Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 31
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ١۪ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے فِي الْاَرْضِ : زمین میں رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ : کہ جھک نہ پڑے ان کے ساتھ وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے فِيْهَا : اس میں فِجَاجًا : کشادہ سُبُلًا : راستے لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَهْتَدُوْنَ : وہ راہ پائیں
اور ہم نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے کہ وہ ان کو لے کر لڑھک نہ جائے اور ہم نے ان میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ یہ لوگ راستہ پاسکیں۔
وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ ص وَجَعَلْنَا فِیْھَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ ۔ (الانبیاء : 31) (اور ہم نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے کہ وہ ان کو لے کر لڑھک نہ جائے اور ہم نے ان میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ یہ لوگ راستہ پاسکیں۔ ) رَوَاسِیَ … پہاڑوں کی صفت کے لیے آتا ہے لیکن اب اپنی شہرت کے باعث موصوف کے قائم مقام ہوگیا۔ اس کا معنی ہے بلند پہاڑ۔ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ … میں اَنْ سے پہلے مَخَافَۃًیا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ان کو ساتھ لے کر لڑھک جائے۔ فِجَاجًا، فَجٌ کی جمع ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان کے شگاف کو کہتے ہیں۔ کشادہ راستے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مراد اس سے پہاڑوں کے درمیان درے ہیں۔ پہاڑوں کی نشانیوں کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بچھایا تو وہ حالت اضطراب میں ڈانواں ڈول تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر بلند اور بھاری پہاڑ جما دیئے تاکہ اس کا توازن درست رہے اور کسی ایک طرف لڑھک کر کسی دوسرے کُرّے سے نہ جا ٹکرائے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو حرکت سے روک دیا جائے بلکہ حرکت میں توازن پیدا کرنے کے لیے یہ انتظام فرمایا گیا۔ چناچہ زمین کی یہ حرکت اور گردش اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہے۔ جب سے زمین کو بچھایا گیا آج تک اس کی حرکت میں کمی بیشی نہیں ہوئی ورنہ انسانوں کے سارے حساب غلط ہوجاتے۔ آج تک اس کا توازن غلط نہیں ہوسکا ورنہ موسموں کا اختلاف اور بدلنا ناممکن ہوجاتا۔ اور سردیوں کی طویل رات ہر چیز کو جما دیتی، اور گرمیوں کا طویل دن ہر چیز کو جلا دیتا اور انسانی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ کا دوسرا احسان یہ ہے کہ جس طرح اس نے پہاڑ جما کر زمین کی حرکت کو متوازن کیا اور انسانی زندگی کو محفوظ کردیا اسی طرح اس نے بلند سے بلند پہاڑ اس طرح نہیں جمائے کہ وہ قوموں اور ملکوں کے درمیان حد فاصل قرار پائیں اور ان کے درمیان کوئی راستہ نہ نکل سکے بلکہ اس نے پہاڑوں کے درمیان درے کھول دیئے اور ان میں اس بات کا امکان پیدا فرما دیا کہ انسان اپنی عقل سے کام لے کر یہاں کشادہ راستے بھی نکال سکتا ہے اور سہولت کے دیگر امکانات کو بھی وجود دے سکتا ہے۔ آج تو انسان نے ڈائنامیٹ کے ذریعے پہاڑوں میں راستہ نکالنے اور سڑکیں بنانے کی قوت حاصل کرلی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی قوت انسانوں کے لیے مسائل در مسائل پیدا کرتی چلی جارہی ہے۔ لیکن ازمنہ ماضیہ میں جب انسان ابھی اتنی ترقی نہیں کرسکا تھا تو اس وقت یہی قدرتی ذرائع دوسری قوموں اور ملکوں سے رابط کا ذریعہ تھے اور انسان نے ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھایا۔ لَعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَکے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک مطلب تو وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے ان پہاڑوں کو پیدا کیا پھر زمین پر انھیں جمایا اور پھر ان میں راستے نکالے اور ان کے اندر عجیب و غریب دھاتیں رکھیں اور پانی کے چشمے رواں کیے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ انسان ان میں غور کرے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت، عظمت اور حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس طرح سے ان پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے راستہ بنائے۔ لیکن انسان کا عجیب حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں سے عجیب و غریب نشانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن جو نشانیاں پہاڑوں کی صورت میں اس کے سامنے کھڑی ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتا۔ تو ایسا انسان جو زمین و آسمان کی نشانیوں اور پہاڑوں کی حیرت انگیزیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتا تو اسے اگر کوئی اس کی طلب کے مطابق کوئی معجزہ دکھا بھی دیا جائے تو وہ اس سے کیا ہدایت حاصل کرے گا۔ ہدایت کے لیے تو عقل کی سلامتی، طبیعت کی آمادگی اور قلبی یکسوئی ضروری ہے جو ان لوگوں کو میسر نہیں۔ اس لیے بجائے ہدایت حاصل کرنے کے معجزات کے مطالبے پر اکتفا ہی کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں۔
Top