Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتاری اِلَيْکَ : آپ کی طرف آيَاتٍ : نشانیاں بَيِّنَاتٍ : واضح وَمَا : اور نہیں يَكْفُرُ : انکار کرتے بِهَا : اس کا اِلَّا : مگر الْفَاسِقُوْنَ : نافرمان
ہم نے بالیقین آپ پر نہایت واضح دلیلیں اتاری ہیں اس کا انکار صرف فاسق لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآاِلَیْکَ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ج وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ ۔ (البقرۃ : 99) (ہم نے بالیقین آپ پر نہایت واضح دلیلیں اتاری ہیں اس کا انکار صرف فاسق لوگ ہی کرسکتے ہیں) آیات بینات کی ایک جھلک گزشتہ دو آیات کو ذہن میں رکھئے تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ یہودی علما نے اگرچہ جبرائیل کی دشمنی کو ذریعہ بناکر عوام کو آنحضرت اور قرآن سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی روشن کتاب ہے کہ جس کی عظمتوں کو ان معمولی باتوں سے گہنایا نہیں جاسکتا اور ذات رسالت مآب ﷺ اپنے ساتھ ایسے واضح دلائل لے کر آئے ہیں کہ غور وفکر کرنے والوں کے لیے ان میں یقین و ایمان کے خزانے مدفون ہیں۔ اس لیے آنحضرت کی نبوت کا انکار ایک عام آدمی کے لیے جو تعصبات کا مارا ہوا اور دشمنی سے اندھا نہیں ہے بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو فاسق کے درجے کو پہنچ گئے ہوں۔ فاسق کا مصدر ” فسق “ ہے۔ فسق کا معنی ہوتا ہے ” ہر حد کو پھلانگتے ہوئے گزر جانا “ یعنی ایسا شخص جس پر نہ نصیحت اثر کرے نہ عقلی دلائل کو وہ وزن دینے کو تیار ہو، نہ عبرت کے شواہد اس کے دل و دماغ کو ہلاسکیں۔ اس نے فیصلہ کرلیا ہو کہ مجھے بہرحال مخالفت کرنی ہے اور مجھے ہر حد سے پھلانگتے ہوئے نکل جانا ہے، ایسے شخص کو فاسق کہا جاتا ہے۔ یہ فسق کبھی چھوٹی باتوں میں بھی ہوتا ہے لیکن قرآن کریم بڑی بڑی نافرمانیوں پر عموماً اس کا اطلاق کرتا ہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا جارہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی بجائے خود اپنے اندر ایک حجت قاطعہ کا سامان رکھتی ہے۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس ماحول میں جنم لیا اور جہاں آپ نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے سال گزارے اس ماحول میں علم اور اخلاق تو دور کی بات ہے حرف شناسی تک کا سامان نہیں تھا۔ ان لوگوں کو اپنے امی ہونے پر فخر تھا۔ اخلاقیات سے وہ کوسوں دور تھے۔ اللہ کے گھر کے جوار میں رہتے تھے اور اللہ کے گھر کی عظمت کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ لیکن اسی گھر کو انھوں نے ایک بت خانے میں تبدیل کر رکھا تھا۔ توحید سے بالکل بےبہرہ، عبادت کی حقیقت سے ناواقف، اخلاقی زندگی سے تہی دامن، دین و شریعت کے نام تک سے بےگانہ، رحم، مروت، ہمدردی، غم گساری، شرم و حیا، رافت ورحمت، غرضیکہ بنیادی خصائل ِ انسانیت سے بھی ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پتھروں کے اس ڈھیر میں ہم حضور کو ایک ہیرے کی مانند چمکتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ماحول کی ہر گندگی سے دور، شرک کی ہر آلودگی سے الگ، بداخلاقی کی ہر بات سے مجتنب، انسان نما حیوانوں میں حقیقی انسان اور انسانیت کے تمام مکارم کا پیکر۔ سوال یہ ہے کہ ایسی زندگی جو سراسر اپنے ماحول سے مختلف ہی نہیں بلکہ برعکس ہے، کیا اپنے اندر صداقت و حقا نیت کی کوئی دلیل نہیں رکھتی ؟ ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے ! آنحضرت ﷺ نے کسی شعبہ علم کے حوالے سے بھی کسی سے کچھ نہیں سیکھا۔ مکہ کا ماحول اپنے اندر علم نام کی کوئی چیز نہیں رکھتا۔ آپ نے چند دنوں کے سوا مکہ کے باہر کوئی طویل سفر کیا نہ قیام رہا۔ آپ کی معلومات کے ذرائع بھی وہی رہے جو مکہ کے رہنے والے لوگوں کے پاس تھے۔ لیکن چالیس سال کی عمر کے بعد آپ غار حرا سے اس شان سے اترے کہ آپ کی زبان سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔ آپ کے پہلو میں ایک نسخہ ٔ کیمیا تھا جس نے انسان کی بگڑی ہوئی زندگی کو راہ راست پر لانے اور اس کے دکھوں کو خوشیوں میں تبدیل کردینے کے اصول واضح کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تعلیم و تربیت نے مس خام کو کندن میں تبدیل کردیا۔ وہ معاشرہ جس میں ڈنگرڈھور بستے تھے۔ ایسے انسانوں میں تبدیل کردیئے کہ آج تک مورخ حیران ہے کہ اتنے اجلے صاف ستھرے، صاف دل، بلند عزائم، قلیل امیدوں والے اور جلیل مقاصد والے لوگ کیسے وجود میں آگئے۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھی۔ انھیں گنوار لوگوں میں ایک سے ایک بڑھ کر عالم، زاہد، جرنیل، جج، معلم، مربی، مزکی، تاجر، مجاہد، حکومتوں کا نظام چلانے والے پیدا ہوئے اور جن کی تعلیم و تربیت صرف اس ذات عزیز کے حوالے سے ہورہی تھی۔ جس کے سپرد دنیا نے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ ددنیا کو ان خزانوں سے معمور کیے دے رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سمجھنے کے لیے یہ دلیل کم ہے کہ ایک امی دنیا کو صرف علم ہی نہیں زندگی کا ایسا سلیقہ سکھارہا ہے جس سے آج تک دنیا ناواقف تھی اور ایسے ایسے رازوں سے پردہ اٹھا رہا ہے جن کے جاننے کی کوئی صورت نہیں تھی اور مزید آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو بھی دیکھئے جو اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے اور جس کی مثال لانے سے دنیا قاصر ہے اور قاصر رہے گی۔ یہ وہ آیات بینات ہیں جن کی طرف ہم نے مختصراً اشارہ کیا ہے ان کا انکار کرنا کسی صحیح الفطرت، صحیح الدماغ اور غیر جانب دار انسان کا کام نہیں یہ کام صرف وہی کرسکتا ہے جسے یہاں فاسق سے تعبیر کیا گیا ہے۔
Top