Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے عطا کی مُوْسٰى : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون الْفُرْقَانَ : فرق کرنیوالی (کتاب) وَضِيَآءً : اور روشنی وَّذِكْرًا : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
ہم عطا کرچکے ہیں موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو فرقان اور روشنی اور ذکر پرہیزگاروں کے لیے۔
وَلَقَدْ اٰ تَیْنَا مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیْـآئً وَّذِکْرًالِّلْمُتَّـقِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَھُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ ۔ (الانبیاء : 48، 49) (ہم عطا کرچکے ہیں موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو فرقان اور روشنی اور ذکر پرہیزگاروں کے لیے۔ جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ قیامت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ ) گزشتہ انبیائے کرام سے استشہاد یہاں سے متعدد انبیائے کرام کا تذکرہ شروع ہورہا ہے۔ اس سے پہلے مشرکینِ مکہ نے جتنے اعتراضات کیے ان سب کا جواب دیا گیا اور مختلف اوقات میں جو انھوں نے نشانیاں مانگیں اس کے نتائج سے باخبر کیا گیا اور نبوت کے بارے میں جو انھوں نے غلط تصورات اپنا رکھے تھے ان کا ازالہ کیا گیا۔ اب یہاں سے چند انبیائے کرام کی زندگی کے حالات اور ان کی قوموں کی تاریخ بیان کی جارہی ہے تاکہ اعتراض کرنے والوں کو یہ اندازہ ہوسکے کہ نبی کریم ﷺ کی شخصیت سابقہ انبیائے کرام کی شخصیتوں سے مختلف نہیں۔ آپ ﷺ کی دعوت بعینہوہی ہے جو اس سے پہلے انبیائے کرام پیش کرتے رہے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی دعوت اور ان کی شریعت ان کے اپنے حالات کے مطابق تھی اور نبی کریم ﷺ کی دعوت اس دین اور شریعت کے لیے ہے جس کا تعلق پوری نوع انسانی اور قیامت تک کے حالات سے ہے۔ یہ پہلی شریعتوں کی جامع بھی ہے اور آنے والے حالات کے لیے کامل بھی۔ لیکن پہلی دعوتوں اور شریعتوں کے حوالے سے اس میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے اور مزید یہ کہ قریش نے جس طرح نبی کریم ﷺ کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے اور ان کا گمان یہ ہے کہ وہ مخالفت کے زور سے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو ناکام کردیں گے۔ سابقہ انبیائے کرام کے حالات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قریش کا یہ رویہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی دعوت کے ساتھ کوئی نیا نہیں۔ ہر دور میں پیغمبروں کے ساتھ ان کی امتوں نے ایسا ہی معاملہ کیا ہے۔ لیکن ان کی تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ایک مدت تک ڈھیل دی گئی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرلیں۔ لیکن جب انھوں نے اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بھیجے جانے والے پیغمبر کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور انکار کرنے والی قوم کو عذاب کی نذر کردیا۔ آج پھر وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے تو سابقہ انبیائے کرام کی سرگزشتوں سے قریش کو سوچنے کا موقع دیا جارہا ہے کہ تم نے اگر پہلی امتوں جیسا رویہ جاری رکھا تو یا رکھو تم بھی اس عذاب سے بچ نہیں سکو گے جس عذاب کا شکار پہلی امتیں ہوئی ہیں۔ تورات کی تین خصوصیات سب سے پہلی بات جو پیش نظر آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کے مخاطب تمام لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن اہل کتاب کے ساتھ تمہارا صدیوں کا واسطہ ہے اور آج وہ طریقے طریقے سے تمہیں نبی کریم ﷺ اور ان کے لائے ہوئے دین کے خلاف اکساتے رہتے ہیں اور انھیں کے سکھائے پڑھائے ہوئے سوالات اور اعتراضات تم نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کرتے رہتے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے ان کی طرف حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا تھا اور ان پر ایک کتاب اتاری تھی جو آج بھی تورات کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس کتاب کی باقی آسمانی کتابوں کی طرح تین خصوصیات تھیں۔ اس کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ اسے فرقان بنایا گیا تھا، وہ حق و باطل، صحیح اور غلط میں فرق کرنے والی تھی۔ اس نے لوگوں کے سامنے خیر اور شر، حلال اور حرام اور حسن اور قبح میں فرق کرکے واضح کردیا تھا کہ یہ ہے وہ راستہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف جاتا ہے اور جس سے دنیوی اور اخروی کامیابیوں کی ضمانت ملتی ہے۔ جس طرح اندھیرے اور اجالے کے فرق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور جس طرح ندی کے دو کنارے اکٹھے نہیں ہوسکتے اور جس طرح تاریخ کے دو باب باہم پیوست نہیں ہوسکتے، اسی طرح خیر اور شر، اچھائی اور برائی، جھوٹ اور سچ اور صحیح اور غلط میں بھی کوئی ابہام نہیں ہوسکتا۔ تورات نے ہر طرح کے ابہام کو دور کرکے خیر و شر کو الگ الگ اور نمایاں کرکے دکھا دیا۔ اسی لیے اس کو فرقان کا نام دیا گیا تھا، کیونکہ فرقان کا معنی ہے دو چیزوں میں فرق کرنے والا اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والی کسوٹی۔ تورات کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ضیاء یعنی روشنی ہے وہ تمام فکری چیزوں کو اس طرح مبرہن اور نمایاں کرکے پیش کرتی ہے کہ صحیح اور غلط افکار میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ وہ زندگی کی شاہراہ کو اس طرح روشن کردیتی ہے کہ ذہنی و اخلاقی اور فکری و عملی تاریکیوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اور تیسری صفت اس کی یہ ہے کہ وہ اولادِ آدم کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجنے کے بعد سب سے پہلے یہی نصیحت فرمائی گئی تھی کہ زندگی گزارنے کے لیے ہدایت و رہنمائی تم پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی جائے گی۔ تمہیں اس کا اتباع کرنا ہے۔ اپنی طرف سے زندگی کے ضوابط اور آداب مقرر کرنے کی اجازت نہیں۔ چناچہ تورات باقی آسمانی کتابوں کی طرح اسی بھولے ہوئے سبق کی یاددہانی کے لیے نازل کی گئی تھی۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ اس کی ان خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے متقی ہونا ضروری ہے۔ تقویٰ اصل میں وقویٰ ہے، جس کا معنی ہے بچنا اور ڈرنا اور ہر ممکن احتیاطی تدابیر بروئے کار لانا۔ جس شخص کے اندر اچھائی اور برائی اور خیر اور شر اور حق اور باطل کی صحیح شناخت موجود نہیں تو اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ خیر کو قبول کرے گا اور شر کو قبول کرنے سے انکار کردے گا۔ جب تک اس کے دل میں صحیح اور غلط میں امتیاز کا دیا روشن نہیں ہوتا اس وقت تک وہ کتاب اللہ کے فرقان ہونے کی صفت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے لیے لازمی چیز یہ ہے کہ وہ بن دیکھے خدا پر یقین رکھتا ہو کہ وہ پوری کائنات کا خالق ومالک اور رب ہے۔ اس نے ہر ایک کو پیدا فرمایا اور پھر اس کی زندگی کے امکانات روشن کیے۔ وہ ہر مخلوق کی عہد بعہد بدلتی ہوئی ضرورتوں کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ پورا بھی کرتا ہے۔ اسی نے انسان کو جسمانی ضرورتیں بھی بہم پہنچائی ہیں اور اس کی معنوی ضرورتوں کی کفالت بھی کی ہے۔ اس نے انسانوں کی ربوبیت کا سامان اس لیے تو نہیں کیا کہ وہ خودرو پودوں کی طرح زندگی گزاریں اور مل دل کر ختم ہوجائیں۔ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی پیہم نوازشات اور عقل و شعور کی بخشش اور وحی الٰہی کا نزول اسی لیے تو ہے کہ اسے یہ معلوم ہو کہ مجھے زندگی ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر میری رہنمائی کی گئی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں گزرے، میرے ایک ایک عمل کو محفوظ کیا جائے اور پھر ایک دن ایسا آئے جب اللہ تعالیٰ کے عدل کی کارفرمائی ہو اور اس کے نتیجے میں جزاء اور سزا کا ترتب ہو۔ چنانچہوہی لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس احساس و شعور کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور ان کا کوئی لمحہ اس تصور سے خالی نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسی ذات کی نگرانی میں ہیں جسے نہ کبھی نیند آتی ہے اور کبھی اونگھ آتی ہے اور جو ان کے ایک ایک عمل کو محفوظ کررہا ہے اور پھر وہ ایک دن ایسا لائے گا جسے قیامت کہتے ہیں جب ان سے ایک ایک عمل کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ اسی احساس کا نام تقویٰ ہے اور اس احساس کے حامل لوگ اپنے رب کی خشیت اور جوابدہی کے دن سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
Top