Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بھی کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی تو کیا اگر آپ انتقال کرجائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
وَماَ جَعَلْنَا لِبَشَرٍمِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ ط اَفَـاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ ۔ (الانبیاء : 34) (اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بھی کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں بخشی تو کیا اگر آپ انتقال کرجائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ) رسول کے بشر اور فانی ہونے پر اعتراض کرنے والوں کو جواب اس سورت کے آغاز میں قرآن کریم نے قریش کے ان اعتراضات کا ذکر کیا اور جواب دیا ہے جو وہ اکثر آنحضرت ﷺ پر کیا کرتے تھے۔ آیت 8 میں اشرافِ قریش نے عام لوگوں کو سمجھاتے ہوئے یہ کہا کہ تم جس شخص کی باتوں سے متأثر ہورہے ہو وہ تو صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہے، پھر اس کا ایک خاص پیرائے میں جواب ارشاد فرمایا گیا، پھر اثباتِ توحید اور ردشرک پر دلائل دیئے گئے، اب پھر معترضین کے اسی رویئے کو زیربحث لایا گیا ہے۔ البتہ یہاں بات ایک دوسرے پیرائے میں کہی گئی ہے کہ لوگو ! تم جس شخص کی باتوں سے متأثر ہو کر اس کے قریب ہورہے ہو، ذرا یہ تو سوچو کہ آخر اس میں ایسی کون سی خوبی ہے جو تمہیں اپیل کررہی ہے۔ وہ نہ صرف تمہاری طرح ایک بشر ہے بلکہ عام لوگوں کی طرح اسے بھی ایک دن موت کا شکار ہونا ہے۔ کیا پروردگار ایک ایسے شخص کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث کرسکتا ہے جسے ہم سے بڑھ کر کوئی خصوصیت حاصل نہ ہو اور پھر وہ کوئی ابدی زندگی لے کر بھی نہ آیا ہو بلکہ چند سالوں کے بعد وہ بھی ہماری طرح فنا ہوجانیوالا ہے پھر تم رہنمائی اور تعلیم کو کہاں تلاش کرو گے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس صورتحال میں اپنے لیے آسودگی کا ایک پہلو محسوس کرتے تھے، وہ یہ سوچ کر خوش ہوتے تھے کہ ہم جس شخص کی تعلیم و تبلیغ سے پریشان ہورہے ہیں کہ اس کا اثر ہر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ کہیں باپ مسلمان ہے اور کہیں بیٹا اور کہیں ماں دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہے اور کہیں بیٹی۔ ہمارا قومی شیرازہ معرض خطر میں ہے۔ لیکن فی الجملہ ایک اطمینان کی بات بھی ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی لے کر نہیں آیا، چند سالوں میں ہماری طرح موت کی نذر ہوجائے گا اور ہم اس مصیبت سے نجات پاجائیں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم اگر اس بات کو قابل اعتراض سمجھتے ہو کہ یہ دعوائے نبوت کرنے والا شخص ابدی زندگی لے کر نہیں آیا تو کیا تم ابدی زندگی لے کر آئے ہو ؟ اگر تم ہمیشہ رہنے والے ہوتے تو تم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم ابدی زندگی رکھنے والے لوگ ایک فانی شخص کی رہنمائی کیوں قبول کریں۔ لیکن موجودہ صورت میں تو تمہیں اعتراض کا کوئی حق نہیں کیونکہ تم بھی فانی ہو اور نبوت کا مدعی بھی فانی ہے تو پھر اعتراض کی کیا بات ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ اس سے پہلے بھی انبیائے کرام اور رسولانِ عظام تشریف لا چکے ہیں۔ کیا تم کسی رسول کو آج دنیا میں موجود پاتے ہو جو ہمیشہ کی زندگی لے کر آیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت اور ابدی زندگی کے درمیان کوئی لزوم نہیں ورنہ آج تک آئے ہوئے تمام انبیائے کرام ہمارے سامنے موجود ہوتے۔ اور تمہارا اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا کہ چند سالوں کے بعد یہ مدعی نبوت اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوجائے گا تو ہم اس ابتلا سے بچ جائیں گے حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ تم بھی ہمیشہ کی زندگی لے کر نہیں آئے، تمہیں زودیابدیر موت کی آغوش میں جانا ہے تو پھر صرف پیغمبر کی موت پر بغلیں بجانے کا کیا معنی۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں سے اثر قبول نہ کریں، ہر شخص کو ایک دن دنیا سے جانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ آپ ﷺ تو اپنی عظیم خدمات اور بیش بہا کارناموں کے ساتھ اپنے اللہ سے ملیں گے اور وہاں عظیم مناصب اور عظیم درجات سے بہرہ ور ہوں گے، لیکن یہ لوگ جس صورتحال سے دوچار ہونے والے ہیں اس کا تصور بھی ہولناک ہے۔
Top