Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 91
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ١ۗ وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ١ؕ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَاِذَا : اور جب قِیْلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : نازل کیا اللہ نے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم ایمان لاتے ہیں بِمَا : اس پر أُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا عَلَيْنَا : ہم پر وَيَكْفُرُوْنَ : اور انکار کرتے ہیں بِمَا : اس سے جو وَرَآءَهُ : اس کے علاوہ وَهُوْ : حالانکہ وہ الْحَقُّ : حق مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس قُلْ : کہہ دو فَلِمَ : سو کیوں تَقْتُلُوْنَ : قتل کرتے رہے اَنْبِيَآءَ اللہِ : اللہ کے نبی مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم مُؤْمِنِیْنَ : مومن ہو
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز پر ایمان لائو جو اللہ نے اتاری ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے اس سے کفر کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو ان کے پاس ہے۔ آپ کہئے ! پھر تم اللہ کے پیغمبروں کو اس سے پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو، اگر تم مومن ہو ؟
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآئَ ہٗ ق وَھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مََعَھُمْ ط قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآئَ اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَلَقَدْ جَآئَ کُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 91 تا 92) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز پر ایمان لائو جو اللہ نے اتاری ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے اس سے کفر کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو ان کے پاس ہے۔ آپ کہئے ! پھر تم اللہ کے پیغمبروں کو اس سے پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو، اگر تم مومن ہو ؟۔ اور موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے نشان لے کر آئے تھے، اس پر بھی تم نے ان کے بعد بچھڑے کو معبود بنالیا اور تم ہو ہی ظالم) یہود کا ایمان نہ قرآن پر نہ تورات پر پیشِ نظر دونوں آیات میں بنی اسرائیل کی پوری تاریخ از اول تا آخر سمیٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری تک یہ اپنی سرکشی کے باعث اللہ کے جس غضب کے مستحق ہوئے تھے اور جس نے ان کو حق کی پیروی اور اصابتِ رائے سے محروم کردیا تھا وہ بدستور ان پر نہ صرف مسلط ہے بلکہ ان کی علامت اور قسمت بن کر رہ گیا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں کی ہدایات کے مطابق اللہ کے آخری نبی پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔ اسی کا ان سے عہد بھی لیا گیا تھا۔ اور ان کی کتابوں کی دی گئی آگاہی کے باعث وہ پیغمبر آخرالزمان کو اچھی طرح پہچانتے بھی ہیں۔ لیکن ان کے دل و دماغ کے تعطل اور اصابتِ رائے سے محرومی کو ملاحظہ فرمائیے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ نبی آخرالزماں پر ایمان لائو اور ان پر جو کتاب اتری ہے اسے آویزہ گوش اور فکر کا سامان بنائوتو نہایت تکبر اور بےاعتنائی سے جواب دیتے ہیں کہ جو کچھ ہم پر ہمارے اپنے پیغمبروں کے واسطے سے نازل ہوچکا ہے ہم اسے مانتے ہیں اور وہی ہمارے لیے کافی ہے ہم اس کے علاوہ کسی اور کتاب یا پیغمبر کو ماننے کے لیے تیار نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست ہوچکی ہے کہ نبوت بنی اسرائیل کے خاندان کی وراثت ہے وہ جب بھی آئے گی اسی خاندان میں آئے گی۔ اگر کسی اور خاندان اور قوم میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو ہم ہرگز اس پر ایمان نہیں لاسکتے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بات پر دو طرح سے گرفت فرمائی ایک تو یہ فرمایا کہ خود اپنی کتابوں کو پڑھ کردیکھو اگرچہ تم اپنی کتابوں میں ترمیم اور تحریف کرچکے ہو لیکن اس کے باوجود اب تک تمہاری کتابوں میں محمد رسول ﷺ اور قرآن کریم کی علامات مذکور ہیں۔ اسی وجہ سے تم آنحضرت کو اچھی طرح سے پہچانتے ہو اور تمہیں یقین ہے کہ تمہاری اپنی کتابوں کی گواہی کے مطابق یہ قرآن ہی حق ہے۔ اس کے خلاف ہر چیز باطل ہے۔ اگر تم واقعی اپنی کتابوں اور اپنے پیغمبروں کے مومن ہوتے تو تم ایک ایسی حقیقت کا کبھی انکار نہیں کرسکتے تھے جس کی شہادت تمہاری کتابیں باربار دے رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم درحقیقت اپنی خواہشات کے پرستارہو اگر تم حق کے جو یا ہوتے اور تم اپنی کتابوں پر ایمان رکھتے ہوتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ تم اللہ کے آخری نبی اور قرآن کریم کا انکار کردیتے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اگر تم بنی اسرائیل میں آنے والے نبیوں کو مانتے ہو اور ان پر ایمان رکھتے ہو تو پھر بنی اسرائیل ہی میں سے اٹھائے جانے والے انبیاء کو تم قتل کیوں کرتے رہے ہو ؟ تمہارا ایمان بھی عجب قسم کی چیز ہے کہ بنی اسرائیل میں اللہ کا نبی اگر کوئی ایسی دعوت لے کر اٹھا ہے جس سے تمہاری نفسانی خواہشات مطابقت نہیں رکھتیں تو تم اسے قتل کر ڈالنے سے گریز نہیں کرتے اور تمہارا ایمان تمہارے ظلم کا ہاتھ نہیں روکتا اور اگر بنی اسرائیل سے باہر ایک ایسے نبی مبعوث ہوتے ہیں کہ جس کی صداقت کی شہادت خود تمہاری کتابیں دے رہی ہیں تو تم جانتے بوجھتے اسے ماننے سے انکار کردیتے ہو اور بہانہ یہ کرتے ہو کہ ہم تو صرفان نبیوں پر ایمان لاتے ہیں جو بنی اسرائیل کے خاندان سے اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کے نام پر بےایمانی کرتے ہو اور تمہارا یہ طرز عمل کوئی نئی بات نہیں ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں تم یہ طرز عمل اختیار کرچکے ہو حالانکہ یہ تمہاری تاریخ کے ابتدائی ایام ہیں اور اللہ کا عظیم پیغمبر تمہارے درمیان موجود ہے۔ اس کی چند روزہ غیر حاضری میں تم اپنی گمراہی کی انتہا ئوں کو چھونے لگتے ہو کہ اپنے اس پروردگار ( جس نے تمہیں فرعونیوں کی غلامی سے نجات دی اور قدم قدم پر جس کی قدرتوں اور رحمتوں کو تم نے بچشم سر مشاہدہ کیا) کے مقابل ایک بچھڑا بناکر اس کی پوجا شروع کردیتے ہو۔ یعنی آج صدیوں کے بعد تم بگاڑ کی جس انتہا تک پہنچ چکے ہو اس کے آثار تمہاری تاریخ کے ابتدائی دو رہی میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ حرکت چند نادان قسم کے لوگوں نے کی ہوگی۔ باقی پوری قوم تو یقینا توحید کی پرستار اور اللہ کی شریعت کی پیروکار ہوگی۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کی ایک اور بات سے پردہ اٹھایا جارہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہی کے ساتھ ساتھ سرکشی بھی ان کے اندر مسلسل موجود رہی اور اللہ کے عظیم پیغمبر کی تربیت سے بھی یہ پوری طرح راہ راست اختیار نہ کرسکے۔
Top