Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
(اور اس سے پہلے ہم نے حضرت ابراہیم کو ان کی دانائی عطا فرمائی تھی اور ہم ان سے خوب باخبر تھے۔
وَلَقَدْ ٰ اتَیْنَـآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 51) (اور اس سے پہلے ہم نے حضرت ابراہیم کو ان کی دانائی عطا فرمائی تھی اور ہم ان سے خوب باخبر تھے۔ ) حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ گزشتہ سورت میں چونکہ تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے اس لیے اس کے مختصر ذکر پر اکتفا فرمایا۔ البتہ ! یہ بات واضح کردی کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کی طرح قوم کی اصلاح کے لیے تشریف لائے تھے اور ان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب نازل کی تھی جو اپنی صفات کے اعتبار سے فرقان، ضیاء اور ذکر کہلانے کی مستحق تھی۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے سننے اور قبول کرنے والے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کریں اور قیامت کے دن کی جوابدہی کا احساس زندہ رکھیں۔ اب نبی کریم ﷺ پر تورات ہی کی طرح قرآن کریم نازل کیا گیا ہے اور یہ تورات سے بھی بڑھ کر اپنے اندر وہ صفات رکھتا ہے جو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن قریش کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح تورات سے استفادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان اور خشیت الٰہی اور جوابدہی کے احساس کے بغیر ممکن نہیں، قرآن سے بھی استفادہ ان صفات کو پیدا کیے بغیر خارج از بحث ہے۔ تاریخ ہدایت اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا خاص مقام اب یہاں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تفصیل سے ذکر کیا جارہا ہے کیونکہ نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی تینوں بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت انھیں اپنا مقتداء سمجھتے ہیں اور اہل عرب بالخصوص انھیں کو اپنا جدِامجد، مورثِ اعلیٰ اور حقیقی رہنما سمجھتے تھے۔ ان کے تذکرے کے آئینے میں یہ دکھانا مقصود ہے کہ نبی کریم ﷺ جس طرح شب و روز توحید کے فروغ اور شرک کے رد میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو وقف کر رہے ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ایسا ہی کیا تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جو دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی، نبی کریم ﷺ بھی وہی دعوت اہل مکہ کے سامنے پیش فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی تمام تر مساعی اور اس راستے میں بیش بہا قربانیاں اور جان توڑ محنت بالکل اسی محنت کا عکس اور قربانیوں کا پرتو ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انجام دی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بھی اسی رُشد، ہدایت اور دانش سے نوازا ہے جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نوازا گیا تھا۔ رُشد کا ترجمہ ہدایت بھی کیا گیا ہے، ہوش مندی اور دانش بھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے اپنے اندر جو مفہوم رکھتا ہے کسی زبان میں بھی شاید اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وہ جذبہ بےپناہ جس نے نوعمری میں باطل سے لڑنے کا حوصلہ دیا پورے شہر میں اپنے مشن کے حوالے سے تنہا ہوتے ہوئے اپنے والد اور پوری قوم کو چیلنج کرنا اور اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا اور اس راستے میں پیش آنے والی بڑی سے بڑی مشکل کو خاطر میں نہ لانا، ایک ایسا جذبہ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح دعوت حق کو پیش کرنے میں جس حکمت و مصلحت کو پیش نظر رکھا گیا اور گفتگو میں جس طرح خوبصورت طنز کے ذریعے دماغوں کو جھنجھوڑا گیا اور جس طرح بالکل سامنے کے لیکن نہایت موثر دلائل کے ساتھ اپنے مخالفین کو آہستہ آہستہ ایسی سطح پر لایا گیا کہ دیکھنے والوں نے ان کی بےبسی اور جواب دینے سے معذوری علی روؤس الاشہاد اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اس دانش، استدلالی قوت اور جذبہ بےپناہ اور غیرمتزلزل حوصلہ کو پروردگار نے رشد کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے اس کے معنی کا حق ادا ہوسکتا ہو۔ مزید ایک بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم کو اتنے بڑے مقام و مرتبہ سے یونہی نہیں نواز دیا تھا بلکہ ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں یہ تمام صفات بتمام و کمال موجود ہیں اور انھوں نے قدم قدم پر اس کا ثبوت فراہم کیا تھا اور یہ صفات ہم نے خود مسلسل تربیت سے ان کے اندر پیدا کی تھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اس کی کوئی بخشش بھی اندھی بانٹ نہیں ہوتی اور نبوت تو سب سے اعلیٰ اور نازک ذمہ داری ہے۔ اسے تو پروردگار اسی کو عطا کرتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا بار اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ” اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے۔ “
Top