا حال کیا ہے اور تمہارے اعمال کیسے ہیں ؟ لیکن تم نے آخرت کے دن پر ایمان کو اس طرح بگاڑا کہ تم نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اپنے بیٹوں اور چہیتوں سے کوئی باز پرس نہیں کرتا اس لیے ہم سے بھی کوئی باز پرس نہیں ہوگی ہمارا اعلیٰ نسب ہمیں ہر طرح کی باز پرس سے محفوظ رکھے گا ہم بڑے سے بڑا جرم بھی کرلیں تو اولا ًاللہ کی جانب سے کوئی گرفت نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو چند روز کی سزا کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ غور فرمائیے ! جو قوم اپنے نسب اور اپنے انتساب کی وجہ سے اپنے آپ کو حساب کتاب اور جزا اور سزا سے مستغنی سمجھتی ہے اس کا آخر روز جزا پر کیا ایمان ہے ؟ اس لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو ان کا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان محض ایک دعویٰ ہے جسے دھوکہ دہی کی واردات سمجھنا چاہیے۔ مزید اس آیت میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ایمان اصل میں اللہ اور روز جزا کو ماننے کا نام ہے اگر وقت کے پیغمبر کو نہ ماناتو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ہم اللہ اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ ہم محمد ﷺ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے۔ تو آپ کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد ہی قابل اعتبار ٹھہرتا ہے، کیونکہ اللہ پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالق ومالک ہونے کے ساتھ حاکم حقیقی بھی ہے اسے بجا طور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر شریعت نازل کرے اور انھیں پابند کرے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اسے نافذ کریں۔ پھر ایک وقت آئے گا جب اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گا اور اپنے بندوں کو اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھے گا کہ بتائو تم نے زندگی میری شریعت کے مطابق گزاری ہے یا نہیں ؟ یہ دونوں باتیں ہیں جسے ہم ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کہتے ہیں۔ معمولی غور وفکر سے ہی ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں کا تعلق پیغمبر کی ذات اور اس پر ایمان لانے سے ہے کیونکہ شریعت پیغمبر ہی پر نازل ہوتی ہے اور اسی کے واسطے سے انسانوں تک پہنچتی ہے۔ اسی کی شخصیت اور اسی کی سنت اس کے ماننے والوں میں عمل کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کو توانا کرتی ہے۔ اب اگر درمیان کی یہ کڑی نکال دی جائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے ؟ تو ان لوگوں کا یہ کہنا کہ تم ایمان بالرسول پر اصرار نہ کرو۔ یہ حقیقت میں دھوکہ دہی کی ایک کوشش ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے نام سے فائدہ تو اٹھایا جائے لیکن اس کی حقیقت گم کردی جائے۔ ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ وہ بھی اپنے پاس شریعت موسوی رکھتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے رسول کو مانتے بھی تھے تو پھر انھیں مزید رسول ماننے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہود نہ صرف شریعت موسوی یا شریعت تورات کو بگاڑ چکے تھے بلکہ اس کے ایک بڑے حصے کو گم بھی کرچکے تھے اور جو احکام ان کے پاس باقی تھے اسے بھی انھوں نے عمل سے بےگانہ کرکے رکھ دیا تھا اور جیسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کتاب کی اصل حیثیت کو قبول کرنے کی بجائے انھوں نے کتاب کے اختیارات اپنے احبار اور رہبان کو دے دیئے تھے۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان کا تعلق ہے ان کی ذات کو تو وہ ضرور مانتے تھے لیکن پیغمبر کو ماننے کا اصل مفہوم تو یہ ہے کہ اس کی سنت پر عمل کیا جائے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی سنت کا وجود ہی دنیا سے اٹھ چکا تھا انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی سے اس حد تک اپنے آپ کو بیگانہ کردیا تھا کہ خود تورات میں یہ آیت موجود ہے کہ (موسیٰ اللہ کا بندہ ایک سو بیس سال کی عمر میں کوہ مؤاب کے دامن میں مرگیا اور اب اس کو اتنا عرصہ گزر گیا ہے کہ اس کی قبر کو بھی کوئی نہیں جانتا) اندازہ فرمائیے ! جس پیغمبر کے حالات اور جس کی قبر تک کو امت بھول چکی ہو اس پیغمبر پر ایمان کے حوالے سے نئے آنے والے پیغمبر پر ایمان لانے سے انکار کیا معنی رکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نئی شریعت لے کر اس لیے تشریف لائے تھے کہ پہلی شریعتیں قابل عمل نہ رہیں اور ان کا زمانہ گزر گیا۔ یہود کے لیے ان باتوں کا سمجھنا کوئی مشکل نہ تھا لیکن وہ جو کہہ رہے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا اس لیے قرآن کریم نے اسے خدع کا نام دیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا کہ یہ اس طرح کی باتوں سے اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں لیکن یہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان کی یہ ساری کوششیں خدع و فریب کا ایسا جال ہیں جس میں یہ خود پھنستے جارہے ہیں۔ یہاں ایک بات نوٹ کیجئے کہ یہ بات تو یہود بھی جانتے تھے کہ ہم اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے، اس لیے وہ حقیقت میں اللہ کو نہیں بلکہ مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے تھے لیکن پروردگار نے ان کے مسلمانوں کو دھوکا دینے کو اللہ کو دھوکا دینا قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان جب تک اللہ کے فوج دار اور سپاہی بن کر اللہ کے دین کی چاکری میں لگے رہتے ہیں، اس وقت تک ان کے خلاف ہر سازش اور ہر کوشش کو اللہ تعالیٰ اپنے خلاف کوشش قرار دیتا ہے اور اپنے فضل سے اپنی یہ ذمہ داری بنا لیتا ہے کہ میں دشمن کے تمام برے اردوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھوں گا۔ جس طرح ہر مہذب اور شریف آدمی اپنے وفادار ملازموں کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور ان کے خلاف کسی بھی کوشش کو اپنے خلاف کوشش قرار دیتا ہے۔ ایسا ہی مسلمانوں اور اللہ کا حال ہے کہ مسلمان جب تک اسی کے لیے جیتے اور مرتے ہیں تو ان کی زندگیوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اور ان کی عزتوں اور ان کے مفادات کی پاس داری پروردگار کی جانب سے ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پروردگار نے قرآن کریم میں اپنے فرماں بردار مسلمانوں کوـ” حزب اللہ “ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلہ صادر فرمایا : الا ان حزب اللہ ھم الغالبون خبردار اللہ کی جماعت کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اس خلش پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جو طبیعت میں بار بار سر اٹھاتی ہے۔ کہ آخر یہ لوگ سیدھے طریقے سے ایمان قبول کیوں نہیں کرلیتے ؟ اس کا جواب اگلی آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔
Top