Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 4
قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قٰلَ : آپ نے فرمایا رَبِّيْ : میرا رب يَعْلَمُ : جانتا ہے الْقَوْلَ : بات فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
(آنحضرت ﷺ نے) فرمایا، میرا رب آسمان اور زمین میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔
قٰـلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ ز وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (الانبیاء : 4) (آنحضرت ﷺ نے) فرمایا، میرا رب آسمان اور زمین میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ) ایک داعی کا اعتماد علی اللّٰہ گزشتہ آیت کریمہ میں ہم نے دو باتیں پڑھی ہیں۔ ایک یہ بات کہ مشرکینِ مکہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں مختلف باتیں کہتے تھے۔ کبھی انھیں جادوگر قرار دیتے اور کبھی کسی اور نام سے پکارتے۔ اور دوسری یہ بات کہ ان کی شخصیت کے اثر اور قرآن پاک کی تاثیر سے پریشان ہو کر اپنی خفیہ مجالس میں اس کے توڑ کے لیے تدبیریں سوچتے اور چھپ چھپ کر منصوبہ بندی کرتے تھے۔ ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق وہ بات فرمائی جو اس آیت کریمہ میں ہمارے سامنے ہے۔ اس آیت کا لب و لہجہ اور اس کا اسلوب دیکھ کر حیرت ہونے لگتی ہے کیونکہ کفار مکہ تو آپ کی شخصیت کا اثر زائل کرنے اور آپ کی دعوت کی تاثیر کو کم کرنے کے لیے آپ کے بارے میں بہت ہلکی باتیں کہتے اور عجیب و غریب بدگمانیاں پیدا کرتے تھے۔ لیکن اس آیت کا لب و لہجہ اس قدر دھیما ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس ژاژخائی کا آپ پر کوئی اثر نہیں۔ اور آپ کو ان کی خفیہ منصوبہ بندیوں سے کوئی خوف نہیں۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میرے اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں۔ اور مزید یہ بات کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے اس وقت مسلمانوں میں ابھی وہ طاقت نہیں آئی تھی کہ وہ قوت سے کفار کا راستہ روک دیتے اور ان کی زبانیں بند کردیتے۔ مکی زندگی آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی مظلومیت کی زندگی ہے۔ ظالم ظلم توڑتے تھے اور آپ ﷺ انھیں برداشت کرتے تھے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ آپ ﷺ ان کی باتوں کا منہ توڑ جواب دیتے آپ ﷺ نے ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا۔ جس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ایسی فضول باتوں کا جواب دینا میرے منصب سے بہت فروتر ہے اور دوسری یہ بات کہ میری دعوت نے اگرچہ تاحال اتنی طاقت حاصل نہیں کی کہ ہم تم سے طاقت کی زبان میں بات کرسکیں، لیکن ہماری پشت پر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے علم اور قدرت کے سامنے ہر قوت اور ہر طاقت سرنگوں ہے۔ میں اس معاملے کو اسی کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ تمہاری خفیہ تدبیروں سے بھی واقف ہے اور تمہیں سزا دینے پر بھی قادر ہے۔
Top