Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 108
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوْحٰٓى : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : کہ بس اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد (یکتا) فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّسْلِمُوْنَ : حکم بردار (جمع)
کہہ دیجیے کہ میری طرف تو صرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو کیا تم اپنے کو اسی کے حوالہ کرتے ہو
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَـآ اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ ج فَھَلْ اَنْـتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ (الانبیاء : 108) (کہہ دیجیے کہ میری طرف تو صرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو کیا تم اپنے کو اسی کے حوالہ کرتے ہو۔ ) رحمت کی بنیاد وحدت الوہیت ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اہل جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اس رحمت دو عالم کو حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو خبردار کردیں کہ اگر تم میری رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں کیونکہ جب تک تم وحدت اِلٰہ پر یقین نہیں لاتے اس وقت تک تمہارے نظریات میں نہ فکری وحدت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ تمہاری زندگی میں یکسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت کو چھوڑ کر نہ جانے تم کس کس آستانے پر جھکو گے۔ اپنی زندگی کے اصول و ضوابط کے لیے نہ جانے تم کہاں کہاں کی دریوزہ گری کرو گے اور تم زندگی کے آخری رہنما کو تسلیم کرنے کی بجائے نہ جانے کس کس کور ہنما بنائو گے اور کس کس کو اپنا آئیڈل ٹھہرائو گے۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام یہ ہے کہ وہ جس طرح اپنی ذات میں واحد اور یکتا ہے، اسی طرح اپنی صفات اور اپنے حقوق میں بھی وحدہ لاشریک ہے۔ اسی کو غیرمشروط اطاعت کا حق پہنچتا ہے اور وہی حق رکھتا ہے کہ انسانوں کو دستور، آئین، قانون اور رہنمائی کی تمام تفاصیل مہیا کرے۔ چونکہ مجرد تعلیم اور رہنمائی انسان پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں تبدیلی زندگی سے پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح دیئے سے دیا جلتا ہے، اسی طرح نبی کی صورت میں جو سراجِ منیر روشن ہوا ہے اس کی ضیاء سے زندگی کی تمام تاریکیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ چناچہ اس سَیّدِ دو عالم نے اللہ تعالیٰ کی وحدت کے بنیادی تصور کو راسخ کرتے ہوئے اپنی شخصیت اور اپنے عمل کے زور سے ایک ایک گرہ کو کھولا اور اس راستے کی تمام مشکلات کو دور کردیا۔ سچ کہا کسی نے ؎ نثار سید کونین پر مرے ماں باپ سبق دیا بھی تو کیا لا الہ الا اللہ اس بنیادی سبق دینے کے بعد آپ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں سے پوچھئے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ضابطہ حیات اور اس ضابطے کی وضاحت کرنے والی زندگی کے اپنے آپ کو سپرد کرتے ہو یا نہیں۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری شخصیت، تمہارے خاندان، تمہارے معاشرے اور تمہاری ریاست کی تمام تاریکیاں روشنی میں بدل جائیں تو پھر تمہیں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر ادارہ اور ہر نظم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہوگا اور آنحضرت ﷺ کی سنت کا اپنے آپ کو پابند کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ رویہ ہے جس سے تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوسکتے ہو، اسی کے نمائندہ بن کر نبی کریم ﷺ تشریف لائے ہیں۔
Top