Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 46
وَ لَئِنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مَّسَّتْهُمْ : انہیں چھوئے نَفْحَةٌ : ایک لپٹ مِّنْ عَذَابِ : عذاب سے رَبِّكَ : تیرا رب لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر آپ کے رب کے عذاب کا کوئی جھونکا انھیں چھو گیا تو یہ چیخ اٹھیں گے کہ ہائے ہماری بدبختی، بیشک ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔
وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰـوَیْلَنَـآ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 46) (اگر آپ کے رب کے عذاب کا کوئی جھونکا انھیں چھو گیا تو یہ چیخ اٹھیں گے کہ ہائے ہماری بدبختی، بیشک ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔ ) آج یہ ہر وارننگ کے جواب میں جس طرح مذاق اڑاتے اور منہ چڑاتے ہیں کاش انھیں عذاب کی حقیقت اور شدت کا کچھ بھی اندازہ ہوتا تو کبھی یہ ایسا رویہ اختیار نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب تو جڑ اکھاڑ دینے والی چیز ہے، اس کی شدت کا عالم تو یہ ہے کہ اگر اس کا معمولی جھونکا بھی انھیں چھو جائے تو ان کی ساری شیخی دھری رہ جائے۔ نَفْحَۃٌمیں تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی عذاب کی لپیٹ میں آجانا تو یقینا تصور کو بھی جلا دینے والا ہے۔ اگر اس کا معمولی جھونکا اور اس کی معمولی لپٹ بھی انھیں لگ جائے تو یہ چیختے پھریں اور جو باتیں آج انھیں سمجھ نہیں آرہیں ان کی زبانوں پر ان کے اعتراف کے سوا اور کچھ نہ ہو، یہ واویلا کرتے پھریں کہ ہائے ہماری بدبختی، آج جس مصیبت سے ہم دوچار ہورہے ہیں یہ بےسبب نہیں، ہم ہی اپنے اوپر ظلم توڑنے والے تھے۔ یعنی ہم بار بار اس کا مطالبہ کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے اور آج جبکہ اس کا ایک جھونکا ہم تک پہنچا ہے تو ہم ایک ایسی مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں جس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں۔
Top