Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
بلکہ ہم حق سے باطل پر چوٹ لگاتے ہیں، پس وہ اسے کچل دیتا ہے، پھر وہ دیکھتے دیکھتے نابود ہوجاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۔
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَزَاھِقٌ ط وَلَـکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ ۔ (الانبیاء : 18) (بلکہ ہم حق سے باطل پر چوٹ لگاتے ہیں، پس وہ اسے کچل دیتا ہے، پھر وہ دیکھتے دیکھتے نابود ہوجاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۔ ) آیت کے دو مفہوم اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام سے چل رہی ہے۔ انسان کی سرشت میں نیکی کا پہلو غالب رکھا گیا ہے۔ بدی کی طرف اس کا میلان اس وقت بڑھتا ہے جب نیکی کے لیے کام کرنے والے نیکی کے فروغ میں کوتاہی کرتے ہیں۔ اس کائنات کی سرشت کے مطابق کوئی باطل چیز یہاں جم نہیں سکتی۔ باطل یہاں جب بھی سر اٹھاتا ہے حقیقت سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخرکار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش کبھی مختلف نتائج دیتی ہے اس کی وجہ اہل حق کی ناکامی ہوتی ہے ورنہ حق کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔ جب بھی اہل حق، حق کی پیروی میں اخلاص کا ثبوت دیتے ہیں اور حق کی سربلندی میں جان لڑاتے ہیں تو باطل ان کے سامنے کبھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اس حقیقت کے حوالے سے قریش سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر تم آج باطل کا ساتھ دے کر اپنی قسمت باطل کے ساتھ وابستہ کرلو گے تو اللہ تعالیٰ کے رسول کا یہ قافلہ جو حق کے علمبرداروں کا قافلہ ہے ایک وقت آئے گا کہ تم اس کے ہاتھوں پٹ جاؤ گے اور اگر تم نے اپنی نام نہاد قوت سے کام لے کر ان کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا تو کوئی تعجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تمہاری قوت کو توڑ ڈالے اور تمہیں پامال کر کے رکھ دے۔ معذب قوموں کی تاریخ تمہارے سامنے ہے۔ انھوں نے بھی تمہاری طرح اس کائنات کو محض تماشا گاہ، محض ایک خوان یغما اور محض ایک عیش کدہ سمجھ کر زندگی گزارنے کی کوشش کی اور ہر ممکن طریقے سے حق کا راستہ روکا۔ لیکن انجام کار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ اس لیے تمہارے لیے عقل کا راستہ یہ ہے کہ تم حقیقت کو سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کو قبول کرو، اسی میں عافیت ہے اور اسی میں کامیابی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ حق و باطل کی کشمکش جاری رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ ساتھ باطل کو بھی مہلت دیتا رہتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی نگاہ میں حق و باطل دونوں یکساں ہیں بلکہ باطل کا باقی رہنا صرف اس لیے ہے تاکہ انسان کا امتحان جاری رہے کہ کون حق کو اختیار کرتا ہے اور کون باطل کی پرستش کرتا ہے۔ بالآخر ایک دن آئے گا جب پروردگار حق کا ہتھوڑا باطل کے سر پر اس طرح ماریں گے کہ وہ باطل کا بھیجہ نکال کر رکھ دے گا اور آخری جملے میں فرمایا کہ تم آج جو کچھ کررہے اور کہہ رہے ہو اس وقت تمہیں اندازہ ہوگا کہ اس کے نتیجے میں کیسی تباہی تمہارا مقدر بنتی ہے۔
Top