Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 2
مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ
مَا يَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آتی مِّنْ ذِكْرٍ : کوئی نصیحت مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب سے مُّحْدَثٍ : نئی اِلَّا : مگر اسْتَمَعُوْهُ : وہ اسے سنتے ہیں وَهُمْ : اور وہ يَلْعَبُوْنَ : کھیلتے ہیں (کھیلتے ہوئے)
ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو تازہ نصیحت بھی آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں
مَایَاْیِتْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ اِلاَّ اسْتَمَعُوْہُ وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ ۔ (الانبیاء : 2) (ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو تازہ نصیحت بھی آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں۔ ) اعراض کی کیفیت اس آیت کریمہ میں ان کے اعراض کی کیفیت بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کا وہ اعراض جس کے پس منظر میں ان کی غفلت اور ان کا غیرسنجیدہ رویہ کارفرما ہے اپنے اندر لا ابالی پن کے ساتھ سرمستی اور شرارت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ قرآن کریم انھیں بار بار ان کے غلط رویئے پر ٹوکتا ہے اور مختلف اسالیب سے انھیں تذکیر و تنبیہ کے ذریعے متوجہ کرتا ہے لیکن ان کا حال یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے جو ان کے لیے نئی یاددہانی ہوتی ہے بجائے اس کی طرف متوجہ ہونے کے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اگر سنیں گے تو نہایت تکلف سے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا مذاق بھی اڑائیں گے۔ ظاہر ہے کہ جو بات اس قدر غیرسنجیدہ رویئے سے سنی جائے وہ کیسے موثر ہوسکتی ہے۔ یا یوں کہئے کہ سننے والا اس سے کوئی صحیح اثر قبول نہیں کرسکتا۔ آنحضرت ﷺ انتہائی ہمدردی، خیرخواہی اور فکرمندی کے جذبات کے ساتھ ان کے سامنے قرآن کریم کی آیات پڑھتے ہیں۔ انھیں زندگی کے مقاصد سے بہرہ ور کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ انھیں آنے والی زندگی میں محاسبے سے آگاہ کرتے ہیں لیکن وہ ان باتوں کا اثر قبول کرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور اپنی جہالت کا احساس کرنے کی بجائے ان باتوں کو نادانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ انھوں نے زندگی کو بازیچہ اطفال سمجھ رکھا ہے۔ یہ دنیا محض ایک کھیل تماشا ہے اور ہم یہاں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اس کھیل تماشے کا حصہ بننے کے لیے آئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر حماقت کی اور کیا بات ہوگی کہ ہم اس بات کو قبول کرلیں کہ ایک ایسی زندگی آنے والی ہے جس میں ہمارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ چناچہ اس تأثر کے تحت وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر کان لگانے کو تیار نہیں ہوتے۔
Top