Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 14
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : ہم بیشک تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم
کہنے لگے، ہائے ہماری کم بختی، بیشک ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔
قَالُوْا یٰـوَیْلَنَـآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ۔ فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰ ھُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰـھُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ ۔ (الانبیاء : 14، 15) (کہنے لگے، ہائے ہماری کم بختی، بیشک ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔ پس وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انھیں کٹے ہوئے کھیت اور بجھی ہوئی آگ کی مانند کردیا۔ ) بعدازوقت اعتراف کام نہیں آتا جب عذاب کے تھپیڑوں نے انھیں پٹخنا شروع کیا، تو تب انھیں اپنے اعمال اور اپنے رویئے کی حقیقت یاد آئی۔ اب تک ان کی آنکھوں پر عیش و عشرت کی جو پٹی چڑھی ہوئی تھی جیسے ہی وہ اتری تو انھیں اندازہ ہوا کہ ہم تو واقعی پرلے درجے کے نافرمان تھے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول ہمیں زندگی کے حقائق کی طرف بلاتا تھا لیکن ہمارے سامنے خواہشات کے اتباع کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ اب ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ ہم واقعی خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر عذاب بھیج کر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ ظلم کی رات ہم نے خود اپنے اوپر تانی ہے۔ اس مصیبت کو ہماری بداعمالیوں نے دعوت دی ہے۔ لیکن اب ان کے پاس واویلا کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ اب وہ اپنی قسمت کو روتے اور اپنی بداعمالیوں کا نوحہ کررہے تھے۔ لیکن قدرت نے اس کی بھی انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ ان کے رونے دھونے اور چیخ و پکار کا ہنگامہ جاری تھا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے انھیں دھن ڈالا۔ صرف زندگی ہی نہیں چھینی گئی جسموں کے پرخچے بھی اڑا دیئے گئے۔ جہاں کبھی بہاریں رقص کرتی اور زندگی کی دلفریبیاں مسکراتی تھیں اب وہاں ان کی لاشیں کٹی ہوئی گھاس کی مانند پڑی تھیں جن میں زندگی کا کوئی شرارہ نہ تھا۔ حَصِیْدًا۔ حَصَدَ…درانتی سے فصل کاٹنے کو کہتے ہیں۔ خٰمِدِیْنَ … خمود سے ہے۔ اس کا معنی ہے، آگ کا بجھانا۔ ان دونوں لفظوں کو اکٹھا لا کر شاید اس طرح اشارہ ہے کہ جب فصل کاٹی جاتی یا گھاس کاٹی جاتی ہے تو پھر اس کے خشک انبار کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اب یہ متکبر اور مغرور لوگوں کی قوم راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی تھی۔
Top