Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ (مدار) میں يَّسْبَحُوْنَ : تیر رہے ہیں
اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے، سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ۔ (الانبیاء : 33) (اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے، سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ ) رات اور دن کی عنایات کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ نے مزید کرم یہ فرمایا کہ رات اور دن کا تسلسل قائم فرمایا۔ دن کی ہمہ ہمی اور سرگرمی کے لیے سورج کا تنور جلایا اور اس سے ہر گھر کا صرف چولہا ہی نہیں جلا بلکہ انسانی زندگی کا ایک ایک چراغ روشن ہوا اور رات کو چاند سے منور فرمایا۔ دن کی روشنی انسانی سرگرمیوں کی ضامن ہے اور چاند کی چاندنی دلوں کے لیے ٹھنڈک کا باعث اور انسان کے لیے آرام و راحت کا پیغام ہے۔ دن کا تھکا ماندہ انسان رات کی آغوش میں آرام ڈھونڈتا ہے۔ اگر رات کا گہرا سناٹا اسے محیط رہتا تو وہ خوفزدگی کی کیفیت میں آرام کی بجائے دہشت کا شکار ہوجاتا اور اگر اسے کوئی ضرورت لاحق ہوتی تو رات کی تاریکی اسے کہیں آنے جانے کے قابل نہ چھوڑتی۔ رات کو ایک مدھم چراغ روشن کیا جو آرام و راحت میں خلل انداز ہونے کی بجائے تسکین کا پیغام اور ناگزیر ضرورتوں میں سہارے کا باعث ہے۔ کُلٌّ میں تنوین مضاف اِلَیہ کے حذف کی طرف اشارہ ہے۔ کُلُّھُمْ کے معنی میں ہے۔ فَلَکْدراصل ہر دائرے اور گول چیز کو کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے چرخے میں جو گول چمڑا لگا ہوتا ہے اس کو فَلْکَۃُ الْمِغْزَلْکہتے ہیں۔ فارسی میں اسے چرخ اور گردوں کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے، اور یہاں اس سے مراد شمس و قمر کی وہ مداریں ہیں جن پر وہ حرکت کررہے ہیں۔ الفاظِ قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں کہ یہ مداریں آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضا میں۔ حالیہ خلائی تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ یہ مداریں خلاء اور فضا میں آسمان کے بہت نیچے ہیں۔ آیت کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں۔ وہ خود انھیں لیے ہوئے گھوم رہا ہے بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا یا خلاء کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر سیارہ اور ستارہ اپنے مدار میں حرکت کر رہا ہے لیکن کسی میں یہ مجال نہیں کہ وہ سرمو اپنے مدار سے منحرف ہوسکے۔ اگر ان میں سے کوئی سیارہ ذرا بھی ادھر ادھر ہوجائے تو سارے نظام کائنات میں خلل واقع ہوجائے۔ اتنے عظیم کُرّوں کا اپنے مدار میں سمٹ کر چلنا، کبھی اپنے راستے سے انحراف نہ کرنا اور کبھی کسی ادنیٰ تخلف اور توقف کو راستہ نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پوری کائنات حاکم کائنات کی محکوم اور اس کے ہاتھ میں مسخر ہے۔ ان میں باہمی نسبت چاہے اضداد کی کیوں نہ ہو لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہایت توافق اور کامل ہم آہنگی کے ساتھ اپنا اپنا فرض انجام دینے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں نہ صرف حاکم مطلق کی کارفرمائی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حاکم صرف ایک ہے اور اسی کی قوت قاہرہ کے ہاتھ میں ان کی باگ ہے۔ اب یہ کیسی حماقت ہے کہ لوگ ان نشانیوں کے ہوتے ہوئے کسی اور نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ (اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے لے کر کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے اور اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے لے کر فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی (Positive) دلائل دیئے گئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ نظام کائنات جو تمہارے سامنے ہے، کیا اس میں کہیں ایک اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خدائوں کی کارفرمائی میں چل سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا ؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گڑیاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدت کھیل کر بس وہ یونہی ان کو خاک میں ملا دے گا ؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو ؟ تم کو نظر نہیں آتا کہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریہ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کررہا ہے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے ہوئے تم کہتے ہو کہ فَلْیَا تِنَابِٰایـَـۃٍ ” یہ نبی کوئی نشانی لے کر آئے۔ “ کیا نبی کی دعوت توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں ؟ ) (تفہیم القرآن)
Top