Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کے بھیجا۔
وَمَـآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 107) (اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کے بھیجا۔ ) رحمت کی وضاحت انسان کے لیے سب سے بڑی رحمت وہ ضابطہ حیات ہے جس پر عمل کرنے کے نتیجے میں یہ دنیا بھی جنت بن جائے اور آخرت میں ہمیشہ کی زندگی میں سرخروئی کا باعث بنے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ایک تو اس وجہ سے اہل دنیا کے لیے رحمت ہے کہ دنیا والوں کو آپ کے واسطے سے وہ پیغامِ سرمدی ملا ہے جو یہاں بھی اور وہاں بھی کامیابی و کامرانی اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کی ضمانت ہے اور مزید یہ کہ یہ پیغام نوع انسانی تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول نے جس شفقت، رأفت، رحمت و محبت اور ہمدردی و جاں نثاری اور ایثار و قربانی کا ثبوت دیا ہے وہ بجائے خود رحمت کا ذریعہ بھی ہے اور رحمت کا اسوہ بھی ہے۔ آپ ﷺ ہی کی ہدایت کے طفیل ایک باپ شفقت کا پیکر بنا، بیٹا ادب اور فرمانبرداری کی تصویر بنا، ماں اپنی اولاد کے لیے سرتا پا ایثار ہوگئی، بچوں نے ان کے قدموں میں اپنی جنت کی بہار دیکھی۔ اس تعلق کے پھلنے پھولنے سے معاشرے کی پہلی اینٹ رکھی گئی جس میں صرف چند افراد کی زندگی ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ شفقت، محبت، ایثار و قربانی اور ایک دوسرے کے لیے جینے اور مرنے کا اسلوب بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایسی اینٹوں سے جب اسلامی معاشرہ پروان چڑھتا ہے تو خاندان وجود میں آتا ہے۔ اور ایسے ہی چند خاندان اسلامی معاشرے کو وجود بخشتے ہیں اور اسلامی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتے ہیں۔ اسی میں ہمسائیگی کا شعور پیدا ہوتا ہے، آدابِ جوار کا سبق ملتا ہے، ہر گھر دوسرے گھر کا محافظ بن جاتا ہے، افراد فرائض اور حقوق سے بہرہ ور ہو کر زندگی کی آسودگی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر ایک خاندان، پھر اسلامی معاشرہ اور پھر اسلامی ریاست وجود میں آتی ہے جو اپنے طوراطوار اور اپنے اہداف کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رحمت کا سایہ ہوتی ہے اور تمام روئے زمین پر ایسی ہی ریاستوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نفاذ انسان کا حقیقی مقصد زندگی ہے اور اسی مقصد کی بجاآوری سے زمین انسانوں کے لیے آتش فشاں پہاڑ کی مانند بننے کی بجائے ایسی صورت اختیار کر جاتی ہے کہ جس میں محبت و رأفت اور ہمدردی و جاں نثاری کے پھول کھلتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کے دکھ میں شریک اور اپنی دولت تقسیم کرنے والا بن جاتا ہے۔ لوگ دوسروں سے کچھ حاصل کرکے نہیں بلکہ دوسروں پر نچھاور کرکے قلبی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ چناچہ زمین پر جب ایسی انسانی زندگی برگ و بار پیدا کرتی ہے جس کا ہدف صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی ہوتا ہے تو وہ زندگی اس رحمت کی وجہ سے وجود میں آتی ہے جسے یہاں رحمت اللعالمین کہا گیا ہے کیونکہ اس میں صرف انسانوں ہی کا بھلا نہیں ہوتا بلکہ حیوانوں کے حقوق کی بھی پاسداری ہوتی ہے۔ آبادیاں اپنے جلو میں انسانی دکھ نہیں، سکھ اور راحت رکھتی ہیں، سڑکوں اور شاہراہوں کو حقوق ملتے ہیں، نباتات اور جمادات تک اپنے حقیقی تصور کے ساتھ زمین کی زینت بنتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ رحمت روئے زمین پر پھیلتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کا سایہ گھنا ہوتا جاتا ہے۔ سب سے پہلے عرب اس سائے میں آئے تو ان کی زندگی کے دکھ سمٹ گئے۔ پھر وہ اس شمع کو لے کر چار دانگ عالم میں پھیل گئے تو دنیا نے اس کو تسلیم کیا کہ اس سے پہلے روئے زمین پر کبھی ایسے انسان پیدا نہیں ہوئے جو اپنے ساتھ رحمت کا پیغام ہی نہیں، رحمت کی ضمانت بھی رکھتے ہیں۔ آج بدنصیبی سے مسلمان اپنی ڈگر سے ہٹ گئے ہیں، لیکن جہاں تہاں بھی کہیں روشنی نظر آتی یا زندگی آسودہ دکھائی دیتی ہے تو وہ صرف اس رحمت کا فیض ہے جسے رحمت اللعالمین کہا گیا ہے۔ بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے یہ سب پود انھیں ﷺ کی لگائی ہوئی ہے
Top