Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ
كُلُّ نَفْسٍ : ہر جی ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَنَبْلُوْكُمْ : اور ہم تمہیں مبتلا کرینگے بِالشَّرِّ : برائی سے وَالْخَيْرِ : اور بھلائی فِتْنَةً : آزمائش وَاِلَيْنَا : اور ہماری ہی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر آؤگے
ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں اور آخر کار تم سب کو ہماری طرف ہی لوٹ کے آنا ہے۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ۔ (الانبیاء : 35) (ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں اور آخر کار تم سب کو ہماری طرف ہی لوٹ کے آنا ہے۔ ) گزشتہ اعتراض کا جواب ایک دوسرے پہلو سے اس آیت کریمہ میں متذکرہ بالا اعتراض کا جواب ایک دوسرے پہلو سے دیا گیا ہے۔ کفار کو جس طرح آنحضرت ﷺ کے بشر ہونے پر اعتراض تھا، اسی طرح وہ اس بات پر بھی معترض تھے کہ آپ ﷺ اگر اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو کم از کم آپ ﷺ کوئی رئیس آدمی ہوتے یا آپ ﷺ کسی قبیلے کے سردار ہوتے۔ ایک تو آپ ﷺ ہماری طرح بشر اور پھر اس کے ساتھ ساتھ مال و دولت اور سرداری سے تہی دامن، ایسی صورتحال میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رسالت دی ہے۔ پروردگار نے نہایت اختصار سے اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ جس طرح نبی کے لیے مافوق بشر ہونا ضروری نہیں، اسی طرح اس کا صاحب مال و جائیداد ہونا بھی ضروری نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رسول تو دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ وہ انسانوں کو اقدارِ انسانیت سے بہرہ ور کریں اور ان کے دل و دماغ کا اس طرح تزکیہ کریں کہ وہ تمام رزائلِ نفسانی اور مکائد شیطانی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں اور ان کی زندگی ہر لحاظ سے انسانوں کے لیے رحمت اور بھلائی کا پیغام ہو۔ اس کام کے لیے امارت و غربت کی بحثیں بیکار ہیں۔ وہ جس طرح ایک امیر آدمی کو شکر کی ترغیب دیتے ہیں اسی طرح غریب آدمی کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ انسانیت کا مقام و مرتبہ بلند کرنے کے لیے لوگوں پر واضح کرتے ہیں کہ اس دنیا میں غربت و امارت، دکھ اور سکھ، رنج و راحت صرف امتحان کے لیے ہے جس سے وہ اپنے بندوں کا امتحان کرتا ہے۔ اس کا انسانیت سے کوئی رشتہ نہیں اور نہ اس سے کسی انسان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا تعلق ہے۔ میں تو صرف اس لیے آیا ہوں تاکہ تمہیں ایسی زندگی گزارنے کے قابل بنا دوں جس سے تم کل اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوسکو۔ اس لیے کہ تم سب کو بالآخر اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔
Top